ایک بے گناہ مسلمان کا قتل
وزیراعظم مودی اپنے طور پر ایک اور واجپاتی بننے کی کوشش کررہے ہیں مگر انھیں کامیابی نہیں مل رہی۔
الور میں ایک مسلمان نوجوان کو مار ڈالنے کے واقعہ کی مزید تفصیلات باہر آئی ہیں۔ متوفی کا نام اکبر خاں بتایا گیا ہے لیکن اس کی جان بچ سکتی تھی اگر پولیس اس کو زخمی حالت میں اسپتال لیجاتے ہوئے راستے میں چائے پینے کے لیے نہ رک جاتی۔ اس دوران زخمی اکبر خاں تڑپتا رہا اور اس کا خون بہتا رہا تاآنکہ اس کی جان نکل گئی۔
اگر وقوعہ کی تفصیلات پر نظر ڈالی جائے تو یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ پولیس نے مضروب کو اسپتال لیجانے میں جان بوجھ کر تاخیر کی، مضروب مذہبا مسلمان تھا، اب اگر اس واقعہ کی تحقیقات ہوئی تو وہ بھی یقینا بے دلی سے ہو گی۔
معلوم ہوا ہے پولیس کو اس امر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ مضروب کو جلد اسپتال پہنچایا جائے بلکہ پولیس صرف اس گائے کی برآمدگی میں مشغول تھی جس کا مضروب پر الزام تھا کہ اس نے سرقہ کر لی ہے۔ یہ گائے وہاں سے دس کلو میٹر دور گاؤ شالہ لے جائی گئی تھی جب کہ اکبر خان کو ٹھیک ایک گھنٹے بعد کمیونٹی ہیلتھ سینٹر پہنچایا گیا جو جائے وقوعہ سے چھ کلو میٹر کی دوری پر تھا۔
تفصیلات کے مطابق خون کا پیاسا ہجوم تمام اقلیتوں کے دل میں دہشت پیدا کرنا چاہتا تھا۔ 2010ء میں بھی گائے کے معاملہ پر حملوں کے نتیجے میں 86 فیصد مسلمان قتل کیے گئے تھے جب کہ 97 فیصد حملے 2014ء کے بعد ہوئے جن میں شدید قسم کے جسمانی تشدد کے ذریعے متعدد بیچارے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جب کہ بھارتی آئین کے دیباچے میں ملک کو سیکولر قرار دیا گیا ہے۔ لیکن مودی کی بی جے پی ملک کو ہندو راشٹرا بنانے کی کوشش کر رہی ہے جس میں آر ایس ایس اس کے پیچھے ہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کے ساتھ دلت اور دیگر اقلیتوں کو بھی گاؤ رکھشا کے نام پر قتل و غارت کا شکار بنایا گیا۔ مذہب کے نام پر جو لکیر کھینچی جا رہی ہے اس سے ہم ہمہ وقت دہشت زدہ رہتے ہیں۔
بھارت میں مقیم مسلمان جن کی تعداد 17 کروڑ سے متجاوز ہے لیکن حکومتی معاملات میں ان کا قطعاً کوئی عمل دخل نہیں۔ ان کی رہائش گاہیں علیحدہ کر دی گئی ہیں جنہوں نے گندی آبادیوں کا روپ دھار لیا ہے لیکن پھر بھی مسلمان اکٹھے رہنے میں خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب دلی میں فسادات ہوئے۔ میں بھی اس برادری کی مدد کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں اور دلت کو پہنچا ہے جن پر گاؤ کشی کے جھوٹے الزامات لگتے رہے ہیں۔ مہاتما گاندھی نے تینوں مذاہب کے لیے ایک مشترکہ عبادت کی تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں ہندوؤں کی گیتا، کرسچین کی بائبل اور مسلمانوں کے لیے قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی تھی۔
بھارت کا پہلا وزیراعظم جواہر لعل نہرو بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر زور دیتا تھا اسی وجہ سے اس نے داخلہ فارم سے مذہب کا خانہ حذف کروا دیا تھا اور ملازمت کے لیے درخواست دیتے ہوئے بھی مذہب کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا تھا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب دلّی میں فسادات ہوئے۔ میں ایک فعال کارکن کے طور پر کمیونٹی کی مدد کررہا تھا۔ اس وقت ایک حاضر سروس جج جو کہ خود اس پسماندہ بستی میں رہتے تھے نیبتایا کہ اپنی حفاظت کے طور پر میں اس پسماندہ بستی میں رہنے سے خود کو محفوظ سمجھتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی پولیس میں طرح طرح کی خرابیاں راہ پاچکی ہیں۔ ایک وقت تھا جب حکومت پولیس کو مسجد، مندر اور گردوارے سے دور رکھتی تھی لیکن مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں نے اپنے مخصوص مفادات کے لیے مذہب اور مسالک کا نام لینا شروع کر دیا جب کہ امن وا مان برقرار رکھنے والے ادارے خود اشتعال انگیزی کو بڑھاوا دیتے رہے۔
