ڈیئر خان صاحب
آپ اپنے سیاسی کیریئر ہی کا نہیں، زندگی کا بھی نیا اور بے حد مختلف مرحلہ شروع کرنے والے ہیں۔
ڈیئر خان صاحب!
مبارک باد۔
ہزار اندیشے، وہم اور وسوسے پیدا ہوئے یا کیے گئے، لیکن 2018ء کے انتخابات خیر و خوبی سے منعقد ہوئے اور آپ کی توقعات اور امنگوں کے مطابق نتائج بھی آگئے۔ آپ کے بقول گزشتہ بیس اکیس برس سے آپ جس مقصد کی تکمیل کے لیے جدوجہد کررہے تھے، وہ اب حقیقت کی صورت میں آپ کے سامنے ہے۔ ویسے ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ کی سیاسی جستجو کا زمانہ لگ بھگ ربع صدی کو محیط ہے۔
یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں آپ سے کم و بیش اکیس سال پہلے کی وہ ملاقات پوری تفصیلات کے ساتھ یاد ہے جو ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی کے کانفرنس روم میں ہوئی تھی۔ آپ وہاں اپنی سیاسی جماعت (تحریکِ انصاف) کی تشہیری مہم کے لیے آئے تھے۔ آپ کی فرمائش تھی کہ کم سے کم بجٹ میں اس کام کو کیا جائے۔ کمپنی نے بہت احتیاط کے ساتھ تشہیری مہم کا تخمینہ لگایا تھا جو کہ دو سوا دو کروڑ روپے کے لگ بھگ تھا۔ اس عرصے میں ہمارے سیاست دانوں کے قرض اٹھانے کے شوق، ایکسپورٹ کی رفتہ رفتہ گرتی ہوئی شرح اور ڈالر کی مار نے ہماری معاشی صورتِ حال کو دگرگوں کرکے دکھ دیا ہے۔ آج کروڑ دو کروڑ کی کوئی اوقات ہی نہیں رہ گئی، لیکن بیس بائیس برس پہلے یہ خاصی معقول رقم تھی۔
تشہیری مہم کے لیے یہ تخمینہ آپ کو زیادہ معلوم ہوا تھا، اس لیے اُس کمپنی سے آپ اشتہاری مہم کا معاہدہ نہیں کر پائے تھے۔ جہانگیر ترین جیسے احباب بھی تو اُس وقت آپ کے ساتھ نہیں تھے۔ خیر، تو کہنے والی بات یہ ہے کہ آپ بیس بائیس برس سے زائد عرصے سے سیاست کے خارزار میں کشاں کشاں جس منزل کی سمت رواں تھے، یعنی ملک کی وزارتِ عظمیٰ، وہ اب آپ سے صرف حلف برداری کے فاصلے پر ہے۔ یہ سفر دشوار اور منزل سخت کٹھن تھی، لیکن آپ نے استقامت سے جستجو جاری رکھی اور بالآخر منزل کو پالیا۔ ایک بار پھر مبارک باد۔
آپ اپنے سیاسی کیریئر ہی کا نہیں، زندگی کا بھی نیا اور بے حد مختلف مرحلہ شروع کرنے والے ہیں۔ حقائق، واقعات، تجربات اور مشاہدات بتاتے ہیں کہ یہ کانٹوں کی سیج یا انگاروں کا تخت ہے جس پر آپ اب جلد ہی براجمان ہوں گے۔ ہاں، مگر اُن لوگوں کے لیے جو ذاتی خواہشوں اور حسرتوں کی تکمیل کے لیے یہاں تک نہیں پہنچتے، بلکہ اپنے عوام، اپنے لوگوں اور ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ جو موقع پرست اور ذاتی منفعت کے خواہش مند سیاست اور اقتدار کی طرف آتے ہیں، وہ اسے پھولوں کی سیج سمجھتے اور اسی ذہن کے ساتھ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جو ملک و قوم کی خدمت کا خواہش مند ہے، سیاست و اقتدار اسی کے لیے آزمائش بنتی ہے۔ گویا:
اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
آپ نے چوںکہ ہمیشہ قوم کی خدمت کے جذبے اور عزم کا اظہار کیا ہے، اس لیے یہ بات آپ کو اب واضح طور پر اور قطعیت کے ساتھ سمجھ لینی چاہیے۔ دُشواریاں اپنی جگہ، لیکن اپنی قوم کو گرداب سے نکالنا اور ملک کو ترقی و خوش حالی کی راہ پر لے آنا کوئی ایسی اَن ہونی بات بھی نہیں ہے۔ ماؤزے تنگ اور کمال اتاترک تو چلیے ذرا سے پہلے کے زمانے کے لوگ تھے، لیکن امام خمینی، مہاتیر محمد اور طیب اردوان جیسے لوگ تو سب آپ کے سامنے کی مثالیں ہیں۔ ان لوگوں نے کس طرح اپنے وطن اور اپنی عوام کے لیے کام کیا اور اپنی تگ و دو میں سرخ رُو رہے۔ یہ سب آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا اور پھر اس کامیابی پر قوم نے کس طرح انھیں عزت اور محبت سے نہال کیا، یہ بھی آپ بخوبی جانتے ہیں۔ مطلب یہ کہ محنت رنگ لاتی ہے اور محنت کرنے والا سرفراز ہوتا ہے۔
