پلاسٹک کا کچرا موسمیاتی تبدیلی کی وجہ بن رہا ہے

امریکی ماہرین کے مطابق پلاسٹک کے ڈھیر سے گلوبل وارمنگ کی وجہ بننے والی گیسیں خارج ہورہی ہیں

پلاسٹک کا کچرا میتھین جیسی گیس خارج کرکےعالمی تپش میں اضافے کی وجہ بن رہا ہے۔ فوٹو: فائل

اس وقت پلاسٹک کا کچرا خشکی اور پانی کے ذخائر کو یکساں طور پر آلودہ کررہا ہے اور اب نئی پریشان کن خبر یہ آئی ہے کہ پلاسٹک کا ڈھیر مسلسل پڑا رہے تو اس سے عین گرین ہاؤس گیسوں جیسی گیس خارج ہوتی ہیں جو گلوبل وارمنگ اور آب وہوا میں تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کی وجہ بن رہی ہیں۔

امریکہ میں منووا کےمقام پر واقع یونیورسٹی آف ہوائی کے ماہرین نے کہا ہے کہ ایک مرتبہ استعمال ہونے والا عام پلاسٹک زمین پر پڑے پڑے براہِ راست آب وہوا میں تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کی وجہ بن رہا ہے۔ لیکن یہ انکشاف محض اتفاقیہ طور پر ہوا ہے۔

یونیورسٹی کے شعبہ خرد حیاتی بحریات (میرین مائیکرو بائیالوجی) کی سائنسداں پروفیسر جینی رویور اور ان کے ساتھی سمندری پانی میں سے قدرتی طور پر میتھین کے اخراج پر تحقیق کررہے تھے کہ ان کے نتائج اس پلاسٹک کے برتن کی وجہ سے تبدیل ہونے لگے جس میں تحقیق کےلیے سمندری پانی رکھا گیا تھا۔

اس کے بعد انہوں نے اپنی تحقیق کا رخ موڑ کر مختلف پلاسٹک پر غور شروع کردیا اور نوٹ کیا کہ کس قسم کا پلاسٹک کس مرحلے پر میتھین جیسی گرین ہاؤس گیس خارج کرتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے سات اقسام کے پلاسٹک کو الٹراوائیلٹ شعاعوں کے ماحول میں رکھا، یہ شعاعیں دھوپ میں بھی موجود ہوتی ہیں۔


جب سات طرح کے پلاسٹک کو عین سمندری یا ساحل کے ماحول میں رکھ کر دیکھا گیا تو سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیس ایسے پلاسٹک سے خارج ہوئی جو پوری دنیا میں عام ہے اور اسے پولی ایتھائلین یا ایل پی ڈی ای پلاسٹک کہا جاتا ہے۔ یہ پلاسٹک امریکی ساحلوں سے لے کر پاکستان کے دریاؤں تک میں عام پایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ کچرے کے ڈھیر، لینڈ فلز اور دیگر مقامات پر یہ پلاسٹک بڑی مقدار میں پھینکا جاتا ہے۔ ماہرین نے دوسرے مرحلے پر مختلف جسامتوں کے پلاسٹک سے میتھین کے اخراج کو بھی نوٹ کیا تو معلوم ہوا کہ ایل پی ڈی ای پلاسٹک کا صرف ایک چوتھائی انچ ٹکڑا اگر پیس کر پاؤڈر بنایا جائے تو اس سے دیگر پلاسٹک کےمقابلے میں 488 گنا زائد میتھین خارج ہوتی ہے۔

دوسری جانب سمندروں اور دریاؤں میں پلاسٹک کی بھرمار انتہائی تباہ کن اثرات کی وجہ بن رہی ہے۔ روزانہ سیکڑوں سمندری جانور اور آبی پرندے پلاسٹک میں پھنس کر مررہے ہیں۔ پھر پلاسٹک ازخود ختم نہیں ہوتا اور سیکڑوں برس تک اسی طرح ایک جگہ پڑا رہتا ہے۔

ماہرین نے اپنے تحقیقی مقالے میں اس صورتحال کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی سائنسی برادری اور دنیا کے مقتدر حلقوں کو فوری طور پر اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ اس تحقیق پر بحث کرتے ہوئے ایک اور ماہر نے کہا کہ اب ثابت ہوگیا ہے کہ سمندروں میں پلاسٹک تباہی پھیلا رہا ہے لیکن خشکی پر موجود پلاسٹک آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ بن رہا ہے کیونکہ کئی حالات میں یہ وہی میتھین گیس خارج کررہا ہے جو کاروں اور کارخانوں سے نکل کر گلوبل وارمنگ کی وجہ بن رہی ہے۔
Load Next Story