ٹریفک مسائل اور آئی جی ٹریفک
جہاں پر اسپتالیں، اسکول، کالج اور مارکیٹ ہیں وہاں پر ٹریفک والے نظر تو آتے ہیں مگر انھیں شاید پاور نہیں ہے۔
لاہور:
پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ترقی ہورہی ہے مگر ہمارے پاس ترقی اور مسائل ایک دوسرے کے ساتھ چل رہے ہیں جب کہ دوسرے ممالک میں مسائل کم اور ترقی زیادہ ہے کیونکہ وہاں پر قانون کی بالادستی ہے اور کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں ہے۔ جیسا کہ میں کراچی میں رہتا ہوں اور سندھ کے باقی علاقوں میں بھی جانا ہوتا ہے۔ اس وقت میں صرف ٹریفک کے مسائل اور سہولیات کے بارے میں کچھ لکھوں گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں ضرورت کے مطابق عملہ نہیں ہے مگر جو بھی ہے اسے درست طریقے سے تربیت دی جائے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھار ڈی آئی جی ٹریفک اور ایس ایس پی ٹریفک کو بھی اپنے عملے کی کارکردگی کو چیک کرنے کے لیے اپنے اے سی دفتروں سے باہر نکلیں اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ میں اکثر اپنی گاڑی کم استعمال کرتا ہوں اور زیادہ تر بس یا پھر چنگ چی نما رکشے استعمال کرتا ہوں جس کی سہولت عوام کے لیے ایک تحفہ ہے جس میں ایک تو بیٹھنے کی جگہ مل جاتی ہے، جیب کٹنے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا اور وہ اسٹاپ پر کھڑی نہیں رہتے اور دس روپے سے لے کر 20 روپے تک سفر آسانی سے کٹ جاتا ہے۔
اس چنگ چی نما سواری میں عورتوں کے لیے بھی ایک بڑی سہولت ہے خاص طور پر جب عورتیں گلستان جوہر میں میلینم، طارق روڈ، بہادر آباد، ملیر، نیوکراچی، بورڈ آفس، آغا خان ہاسپٹل، لیاقت نیشنل اسپتال، نیپا، حسن اسکوائر، صدر، لالوکھیت، قیوم آباد اور دوسری جگہ جاتی ہیں تو انھیں پیسوں کی بچت بھی ہوتی ہے اور سیکیورٹی بھی محسوس کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ طلبا و طالبات اپنے کالج اور یونیورسٹی جانے کے لیے اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اب یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ پولیس میں کچھ کالی بھیڑیں جو بڑی رقم دے کر اپنی پوسٹ کمائی والے علاقے میں کرواتے ہیں جس میں کچھ سیاسی لیڈر اورکچھ بیوروکریٹ بھی شامل ہیں جنھیں صرف رشوت کھانے سے کام ہے اور انھیں عوام کی سہولت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں میلینم سے نیو ٹاؤن کے راستے لیاقت لائبریری آتا ہوں جہاں پر سندھ اور اس میں رہنے والے لوگوں کی خدمت کی خاطر تحقیق کرکے عام آدمی میں اپنے شخصیات کے بارے میں اخباروں میں کالم اور آرٹیکل لکھ کر معلومات اور جانکاری دیتا ہوں تاکہ انھیں پتا لگے کہ ہمارے لوگ کتنے قابل تھے اور ہیں جنھوں نے اپنی زندگی علم، ادب اور لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کردی۔
