معیاری تعلیم وقت کی ضرورت
اب اساتذہ کے لیے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ وہ پہلے خود اس کتاب کی تفہیم کریں پھراپنے شاگردوں کو پڑھائیں یہ آسان امر نہیں ہے
تعلیم کی اہمیت سے انحراف اس لیے ممکن نہیں کہ تعلیم کے بغیر نہ توکسی فرد واحد کی ترقی ممکن ہے اور نہ ہی کسی سماج کی ۔ دنیا بھر میں کامیابیاں انھی قوموں کو حاصل ہوئیں جن قوموں نے تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کیا اور حصول تعلیم کو اولیت دی۔ البتہ ہمیں یہ تلخ ترین حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ پاکستان میں تعلیمی معیار جو اس خطے کے تمام ممالک ماسوائے افغانستان کے سب سے کم تر ہے بلکہ زوال پذیر بھی ہے کیونکہ یہ بات ہم پورے وثوق سے اس لیے بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے نامور ترین ماہرین تعلیم کی ایک نشست میں ہونے والی ایک گفتگو کے حوالے سے کہہ رہے ہیں ۔
اس نشست میں تمام ماہرین تعلیم کی یہ متفقہ رائے تھی کہ ہمارے ملک میں تعلیمی معیارکا یہ عالم ہے کہ 2016 میں ہمارا تعلیمی معیار 58 فیصد تھا جوکہ 2017 میں گھٹ کر 56 فیصد پر آگیا تھا۔ فقط ایک برس میں ہمارا تعلیمی معیار دو فیصد گرچکا تھا۔ تعلیمی معیار کے زوال کا ایک باعث تو ظاہر ہے ہمارے سماج میں لوگوں کے معاشی حالات ہیں۔ بہرکیف آج کی نشست میں ہم وہ گفتگو پیش کر رہے ہیں جوکہ ہم نے ادیب جدون سے کی۔ جدون صاحب کا تعارف یہ ہے کہ وہ ایک ماہر تعلیم ہیں اور کوئی 20 برس سے درس و تدریس کے شعبے میں بہ حیثیت استاد اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور فروغ تعلیم میں اپنا حصہ بہ حسن خوبی ڈال رہے ہیں ۔
موجودہ تعلیمی معیار کے زوال پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سماج میں ناخواندگی کی بڑی وجہ ہمارے لوگوں کے معاشی حالات ہیں جب کہ دیگر عوامل کا بھی اس میں دخل ہے اول تو سرکاری سطح پر ہمیں تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہوگا، وہ اسکول جوکہ وڈیروں کی اوطاق یا جانور پالنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں ان اسکولوں پر سے ان وڈیروں کا قبضہ ختم کروانا ہوگا۔ دوم اساتذہ کی تربیت پر خصوصی توجہ دینا ہوگی لازم ہے کہ اگر آپ مستقبل کے معماروں کو جن اساتذہ کے سپرد کر رہے ہیں حصول تعلیم کے لیے ضروری ہے ۔ ان اساتذہ کے لیے ایک برس یا کم سے کم چھ ماہ کا ایک تربیتی کورس رکھا جائے ۔
ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا اور اساتذہ کو تربیت کے بغیر ہی فروغ تعلیم کے لیے اسکولوں میں تعینات کردیا جاتا ہے پھر یہ بھی قانون پاس ہوچکا ہے کہ کوئی استاد اپنے زیر سایہ تعلیم حاصل کرنیوالے طالبعلم پر تشدد نہیں کرسکتا ۔اس قانون پر بھی سختی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے کیونکہ اس قانون کے خلاف ورزی بھی گوکہ پہلے سے کم البتہ کہیں کہیں نظر آجاتی ہے ۔ ایک استاد کا رویہ اپنے طلبا کے ساتھ مشفقانہ ہونا چاہیے نہ کہ ایک سخت گیر کا ۔ حصول تعلیم کے لیے جانے والا طالبعلم ہمہ وقت استاد کے سخت گیر رویے کے باعث ایک خوف میں مبتلا رہے اور حصول تعلیم کے دوران اپنے استاد سے خوف کے باعث کوئی سوال بھی نہ کرپائے۔
