عمران کی جیت۔۔۔۔ عوام کی عید
اگر عمران خان نے تنخواہوں کے مسئلے پر غور کیا تو مسئلے ضرور حل ہوں گے۔
KARACHI:
جب عمران خان نے انتخابی تقریر میں یہ جملے ادا کیے اور 22 برس کی انتھک سیاسی محنت کا تذکرہ کیا تو مجھے وہ دن یاد آگئے جب عمران خان کے ساتھ معراج محمد خان بحیثیت جنرل سیکریٹری سیاسی جلسے کیا کرتے تھے۔ جانے میرے علاوہ کتنے اور لوگوں کو یہ بات یاد آئی ہوگی جب انھوں نے بنی گالا سے انتخابی جیت کے بعد عوامی انداز میں تقریر کی۔ کبھی ایسا لگا کہ یہ اس مکتب فکر کی آواز ہے جو غریب عوام کا رہنما ہے جس نے فی کس چھ لاکھ روپوں کے مقروض لوگوں کو اٹھانے کی بات کی۔ واقعی عمران خان کو وہ دن یاد ہیں جب وہ 1997-98ء میں ہجوم سے مخاطب تھے۔
یہ دور تھا جب وہ معراج کے ساتھ درد دل سے لبریز ہوکر تقریریں کرتے تھے۔ معراج جابر حکمرانوں کے ہاتھوں سختیاں اٹھا کر نحیف ہوچکے تھے۔ اور ان کو اپنے خیالات پر کسی کی حکمرانی کی عادت نہ تھی۔ حالانکہ یہ جملے ان کے نہیں ہیں لیکن کئی برس ان کے ساتھ بھی سیاسی صحبت رہی تو یہ اندازہ ہے وہ پارٹی چھوڑ بیٹھے ان کو آنکھوں کا مرض لاحق ہوچکا تھا وہ گھر بیٹھ گئے اور معراج کی صحبت میں غریبوں سے ان کو الفت ضرور ہوگئی جس کا اظہار انھوں نے عوام الناس کے رو برو نہ کیا مگر معراج نے مجھے ذاتی طور پر بتایا چند برس قبل کی بات ہے۔
ان کی زندگی کے آخری ایام میں جب میں نے ان سے عمران خان کے متعلق پوچھا کہ بھائی معراج! یہ بتاؤ کہ عمران خان میں کیا عیب ہیں تو انھوں نے کہا کہ بے عیب تو ذات الٰہی ہے مگر ان میں اخلاقی گراوٹ اور چور بازاری نہیں البتہ ان کو معلوم ہے کہ روپیہ قاضی الحاجات ہے بہت سے عوامی مسائل روپوں سے حل ہوتے ہیں سو وہ مالدار لوگوں کو اپنے سے دور نہیں رکھتے البتہ میرٹ کی بنیاد پر اہمیت دیتے ہیں لہٰذا بحیثیت وزیر اعظم میں نے کراچی کے دانشوروں اور لندن میں مقیم اپنے سیاسی احباب اور امریکا میں مقیم ڈونرز حضرات جو رقم جمع کرکے عمران خان کی نذر کرتے رہے ہیں جن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں انھوں نے کوئی پہلو نمایاں نہ کیا بلکہ پاکستان کو دلدل سے نکالنے کے نعرے سے دور رہتے ہوئے ملک کی بھلائی چاہتے ہیں۔ لہٰذا عمران خان کو نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ امریکا اور برطانیہ میں جو پاکستانی رہائش پذیر ہیں وہ عمران خان کے بڑے مداح ہیں کیونکہ ان کی ایمانداری ان حضرات و خواتین کی نظر میں مسلم ہے۔
ذاتی طور پر میرے مراسم نہیں، ہاں مگر میرے احباب البتہ ان کے ہمنوا ہیں جن میں امریکا میں مقیم ڈاکٹر ادیبہ خان، ایک معروف کاروباری مزمل حیات اور لندن کے ایک معروف وکیل شاہد دستگیر خان جو فیض احمد فیضؔ کی یاد ہر سال انگلینڈ میں مناتے ہیں اور ایسے ہزاروں نمایاں محبان ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ملک سے غربت مٹانے میں عمران خان پیش پیش رہیں گے اور کراچی کے لوگوں نے تو انتہا کر دی جس گلی سے گزرتا لوگ مجھے قائل کرتے یہ بات تو الیکشن سے قبل کی تھی بالکل ایسے جیسے ایک زمانے میں لوگ مغربی پاکستان میں بھٹو پر فدا تھے۔ الیکشن کے روز تو کراچی میں حد ہوگئی لیاری میں مچھیروں نے بھٹو فیملی کے نواسے اور پی پی کے لیڈر بلاول کو شکست دے دی۔