لیاقت نیشنل لائبریری جو پی ٹی وی کراچی اسٹیشن کے ساتھ واقع ہے جہاں پر طلبا و طالبات کتابیں پڑھنے اور علم حاصل کرنے آتے ہیں جس میں سی ایس ایس کی تیاری کرنے والے بھی ہیں۔ ان میں غریب طلبا و طالبات زیادہ ہیں جنھیں اپنی سواری نہیں ہے اس لیے وہ چنگ چی نما رکشہ لیے آتے جاتے ہیں۔ اب تقریباً ایک مہینے سے اس روٹ پر اس سواری کو بند کردیاگیا ہے، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ اڈے والوں کے ساتھ روزانہ بھتے کا چکر ہے، اس سلسلے میں جب نیو ٹاؤن ٹریفک پولیس کے دفترگئے کہ کیا وجہ ہے کہ عوام کی یہ سہولت بند ہوگئی ہے۔ میں نے انھیں اپنا کارڈ دیتے ہوئے کہاکہ وہ اس سلسلے میں بتائیں اور اگر کوئی مسئلہ زیادہ ہے تو ہم اوپر بات کریں۔پولیس افسر بجائے کچھ بات کرنے کے بد تمیزی سے پیش آتے ہوئے کہنے لگے کہ تم اوپر جاؤگے؟ اور Misbehave کرنے لگے۔
اس رویے کو دیکھ کر میں حیران ہوگیا کہ بجائے وہ مجھ سے میری مشکل پوچھتے یا بات کرتے وہ الٹا لڑنے لگے۔ کیا یہ پولیس عوام کی خدمت کرنے کے لیے ہے یا لڑنے کے لیے ۔ پولیس کی یونیفارم پہن کر اس کے تقدس کو اس طرح پامال کرنا اور پولیس گردی دکھانا میری سوچ سے باہر ہے۔ اس طرح کے پولیس افسران کو سرکاری نوکری میں عام آدمی تو دور رہا اس کا ایک رائٹر ، صحافی، بزرگ اور پڑھے لکھے انسان سے اس طرح پیش آنا پولیس پر ایک بد نما دھبہ ہے جس کا نہ صرف نوٹس لیا جائے بلکہ اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
اگر چنگ چی والوں کا کوئی مسئلہ ہے تو وہ صرف نیو ٹاؤن کی ایریا میں کیوں ہے جب کہ باقی سارے علاقوں میں چل رہی ہیں اس روٹ پر دو بڑے اسپتال ہیں دو تین لڑکیوں کے کالج ہیں پی ٹی وی کا مرکز ہے اور پھر کئی بزنس مراکز ہیں۔ اس روٹ پر صرف ایک PI مزدا چلتی ہے جب کہ ٹھٹھہ اور کھوکھرا پار کی بڑی بسیں چلتی ہیں اور باقی کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ اسپتالوں کے لیے آنے جانے والے مریضوں اور ان سے ملنے والوں کے لیے اس طرح کی سواری ایک غنیمت ہے جسے چھین کر نہ صرف روزی کمانے والے مزدوروں کے منہ سے رزق کا نوالہ چھیننے کی کوشش کی ہے بلکہ طلبا و طالبات اور دوسرے غریب عوام سے سستی اور سیدھی ٹرانسپورٹ کی سہولت ختم کروائی ہے جو عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔
اس کے علاوہ اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ جتنی بھی بڑی گاڑیاں ہیں وہ سیدھے فاسٹ ٹریک پر چل رہی ہیں جس کی وجہ سے چھوٹی گاڑیوں کو چلنے میں دشواری ہوتی ہے جب کہ ایک خطرناک بات یہ ہے کہ اب پورے کراچی میں لوگ رنگ سائیڈ آرہے ہیں وہ بھی بڑی Speed کے ساتھ جس کے نتیجے میں کئی حادثات ہوئے ہیں۔ گلستان جوہر چورنگی اور دوسری چورنگیوں پر رکشے، چنگ چی اور مزدہ والے پورا روڈ گھیر لیتے ہیں اور وہاں سے پیدل چلنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ میلینم مال، طارق روڈ، صدر ایمپریس مارکیٹ اور کراچی کی ہر جگہ رکشے اور گاڑیاں ڈبل سے ٹرپل پارک کی جاتی ہیں جس سے ٹریفک جام ہوجاتی ہے اور گھنٹوں کھڑا ہونا پڑتا ہے جس سے عام آدمی کا قیمتی وقت ضایع ہوجاتا ہے۔
جہاں پر اسپتالیں، اسکول، کالج اور مارکیٹ ہیں وہاں پر ٹریفک والے نظر تو آتے ہیں مگر انھیں شاید پاور نہیں ہے جس کی وجہ سے کسی کو کچھ کہہ نہیں پاتے۔ ایک سردرد شہر میں اتوار، منگل، بدھ اور جمعہ بازاروں نے عام آدمی کا جینا حرام کردیا ہے، ان بازاروں کے چاروں طرف ریڑھی والے، گدھا گاڑی والے سروس روڈ اور مین روڈ جام کردیتے ہیں جس کی وجہ سے آنے جانے والوں کے لیے گزرنا دشوار اور عذاب بنا ہوا ہے۔ کھانے پینے کے ہوٹل بھی رکشوں اور گاڑیوں کی وجہ سے راستے بند کردیتے ہیں جس کی وجہ سے خاص طور پر خواتین اور بزرگ لوگوں کا وہاں سے گزرنا مشکل کردیتے ہیں۔
