جرم قذف کی دنیاوی و اخروی سزائیں آخری حصہ
ارشاد رسول اکرمؐ ہے ’’یہی بہتیرا جھوٹ ہے کہ آدمی سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے آگے پہنچادے‘‘۔
اسی لیے عبرت کے طور پر امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ ''اگر قاذف صدق دل سے توبہ کر لے تب بھی اس کی شہادت قبول نہیں کی جاسکتی'' رد شہادت، مرتے دم تک اس کے حق میں ذلت کا طوق بنا رہے۔
قاذف کو فاسق کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس کی ذات پر ذلت اور اذیت کی مہر تصدیق ثبت کردی تاوقتیکہ وہ توبہ نہ کرے یہ وہ بدکار اور نافرمان لوگ ہیں جو حکم الٰہی کی بے حرمتی کرتے ہوئے ذرا برابر عار محسوس نہیں کرتے۔ ''سوائے ان لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہوجائیں اور اصلاح کرلیں کہ اللہ ضرور ان کے حق میں غفور و رحیم ہے'' (النور4)
(4)کسی عصمت، عزت اور عفت والی عورت پر بدکاری کی تہمت لگانے والا صریحاً افکِ مبین کا مرتکب ہے۔ اس لیے قاذف، فاسق ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کی نظر میں کاذب بھی ہے۔
(5)قاذف پر دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دونوں جگہ لعنت اور سخت عذاب ہے۔ سخت ترین لفظ لعنت، بد ترین گناہ کذب و قذف کے مرتکبین کے سوا شرع میں کسی کے حق میں روا نہیں۔ ''جو لوگ پاک دامن، بے خبر، مومن عورتوں پر بہتان لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے'' النور 23)
(6)قیامت کا دن بیان امر حق کا دن، قاذف کی ذلت و رسوائی کا دن اور مقذوف کی عزت افزائی اور اس کی اعلان پارسائی کا دن ہوگا۔
جرم قذف سات ہلاک کرنے والی چیزوں میں سے ایک ہے۔ جیساکہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ (1)سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے پرہیز کرو۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا یا رسول اللہ وہ کون کون سی ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، جادوکرنا، قابل احترام جان کا ناحق جاں بحق کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال ناحق کھانا، جہاد کے دن میدان چھوڑ کر بھاگ جانا اور پاک دامن ایمان دار اور برے کاموں سے بے خبر عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگانا''
نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(2)پاک دامن عورت پر تہمت لگانا سو برس کے اعمال کو غارت کردینے کے لیے کافی ہے'' (طبرانی)
ارشاد باری تعالیٰ ہے ''جھوٹی بات کہنے سے بچتے رہو (الحج 30)
ارشاد رسول اکرمؐ ہے (1)جب کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کے جھوٹ کی بدبو سے ایک میل دور چلاجاتا ہے'' (ترمذی)
(2)جو شخص اللہ پر اور روز جزا پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے(صحیح مسلم)
ارشاد باری تعالیٰ ہے (1) ''اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچادو پھر تم کو اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے'' (الحجرات6)
(2)جس وقت تم لوگوں نے اسے سناتھا اسی وقت کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے(ذرا غور تو کرو اس وقت تم کیسی سخت غلطی کررہے تھے) جب کہ تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس جھوٹ کو لیتی چلی جارہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جارہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہیں تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ''ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا۔ سبحان اللہ یہ تو ایک بہتان عظیم ہے'' اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آیندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو'' مومن کی پہچان یہ ہے کہ جب تک اسے کسی خبر کے سچ ہونے پر یقین اور اطمینان نہیں ہوجاتا خاموش زبان رہتا ہے(النور 12 تا 16)
ارشاد رسول اکرمؐ ہے ''یہی بہتیرا جھوٹ ہے کہ آدمی سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے آگے پہنچادے''