انتخابات میں آپ کی جماعت نے سب سے زیادہ ووٹ اور سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ خود آپ نے پانچ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیا اور ریکارڈ قائم کرتے ہوئے پانچوں پر کامیاب ہوگئے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عوام نے آپ پر کس درجہ اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں بعض ایسے لوگ بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ آئے جو اگر کسی اور جماعت کی طرف سے انتخابات میں حصہ لیتے تو جیتنا بہت دور کی بات ہے، اُن کی تو ضمانتیں ضبط ہوسکتی تھیں۔ عوام بھی اُن سے خوب واقف تھے، لیکن یہ آپ کا لحاظ اور آپ پر اعتماد ہے کہ ان لوگوں کو بھی ووٹ دیے گئے اور کام یابی دلوائی گئی۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کچھ پیغامات بھی چلے جن میں لوگوں نے تفریحِ طبع کے انداز میں اپنی بھڑاس بھی نکالی تھی۔ ممکن ہے، ان میں سے کوئی پیغام آپ تک بھی پہنچ گیا ہو۔ ایک صاحب نے لکھا تھا، ''عمران خان! اللہ مجھ سے نہیں تم سے پوچھے گا کہ میں نے فلاں شخص کو ووٹ صرف تمھارے چکر میں دیا ہے۔'' بظاہر یہ بات تفریحِ طبع کی ہے، لیکن اس پر پوری سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔ کم سے کم آپ کو تو ضرور۔ اس لیے کہ یہ محض آپ کی فیس ویلیو کا معاملہ بھی نہیں ہے، بل کہ آپ جس جذبے، عزم اور مقصد کے لیے تگ و دو کرتے رہے ہیں، یہ اُس کی سرخ روئی اور تکمیل کا مسئلہ ہے۔ بات تو عامیانہ سی ہے، لیکن ہے معنی خیز، اس لیے ہم کہے دیتے ہیں۔
دیکھیے جس طرح کہا جاتا ہے کہ شادی ایک جوا ہوتی ہے اور کچھ لوگ یہ جوا کھیلنے سے پہلے ہی ہار جاتے ہیں۔ اسی طرح الیکشن بھی ایک جوا ہے جو عوام اور سیاسی راہ نما مل کر کھیلتے ہیں اور بعض رہنما یہ جوا کھیلنے سے پہلے ہی ہار جاتے ہیں۔ اسی لیے کہ وہ اپنے جذبے اور مقصد میں تو بے شک سچے ہوتے ہیں، لیکن تاش کے پتوں کی طرح اُن کے ہاتھ بھی بعض اوقات نہایت ناقص ساتھی آجاتے ہیں جو انھیں لے ڈوبتے ہیں۔ خدا نہ کرے آپ کے ساتھ ایسا ہو۔
سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے آپ نے انتخابات کے بعد جو تقریر کی وہ اچھی تھی۔ آپ نے توازن، متانت اور بردباری کا مظاہرہ کیا۔ ملکی صورتِ حال اور سیاسی مخالفین کے بارے میں آپ نے اپنے سیاسی جلسوں کے برعکس خاصی ذمے داری سے گفتگو کی۔ عالمی سیاست کے بارے میں بھی آپ کی باتیں سیاسی شعور کی حامل تھیں۔ ہندوستان، ایران اور افغانستان کے حوالے سے بھی آپ کا رویہ مثبت اور مدبرانہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے عوامی حلقوں نے ہی صرف اس کو نہیں سراہا، بلکہ بیرونِ ملک بھی اسے قابلِ توجہ اور لائقِ ستائش سمجھا گیا۔ قوم آپ سے آئندہ بھی ایسی ہی بردباری، پختگی، ذمے داری اور متانت کی توقع رکھتی ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جان پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