جہاں نصف صدی سے لوگ بھٹو فیملی کے پرستار تھے۔ کورنگی کراسنگ کراچی پر الیکشن کی رات کو تو منظر ہی کچھ اور تھا کراچی کی تاریخ میں پہلی بار پٹھان اور جو خود کو مہاجر کہتے ہیں ایک دوسرے سے بغل گیر ہو رہے تھے اور تقریباً جیسے وہ جیت گئے اور ان کی قسمت بدل گئی لہٰذا عمران خان کو کچھ کرنا پڑے گا یہ جذباتی منظر حکمرانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوتے ہیں بالکل وہ منظر شاید آپ کو یاد ہو اگر عمر کم ہے تو تاریخ بتائے گی سنتے جائیں سیکڑوں مزدور زخمی ہوئے اور پولیس کی گولیوں سے لانڈھی کورنگی میں مزدور ہلاک ہوئے جو بھٹو کے لیے زوال کی پہلی سیڑھی تھی اور متعدد کارکنوں کو پی پی کو خیرباد کہنا پڑا۔ لہٰذا عوام کی خوشیاں اور خصوصاً کراچی کے عوام کی حمایت ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
کراچی جو پانی سے محروم، بسوں سے محروم، صفائی ستھرائی سے محروم تبدیلی مانگتا ہے۔ سرکلر ریلوے چلانی ہوگی۔ گورنمنٹ اسکولوں کو دوبارہ آباد کرنا ہوگا۔ مانا کہ پی ٹی آئی کا کراچی میں کوئی زور نہیں۔ پھر بھی جو جماعت بھی جیتی ہے اس کو ان چیزوں کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ سندھ کے اندرونی علاقوں کو محض کوٹہ سسٹم سے خوش نہیں کیا جاسکتا وہاں زرعی اصلاحات کرنی ہوں گی۔ اب سندھی مہاجر کے نعرے فرسودہ ہوگئے۔ اب تو روٹی کپڑا اور مکان کی لہر پھر زندہ ہوگئی ہے، سندھ کے عوام غربت کی لکیر سے نیچے ہیں ان کو اٹھانا ہوگا۔
حکومتی اخراجات کم کرنے ہوں گے اربوں روپے کے بے جا اخراجات کو روک کر عام آدمی کی زندگی کے چراغ روشن کرنے ہوں گے۔ محض قومیت کے نعرے نہیں بین الاقوامی نعروں سے پارٹی کو لیس کرنا ہو گا، ایک لیڈر ایسا بھی تھا جس نے آئی ایس پی آر کو عمران کی جیت کی مبارکباد دی ہے اگر اتنی آزادی آج نہ ہوتی تو وہ لب کشائی بھی نہ کرسکتے ہم نے مارشل لا کو چیلنج کیا اور سزا بھگتی وہ دور دیکھو تو فرشتوں کو مدد کے لیے پکارو تم سے ہم کیا کہیں جو جئے بھٹو تو کہتے ہیں مگر بھٹو کے پیغام سے انحراف کیا اور تقریباً پونے دو کروڑ ووٹ لینے والے سپاہی کا تمسخر اڑانا زیب نہیں دیتا۔ عمران کے وفادار پاکستانی دنیا کی ہر ایک اسٹیٹ میں موجود ہیں اور قطرہ قطرہ کرکے انھوں نے روپوں کا سیل رواں بہا دیا جو عام آدمی تو سمجھ گیا مگر مخصوص نہ سمجھ سکے گوکہ میرا پی ٹی آئی سے کوئی واسطہ نہیں مگر احباب کا تو ہے میں بس بقول مرزا غالب:ؔ
غالبؔ ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
بعض چھوٹے موٹے لیڈر عمران خان کی حکومت میں رخنہ ڈال کر قومی انتشار کی دھمکیاں لگا رہے ہیں تو ان سے یہ عرض ہے:
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
یہ لوگ ضیا الحق کی پیداوار ہیں جمہوریت کی جنگ یہ کسی کے سنگ نہیں لڑ سکتے۔ اس کے برعکس قومی اور بین الاقوامی قوتیں موجودہ حکومت کے ساتھ ہیں البتہ لوٹ مار کرنے والوں نے معیشت کا دامن داغ دار کردیا ہے۔ مگر چند ہی دنوں میں ڈالر نے پسپائی دکھائی ہے اور اگر عمران خان نے تنخواہوں کے مسئلے پر غور کیا تو مسئلے ضرور حل ہوں گے۔
ایک طرف عام طور سے 10 لاکھ ماہانہ تو دوسری جانب دس ہزار ماہانہ یہ اہتمام غلط اور سراسر غلط ہے غریب کی تنخواہوں میں اضافہ اور امرا کی تھوڑی بہت کٹوتی ضروری ہے تاکہ شرپسند سر نہ اٹھا سکیں عمران خان صاحب کی تاریخی تقریر کی دنیا بھر سے اور پاکستان کے ہر حلقے سے پذیرائی آئی ہے یہ وہی تقریریں ہیں جب آج سے 20 برس قبل کراچی میں کرچکے ہیں اور کراچی کے متوسط طبقے بعض امرا اور غریبوں نے وہ جشن فتح منایا جیسے کہ انھوں نے بعد مدت کے عید کا چاند دیکھا ہو کہ صبح عید ہے۔