ذخیرہ اندوزی

حضرت عمرؓ  حضور اکرم ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ غلہ لانے والا رزق پاتا ہے اور روک کر رکھنے والا ملعون ہے

حضرت عمرؓ  حضور اکرم ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ غلہ لانے والا رزق پاتا ہے اور روک کر رکھنے والا ملعون ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمانے سے پہلے اس کی غذا کا انتظام فرمایا۔ خوراک میں حلال چیزوں کو جائز اور حرام چیزوں کو ناجائز قرار دیا۔ مگر حلال اشیاء خور و نوش کو منافع خوری کے لیے روک کر ذخیرہ اندوزی کرنے کو اسلام نے حرام قرار دیا۔ تاکہ انسانوںمیں باہمی احساس ہم دردی پیدا ہو۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص لوگوں کی تنگی کے باوجود چالیس روز تک غلہ روکے رکھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے کٹ گیا اور اللہ تعالیٰ اس سے بَری ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور اکرم ﷺ سے نقل فرماتے ہیں کہ غلہ لانے والا رزق پاتا ہے اور روک کر رکھنے والا ملعون ہے۔

ذخیرہ اندوزی کی صورتیں: فقیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکرہ یعنی ذخیرہ اندوزی جو منع ہے اس کی صورت یہ ہے کہ شہر سے غلہ خرید کر بند کرے جب کہ شہریوں کو بھی ضرورت ہو اور تنگی محسوس کریں۔ ہاں اگر کسی کی اپنی زمین کی فصل ہو یا دوسرے شہر سے خرید کر لایا ہو تو اسے جمع کرنا منع نہیں۔ تاہم افضل یہی ہے کہ اسے فروخت کر دے۔ روک رکھے گا تو بُرا کرے گا کہ اس کو مسلمانوں کے ساتھ کوئی ہم دردی نہیں۔ مناسب ہے کہ ذخیرہ اندوز کو غلے کی فروخت پر مجبور کیا جائے، نہ مانے تو تنبیہ اور تادیب کی جائے تاہم اسے کسی نرخ کا پابند نہ کیا جائے بل کہ بازار والے عام نرخ پر بیچنے کو کہا جائے۔

نیت کا ثمرہ: روایات میں آتا ہے کہ بنی اسرائیل کے عابدوں میں سے ایک عابد ریت کے ٹیلے پر سے گزرا۔ دل میں کہنے لگا کہ اگر یہ ٹیلہ آٹے کا ہوتا تو میں بنی اسرائیل کو جو اس وقت قحط میں مبتلا ہیں خوب پیٹ بھر کر کھلاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے نبی پر وحی فرمائی کہ فلاح شخص سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے وہ اجر لکھ دیا ہے جو تو ٹیلے کی مقدار آٹا صدقہ کر کے حاصل کرتا۔ مطلب یہ کہ اس نے ایک اچھی نیت کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی اچھی نیت پر مخلوق پر شفقت اور مہربانی کے جذبے پر اسے اجر عطا فرمایا ۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ مسلمانوں کے لیے شفیق اور مہربان رہے۔

ایک آدمی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آکر کہنے لگا کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا کہ میں تجھے چھے باتوں کی تاکید کرتا ہوں: ایک ان چیزوں کے متعلق قلبی یقین پیدا کرنا جن کے ضامن اللہ تعالیٰ ہوچکے ہیں۔ دوسری یہ کہ فرائض کو ان کے وقت پر ادا کرنا۔ تیسری یہ کہ زبان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رکھنا۔ چوتھی یہ کہ شیطان کی موافقت نہ کرنا کہ وہ مخلوق سے حسد کرتا ہے۔ پانچویں یہ کہ دنیا کو آباد نہ کرنا، یہ تیری آخرت برباد کر دے گی۔ چھٹی بات یہ ہے کہ مسلمان کے لیے ہمیشہ ہم درد اور خیر خواہ رہنا۔


حضرت فقیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو مسلمانوں کا خیر خواہ ہونا چاہیے کہ یہ سعادت کی علامتوں میں سے ہے۔

سعادت اور بد بختی کی علامتیں: بزرگ کہتے ہیں کہ سعادت کی گیارہ علامات ہیں۔ آدمی دنیا سے بے رغبتی اور آخرت میں رغبت رکھتا ہے۔ عبادت و تلاوت قرآن اس کا اہم مقصد ہو۔ غیر ضروری بات بہت کم کرتا ہو۔ پانچوں نمازوں کا پابند ہو۔ حرام سے بہت بچنے والا ہو، خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔ اس کی ہم نشینی نیک لوگوں کے ساتھ ہو۔ مسکین طبع ہو، متکبر نہ ہو۔ بااخلاق سخی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہم دردی رکھتا ہو۔ مخلوق کے لیے نفع رساں ہو۔ موت کو کثرت سے یاد کرتا ہو۔

شقاوت و بد بختی کی بھی گیارہ علامتیں ہیں: مال جمع کرنے پر حریص ہو۔ دنیاوی لذات اور خواہشات میں منہمک ہو۔ گفت گُو میں بد زبان اور کثیر گو یعنی زیادہ بولنے والا ہو۔ نمازوں میں سستی کرتا ہو۔ حرام اور مشتبہ مال کھاتا ہو اور بُرے لوگوں سے ہم نشینی رکھتا ہو۔ بدخلق ہو۔ متکبر اور مغرور ہو۔ لوگوں کو نفع پہنچانے سے روکتا ہو۔ مسلمانوں سے ہم دردی نہ رکھتا ہو۔ بخیل ہو۔ موت سے یکسر غافل ہو۔ مطلب یہ کہ موت یاد ہو تو مسلمانوں سے ہم دردی کرتا ہے۔ ضرورت کے وقت غلہ وغیرہ بیچنے میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔

کسی زاہد کا واقعہ ہے کہ اس کے گھر میں کچھ گندم پڑی تھی، قحط پڑگیا تو سب بیچ ڈالی اور پھر لوگوں کی طرح خود بھی حسب ضرورت خریدنے لگا۔ کسی نے کہا کہ پہلے ہی اپنی ضرورت کو رکھ لی ہوتی۔ وہ کہنے لگا میں نے چاہا کہ لوگوں کے قحط والے غم میں میں بھی شریک ہوجاؤں۔

ذخیرہ اندوزی سے اللہ و رسول ﷺ کی ناراضی اور مخلوق خدا کی نفرت میسر آتی ہے۔ لہٰذا وہ کام جس سے اللہ و رسول ﷺ ناراض ہوں وہ جہنم میں لے جاتے ہیں۔ تاجر برادری اور دکان داروں کو چاہیے کہ وہ ماہ رمضان و غیر ماہ رمضان میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں یکساں رکھیں۔ ذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی قحط کی کیفیت پیدا کرکے مخلوق خدا کو تنگ کرکے منافع خوری وقتی قلبی خوشی کا باعث تو ہوسکتی ہے مگر آخرت کی راحت کا سامان کبھی نہیں ہوسکتی۔ آج پاکستانی قوم مختلف آفات سے دوچار ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے روپیہ بنانے کے چکر میں ہیں جو سراسر زیادتی اور خسارہ ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت اسلامیہ کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ذخیرہ اندوزی سے بچنے اور مخلوق خدا سے ہم دردی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story