اب صبح ہوتے ہی ٹرک سروس روڈ پر ڈیرہ ڈال دیتے ہیں اور شام ہوتے ہی سروس روڈ اور مین روڈ پر کوسٹر قبضہ کرلیتے ہیں۔ جب کوئی نیا افسر آتا ہے تو ایک دو دن کے لیے انھیں ہٹایاجاتا ہے پھر بات بن جانے کے بعد پھر قبضہ بحال ہوجاتا ہے۔ کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ کرپٹ افسران کے خلاف بھی مہم چلنی چاہیے اور ان سے پوچھا جائے کہ ان کی تنخواہ کیا ہے اور ملکیت کتنی ہے شاید عمران خان اس عمل کو جلد شروع کردیں ویسے جو لوگ اپنے بچوں کو رشوت کے پیسے سے پالتے ہیں وہ اولاد ماں باپ کے لیے عذاب لاتی ہے جس کی سزا نہ صرف اس دنیا میں ملتی ہے بلکہ آخرت میں بھی دوزخ میں جلتے رہیںگے۔
پہلے کوئی بھی ٹریفک کی Violation کرتا تھا تو وہ کچھ رقم دے کر اپنی جان چھڑواتا تھا جس سے حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ملتا تھا اب چالان کرنے پر ٹریفک والوں کو کچھ Percentage ملتا ہے مگر کچھ افسران تو ایسے بھی ہیں جن کی بھوک شاید زندگی بھر پوری نہیں ہوگی اور وہ اپنے لیے جہنم خریدنے کے لیے رشوت لیتے ہیں اس وقت کئی راشی افسران جیل میں ہیں یا پھر رشوت کیس میں کورٹوں کے چکر کاٹ رہے ہیں جس سے ان کی عزت و ناموس خاک میں مل چکی ہے۔ اصلی کام تو انسان کی خدمت کرنا ہے اگر وہ نہیں کرسکتے تو کم از کم انسان اور انسانیت کے لیے راہ میں رکاوٹیں تو پیدا نہ کی جائیں۔آئی جی ٹریفک سے گزارش ہے کہ وہ اپنے محکمے میں بہتری لانے کے لیے نکل پڑیں اور عوام کو ستانے اور نا انصافی کرنے والوں کے خلاف قدم اٹھائیں۔
پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ترقی ہورہی ہے مگر ہمارے پاس ترقی اور مسائل ایک دوسرے کے ساتھ چل رہے ہیں جب کہ دوسرے ممالک میں مسائل کم اور ترقی زیادہ ہے کیونکہ وہاں پر قانون کی بالادستی ہے اور کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں ہے۔ جیسا کہ میں کراچی میں رہتا ہوں اور سندھ کے باقی علاقوں میں بھی جانا ہوتا ہے۔ اس وقت میں صرف ٹریفک کے مسائل اور سہولیات کے بارے میں کچھ لکھوں گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں ضرورت کے مطابق عملہ نہیں ہے مگر جو بھی ہے اسے درست طریقے سے تربیت دی جائے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھار ڈی آئی جی ٹریفک اور ایس ایس پی ٹریفک کو بھی اپنے عملے کی کارکردگی کو چیک کرنے کے لیے اپنے اے سی دفتروں سے باہر نکلیں اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ میں اکثر اپنی گاڑی کم استعمال کرتا ہوں اور زیادہ تر بس یا پھر چنگ چی نما رکشے استعمال کرتا ہوں جس کی سہولت عوام کے لیے ایک تحفہ ہے جس میں ایک تو بیٹھنے کی جگہ مل جاتی ہے، جیب کٹنے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا اور وہ اسٹاپ پر کھڑی نہیں رہتے اور دس روپے سے لے کر 20 روپے تک سفر آسانی سے کٹ جاتا ہے۔