آپ کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ خود کو بار بار اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتے رہیے۔ خاص طور پر اس وقت جب آپ کسی مسئلے یا مخالفت سے دوچار ہوں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سیاسی جلسے کسی بھی جماعت کے لیے دراصل اپنی عوامی قوت کے مظاہرے کا تقاضا کرتے ہیں۔ وہاں وہ سب رَوا ہوتا ہے جو آپ بھی اپنے جلسوں میں مسلسل کرتے رہے ہیں، لیکن اب آپ کی سیاسی زندگی کا وہ مرحلہ گزر گیا۔ اب آپ اختیار و اقتدار کی طاقت سے متصف ہیں۔ طاقت کے منصب پر آنے کے بعد لازمی ہے کہ آدمی تحمل، برداشت، رواداری اور اجتماعی مفاد کو ہر لمحہ ملحوظِ خاطر رکھے۔ آپ کی اس تقریر نے یہی تأثر دیا ہے جو یقینا خوش کن اور امید افزا ہے۔ آپ کا یہ اندازِنظر آگے بھی اسی طرح برقرار رہے، ضرورت اس بات کی ہے۔
ملک کی صورتِ حال کو معاشی، سیاسی، اخلاقی، سماجی اور ترقیاتی، یعنی کسی بھی پہلو سے سامنے رکھا جائے، بہت سے معاملات سنجیدہ اور اصلاح طلب نظر آتے ہیں۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ آپ کو اقتدار سنبھالتے ہی متعدد آزمائشوں کا سامنا ہوگا، لیکن ظاہر ہے، آپ ان سب حالات سے پہلے ہی سے بخوبی واقف ہیں۔ تبھی تو آپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں اپنی حکومت کے پہلے سو دن میں انجام دیے جانے والے کاموں کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا۔ دیکھیے ہم صاف لفظوں میں کہے دیتے ہیں کہ سو دن میں آپ نے ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ مکانات جیسے جو اعلانات کیے ہیں، وہ شاید ناممکن تو نہ ہوں، لیکن ان کو عملی جامہ پہنانا سخت کارِ دشوار ضرور ہے۔
آپ کے یہ اعلانات سن کر سنجیدہ اور بردبار لوگ خوش نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے کہ جلسوں میں ایسی باتیں نعرے لگوانے اور تالیاں پٹوانے کے لیے تو ضرور بہت مفید ہوتی ہیں، لیکن انھیں عملاً سچ کر دکھانا کارِداد۔ خاص طور سے پاکستان جیسے ملک میں جہاں عوام زندگی کی بنیادی ضرورتوں، مثلاً صاف پانی، بجلی اور کچرے کی صفائی تک سے محروم اور متنوع مسائل اور تکلیفوں سے دوچار ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو کچھ آپ نے کہا ہے، وہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ضرور ہوسکتا ہے، لیکن اُس کے لیے جتنی تگ و دو درکار ہے، وہ کچھ وقت طلب ہوگی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنے دیے ہوئے وقت میں چیزوں کو اس طرح نہیں کریں گے تو آپ کے مخالفین کو بہت کچھ کہنے اور آپ کو جھوٹا ثابت کرنے کا موقع ملے گا اور پھر عوام بھی آپ سے بدظن بھی ہونے لگیں گے۔ پہلے سو دن، پہلے سال، دوسرے سال اور پانچ سالہ دورِ حکومت کی سنجیدگی اور ذمے داری سے عملی حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کیجیے۔ اب نہایت بردباری سے حکومتی بیانیہ تشکیل دیجیے۔ عوام کو حالات اور حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے اعتماد میں لیجیے، تاکہ آپ ندامت اور عوام مایوسی سے بچ سکیں۔ حقیقت کو تسلیم کرنا اور سچائی سے حالات کا سامنا کرنا باتیں بنانے اور تاویلات پیش کرنے سے کہیں بہتر ثابت ہوتا ہے۔ عوام نے آپ پر اعتماد کیا ہے تو وہ اعتماد کو قائم بھی ضرور رکھنا چاہیں گے، لیکن اس میں آپ کی طرف سے ذمے دارانہ کردار اور بردباری کو یقینا دخل ہوگا۔
وفاق کے ساتھ ساتھ آپ خیبر پختونخواہ میں تو حکومت بنا ہی رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے بھی آپ اور آپ کے ساتھی بھاگ دوڑ کررہے ہیں۔ دو صوبوں اور مرکز کی حکومت کا مطلب ہے، اقتدار کی غیرمعمولی طاقت۔ خیال رہے، ایسے اقتدار سے عوامی توقعات اور امیدوں کا گراف بھی بہت بلند ہوجاتا ہے۔ یہ بات آپ کو ہرگز نہیں بھولنی چاہیے۔ ویسے اگر پنجاب میں آپ کی جماعت اقتدار کے بجائے حزبِ اختلاف کا کردار قبول کرلے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ آپ اس پوزیشن میں بھی وہ کچھ کرسکتے ہیں جو آپ کے مخالف نہیں کرسکتے۔
