بے اعتمادی

حالیہ انتخابات کسی وردی میں ملبوس صدرکے لیے نہیں بلکہ سویلین وزیراعظم کے لیے ہوئے مگردھاندلی کی شکایات بالکل مختلف ہیں


Muhammad Saeed Arain August 03, 2018

1970 سے اب تک ملک میں جو گیارہ عام انتخابات ہوئے ان میں صرف 1970 کے انتخابات کو کافی حد تک غیر جانبدارانہ اور سب سے بہترکہا جاتا ہے جو مکمل طور پر شفاف تو نہیں تھے مگر اتنے بھی متنازعہ نہیں تھے کہ جتنے بعد میں ہونے والے رہے۔

حد تو یہ ہے کہ 2013 کے عام انتخابات کو بھی کوئی منصفانہ قرار نہیں دیتا اور اس پر سب سے زیادہ اعتراضات عمران خان سمیت دوسروں نے کیے تھے جس کی وجہ سے فخر الدین جی ابراہیم جیسے اصول پرست اور غیر جانبدار شخص بھی دھاندلیوں کے الزامات کے بعد مستعفی ہوگئے تھے ۔ انھوں نے اپنی وفات تک نہ جانے کیوں خاموشی اختیار کیے رکھی اور قوم کو ان وجوہات سے آگاہ کرنا ضروری نہیں سمجھا اور وہ تمام راز سینے میں محفوظ رکھ کر اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔

فخر الدین ابراہیم جیسے بااصول جج جو اقتدار کی خواہش سے بھی دور تھے جو سندھ کے گورنر کے عہدے سے بھی مستعفی ہوگئے تھے حالانکہ گورنر انتظامی نہیں آئینی عہدہ تھا مگر شاید وہ اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے غیر قانونی معاملات کو اچھا نہ سمجھتے ہوں گے اور انھوں نے گورنر رہنا بھی مناسب نہ سمجھا ہوگا۔ حکومت میں رہنے والی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے انھیں دوسری جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ہی چیف الیکشن کمشنر نامزد کیا تھا مگر اس کے باوجود ملک کو ایسے انتخابات نہ دیے جا سکے جو قوم کے اعتماد پر پورے اترتے اور شفاف اور دھاندلی سے پاک منصفانہ قرار پاتے۔

حکومت اور اپوزیشن لیڈر متفق ہوکر چیف الیکشن کمشنر نامزد کرتے ہیں مگر آج تک کوئی بھی چیف الیکشن کمشنر ایسا ثابت نہیں ہوا، جو منصفانہ اور دھاندلی سے پاک انتخابات کرانے میں کامیاب ہوا ہوتا اور ساری پارٹیاں اور قوم اس کی تعریف کرتیں مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ حال ہی میں ہونے والے عام انتخابات ادروں کی نگرانی میں ہوئے جس کے نتیجے میں شام چھ بجے تک ملک بھر میں امن رہا۔

پولنگ پرامن ماحول میں ہوئی مگر شام کے بعد جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ثابت ہوا جس کے بعد مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے، متحدہ پاکستان ہی نہیں بلکہ سب سے زیادہ ووٹ لینے والی تحریک انصاف کے ہارنے والے امیدوار بھی دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں اور انتخابات کو شفاف قرار نہیں دے رہے اور کوئی جماعت مطمئن نہیں ہے۔ عمران خان نے تو دھاندلیوں والے حلقوں کو کھولنے کے لیے اپنی رضامندی ظاہرکی ہے جس کے وہ ابھی مجاز نہیں مگر مجاز ریٹرننگ افسروں کے فیصلے سمجھ سے بالاتر ہیں کہ کہیں کوئی ریٹرننگ افسر دوبارہ گنتی پر راضی ہو رہا ہے تو کہیں دوبارہ گنتی کے لیے کی جانے والی زیادہ درخواستیں مسترد کردی گئی ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں ہارنے والوں میں اپنی شکست تسلیم کرنے کی روایت نہیں ہے اور ہارنے والے ہمیشہ الزام لگاتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی اور جیتنے والا دھاندلی نہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور یوں الیکشن متنازعہ رہتا ہے۔ 2018 کے انتخابات کے لیے بہت توقعات تھیں کہ ماضی کے مقابلے میں یہ غیر متنازعہ ہوں گے مگر حیران کن نتائج برآمد ہونے کے بعد انھیں محترمہ فاطمہ جناح اور جنرل ایوب خان کے درمیان ہونے والے انتخابات سے مشابہت دی جا رہی ہے ۔

