چندے کا دھندا کبھی نہ مندا

چندہ اور پھر چندے سے ڈیم، بہت خوب، یہ تو گویا وہ ہوگیا جسے وہ ہو گیا تھا۔


[email protected]

KARACHI: اچھا ہے، بہت اچھا ہے بلکہ بہت ہی اچھا ہے، واہ وا جی، ونڈر فل، تشکر، دھنے واد، جی آیا نوں، پخیر راغلے۔

چندہ اور پھر چندے سے ڈیم، بہت خوب، یہ تو گویا وہ ہوگیا جسے وہ ہو گیا تھا۔ یہ چندہ ہی ایسا دھندہ ہے جو کبھی مندا نہیں ہوتا ہے۔ ہمیشہ چلندہ پلندہ لاندہ اور چرندہ پرندہ رہتا ہے۔ اسے اسی طرح سے گل بے خار زر باغ بے خزان، ہمیشہ رواں دواں اور سدا جوان بھی کہہ سکتے ہیں اگر کہیں تو بلکہ اگر روح عالم جان عالم اور تریاق عالم کہا جائے تو بے جانہ ہوگا بلکہ اگر اسے کچھ بھی کہا ہے تو وہ بجا ہوگا کیونکہ جب یہ بچتا ہے تو سب کچھ بجنے لگتا ہے سجنے لگتا ہے اور لگنے لگتا ہے۔

ویسے تو اگر اس ایجاد بندہ عرف چندہ گل خوش خندہ اور گل قندہ یعنی قندہ ہی قندہ کی صفات بیان کی جائیں تو اتنی سیاہی کہاں سے آئے گی قلم کیسے بنیں گے اور کاغذ کو کیسے پورا کیا جائے گا لیکن ہمیں اس کی صفات بیان کرنا بھی نہیں کیونکہ عیان را چہ بیان اور ایمان راچہ عیاں، خوبیوں کا پٹارہ ہے سراسر بہارہ ہی بہارہ ہے جن سے اپنی ڈکشنری سے '' ناممکن '' کا لفظ کاغذ سمیت نوچ کر پھینکا ہے ارشمیدس نے کہا تھا کہ اگر مجھے مناسب '' لیور '' مل جائے تو میں دنیا کو بھی ہلادوں گا لیکن چندے نے ثابت کر دیا کہ بغیر لیور کے بھی دنیا کو ہلایا جا سکتا ہے۔کچھ '' پایا '' بھی جا سکتا ہے۔

اور پاکستانیوں کو تو اس کی صفات بتانا ہی تحصیل لاحاصل بلکہ ایسا ہے کہ جسے کسی سے خود اسی کا تعارف کرایا جائے کہتے ہیں نا کہ بچھڑا گھر ہی میں پلا ہو تو اس کے دانت دیکھنے کی کیا ضرورت اس لیے صفات کو چھوڑ کر ہم اپنی فیلڈ کو وزٹ کرتے ہیں یعنی کثیر اور تریاق پرتا شیر کو ایجاد کس نے کیا ہے اس میں تو کسی کافر کو بھی شک نہیں کہ اسے دنیا کا عظیم ترین ایجاد ہونے کے باعث اس کا موجد بلاشبہ اور بلا شرکت غیر نے ''موجد اعظم '' کہلانے کا مستحق ہے۔ لیکن وہ تھا کون؟ کہاں تھا اور اس نے کب کیسے اور کس طرح دنیا کو یہ عظیم الشان تحفہ دیا تھا اور بحیثیت محقق ہمیں یہی تحقیق کرنا ہے کیونکہ ہمارے ذہن میں یہ بات بری طرح کھٹک رہی ہے کہ دو دو ٹکے کے ایڈسنوں،آئنسٹائنوں،گراہم بیلوں، نوبلوں ۔وغیرہ کو تو اتنا جان سب مان دیا جائے اور اتنے بڑے موجد کا کوئی نام تک نہ لے۔ جس نے تما م ایجادوں کی ماں اور پھر اس کی ماں یعنی گرینڈ مدر کو پیدا کیا تھا۔