آپ کو اقتدار وفاق میں ملا ہے۔ اگر آپ وہاں ملکی ترقی اور قومی خوش حالی کے لیے اپنے عزائم کو پورا کرنے میں کامیاب رہے تو پھر اگلے انتخابات میں آپ مرکز کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی بہ آسانی اقتدار کے حامل ہوں گے۔ عوام جن سیاسی راہ نماؤں کے کردار اور کارکردگی سے مطمئن ہوں انھیں اقتدار سے کبھی الگ نہیں کرتے۔ اگر راہ نما خود چاہیں تو بھی ان کا اقتدار چھوڑنا عوام قبول نہیں کرتے اور نوے برس سے زائد کی عمر میں بھی انھیں اختیار و اقتدار سونپ کر بٹھا دیتے ہیں۔ اس وقت مہاتیر محمد کو آپ اسی پوزیشن میں دیکھ رہے ہیں۔ ویسے ایک زمانے میں آپ کی تقریروں میں اُن کا ذکر بھی آتا رہتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اب آپ عملاً بھی اس کردار کو نبھا کر دکھائیں۔
عالمی سیاسی منظرنامہ بھی آپ کے لیے بہت سے چیلینجز لیے ہوئے ہے۔ امریکا، چین، روس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ ہمارے پڑوسی، یعنی ہندوستان، افغانستان اور ایران سب کے ساتھ آپ کو سوجھ بوجھ اور ٹھہراؤ کے ساتھ معاملہ کرنا پڑے گا۔ ملک کے مسائل اور مفادات دونوں کو سامنے رکھتے ہوئے نئی اور جامع خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی کاروبار چلانے اور آئی ایم ایف سے بچنے کے مسائل اپنی جگہ توجہ طلب ہیں۔ تاہم آپ ان سب معاملات سے نہ صرف خود آگاہ ہیں، بلکہ آپ کے بعض زیرک ساتھی بھی ان کا شعور رکھتے ہیں۔ اس لیے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ آپ کی حکومت جن اقدامات کا فیصلہ کرے گی، وہ ملکی مفاد کو ہر ممکن پیشِ نظر رکھتے ہوئے کرے گی۔
آخری بات۔ آپ کے مخالفین انتخابات کے سلسلے میں تحفظات کا اظہار کررہے ہیں، بل کہ اس مسئلے پر آپ کی جماعت کو چھوڑ کر باقی سب جماعتیں متفق ہیں کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے۔ دیکھا جائے تو ہمارے یہاں یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ گذشتہ نصف صدی کا منظرنامہ اس ردِعمل کو بار بار دکھاتا رہا ہے۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد خود آپ کا ردِعمل بھی یہی تھا اور گذشتہ پانچ برس آپ اس بات کو دہراتے بھی رہے ہیں۔ تاہم ایسا کم کم ہی ہوا ہے کہ اقتدار میں آنے والی جماعت کے سوا باقی سب سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر اس طرح ہم آواز ہوں جس طرح اس وقت سیاسی جماعتیں ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اسی نوع کے مسئلے کا شکار ہوئے تھے، اور پھر اقتدار کیا انھیں تو زندگی سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔
ویسے تو آپ نے خود بھی اپنی تقریر میں کہا ہے کہ جس حلقے کے بارے میں شبہات ہیں، اُسے کھول لیا جائے گا۔ یہ واقعی اچھی بات ہے اور اگر آپ مضبوط ہیں اور سچ مچ اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں تو پھر حقیقت کی چھان پھٹک میں ہچکچاہٹ کیسی، اور تصادم کی کیا ضرورت۔ اس وقت تک جو دو تین حلقے (مثلاً سعد رفیق اور شاہد خاقان عباسی) ری چیک کیے گئے ہیں، اُن کے نتائج کون سے بدل گئے۔ ہاں آپ کے لیے تصادم سے بچنا ضروری ہے تاکہ آپ اپنی توجہ اُن کاموں پر مرکوز کرسکیں جن پر آپ کو اصل میں کرنا چاہیے۔