جس میں غیر متوقع اور حیران کن نتائج برآمد ہوئے تھے اور بھرپور سرکاری کوشش کرائی گئی تھی کہ محترمہ کے حق میں ووٹ نہ جائیں اور یہ ڈیوٹی تمام ڈپٹی کمشنروں کی لگائی گئی تھی جو مکمل کامیاب رہی تھی اور ایوب خان وردی میں بھاری اکثریت سے جیت گئے تھے۔

حالیہ انتخابات کسی وردی میں ملبوس صدر کے لیے نہیں بلکہ سویلین وزیر اعظم کے لیے ہوئے مگر دھاندلی کی شکایات بالکل مختلف ہیں جن میں کسی بھی پارٹی پر منظم دھاندلی کا کوئی الزام نہیں بلکہ معمول کے مطابق کسی دھاندلی کے بغیر پولنگ ہوئی اور بعد میں الزامات سامنے آئے کہ پولنگ کے بعد پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا۔ ان کے سامنے ووٹوں کی گنتی نہیں ہوئی اور بار بار مانگنے پر فارم 45 پر رزلٹ نہیں دیا گیا اور گھنٹوں انتظار کے بعد سادہ کاغذ پر رزلٹ دیا گیا۔ پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں ووٹوں کے ڈبے کھلنے اور ووٹوں کی گنتی قانونی تقاضا ہے جو پورا نہیں کیا گیا اور پہلا سرکاری نتیجہ رات 4 بجے سامنے آیا جب کہ اتنی تاخیر کبھی نہیں ہوئی اور الزام لگائے گئے کہ اتنی تاخیر اس سے قبل کبھی نہیں ہوئی ۔

اس کا اعتراف چیف الیکشن کمشنر نے بھی کیا ہے نتائج کی تاخیر کی ذمے داری الیکشن کمیشن کی بجائے نئے اختیار کیے گئے تکنیکی سسٹم پر ڈال دی ہے جو اگر اطمینان بخش نہیں تھا تو وہ کیوں استعمال کیا گیا جس سے نتائج متنازعہ ہوئے اور سب پارٹیاں الیکشن کمیشن پر الزامات لگا رہی ہیں اور چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی (ن) لیگ، متحدہ و دیگر جماعتیں کر رہی ہیں۔ متنازعہ نتائج کے علاوہ الیکشن کمیشن پر جو الزامات لگ رہے ہیں اس کے لیے چیف الیکشن کمشنر کا پہلا ٹیسٹ یہ ہے کہ وہ معلوم کریں کہ حلقہ این اے 244 میں واقع محمود آباد کی کچرا کنڈیوں تک بلیٹ پیپر کیسے پہنچے اور کیسے جلائے گئے جو صرف پی ٹی آئی مخالف جماعتوں کے تھے۔

حلقہ این اے 254 واحد حلقہ ہے جہاں پی ٹی آئی کی کوئی بھی انتخابی مہم چلی نہ بینر، پرچم اور کیمپ نظر آئے اور اس کے تمام امیدوار معجزاتی طور پر گھر بیٹھے جیت گئے۔ جے یو آئی 50 فیصد حلقے کھولنے کا کراچی میں مطالبہ کر رہی ہے جو کبھی نہیں مانا جائے گا اور عمران خان بھی اتنے حلقے کھلوانے پر راضی نہیں ہوں گے جو ممکن بھی نہیں ہیں تو ایسے بے اعتمادی کے انتخابات کب تک ہوں گے اور الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کب اور کیسے کرائے گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں