کانٹوں کا تاج
کپتان کے راستے مسدود اور محدود کرنے کی اساس رکھ دی گئی ہے۔
الیکشن مہمات کے دوران عمران خان نے اپنے متعدد خطابات اور ٹی وی انٹرویوز میں صاف الفاظ میں کہا تھا کہ اگر مجھے اکثریتی نشستیں نہ ملیں تو اپوزیشن میں بیٹھوں گا۔ کپتان کی خواہش بنیادی طور پر منطقی اور درست تھی۔ وہ منتخب ہو کر اپنے وضع کردہ اصولوں اور ایجنڈے کو اِسی صورت میں نافذ کر سکتے تھے جب انھیں قومی اسمبلی میں اکثریتی سیٹیں ملتیں۔ اِسی شکل میں وہ اپنے آدرشوں کے مطابق ملک بھر میں موعودہ تبدیلی لا سکتے ہیں۔
انتخابات میں انھوں نے قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ سیٹیں تو یقیناحاصل کی ہیں لیکن قطعی اکثریت سے محروم ہی رہے۔ انھیں اپنے اتحادیوں اور دیگر جماعتوں کے منتخب ارکان کی احتیاج ہے۔ پی ٹی آئی کو ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر لوگ جناب عمران خان کو ایک طاقتور اور کامیاب وزیر اعظم دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں لیکن دوسروں کی محتاجی نے اُن کی سیاسی قوت کو کمزور کیا ہے۔پنجاب اسمبلی میں بھی تقریباً یہی منظر نامہ اُبھر ا ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں، مرکز اور پنجاب میں مطلق اکثریت کے ساتھ عمران خان کی حکومت بننے کے واضح اور غیر مبہم امکان ظاہر نہیں ہو رہے۔ بالآخر عمران خان ہی کو وزیر اعظم بننا ہے لیکن انھیں ابتدائی ایام ہی میں جن شدید مشکلات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے، اِس نے اُن کا دل کھٹا کر دیا ہوگا۔ عمران خان کو اقتدار کا دودھ تو ملا ہے لیکن مینگنیاں ڈال کر۔ کئی غیر ممالک، جن میں بھارت خصوصاً شامل ہے، ہمارے فاتح کپتان کو مبارکبادیں بھی دے چکے ہیں۔
کئی ممالک کے سفیر ، جن میں سعودی عرب اور چین نمایاں ہیں، بنی گالہ میں اُن سے ملاقاتیں کرکے تہنیتیں بھی دے چکے ہیں اور اپنے تعاون کی یقین دہانیاں بھی کروا چکے ہیں۔ یہ مناظر خوش کُن اور باعثِ اطمینان ہیں لیکن جہانگیر ترین وغیرہ کو ''نمبر گیم '' میں اپنے قائد کے لیے جو زور لگانا پڑ رہا ہے، اِس سے یہ بھی نظر آرہا ہے کہ وزیر اعظم بن کر بھی ہمارے کپتان صاحب اپنی حکومت بچانے کے لیے مسلسل درد سری کا سامناکرتے رہیں گے۔ ایسے میں شائد متوقع اور موعودہ تبدیلی کے لیے کپتان کی قوتِ نافذہ کمزور پڑ جائے۔ اللہ کرے ہمارے خدشات بے بنیاد ثابت ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ وطنِ عزیز جن سنگین مالی گرداب میں پھنسا نظر آرہا ہے، ہم کسی بھی سیاسی ابتری اور دربدری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
سیاسی عدم استحکام کسی بھی ملک کو معاشی خوشیاں نہیں دے سکتا۔ اِس کامگر کیا علاج ہے کہ ہماری شکست خوردہ سیاسی جماعتیں اور انتخابات میں شکست یافتہ سیاستدان چین سے بیٹھنے پر تیار نہیںہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے شکست کھا کر اپنے اتحادیوں پر زور دیا کہ اسمبلیوں میں حلف ہی نہ لیے جائیں۔ اگر ایسا ہو جاتا تو نئے انتخابات کی نئی عمارت زمین بوس ہو جاتی۔ خدا کا شکر ہے ایسا نہیں ہو سکا۔ مولانا صاحب کی خطرناک تجویز نہیں مانی گئی۔ شکست خوردہ امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق بھی مولانا فضل الرحمن سے متفق نہیں ہو سکے۔
قومی اسمبلی میں پانچ درجن سے زائد سیٹیں لینے والی نون لیگ اور تیسرے نمبر پر آنے والی پیپلز پارٹی بھی جے یو آئی (ایف) کے امیر صاحب کی تجویز سے عدم اتفاق کر چکی ہیں۔ یوں ایک معاملہ تو یقینا صاف ہُوا ہے۔ یکسوئی اور یکجہتی غالب آئی ہے لیکن یہ یکسوئی اور یکجہتی کپتان کے لیے دوسرے معنوں میں پریشانی کا موجب بھی ہے۔ عمران کے خلاف جو مبینہ ''گرینڈ اپوزیشن الائنس'' تشکیل پارہا ہے، اِسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نئی حکومت تو نہیں بن سکی ہے لیکن ''گرینڈ اپوزیشن الائنس'' نے پر پُرزے نکالنے شروع کر دیے ہیں۔
