اشرافیہ سخت ہراساں

باری باری کا کھیل عشروں سے کھیلنے والی جماعتوں کا عوام نے اس طرح صفایا کردیا ہے کہ اشرافیہ چہ کنم کی تصویر بنی ہوئی ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

الیکشن سے پہلے جن قلمکاروں نے تحریک انصاف کی حمایت کی ہمارا شمار بھی انھی قلمکاروں میں ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی حمایت دانشورانہ حلقوں میں متنازعہ رہی ہے کیونکہ تحریک انصاف پر نادیدہ قوتوں کی حمایت حاصل کرنے کا الزام عائد ہوتا رہا ہے ۔ اس حوالے سے دانشور طبقہ اس قدر حساس رہا ہے کہ اس مسئلے پر کوئی عاقلانہ مدبرانہ اور عوامی مفادات کے حوالے سے بھی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں، بہرحال دانشور دانشور ہوتا ہے خاص طور پر ہمارے ملک کا دانشور۔ اگر دانشور قلم کار بھی ہو تو پھر دانشوری دو آتشہ ہوجاتی ہے۔

ہم کو شعبہ کالم نگاری میں 45 سال بیت گئے ہیں۔ دانشوری برائے فروخت بھی رہتی ہے اور دانشوری کے ساتھ قلم کاری بھی ساتھ ہو تو یہ اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ حکمران طبقہ بھی ان کی حمایت کا متمنی ہوتا ہے ہمارے ملک میں ایسے کھلے ڈلے قلم کار رہے ہیں جو حکمرانوں کی حمایت کا معاوضہ تین تین لاکھ ماہانہ وصول کرتے رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ماہانہ تین لاکھ میں پرتعیش زندگی گزاری جاسکتی ہے لیکن برا ہو ہمارے منہ پھٹ میڈیا کا کہ وہ دم بھر میں گماشتہ قلم کاروں کو بے نقاب کر رکھ دیتا ہے اور سارا کھایا پیا زہر ہوکر رہ جاتا ہے۔

ہماری تحریک انصاف کی حمایت کو ہم عوامی مفاد کی حمایت کا نام دے سکتے ہیں، ہماری نہ کبھی عمران خان سے دعا سلام رہی نہ ان کی تحریک انصاف کے زعما سے نظریاتی ہم آہنگی رہی۔ عمران کو ٹی وی پر دیکھتے اور ان کی جھٹکے دار تقریر سننے کے علاوہ ہمارا اور کوئی تعلق نہیں رہا، نہ ہمارا شمار پنج ہزاری شش ہزاری درباریوں میں ہوتا ہے عمران بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہے اس میں بھی وہی خوبیاں اور خرابیاں ہوسکتی ہیں جو اس معاشرے کے باسیوں میں پائی جاتی ہیں۔

ہم پچھلی نصف صدی سے اس ملک کی زمینی اور صنعتی اشرافیہ کے کارنامے دیکھتے آرہے ہیں، آج ہمارے ملک کے 21 کروڑ عوام جس تباہ حال زندگی کا سامنا کر رہے ہیں اور ہمارے ملک کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ خط غربت سے نیچے جس طرح کی اذیت ناک زندگی گزار رہا ہے اس یزیدی طبقے سے عوام کو نجات دلانا ہر ''انسان'' اپنا فرض سمجھتا ہے۔

عوام میں عمران خان کی مقبولیت سے اشرافیہ سخت ہراساں تھی اسے ڈر تھا کہ عمران ان کے اس ستر سالہ' اسٹیٹس کو ' کو توڑنے کی طاقت رکھتا ہے یہ اشرافیہ اسی قدر مضبوط تھی کہ ستر سال کی جمہوری اور غیر جمہوری طاقتیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں ۔ یہی وہ تناظر تھا جس میں ہم عمران خان کی حمایت کرتے رہے اور 25 جولائی کو عمران خان نے یہ ثابت کردیا کہ عوام اور خواص نے اس سے جو توقعات باندھی تھیں اسے اس نے پورا کیا۔ اشرافیہ اس شکست سے بدحال بھی ہے اور چراغ پا بھی ہے اس بدترین شکست کے باوجود سیاسی عذر داریوں میں مصروف ہے لیکن اب کوئی داؤ اس لیے کارگر ہوتا نہیں دکھتا کہ وہ چاروں طرف سے گھر گئی ہے نہ جائے رفتن ہے نہ پائے ماندن۔