مبارک باد۔
ہزار اندیشے، وہم اور وسوسے پیدا ہوئے یا کیے گئے، لیکن 2018ء کے انتخابات خیر و خوبی سے منعقد ہوئے اور آپ کی توقعات اور امنگوں کے مطابق نتائج بھی آگئے۔ آپ کے بقول گزشتہ بیس اکیس برس سے آپ جس مقصد کی تکمیل کے لیے جدوجہد کررہے تھے، وہ اب حقیقت کی صورت میں آپ کے سامنے ہے۔ ویسے ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ کی سیاسی جستجو کا زمانہ لگ بھگ ربع صدی کو محیط ہے۔
یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں آپ سے کم و بیش اکیس سال پہلے کی وہ ملاقات پوری تفصیلات کے ساتھ یاد ہے جو ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی کے کانفرنس روم میں ہوئی تھی۔ آپ وہاں اپنی سیاسی جماعت (تحریکِ انصاف) کی تشہیری مہم کے لیے آئے تھے۔ آپ کی فرمائش تھی کہ کم سے کم بجٹ میں اس کام کو کیا جائے۔ کمپنی نے بہت احتیاط کے ساتھ تشہیری مہم کا تخمینہ لگایا تھا جو کہ دو سوا دو کروڑ روپے کے لگ بھگ تھا۔ اس عرصے میں ہمارے سیاست دانوں کے قرض اٹھانے کے شوق، ایکسپورٹ کی رفتہ رفتہ گرتی ہوئی شرح اور ڈالر کی مار نے ہماری معاشی صورتِ حال کو دگرگوں کرکے دکھ دیا ہے۔ آج کروڑ دو کروڑ کی کوئی اوقات ہی نہیں رہ گئی، لیکن بیس بائیس برس پہلے یہ خاصی معقول رقم تھی۔
تشہیری مہم کے لیے یہ تخمینہ آپ کو زیادہ معلوم ہوا تھا، اس لیے اُس کمپنی سے آپ اشتہاری مہم کا معاہدہ نہیں کر پائے تھے۔ جہانگیر ترین جیسے احباب بھی تو اُس وقت آپ کے ساتھ نہیں تھے۔ خیر، تو کہنے والی بات یہ ہے کہ آپ بیس بائیس برس سے زائد عرصے سے سیاست کے خارزار میں کشاں کشاں جس منزل کی سمت رواں تھے، یعنی ملک کی وزارتِ عظمیٰ، وہ اب آپ سے صرف حلف برداری کے فاصلے پر ہے۔ یہ سفر دشوار اور منزل سخت کٹھن تھی، لیکن آپ نے استقامت سے جستجو جاری رکھی اور بالآخر منزل کو پالیا۔ ایک بار پھر مبارک باد۔
آپ اپنے سیاسی کیریئر ہی کا نہیں، زندگی کا بھی نیا اور بے حد مختلف مرحلہ شروع کرنے والے ہیں۔ حقائق، واقعات، تجربات اور مشاہدات بتاتے ہیں کہ یہ کانٹوں کی سیج یا انگاروں کا تخت ہے جس پر آپ اب جلد ہی براجمان ہوں گے۔ ہاں، مگر اُن لوگوں کے لیے جو ذاتی خواہشوں اور حسرتوں کی تکمیل کے لیے یہاں تک نہیں پہنچتے، بلکہ اپنے عوام، اپنے لوگوں اور ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ جو موقع پرست اور ذاتی منفعت کے خواہش مند سیاست اور اقتدار کی طرف آتے ہیں، وہ اسے پھولوں کی سیج سمجھتے اور اسی ذہن کے ساتھ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جو ملک و قوم کی خدمت کا خواہش مند ہے، سیاست و اقتدار اسی کے لیے آزمائش بنتی ہے۔ گویا:
اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
آپ نے چوںکہ ہمیشہ قوم کی خدمت کے جذبے اور عزم کا اظہار کیا ہے، اس لیے یہ بات آپ کو اب واضح طور پر اور قطعیت کے ساتھ سمجھ لینی چاہیے۔ دُشواریاں اپنی جگہ، لیکن اپنی قوم کو گرداب سے نکالنا اور ملک کو ترقی و خوش حالی کی راہ پر لے آنا کوئی ایسی اَن ہونی بات بھی نہیں ہے۔ ماؤزے تنگ اور کمال اتاترک تو چلیے ذرا سے پہلے کے زمانے کے لوگ تھے، لیکن امام خمینی، مہاتیر محمد اور طیب اردوان جیسے لوگ تو سب آپ کے سامنے کی مثالیں ہیں۔ ان لوگوں نے کس طرح اپنے وطن اور اپنی عوام کے لیے کام کیا اور اپنی تگ و دو میں سرخ رُو رہے۔ یہ سب آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا اور پھر اس کامیابی پر قوم نے کس طرح انھیں عزت اور محبت سے نہال کیا، یہ بھی آپ بخوبی جانتے ہیں۔ مطلب یہ کہ محنت رنگ لاتی ہے اور محنت کرنے والا سرفراز ہوتا ہے۔