گویا کپتان کے راستے مسدود اور محدود کرنے کی اساس رکھ دی گئی ہے۔ شکست خوردہ جماعتوں اور ہارے ہُوئے کئی نامور سیاستدانوں کا یک زبان ہو کر چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کو استعفیٰ دینے کا مطالبہ بھی معمولی نہیں ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ، شدید دباؤ میں، ملک بھر کے 26 قومی و صوبائی حلقوں کے نتائج کی دوبارہ گنتی کروانے پر رضامند ہونا قابلِ فخر کیسے ہو سکتاہے؟ خواہ اِسے جمہوریت کے تقاضوں سے کتنا ہی ہم آہنگ کیوں نہ قرار دیا جائے!مبینہ دھاندلی کی آوازیں بھی مدہم نہیں ہو رہیں۔ کئی حلقوں میں جیتے ہُوئے پی ٹی آئی کے امیدوار ، دوبارہ گنتی میں، جس طرح نون لیگ کے مقابلے میں ہارے ہیں، اِس نے بھی کپتان کو کمزور کیا ہے۔
ہارے ہُوئے سیاسی دشمن متحد اور یکجا ہو کر عمران خان کے سر پر مسرتوں کا نہیں، کانٹوں کا تاج رکھنے کے دَر پے ہیں۔ جو حالات تیزی سے متشکل ہو رہے ہیں، کپتان کے لیے اطمینان اور خوشیوں کا باعث نہیں ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اِن حالات کے بطن سے کیا برآمد ہوتا ہے لیکن اتنا تو واضح ہو رہا ہے کہ ''گرینڈ اپوزیشن الائنس''عمران کو سُکھ اور چَین کا سانس نہیں لینے دے گا۔
نون لیگ ، پیپلز پارٹی، اے این پی، جے یو آئی ایف تو کھلے معاندین بن چکے ہیں۔ کیا یہ سب لوگ مل کر عمران خان سے سیاسی انتقام لینا چاہتے ہیں؟ وہی حالات پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں جو عمران خان نے پچھلے پانچ سال نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں اور اُن کے قائدین کے لیے مسلسل پیدا کیے رکھے؟ بلوچستان میں سردار اختر جان مینگل کی شکل میں ایک نئی اپوزیشن پیدا ہو رہی ہے۔ اس سب کا نقصان مگر کسے ہوگا؟ کون چکی کے پاٹوں کے درمیان پھر رگڑا جائے گا؟ پاکستان اور پاکستان کے بے بس عوام ۔ اب تو نئے الیکشن عوام کا جرم بنا دیے گئے ہیںکہ انھوں نے کوئی واضح جہت کیوں اختیار نہیں کی!!
عمران خان کے خلاف تشکیل پایا جانے والا مبینہ ''گرینڈاپوزیشن الائنس'' تو شائد احتجاج کرنے میں ابھی کچھ دن لگائے گالیکن کئی مذہبی قوتیں ایسی ہیں جو ابھی سے کپتان کے خلاف ''میدانِ عمل'' میں آیا چاہتی ہیں۔ بھارت اور امریکا نے بالخصوص اِس امر پر بیک زبان اطمینان اور شکر کا اظہار کیا ہے کہ 25جولائی کے انتخابات میں پاکستان کی مذہبی جماعتیں اور قیادتیں نہیں جیت سکی ہیں۔ پروفیسر حافظ سعید کی نَوخیز سیاسی جماعت ( اللہ اکبرتحریک) کی ناکامی پر بھارت نے خاص مسرت کا اظہار کیا ہے۔ جماعتِ اسلامی ، تحریکِ لبیک کے دونوں دھڑے، اہلِ سنت والجماعت کے اُمیدوار کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ یہ شکست خوردہ جماعتیں اور اُن کے وابستگان مایوس بھی ہیں اور غصے میں بھی ۔ ملتان کے ایک مخدوم بھی کپتان کے بارے میں بُری بُری پیشگوئیاں کررہے ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی بوجوہ عمران خان کے حاسد اور معاند بن چکے ہیں۔
ابھی کل ہی انھوں نے ملتان میں کی گئی اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے:'' عمران خان پھنس چکے ہیں۔ مشکل سے ایک سال نکالیں گے۔''ریحام خان اور جاوید ہاشمی کے بیانات میں یکسانی اور اشتراک پایا جاتا ہے ۔ پی ٹی آئی کے عشاق اور تبدیلی کے حامی مگر اِن دونوں کو ناپسند کرتے ہیں۔ انتخابات کے ایک ہفتے بعد سی این این کی حانا جونز نے شرارتاً ریحام خان کو عمران خان کی سیاست اور زندگی پر تجزئیے کے لیے مدعو کیا تو یورپ اور امریکا میں بسنے والے کپتان کے بہی خواہوں اور چاہنے والوں نے حانا جونز کا جو حشر کیا ہے، یہ محترمہ شائد ساری عمر اسے یاد رکھیں گی۔ بلا شبہ عمران خان کو محبتوں اور چاہتوں کی کمی نہیں ہے۔ اللہ کرے '' گرینڈ اپوزیشن الائنس'' کو بھی اُن کی چاہت لگ جائے!