مستحکم افغانستان خطے کے مفاد میں ہے

پاکستان اور افغانستان تاریخی، ثقافتی اور لسانی حوالے سے جڑے ہوئے ایسے پڑوسی ہیں جن کا ایک دوسرےکے بغیرگزارا ممکن نہیں۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور بم دھماکوں کے ڈانڈے افغانستان میں برسرپیکار جنگجو گروہوں سے ملتے ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان اور افغانستان تاریخی، ثقافتی اور لسانی حوالے سے جڑے ہوئے ایسے پڑوسی ہیں جن کا ایک دوسرے کے بغیرگزارا ممکن نہیں۔ افغانستان میں طویل خانہ جنگی اور غیر مستحکم حکومتوں کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑا ہے ۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور بم دھماکوں کے ڈانڈے افغانستان میں برسرپیکار جنگجو گروہوں سے ملتے ہیں ۔ پاکستان کی لازوال قربانیوں کے باوجود افغان حکمرانوں کے شکوے ،شکایات اور الزامات تھمنے کا نام نہیں لیتے۔پاک افغان سرحد بہت طویل اور پرپیچ پہاڑی راستوں پر مشتمل ہے اسی لیے دہشتگردوں کی دونوں ممالک میں نقل وحمل کو مکمل طور پر روکنا ممکن نظر نہیں آتا چہ جائیکہ دونوں ممالک ان جنگجوگروہوں کا مکمل خاتمہ کردیں۔ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کا جانی ومالی نقصان پاکستان نے جس قدر اٹھایا ہے اس نے ملکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

آیندہ برس افغانستان سے امریکی اوراتحادی افواج کے انخلاء کا عمل شروع ہونے کے بعد خطے میں امن کی بحالی ایک اہم ترین سوال ہے۔ کیا افغان فورسزجنگجو گروہوں پر قابو پاسکیں گی، یا پھر وار لارڈز کا دور لوٹ آئے گا ؟کیونکہ امریکا اور اتحادی افواج کو طویل عرصے تک افغانستان میں قیام کے باوجود مکمل کامیابی نہیں مل سکی۔دراصل افغانستان، پاکستان اور طالبان مسئلے کے اہم فریق ہیں۔ جب تک ان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات نہیں ہوتے،امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا ۔


سب سے بڑا مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان دراندازی کا ہے جب تک اس پر قابو نہیں پایا جاتا اس وقت تک اعتماد کی فضا بحال نہیں ہوسکتی ۔ اسی اہم ترین سوال کا جواب ہمیں نئے عالمی تناظر میں امریکی صدر بارک اوباما اور دیگر عالمی رہنماؤں کی تشویش سے بھی ملتا ہے۔ امریکی صدر اوباما نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان وسیع پیمانے پر مذاکرات کو علاقائی سلامتی کے لیے اہم قرار دیا ہے۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی اور دنیا میں ہونے والی بڑی بڑی جنگوں کا فیصلہ بھی مذاکرات کی ٹیبل پر ہی ہوا ہے۔

خطے میں امن کی بحالی پاکستان اور افغانستان کی سلامتی اور بقا کے لیے ضروری ہے۔دونوں ممالک کو باہمی رنجشوں کو بھلا کر مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے۔پاکستان نے قدم قدم پر افغانستان کا ساتھ دیا ہے ، کئی دہائیوں تک افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کے فرائض انجام دیے ۔ جس سے معیشت پر بوجھ پڑا اور ملک میں ہیروئن پینے والے ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور افغانستان سے پاکستان میں غیرقانونی اسلحے کی آمد سے بعض علاقوں میں تو حکومتی رٹ تک ختم ہوکر رہ گئی جب کہ قتل وغارت گری کے واقعات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ۔

پھر شدت پسند گروہوں نے ملک میں بم دھماکوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کیا جس میں سابق وزیراعظم سمیت ہزاروں پاکستانیوں کے جانیں گئیں ۔ الغرض ایک غیر مستحکم افغانستان نے مستحکم پاکستان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور عالمی رہنما چاہتے ہیں کہ افغانستان میں مستقل اور پائیدار امن قائم ہو تاکہ پاکستان بھی مشکلات سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے ۔ مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے۔یہ بات پاکستانی حکمران بار بار کہتے رہے ہیں۔خطے میں امن سے عالمی امن میں بھرپور مدد ملے گی۔

اب یہ پاک افغان قیادت کے تدبر، فہم وفراست کا امتحان ہے،کہ وہ کیسے عالمی نگہبانوں کی موجودگی میں پرامن حل اور مستقل حل کی طرف پیش رفت کرتے ہیں ۔پاکستان میں انتخابات کے بعد نئی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے ، افغان صدرکا نوازشریف کی کامیابی پرمبارکباد دینا خوش آیند امر ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل قریب میں بہتر تعلقات کی بنیاد بھی بن سکتا ہے ۔
Load Next Story