مسجد، گردوارہ وغیرہ کو ان کی آبادیوں کے قریب رکھا جاتا۔ اس وقت تک دینی مدرسوں کا چلن اتنا عام نہیں ہوا تھا۔ ان تمام باتوں کا میں راجیہ سبھا میں باقاعدہ ذکر کرتا رہا کیونکہ 1990ء کی دہائی میں مجھے بھارت کے ایوان بالا کا رکن نامزد کیا گیا تھا۔ میری تنقید کا ہدف کانگریس پارٹی ہوتی جس میں آزادی کے بعد سے بھارت پر مسلسل حکومت کی ہے لیکن اس میں کچھ قصور عوام کا بھی ہے جو اپنے مذہبی اداروں سے پراپیگنڈا کرتے ہیں اس کا بھی کچھ منفی اثر پڑتا ہے۔ ان تمام نکات کا میں نے راجیہ سبھا میں بطور خاص ذکر کیا۔ جہاں مجھے نامزد کیا گیا تھا۔
اس زمانے میں پرناب مکھرجی کانگریس کے چوٹی کے لیڈر تھے۔ وہ اس مسئلے کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے راجیہ سبھا سے نکل گئے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ غالباً وہ میری تنقید کا جواب دینا چاہ رہے تھے۔ سیکولر ازم وہ نظریہ ہے جسے ہم نے پاکستان کے اسلامی نظریئے کے مقابلے میں بھارت کے لیے انتخاب کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ مذہب یا کسی اور بنیاد پر کوئی تخصیص روا نہ رکھی جائے۔
اگر اس نظریے پر درست انداز سے عمل کیا جائے تو قوم باہمی طور پر متحد ہوکر رہ سکتی ہے۔ لیکن میں اسے بدقسمتی کی بات سمجھتا ہوں کہ مسلمان برادری ازخود الگ تھلک رہنا چاہتی ہے۔ ان کی کمیونٹی کے لیے علیحدہ اسکول بنائے گئے کیونکہ مسلمان اپنی شناخت کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ملک کی آزادی کی جدوجہد کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ اس لیے انھیں ملک کے بنیادی نظریے کا بھی علم نہیں ہے۔ وہ صرف شیام پرشاد مرارجی کی بات جانتے ہیں جوکہ جدوجہد آزادی کے موقع پر موجود تھے۔ انھی کے فلسفے پر عمل کرکے ہندو راشٹرا کا تصور تخلیق کیا گیا۔
جے پرکاش نرائن کٹر ہندوؤں کو جنتا پارٹی میں لے آئے۔ انھوں نے اپنی ٹوپیاں بھی ترک کردیں جو خاص وضع کی تھیں۔ اس حوالے سے اہم موڑ اس وقت پیدا ہوا جب آر ایس ایس نے حالات کو اپنے قابو میں کرنے کی کوشش کی۔ تب جے پرکاش کو جن سنگھ کے لیڈروں نے آر ایس ایس سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور اپنی علیحدہ پارٹی کے قیام کو ترجیح دی۔ بی جے پی کی بنیاد ایل کے ایڈوانی نے رکھی۔ کچھ پرجوش اراکین بدستور آر ایس ایس کے ساتھ رہے لیکن جے پرکاش نرائن کی بات سب کے لیے بالاتر تھی۔
اس وقت اٹل بہاری واجپائی نئے لیڈر کے طور پر سامنے آئے کیونکہ وہ سب کے لیے قابل قبول تھے۔ ان کی خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ وہ بس میں بیٹھ کر لاہور چلے گئے۔ ان کے ساتھ تمام سیاسی پارٹیوں کے اراکین موجود تھے۔ وہاں ان کے خطاب کو پاکستانی شہریوں نے بے حد پسند کیا اور ان کا بھر پور استقبال کیا۔ اس موقع پر مجھے کہا گیا کہ نواز شریف سے کہیں کہ وہ جوابی تقریر نہ کریں کیونکہ اس وقت مجمع واجپائی کے حق میں پر جوش ہوچکا تھا اور واجپائی کا حامی بن چکا تھا۔ نواز شریف نے میرے کہنے پر بتایا کہ وہ اتنے احمق نہیں ہیں کہ واجپائی کے بعد تقریر کرنے کا چانس لیں۔
وزیراعظم مودی اپنے طور پر ایک اور واجپاتی بننے کی کوشش کررہے ہیں مگر انھیں کامیابی نہیں مل رہی۔ بی جے پی کے سامنے بہت لمبا سفر ہے۔ واجپاتی سب سے زیادہ کامیاب رہے کیونکہ اس کے نہرو کے دور میں کانگریس والوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
مجھے یاد آتا ہے جب میں لندن میں بھارت کا ہائی کمشنر تھا تو واجپائی مجھے ملنے آئے تھے۔ ان دنوں میں بابری مسجد کے انہدام کا چرچا تھا۔ واجپائی نے کہا جو رام بھگت ہیں، وہ ایودھیا گئے اور جو ملک سے محبت کرتے ہیں وہ یہاں آگئے ہیں۔ آر ایس ایس چیف موہن بھگوت نے کہا ہے کہ اب وزیراعظم کا انتخاب آر ایس ایس کرے گی اور اس پر اپنی مہر ثبت کرے گی۔ لیکن ایک معصوم مسلمان کو مار مار کر قتل کرنے کا جو وقوعہ ہوا ہے اس سے آر ایس ایس نیچے آگئی ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)