اس چنگ چی نما سواری میں عورتوں کے لیے بھی ایک بڑی سہولت ہے خاص طور پر جب عورتیں گلستان جوہر میں میلینم، طارق روڈ، بہادر آباد، ملیر، نیوکراچی، بورڈ آفس، آغا خان ہاسپٹل، لیاقت نیشنل اسپتال، نیپا، حسن اسکوائر، صدر، لالوکھیت، قیوم آباد اور دوسری جگہ جاتی ہیں تو انھیں پیسوں کی بچت بھی ہوتی ہے اور سیکیورٹی بھی محسوس کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ طلبا و طالبات اپنے کالج اور یونیورسٹی جانے کے لیے اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اب یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ پولیس میں کچھ کالی بھیڑیں جو بڑی رقم دے کر اپنی پوسٹ کمائی والے علاقے میں کرواتے ہیں جس میں کچھ سیاسی لیڈر اورکچھ بیوروکریٹ بھی شامل ہیں جنھیں صرف رشوت کھانے سے کام ہے اور انھیں عوام کی سہولت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں میلینم سے نیو ٹاؤن کے راستے لیاقت لائبریری آتا ہوں جہاں پر سندھ اور اس میں رہنے والے لوگوں کی خدمت کی خاطر تحقیق کرکے عام آدمی میں اپنے شخصیات کے بارے میں اخباروں میں کالم اور آرٹیکل لکھ کر معلومات اور جانکاری دیتا ہوں تاکہ انھیں پتا لگے کہ ہمارے لوگ کتنے قابل تھے اور ہیں جنھوں نے اپنی زندگی علم، ادب اور لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کردی۔
لیاقت نیشنل لائبریری جو پی ٹی وی کراچی اسٹیشن کے ساتھ واقع ہے جہاں پر طلبا و طالبات کتابیں پڑھنے اور علم حاصل کرنے آتے ہیں جس میں سی ایس ایس کی تیاری کرنے والے بھی ہیں۔ ان میں غریب طلبا و طالبات زیادہ ہیں جنھیں اپنی سواری نہیں ہے اس لیے وہ چنگ چی نما رکشہ لیے آتے جاتے ہیں۔ اب تقریباً ایک مہینے سے اس روٹ پر اس سواری کو بند کردیاگیا ہے، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ اڈے والوں کے ساتھ روزانہ بھتے کا چکر ہے، اس سلسلے میں جب نیو ٹاؤن ٹریفک پولیس کے دفترگئے کہ کیا وجہ ہے کہ عوام کی یہ سہولت بند ہوگئی ہے۔ میں نے انھیں اپنا کارڈ دیتے ہوئے کہاکہ وہ اس سلسلے میں بتائیں اور اگر کوئی مسئلہ زیادہ ہے تو ہم اوپر بات کریں۔پولیس افسر بجائے کچھ بات کرنے کے بد تمیزی سے پیش آتے ہوئے کہنے لگے کہ تم اوپر جاؤگے؟ اور Misbehave کرنے لگے۔
اس رویے کو دیکھ کر میں حیران ہوگیا کہ بجائے وہ مجھ سے میری مشکل پوچھتے یا بات کرتے وہ الٹا لڑنے لگے۔ کیا یہ پولیس عوام کی خدمت کرنے کے لیے ہے یا لڑنے کے لیے ۔ پولیس کی یونیفارم پہن کر اس کے تقدس کو اس طرح پامال کرنا اور پولیس گردی دکھانا میری سوچ سے باہر ہے۔ اس طرح کے پولیس افسران کو سرکاری نوکری میں عام آدمی تو دور رہا اس کا ایک رائٹر ، صحافی، بزرگ اور پڑھے لکھے انسان سے اس طرح پیش آنا پولیس پر ایک بد نما دھبہ ہے جس کا نہ صرف نوٹس لیا جائے بلکہ اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
اگر چنگ چی والوں کا کوئی مسئلہ ہے تو وہ صرف نیو ٹاؤن کی ایریا میں کیوں ہے جب کہ باقی سارے علاقوں میں چل رہی ہیں اس روٹ پر دو بڑے اسپتال ہیں دو تین لڑکیوں کے کالج ہیں پی ٹی وی کا مرکز ہے اور پھر کئی بزنس مراکز ہیں۔ اس روٹ پر صرف ایک PI مزدا چلتی ہے جب کہ ٹھٹھہ اور کھوکھرا پار کی بڑی بسیں چلتی ہیں اور باقی کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ اسپتالوں کے لیے آنے جانے والے مریضوں اور ان سے ملنے والوں کے لیے اس طرح کی سواری ایک غنیمت ہے جسے چھین کر نہ صرف روزی کمانے والے مزدوروں کے منہ سے رزق کا نوالہ چھیننے کی کوشش کی ہے بلکہ طلبا و طالبات اور دوسرے غریب عوام سے سستی اور سیدھی ٹرانسپورٹ کی سہولت ختم کروائی ہے جو عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔
اس کے علاوہ اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ جتنی بھی بڑی گاڑیاں ہیں وہ سیدھے فاسٹ ٹریک پر چل رہی ہیں جس کی وجہ سے چھوٹی گاڑیوں کو چلنے میں دشواری ہوتی ہے جب کہ ایک خطرناک بات یہ ہے کہ اب پورے کراچی میں لوگ رنگ سائیڈ آرہے ہیں وہ بھی بڑی Speed کے ساتھ جس کے نتیجے میں کئی حادثات ہوئے ہیں۔ گلستان جوہر چورنگی اور دوسری چورنگیوں پر رکشے، چنگ چی اور مزدہ والے پورا روڈ گھیر لیتے ہیں اور وہاں سے پیدل چلنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ میلینم مال، طارق روڈ، صدر ایمپریس مارکیٹ اور کراچی کی ہر جگہ رکشے اور گاڑیاں ڈبل سے ٹرپل پارک کی جاتی ہیں جس سے ٹریفک جام ہوجاتی ہے اور گھنٹوں کھڑا ہونا پڑتا ہے جس سے عام آدمی کا قیمتی وقت ضایع ہوجاتا ہے۔
جہاں پر اسپتالیں، اسکول، کالج اور مارکیٹ ہیں وہاں پر ٹریفک والے نظر تو آتے ہیں مگر انھیں شاید پاور نہیں ہے جس کی وجہ سے کسی کو کچھ کہہ نہیں پاتے۔ ایک سردرد شہر میں اتوار، منگل، بدھ اور جمعہ بازاروں نے عام آدمی کا جینا حرام کردیا ہے، ان بازاروں کے چاروں طرف ریڑھی والے، گدھا گاڑی والے سروس روڈ اور مین روڈ جام کردیتے ہیں جس کی وجہ سے آنے جانے والوں کے لیے گزرنا دشوار اور عذاب بنا ہوا ہے۔ کھانے پینے کے ہوٹل بھی رکشوں اور گاڑیوں کی وجہ سے راستے بند کردیتے ہیں جس کی وجہ سے خاص طور پر خواتین اور بزرگ لوگوں کا وہاں سے گزرنا مشکل کردیتے ہیں۔
اب صبح ہوتے ہی ٹرک سروس روڈ پر ڈیرہ ڈال دیتے ہیں اور شام ہوتے ہی سروس روڈ اور مین روڈ پر کوسٹر قبضہ کرلیتے ہیں۔ جب کوئی نیا افسر آتا ہے تو ایک دو دن کے لیے انھیں ہٹایاجاتا ہے پھر بات بن جانے کے بعد پھر قبضہ بحال ہوجاتا ہے۔ کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ کرپٹ افسران کے خلاف بھی مہم چلنی چاہیے اور ان سے پوچھا جائے کہ ان کی تنخواہ کیا ہے اور ملکیت کتنی ہے شاید عمران خان اس عمل کو جلد شروع کردیں ویسے جو لوگ اپنے بچوں کو رشوت کے پیسے سے پالتے ہیں وہ اولاد ماں باپ کے لیے عذاب لاتی ہے جس کی سزا نہ صرف اس دنیا میں ملتی ہے بلکہ آخرت میں بھی دوزخ میں جلتے رہیںگے۔
پہلے کوئی بھی ٹریفک کی Violation کرتا تھا تو وہ کچھ رقم دے کر اپنی جان چھڑواتا تھا جس سے حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ملتا تھا اب چالان کرنے پر ٹریفک والوں کو کچھ Percentage ملتا ہے مگر کچھ افسران تو ایسے بھی ہیں جن کی بھوک شاید زندگی بھر پوری نہیں ہوگی اور وہ اپنے لیے جہنم خریدنے کے لیے رشوت لیتے ہیں اس وقت کئی راشی افسران جیل میں ہیں یا پھر رشوت کیس میں کورٹوں کے چکر کاٹ رہے ہیں جس سے ان کی عزت و ناموس خاک میں مل چکی ہے۔ اصلی کام تو انسان کی خدمت کرنا ہے اگر وہ نہیں کرسکتے تو کم از کم انسان اور انسانیت کے لیے راہ میں رکاوٹیں تو پیدا نہ کی جائیں۔آئی جی ٹریفک سے گزارش ہے کہ وہ اپنے محکمے میں بہتری لانے کے لیے نکل پڑیں اور عوام کو ستانے اور نا انصافی کرنے والوں کے خلاف قدم اٹھائیں۔