نیکی ہو یا بدی، باہمی تعاون اور اشتراکِ عمل کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتی اسی طرح خبر سچی ہو یا جھوٹی زبان کے بغیر پرواز نہیں کرسکتی، ہر خبر زبان کے ذریعے پرواز کرتی ہے اور یکے بعد دیگرے تک پہنچتی، جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی جاتی ہے، فاسق کسی کی پارسائی کو رسوائی، نیک نامی کو بدنامی، عزت کو ذلت میں بدلنے، حیثیت عرفی کو زائل کرنے کا کھیل زبان ہی کے ذریعے کھیلتا ہے اور اس کھیل میں پہلے کچے کانوں کو استعمال کرتا ہے اور جب ایک بات کی شہرت تشت از بام ہوجاتی ہے تو پکے کان والے بھی بہ تقاضائے بشری کم یا زیادہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مقذوف کی نیک چلنی سے متعلق بد گمانی، بد ظنی اور غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
حقیقت حال سامنے آنے تک اس کی سیرت پر جو منفی اثرات مرتب ہوچکے ہوتے ہیں ان کا اثر زائل ہوتے ہوتے ہوتا ہے وہ روتا رہتا ہے قاذف کمینہ ہنستا رہتا ہے۔ لیکن اگر الزام لگانے والے اور جس پر الزام لگایا جارہاہے دونوں کا آنکھ کے نور سے نہیں دل کے نور سے موازنہ تکزیہ اور تجزیہ کرلیا جائے تو سچ اور جھوٹ کا پتا لگ سکتا ہے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوسکتا ہے۔ قرآن اہل ایمان کی یہ شان بیان کرتا ہے کہ جب تک وہ کسی بول کو تول نہیں لیتے اس کے متعلق بولتے نہیں۔
خاموش رہنا بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ ایک اڑتی ہوئی خبر میں ناحق ہونے کا شک بہر حال موجود ہوتا ہے جب تک یقین اور اطمینان نہیں ہوجاتا تذکرہ اور تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس طرح اہل ایمان کی موجودگی میں منافق اور فاسق کی کسی نیک چلنی کے خلاف کردار کشی کی بیل منڈھے چڑھتے نظر نہیں آتی۔ انسان جو کچھ بولتا ہے فرشتے اس کو اس کے اعمال نامہ میں لکھتے جاتے ہیں۔ لہٰذا انسان ہر ہر لفظ کے لیے بارگاہ ربانی میں جوابدہ ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(1)وہ (انسان) جو لفظ بولتا ہے اس کے پاس ایک محافظ تیار رہتا ہے'' (ق)
(2)نامۂ اعمال پیش ہوگا تو اس میں جو کچھ لکھا ہوگا تم دیکھوگے کہ مجرم اس سے ڈریںگے اور کہیںگے کہ ہائے افسوس! اس کتاب کا کیا حال ہے کہ کوئی چھوٹی یا بڑی بات نہیں چھوڑتی سب اس میں موجود ہے جو کچھ انھوں نے عمل کیے تھے ان سب کو وہ حاضر پائیںگے(الکہف)
(3)''ایمان والو! بہت تہمت لگانے سے بچو درحقیقت بعض تہمت گناہ ہیں'' (الحجرات)
رسول اکرمؐ نے فرمایا:
(1) ''تہمت لگانے سے بچو کیونکہ تہمت لگانا سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے''
(2)''بد گمانی کے ذریعے برے لوگوں سے اپنی حفاظت کرو'' (طبرانی)
ہے قول رسول اللہؐ عباد اللہ ہیں مثل عیال اللہ، خالق کو ہے وہ بندہ پیارا، مخلوق ہے جس کی آنکھوں کا تارا۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا ''ساری مخلوق اللہ کی عیال ہے اور اللہ سب سے زیادہ محبت اس سے کرتا ہے جو اس کی عیال کو سب سے زیادہ محبوب رکھتا ہے'' (بیہقی)
والدین اپنی اولاد کے خالق مجازی ہوتے ہیں۔ اس حقیقت مجاز میں ایک لابیاں بالائے وہم و گمان نسبت محبت نہاں ہوتی ہے۔ کامیابی اولاد کو ہوتی ہے خوشی والدین کو پہنچتی ہے۔ ناکامی اولاد کو ہوتی ہے غم ماں باپ کو ہوتا ہے۔ جو ان کی اولاد سے محبت کرتا ہے والدین اس سے محبت کرتے ہیں جو ان کی اولاد سے نفرت کرتا ہے والدین اس سے نفرت کرتے ہیں اعلیٰ ہذاالقیاس۔
اللہ تعالیٰ جو خالق حقیقی ہے وہ ماں باپ کی محبت سے کہیں زیادہ اس سے محبت کرتا ہے جو اس کی عیال کی عزت و آبرو کا خیال رکھتے ہیں اور ماں باپ کی نفرت سے کہیں زیادہ نفرت کرتا ہے جو اس کی عیال کی عزت و آبرو سے کھیلتے ہیں ان کی ذلت و رسوائی اور بدنامی کا سامان کرتے ہیں۔ سینہ میں لیے کینہ ان کی عزت و شہرت سے جلتے رہتے ہیں۔ بقول رسول برحقؐ ''جو ایسا کرے گا، اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرے گا اور جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ یہ سلوک کرے گا اسے اس کے گھر میں رسوا کردے گا'' کیونکہ خالق مجازی سے کہیں زیادہ خالق حقیقی کو اپنی عیال کی عزت و آبرو کا خیال ہے۔