آنے کا جشن

سب سے پہلے توگیارہ مئی والے انتخابات پر میرا تبصرہ پنجابی زبان کی اس امرتی کی شکل میں پیش خدمت ہے ۔

tariq@tariqmian.com

سب سے پہلے توگیارہ مئی والے انتخابات پر میرا تبصرہ پنجابی زبان کی اس امرتی کی شکل میں پیش خدمت ہے ۔

''سونہہ ربّ دی جھوٹ نہ بولاں۔ بکری نوں اونٹ جمیا''
(رب کی قسم ، میں جھوٹ نہیں بولتی۔ بکری نے اونٹ کو جنم دیا۔)

اس کے بعد آغاز بہت ہی جذباتی انداز میں ہوتا ہے۔اس قسم کا جذباتی کہ اگر فلموں کے شہنشاہ ظرافت رنگیلا صاحب زندہ ہوتے تو میں ان سے درخواست کرتا کہ کچھ دیر کے لیے ''ملکہ جذبات'' بن جائیں اور پی ٹی آئی کے پروموٹرز کے لکھے ہوئے مکالمے ادا کریں۔ اس سے ہر طرف بہت افاقہ ہوتا۔ درد دھرنا والوں کو بھی اور زخم کارکردگی والوں کو بھی۔

زخم کھانے والوں میں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ کارکردگی کی دیوار سامنے ہے لیکن پھر بھی وہ روتے جاتے تھے، بین کرتے جاتے تھے، پرکھوں کو یاد کرتے تھے اور پھر انھوں نے زور سے اس دیوار میں جاکے ٹکرماردی۔ اب کراہتے تو نہیں لیکن آواز نہیں نکالتے کہ منہ چھپاتے ہیں۔

دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں سریا تو نہیں تھا لیکن ادھر ادھر سے لائے ہوئے کچھ اسپرنگ تھے اور جو سورج کی روشنی اور تمازت سے اور دیدار سے پیہم فیضیاب ہونے والوں میں سے تھے اور جن کے منہ سے ہمہ وقت مغلظات کے پھول جھڑتے تھے۔ وہ لکھاری تھے، دکھاری تھے یا شکاری یا کچھ اور۔۔۔۔۔اور وہ بھی جو اس دھرتی کے سینے پر اسے پھاڑ کے رکھ دینے جیسا پاؤں دھرتے تھے، وہ سب رسوا ہوئے۔ جمہوریت کی چھلنی میں کتنی ہی گندگی چھن گئی۔ لیکن چھوڑئیے۔ یہ میں کیا لے کے بیٹھ گیا۔


آئیے آج ذرا خوش ہونے کی بات کرتے ہیں اور میں ذرا شو مار لوں کہ میرا اشارہ بھی ٹھیک تھا۔ میں سیاست کی نہیں، اس کے اثرات کی بات کر رہا ہوں۔ کاروباری حلقوں میں ایک جشن کا سماں ہے۔ یوں جیسے پانچ برس کی قید بے مشقت سے رہائی ملی ہو۔ اب ان میں سے ہر ایک کو اگلی حکومت کے وزیرخزانہ کی تقرری کا انتظار ہے۔ اس اہم تقرری سے ہی نئی حکومت کے موڈ اور صلاحیت کا اندازہ ہوگا۔ تقرر صحیح ہوگا تو یہ جشن بھی جاری رہے گا اور جوش و خروش بھی۔

اسٹاک مارکیٹ نے وہ ریکارڈ قائم کر ڈالے ہیں جن کے بارے میں بڑے سے بڑا خوش گمان بھی تصور نہیں کرسکتا تھا۔ ماہرین کا خیال تھا کہ اگر حالات موافق رہے تو اس برس کے اختتام تک انڈکس 20 ہزار کی حد عبور کرلے گا لیکن یہ حد تو ابھی سے عبور ہوگئی۔ نگرانوں کی حکومت میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ڈیڑھ ماہ قبل میں نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا اور خیال ظاہر کیا تھا کہ لوگ چاہیں تو دل کھول کر سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد ہوا یہ کہ بات اس سے بھی آگے نکل گئی۔