انتخابات میں آپ کی جماعت نے سب سے زیادہ ووٹ اور سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ خود آپ نے پانچ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیا اور ریکارڈ قائم کرتے ہوئے پانچوں پر کامیاب ہوگئے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عوام نے آپ پر کس درجہ اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں بعض ایسے لوگ بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ آئے جو اگر کسی اور جماعت کی طرف سے انتخابات میں حصہ لیتے تو جیتنا بہت دور کی بات ہے، اُن کی تو ضمانتیں ضبط ہوسکتی تھیں۔ عوام بھی اُن سے خوب واقف تھے، لیکن یہ آپ کا لحاظ اور آپ پر اعتماد ہے کہ ان لوگوں کو بھی ووٹ دیے گئے اور کام یابی دلوائی گئی۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کچھ پیغامات بھی چلے جن میں لوگوں نے تفریحِ طبع کے انداز میں اپنی بھڑاس بھی نکالی تھی۔ ممکن ہے، ان میں سے کوئی پیغام آپ تک بھی پہنچ گیا ہو۔ ایک صاحب نے لکھا تھا، ''عمران خان! اللہ مجھ سے نہیں تم سے پوچھے گا کہ میں نے فلاں شخص کو ووٹ صرف تمھارے چکر میں دیا ہے۔'' بظاہر یہ بات تفریحِ طبع کی ہے، لیکن اس پر پوری سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔ کم سے کم آپ کو تو ضرور۔ اس لیے کہ یہ محض آپ کی فیس ویلیو کا معاملہ بھی نہیں ہے، بل کہ آپ جس جذبے، عزم اور مقصد کے لیے تگ و دو کرتے رہے ہیں، یہ اُس کی سرخ روئی اور تکمیل کا مسئلہ ہے۔ بات تو عامیانہ سی ہے، لیکن ہے معنی خیز، اس لیے ہم کہے دیتے ہیں۔
دیکھیے جس طرح کہا جاتا ہے کہ شادی ایک جوا ہوتی ہے اور کچھ لوگ یہ جوا کھیلنے سے پہلے ہی ہار جاتے ہیں۔ اسی طرح الیکشن بھی ایک جوا ہے جو عوام اور سیاسی راہ نما مل کر کھیلتے ہیں اور بعض رہنما یہ جوا کھیلنے سے پہلے ہی ہار جاتے ہیں۔ اسی لیے کہ وہ اپنے جذبے اور مقصد میں تو بے شک سچے ہوتے ہیں، لیکن تاش کے پتوں کی طرح اُن کے ہاتھ بھی بعض اوقات نہایت ناقص ساتھی آجاتے ہیں جو انھیں لے ڈوبتے ہیں۔ خدا نہ کرے آپ کے ساتھ ایسا ہو۔
سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے آپ نے انتخابات کے بعد جو تقریر کی وہ اچھی تھی۔ آپ نے توازن، متانت اور بردباری کا مظاہرہ کیا۔ ملکی صورتِ حال اور سیاسی مخالفین کے بارے میں آپ نے اپنے سیاسی جلسوں کے برعکس خاصی ذمے داری سے گفتگو کی۔ عالمی سیاست کے بارے میں بھی آپ کی باتیں سیاسی شعور کی حامل تھیں۔ ہندوستان، ایران اور افغانستان کے حوالے سے بھی آپ کا رویہ مثبت اور مدبرانہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے عوامی حلقوں نے ہی صرف اس کو نہیں سراہا، بلکہ بیرونِ ملک بھی اسے قابلِ توجہ اور لائقِ ستائش سمجھا گیا۔ قوم آپ سے آئندہ بھی ایسی ہی بردباری، پختگی، ذمے داری اور متانت کی توقع رکھتی ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جان پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
آپ کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ خود کو بار بار اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتے رہیے۔ خاص طور پر اس وقت جب آپ کسی مسئلے یا مخالفت سے دوچار ہوں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سیاسی جلسے کسی بھی جماعت کے لیے دراصل اپنی عوامی قوت کے مظاہرے کا تقاضا کرتے ہیں۔ وہاں وہ سب رَوا ہوتا ہے جو آپ بھی اپنے جلسوں میں مسلسل کرتے رہے ہیں، لیکن اب آپ کی سیاسی زندگی کا وہ مرحلہ گزر گیا۔ اب آپ اختیار و اقتدار کی طاقت سے متصف ہیں۔ طاقت کے منصب پر آنے کے بعد لازمی ہے کہ آدمی تحمل، برداشت، رواداری اور اجتماعی مفاد کو ہر لمحہ ملحوظِ خاطر رکھے۔ آپ کی اس تقریر نے یہی تأثر دیا ہے جو یقینا خوش کن اور امید افزا ہے۔ آپ کا یہ اندازِنظر آگے بھی اسی طرح برقرار رہے، ضرورت اس بات کی ہے۔
ملک کی صورتِ حال کو معاشی، سیاسی، اخلاقی، سماجی اور ترقیاتی، یعنی کسی بھی پہلو سے سامنے رکھا جائے، بہت سے معاملات سنجیدہ اور اصلاح طلب نظر آتے ہیں۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ آپ کو اقتدار سنبھالتے ہی متعدد آزمائشوں کا سامنا ہوگا، لیکن ظاہر ہے، آپ ان سب حالات سے پہلے ہی سے بخوبی واقف ہیں۔ تبھی تو آپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں اپنی حکومت کے پہلے سو دن میں انجام دیے جانے والے کاموں کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا۔ دیکھیے ہم صاف لفظوں میں کہے دیتے ہیں کہ سو دن میں آپ نے ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ مکانات جیسے جو اعلانات کیے ہیں، وہ شاید ناممکن تو نہ ہوں، لیکن ان کو عملی جامہ پہنانا سخت کارِ دشوار ضرور ہے۔
آپ کے یہ اعلانات سن کر سنجیدہ اور بردبار لوگ خوش نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے کہ جلسوں میں ایسی باتیں نعرے لگوانے اور تالیاں پٹوانے کے لیے تو ضرور بہت مفید ہوتی ہیں، لیکن انھیں عملاً سچ کر دکھانا کارِداد۔ خاص طور سے پاکستان جیسے ملک میں جہاں عوام زندگی کی بنیادی ضرورتوں، مثلاً صاف پانی، بجلی اور کچرے کی صفائی تک سے محروم اور متنوع مسائل اور تکلیفوں سے دوچار ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو کچھ آپ نے کہا ہے، وہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ضرور ہوسکتا ہے، لیکن اُس کے لیے جتنی تگ و دو درکار ہے، وہ کچھ وقت طلب ہوگی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنے دیے ہوئے وقت میں چیزوں کو اس طرح نہیں کریں گے تو آپ کے مخالفین کو بہت کچھ کہنے اور آپ کو جھوٹا ثابت کرنے کا موقع ملے گا اور پھر عوام بھی آپ سے بدظن بھی ہونے لگیں گے۔ پہلے سو دن، پہلے سال، دوسرے سال اور پانچ سالہ دورِ حکومت کی سنجیدگی اور ذمے داری سے عملی حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کیجیے۔ اب نہایت بردباری سے حکومتی بیانیہ تشکیل دیجیے۔ عوام کو حالات اور حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے اعتماد میں لیجیے، تاکہ آپ ندامت اور عوام مایوسی سے بچ سکیں۔ حقیقت کو تسلیم کرنا اور سچائی سے حالات کا سامنا کرنا باتیں بنانے اور تاویلات پیش کرنے سے کہیں بہتر ثابت ہوتا ہے۔ عوام نے آپ پر اعتماد کیا ہے تو وہ اعتماد کو قائم بھی ضرور رکھنا چاہیں گے، لیکن اس میں آپ کی طرف سے ذمے دارانہ کردار اور بردباری کو یقینا دخل ہوگا۔
وفاق کے ساتھ ساتھ آپ خیبر پختونخواہ میں تو حکومت بنا ہی رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے بھی آپ اور آپ کے ساتھی بھاگ دوڑ کررہے ہیں۔ دو صوبوں اور مرکز کی حکومت کا مطلب ہے، اقتدار کی غیرمعمولی طاقت۔ خیال رہے، ایسے اقتدار سے عوامی توقعات اور امیدوں کا گراف بھی بہت بلند ہوجاتا ہے۔ یہ بات آپ کو ہرگز نہیں بھولنی چاہیے۔ ویسے اگر پنجاب میں آپ کی جماعت اقتدار کے بجائے حزبِ اختلاف کا کردار قبول کرلے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ آپ اس پوزیشن میں بھی وہ کچھ کرسکتے ہیں جو آپ کے مخالف نہیں کرسکتے۔
آپ کو اقتدار وفاق میں ملا ہے۔ اگر آپ وہاں ملکی ترقی اور قومی خوش حالی کے لیے اپنے عزائم کو پورا کرنے میں کامیاب رہے تو پھر اگلے انتخابات میں آپ مرکز کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی بہ آسانی اقتدار کے حامل ہوں گے۔ عوام جن سیاسی راہ نماؤں کے کردار اور کارکردگی سے مطمئن ہوں انھیں اقتدار سے کبھی الگ نہیں کرتے۔ اگر راہ نما خود چاہیں تو بھی ان کا اقتدار چھوڑنا عوام قبول نہیں کرتے اور نوے برس سے زائد کی عمر میں بھی انھیں اختیار و اقتدار سونپ کر بٹھا دیتے ہیں۔ اس وقت مہاتیر محمد کو آپ اسی پوزیشن میں دیکھ رہے ہیں۔ ویسے ایک زمانے میں آپ کی تقریروں میں اُن کا ذکر بھی آتا رہتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اب آپ عملاً بھی اس کردار کو نبھا کر دکھائیں۔
عالمی سیاسی منظرنامہ بھی آپ کے لیے بہت سے چیلینجز لیے ہوئے ہے۔ امریکا، چین، روس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ ہمارے پڑوسی، یعنی ہندوستان، افغانستان اور ایران سب کے ساتھ آپ کو سوجھ بوجھ اور ٹھہراؤ کے ساتھ معاملہ کرنا پڑے گا۔ ملک کے مسائل اور مفادات دونوں کو سامنے رکھتے ہوئے نئی اور جامع خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی کاروبار چلانے اور آئی ایم ایف سے بچنے کے مسائل اپنی جگہ توجہ طلب ہیں۔ تاہم آپ ان سب معاملات سے نہ صرف خود آگاہ ہیں، بلکہ آپ کے بعض زیرک ساتھی بھی ان کا شعور رکھتے ہیں۔ اس لیے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ آپ کی حکومت جن اقدامات کا فیصلہ کرے گی، وہ ملکی مفاد کو ہر ممکن پیشِ نظر رکھتے ہوئے کرے گی۔
آخری بات۔ آپ کے مخالفین انتخابات کے سلسلے میں تحفظات کا اظہار کررہے ہیں، بل کہ اس مسئلے پر آپ کی جماعت کو چھوڑ کر باقی سب جماعتیں متفق ہیں کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے۔ دیکھا جائے تو ہمارے یہاں یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ گذشتہ نصف صدی کا منظرنامہ اس ردِعمل کو بار بار دکھاتا رہا ہے۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد خود آپ کا ردِعمل بھی یہی تھا اور گذشتہ پانچ برس آپ اس بات کو دہراتے بھی رہے ہیں۔ تاہم ایسا کم کم ہی ہوا ہے کہ اقتدار میں آنے والی جماعت کے سوا باقی سب سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر اس طرح ہم آواز ہوں جس طرح اس وقت سیاسی جماعتیں ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اسی نوع کے مسئلے کا شکار ہوئے تھے، اور پھر اقتدار کیا انھیں تو زندگی سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔
ویسے تو آپ نے خود بھی اپنی تقریر میں کہا ہے کہ جس حلقے کے بارے میں شبہات ہیں، اُسے کھول لیا جائے گا۔ یہ واقعی اچھی بات ہے اور اگر آپ مضبوط ہیں اور سچ مچ اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں تو پھر حقیقت کی چھان پھٹک میں ہچکچاہٹ کیسی، اور تصادم کی کیا ضرورت۔ اس وقت تک جو دو تین حلقے (مثلاً سعد رفیق اور شاہد خاقان عباسی) ری چیک کیے گئے ہیں، اُن کے نتائج کون سے بدل گئے۔ ہاں آپ کے لیے تصادم سے بچنا ضروری ہے تاکہ آپ اپنی توجہ اُن کاموں پر مرکوز کرسکیں جن پر آپ کو اصل میں کرنا چاہیے۔