بلاشبہ جمہوریت آج کے عوام کی ضرورت ہے جس میں پاکستان کے عوام بھی شامل ہیں لیکن ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کبھی رہی ہی نہیں ہے بلکہ ہمیشہ اشرافیائی آمریت رہی ہے اور ہم اس اشرافیائی آمریت کے سخت خلاف ہیں ستر سالوں سے اس مملکت خداداد پر چند خاندان حکمرانی کر رہے ہیں اور ان خاندانوں نے سیاست اور اقتدار پر مضبوطی سے قبضہ جما رکھا ہے۔

اس قبضے کو ختم کرنے والا کوئی نہ تھا اس صورتحال کا اشرافیہ فائدہ اٹھاتی رہی اور لوٹ مار کا ایسا بازار گرم کیا کہ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی عوام کی زندگی کی ابتر حالت اور اشرافیہ کی چراغاں چراغاں عشرت انگیز زندگی کو دیکھنے کے بعد ہر اہل عقل اہل بصیرت اس جمہوریت پر لعنت ہی بھیج سکتا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ عاشقان جمہوریت اربوں کی اشرافیائی حکمرانی لوٹ مار کو دیکھتے ہوئے بھی ساون کے اندھے بنے رہے اور یہی رٹ لگاتے رہے کہ ''جمہوریت کے تسلسل سے جمہوریت میں بہتری آئے گی'' اس امید پر 70 سال گزر گئے لیکن حقیقی جمہوریت کا دور دور تک کوئی پتا نہیں رہا۔ یہ ایسی مایوس کن صورتحال تھی کہ کسی طرف سے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی تھی اس گھپ اندھیرے میں عمران خان روشنی کی کرن بن کر آیا اور عوام اس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔ 25 جولائی کو عوام نے گھپ اندھیروں میں امید کا ایک چراغ جلایا۔

انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی سے اشرافیہ کے محلوں میں صف ماتم بچھ گئی ہے اشرافیہ کو اچھی طرح سے یہ احساس ہے کہ اگر مڈل کلاس ایک بار وزارت عظمیٰ تک پہنچ گئی تو پھر اشرافیہ کا وہ ستر سالہ سحر ٹوٹ جائے گا جو اس کے بقا کی ضمانت بنا ہوا تھا۔ عمران کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوچکا ہے دھاندلی کی صدائیں بلند ہونے لگی ہیں۔

باری باری کا کھیل عشروں سے کھیلنے والی جماعتوں کا عوام نے اس طرح صفایا کردیا ہے کہ اشرافیہ چہ کنم کی تصویر بنی ہوئی ہے اشرافیہ کے محلات سازشوں کے گڑھ بن رہے ہیں۔ ایک بار پھر ''خصوصی عوام'' کو استعمال کرنے کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔ سیاسی ایجنٹوں کو ٹاسک دے دیے گئے ہیں لیکن اس بار صورتحال اس لیے بالکل مختلف ہے کہ کاغذی شیر اگر روڈوں پر آتے ہیں تو اصلی شیر پہلے ہی سے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سڑکوں پر موجود ہیں۔

حیرت ہے کہ اب تک ''جمہوری تاریخ'' ہمارے دانشوروں کے سامنے ہے لوٹ مار کے اربوں روپوں کی نشان دہی ہو رہی ہے۔ اشرافیہ کے سرپرست اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں لیکن ہماری دانشورانہ بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اشرافیہ کے ان کاغذی شیروں کو شہید جمہوریت کا خطاب دیا جا رہا ہے۔ بہرحال یہ بات باعث اطمینان اور عوامی مفادات کے عین مطابق ہے کہ ستر سال کے ''اسٹیٹس کو'' کو آخر عمران کی قیادت میں عوام نے توڑ کر رکھ دیا۔ آیندہ کالم میں ہم عمران کی غلطیوں کا جائزہ لیں گے جن پر قابو نہ پایا گیا تو اشرافیہ اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
Load Next Story