اس میں یہ تاثر بھی شامل ہوگیا کہ اگلی حکومت ایک بزنس فرینڈلی حکومت ہوگی۔ ایسی حکومت جو جبر اور بلیک میلنگ کے شکار کاروبار کو آزاد کرے گی۔ لا اینڈ آرڈر کو درست کرے گی اور جس کی پہلی ترجیح پاور سیکٹر کے معاملات کو درست کرنا ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ تیل، گیس اور بجلی کی کمپنیوں کے حصص میں تیزی آگئی۔ ان کا پہلا مسئلہ گردشی قرضوں کا ہے۔ امید بندھ گئی کہ نئی حکومت اس کا کوئی فوری حل نکالے گی یہ بھی امید ہے کہ آئی ایم ایف سے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوجائیں گے۔

خوش گمانیوں کے اسی پس منظر میں اسٹاک مارکیٹ الیکشن سے پہلے کے کچھ دنوں میں اور الیکشن کے بعد کے کچھ دنوں میں یکطرفہ طور پر تیزی سے بڑھی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ تیزی کب تک جاری رہے گی اور کہیں یہ اسی طرح کا کوئی بلبلہ تو نہیں جو 2008 میں بڑا ہوتے ہوتے چھٹ گیا تھا؟ ماہرین کے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کی تیزی یکطرفہ طور پر کبھی بھی قائم نہیں رہتی۔ اب اس میں محتاط ہوجانا چاہیے۔

ویسے بھی اس مارکیٹ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ اچھی خبر کے انتظار اور امید میں تو خوب تیزی سے بڑھاکرتی ہے لیکن خبر آنے کے بعد اس کا جوش ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ 2008 والے بلبلے والا قصہ اب پرانا ہے۔ اب جو بھی کام ہوتا ہے وہ ٹھوس سرمایہ کاری کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس میں سٹے کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے ڈرنے ورنے کی کوئی بات نہیں۔ بس محتاط ہوکے سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ آنے والی حکومت نے آدھی امیدیں بھی پوری کردیں تو بہتری کی بہت سی نئی نئی منزلیں سر ہوتی جائیں گی۔

حکومت کے سامنے ایک فوری مسئلہ کابینہ کی تشکیل ہوگا۔ قطار باندھ کے لوگ چوندے چوندے محکمے حاصل کرنے کے لیے سوالی ہوجائیں گے۔ کوئی پٹرولیم کی وزارت کے ہڑکے میں ہوگا، کوئی ہاؤسنگ اور کوئی خارجہ کے لیے ہمک رہا ہوگا۔ لیکن میرا کنسرن فی الحال وزارت خزانہ ہے۔ اس کے لیے ایسا بندہ ہونا چاہیے جو صرف بینکر یا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نہ ہو بلکہ اکانومی کا حقیقی ماہر ہو۔ ماضی میں بہت بلنڈر ہوچکے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس وزارت کی تلاش میں ایک ہی شخصیت کے پاس جا کے کھڑی ہوجاتی ہے۔ اسے شاید لائل پور کا گھنٹہ گھر سمجھ لیا ہے۔ دیکھ لیجیے گا اگر اسے پھر سے یہ محکمہ سونپا گیا تو مایوسی کے مارے کاروباری طبقے کی چیخیں نکل جانی ہیں اور سارا جشن ہوا ہوجانا ہے۔ لہٰذا عرض ہے کہ رشتے داری نبھانی ہے تو انھیں کوئی اور بڑی سے بڑی وزارت دے دیں۔ وزارت عظمیٰ دے دیں۔ صدر مملکت بنادیں لیکن اس ملک کی معیشت پر رحم کریں اور انھیں وہ کام مت سونپیں جو انھیں آتا نہیں ہے۔

ہاں۔۔۔۔آخر میں درخواست ہے کہ لیپ ٹاپ دیتے دیتے آپ نے جو یہ لولی پاپ دینا شروع کردیے ہیں انھیں مہربانی فرماکر واپس لے لیں۔ ڈھنگ کے کاموں کی طرف دھیان دیں اور باقی معاملات درست کرنے کی کوشش کریں۔ بلٹ ٹرین وغیرہ چلانے کے بکھیڑوں میں نہ پڑیں۔ یہ ہمارے ہاں پہلے ہی چل رہی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بلٹ الگ چلتی ہے اور ٹرین الگ۔
Load Next Story