سوم، مسئلہ یہ ہے کہ جو اساتذہ سرکاری اسکولوں میں فروغ تعلیم میں سرگرداں ہیں انھیں تو اس کے عوض مناسب اجرت مل جاتی ہے البتہ جو اساتذہ نجی اسکولوں میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں، انھیں نہایت ہی قلیل معاوضہ ملتا ہے آپ کو حیرت ہوگی کہ عصر حاضر میں ایسے اساتذہ بھی ہیں جوکہ نجی اسکولوں میں تین ہزار روپے میں بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں ان نجی اسکولوں میں زیادہ سے زیادہ ماہانہ اجرت آٹھ سے دس ہزار روپے ہوتی ہے ۔ ان حالات میں استاد مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے زیر سایہ بچوں کو ٹیوشن پڑھائے جب کہ یورپ میں یہ ہوتا ہے کہ پرائمری کلاس تک تعلیم دینے والے استاد کو زیادہ معاوضہ ملتا ہے پھر اگر آپ مڈل، میٹرک، کالج یا یونیورسٹی کے اساتذہ کی ماہانہ اجرت دیکھیں تو وہ پرائمری اساتذہ کے مقابلے میں کم ہوتی ہے مطلب یہ کہ سب سے زیادہ اجرت پرائمری تعلیم دینے والے کو اور سب سے کم ماہانہ اجرت یونیورسٹی کے اساتذہ کو حاصل ہوتی ہے۔
چہارم ، مسئلہ یہ ہے کہ ایسے اساتذہ بھی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوجاتے ہیں جن کا اپنا معیار تعلیم کم تر ہوتا ہے۔ البتہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے کسی بھی استاد کے لیے تعلیمی معیار جو رکھا تھا وہ تھا Bed۔ عصر حاضر میں خیبر پختونخوا میں ہمیں دیگر صوبوں کے برعکس تعلیمی نظام بہتر نظر آتا ہے اب چونکہ امکان یہی ہے کہ پی ٹی آئی مرکز میں بھی حکومت سازی کرنے جا رہی ہے تو لازم ہے کہ پی ٹی آئی حکومت (متوقع) پورے ملک میں یہ شرط رکھے کہ اساتذہ کے لیے بی ایڈ تعلیم لازمی ہوگی۔
پنجم ،اس برس ایک اور مسئلہ سامنے آیا ہے جس کے باعث ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوچکی ہے وہ مسئلہ یہ ہے کہ میٹرک کی اردو کی کتاب جوکہ کئی دہائیوں سے پڑھائی جا رہی تھی وہ اردو کی کتاب 2018 میں تبدیل کردی گئی ہے، اردو کی یہ کتاب جوکہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ جام شورو جو درسی کتب تیار کرنے والا ادارہ ہے نے شایع کی ہے یہ اردو کی میٹرک کی کتاب جب اسی برس ماہ اپریل میں آئی تو اساتذہ اپنے شاگردوں کو اردو کی میٹرک کی کتاب سے چند ایک اسباق پڑھا چکے تھے۔
اب اساتذہ کے لیے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ وہ پہلے خود اس کتاب کی تفہیم کریں پھر اپنے شاگردوں کو پڑھائیں یہ آسان امر نہیں ہے کیونکہ سابقہ کتاب اساتذہ گویا حفظ کرچکے تھے اب جو نوٹس مارکیٹ میں آئے ہیں وہ تجارتی بنیادوں پر لائے گئے ہیں یہی باعث ہے کہ ان نوٹس میں جابجا غلطیاں ہیں بالخصوص اشعارکی تشریحات میں بہت غلطیاں ہیں۔ مارکیٹ میں دستیاب یہ نوٹس میٹرک کی اردو کی کتاب کی تفہیم میں کم اور نقل میں زیادہ اپنا کردار ادا کریں گے البتہ میں نے ذاتی طور پر شبانہ روز محنت کے بعد ایسا مواد تیار کیا ہے جوکہ میٹرک کی کتاب کی تفہیم میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے مجھے اپنی قابلیت پر اس لیے بھی مکمل بھروسہ ہے کہ میں نے دس برس بچوں کے رسالہ نونہال کے ایڈیٹر مسعود احمد برکاتی مرحوم کے زیر سایہ نونہال رسالہ میں کام کیا ہے۔
تسلیم کرتا ہوں کہ مسعود احمد برکاتی مرحوم تشریحات و تلفظ کے معاملے میں بہت سخت تھے چنانچہ جو مواد میں نے میٹرک کی اردو کی کتاب کی تفہیم کے لیے مرتب کیا ہے وہ مواد میں فقط اخراجاتی قیمت پر دینے کو تیار ہوں اور اگر تعلیم سے وابستہ اعلیٰ شخصیات اس سلسلے میں استفادہ کرنا چاہیں تو میری خدمات بلامعاوضہ حاضر ہیں۔ آخر میں ہم اتنا عرض کریں گے کہ ادیب جدون کی گفتگو ہم نے آپ کی خدمت میں پیش کردی ہے اب اگر معیار تعلیم کی بہتری کے لیے کسی کو ان کی خدمات مطلوب ہیں تو ضرور حاصل کریں کیونکہ بلند یا اعلیٰ معیار تعلیم عصر حاضر میں ہماری شدید ضرورت ہے کیونکہ معیاری تعلیم کے بغیر ہماری سماجی ترقی ناممکن ہے۔