وجہ تو ہمیں بھی معلوم نہیں اور آپ کو توہم سے بھی پہلے معلوم ہے کہ یہ مغرب والے کافر و مشرک جدی پشتی چور ہیں اور ہماری وہ تمام ایجادیں چرا کر اپنے نام سے رجسٹر کر چکے ہیں جو کبھی بغداد اور غرناطہ کی گلیوں میں لوگ راہ چلتے چلتے بھی ایجاد کر لیتے تھے لیکن ایسے لگتا ہے کہ چندے کی سب سے بڑی ایجاد یا تو ان کے ہاتھ نہیں لگی ہے اور یا خود اس ایجاد میں ایسی قوت ہے کہ اگر کوئی اسے چرا بھی لے تو چرا نہیں سکتا۔ کوئی کتنے بھی جتن کر لے اسے مشرق کی سرزمین سے اور اس کے خاص الخاص وارثوں سے نہیں چھین سکتا ۔

ہمارا ٹٹوئے تحقیق بھی ہماری محبت میں رہ کر کچھ نہ کچھ منہ تحقیق میں بھی مارنے لگتا ہے چنانچہ اس نے تو صاف بتا دیا کہ چندے کی ایجاد کا سہرہ اس شخص کے سر پر ہے جس سے پولیس کی بھرتی کے موقع پر پوچھا گیا تھا کہ اگر کسی جگہ بہت بڑا ہجوم ہو جائے اورامن کو خطرہ لاحق ہو اور تمہارے پاس کچھ بھی نہ ہو تو تم اس ہجوم کو کیسے منتشر کرو گے اس نے ترنت کہا کہ میں چندہ مانگنا شروع کردوں گا اس پر اسے شاباسی کے ساتھ بھرتی کیا گیا

لیکن اس میں قیامت یہ ہے کہ پولیس کی نعمت عظمیٰ تو انسانوں کو بہت کم عرصہ ہوا ملی ہے اس سے پہلے نہ صرف چندہ موجود تھا بلکہ بہت سارے ممالک و مسالک پر اس کی حکمرانی تھی پرابلم یہ تھی کہ اس ایجاد خوش نہاد شدا شادو آباد زر خیز و شادات کا ذکر صرف رسید بکوں میں آتا ہے ۔ لیکن موجودہ حالات و واقعات اور بیانات واعلانات کے تناظر میں چندے کے دھندے کی تحسین تو کر سکتے ہیں ۔

خاص طور پر یہ جو '' بند '' نہانے یا بند بنانے کے سلسلے میں بندوں کو بنانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے بڑا ہی کثیر المقاصد کثیر الجہت اور کثیر الفوائد سلسلہ ہے جہاں تک ڈیم بنانے کا تعلق ہے تو ہم انگریزی تو جانتے نہیں اور ڈیم اردو ہی پڑھتے ہیں اس لیے '' ڈیم '' سے ہمارا خیال جس ڈیم کی طرف جاتا ہے جس کے ساتھ ایک اور لفظ بھی لگایا جاتا لیکن اس وقت ہمیں یا د نہیں آرہا ۔ یہ ڈیم بنانے کا آئیڈیا بڑ ہی ٹو ان ون آئیڈیا ہے ڈیموں ہی سے ڈیم بنوانا یہ آئیڈیا صرف اس آئیڈیل ملک ہی میں پیدا ہو سکتا ہے ۔ ہمیں تو ایسا لگ رہا ہے ۔

جی ہاں لگ رہا ہے معلوم نہیں ایسا ہے یا نہیں لیکن لگتا ہے سرکار والا تبار اور اس کے نہایت ہوشیار و پرکار کل پرزوں کو باوثوق ذرایع سے پتہ چلا ہوگا کہ سرکار کی سعٔی بسیار اور اہل کاروں کی بھر مار کے باوجود کالا انعاموں کے بدن میں '' خون '' اور تن پر لباس باقی ہے جو امیر شہر کے لیے ایک چیلنج ہے ۔

اس لیے ان کو نچوڑ نے بھنجھوڑنے ککھوڑنے اور موڑنے توڑنے کے لیے کچھ اور بندوبست ہونا چاہیے کیونکہ ایک عرصے سے سیلاب نے بھی ادھر کا رخ نہیں کیا ہے اور زلزلوں نے بھی کرم فرمائی نہیں کی ہے اور جو آفات سیاسی و انسانی و جمہوری ہیں وہ بھی ایک اور طرف '' بزی '' ہیں اس لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ غریب شہر مست الست ہوجائے اس لیے یہ چندے کا دھندہ لانچ کیا گیا ورنہ جہاں تک ڈیم یعنی وہ ڈیم جو خول نہیں ہیں ان کے بنانے کا تعلق ہے چاہے وہ کسی بھی نا م اور مقام پر ہوں نہ کبھی بنے تھے نہ بن رہے ہیں نہ بن پائیں گے البتہ ان کے نام پر پڑا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں