نیویں مسجد
کہا جاتا ہے کہ جب حضرت مجدد الف ثانیؒ لاہور تشریف لائے تو انہوں نے اس مسجد میں قیام کیا
جامع کریمیہ نیویں مسجد لوہاری اور شاہ عالمی دروازے کے درمیان کوچہ ڈوگراں کے چوک متی نیا بازار میں واقع ہے۔ مسجد کے اردگرد پنسار کی دکانیں بھی ہیں بلکہ یہ پنسار کا ہول سیل بازار ہے۔ نیویں مسجد ایک منفرد مسجد ہے۔ اس کی اہم بات یہ ہے کہ یہ سطح زمین سے تقریباً پچیس فٹ نشیب میں بنائی گئی ہے۔ یہ مسجد خاصی قدیم ہے۔ بقول کہنیا لال، یہ مسجد لودھی دور حکومت میں ذوالفقار خان نامی ایک امیر نے بنوائی تھی۔ ذوالفقار خان گورنر لاہور ہیبت خان کا نائب تھا۔ نقوش ''لاہور نمبر'' میں بھی یہی درج ہے۔
البتہ والڈ سٹی اتھارٹی کے پیج پر نیویں مسجد کا جو تعارف موجود ہے اس میں ڈاکٹر عبدﷲ چغتائی کی ایک تحقیق کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ''نیویں مسجد پر تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قدیم زمانے میں نیویں مسجد کے مقام پر ہندوؤں کا کوئی مندر تھا جس کو بعد اسلام منہدم کردیا گیا اور اُس کی جگہ مسجد تعمیر کی گئی مگر اِس کی سطح ویسی ہی رہی کیونکہ بعض قدیم مندر آج بھی اِسی طرح ذرا عام سطح زمین سے نیچے ملتے ہیں۔''
ڈاکٹر عبداللہ چغتائی معروف آرکٹیکٹ، ماہر اسلامی تعمیرات، مؤرخ اور مصنف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا تاج محل پر پی ایچ ڈی کا مقالہ میں نے تھوڑا سا پڑھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ''مساجد لاہور'' نام کی ایک کتاب بھی تحریر کی ہے البتہ نیویں مسجد پر ڈاکٹر صاحب کی تحقیق میں نے نہیں دیکھی۔ مسجد کے متعلق کوئی مصدقہ تاریخ موجود نہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب حضرت مجدد الف ثانیؒ لاہور تشریف لائے تو انہوں نے اس مسجد میں قیام کیا۔ اس مسجد کا نکاسیِ آب کا نظام انتہائی منفرد ہے اور اس زمانے کے انجینئرز کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چاہے جتنی زیادہ بارش ہو، مسجد میں پانی کھڑا نہیں ہوتا۔ مسجد کا پانی نکالنے کیلئے ''غرقیاں'' بنائی گئیں۔
اِس مسجد کے صحن میں دو کنویں بھی ہیں اور دونوں قدیم زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ مسجد سے وضو اور بارش کا پانی کسی قدیم غرقی میں صدیوں سے بہہ رہا ہے جس کے متعلق کچھ معلوم نہیں۔
مولانا محمد مہر الدین نے یہاں مدرسہ لاثنیہ بھی قائم کیا تھا جو بعد میں موچی دروازہ منتقل کردیا گیا۔ نیویں مسجد کی موجودہ عمارت کس زمانے کی تجدید ہے؟ اس بارے میں کچھ معلوم نہیں کیونکہ اس کی تعمیر نو کا کوئی سن، مسجد میں کہیں لکھا نظر نہیں آیا۔ البتہ دو تختیاں نظر آئیں: ایک دروازہ، جس پر اسی دروازے کی تعمیر کا سن 1358 ھجری (1939 عیسوی) درج ہے۔ شاید باقی عمارت میں بھی اسی سال تبدیلی کی گی ہو۔ دوسری تختی مسجد کے اندر موجود ہے جس پر درج ہے: ''دارالعلوم جامع نقشبندیہ کریمیہ کا افتاح 30 نومبر 1990ء بروز جمعہ بدست حضرت محبوب الرحمن نقشبندی سجادہ نشین عیدگاہ راولپنڈی ہوا۔''
مسجد کے نائب امام صاحب سے ملاقات ہوئی جو بہت خوش اخلاق ہیں۔ مسجد کی تاریخ کے متعلق ان سے سوال کیا تو انہیں بھی کچھ زیادہ علم تو نہ تھا، مگر ان کا برتاؤ خاصا متاثر کن تھا۔ نیویں مسجد، لاہور میں موجود دوسری مساجد کی طرح بہت عالیشان تو نہیں البتہ یہ مسجد سادگی کے باوجود بےحد حسین ہے۔ اس مسجد کا طرز تعمیر مغلوں سے مختلف ہے اور اس کی سادہ تعمیر ہی اس کا حسن ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
البتہ والڈ سٹی اتھارٹی کے پیج پر نیویں مسجد کا جو تعارف موجود ہے اس میں ڈاکٹر عبدﷲ چغتائی کی ایک تحقیق کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ''نیویں مسجد پر تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قدیم زمانے میں نیویں مسجد کے مقام پر ہندوؤں کا کوئی مندر تھا جس کو بعد اسلام منہدم کردیا گیا اور اُس کی جگہ مسجد تعمیر کی گئی مگر اِس کی سطح ویسی ہی رہی کیونکہ بعض قدیم مندر آج بھی اِسی طرح ذرا عام سطح زمین سے نیچے ملتے ہیں۔''
ڈاکٹر عبداللہ چغتائی معروف آرکٹیکٹ، ماہر اسلامی تعمیرات، مؤرخ اور مصنف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا تاج محل پر پی ایچ ڈی کا مقالہ میں نے تھوڑا سا پڑھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ''مساجد لاہور'' نام کی ایک کتاب بھی تحریر کی ہے البتہ نیویں مسجد پر ڈاکٹر صاحب کی تحقیق میں نے نہیں دیکھی۔ مسجد کے متعلق کوئی مصدقہ تاریخ موجود نہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب حضرت مجدد الف ثانیؒ لاہور تشریف لائے تو انہوں نے اس مسجد میں قیام کیا۔ اس مسجد کا نکاسیِ آب کا نظام انتہائی منفرد ہے اور اس زمانے کے انجینئرز کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چاہے جتنی زیادہ بارش ہو، مسجد میں پانی کھڑا نہیں ہوتا۔ مسجد کا پانی نکالنے کیلئے ''غرقیاں'' بنائی گئیں۔
اِس مسجد کے صحن میں دو کنویں بھی ہیں اور دونوں قدیم زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ مسجد سے وضو اور بارش کا پانی کسی قدیم غرقی میں صدیوں سے بہہ رہا ہے جس کے متعلق کچھ معلوم نہیں۔
مولانا محمد مہر الدین نے یہاں مدرسہ لاثنیہ بھی قائم کیا تھا جو بعد میں موچی دروازہ منتقل کردیا گیا۔ نیویں مسجد کی موجودہ عمارت کس زمانے کی تجدید ہے؟ اس بارے میں کچھ معلوم نہیں کیونکہ اس کی تعمیر نو کا کوئی سن، مسجد میں کہیں لکھا نظر نہیں آیا۔ البتہ دو تختیاں نظر آئیں: ایک دروازہ، جس پر اسی دروازے کی تعمیر کا سن 1358 ھجری (1939 عیسوی) درج ہے۔ شاید باقی عمارت میں بھی اسی سال تبدیلی کی گی ہو۔ دوسری تختی مسجد کے اندر موجود ہے جس پر درج ہے: ''دارالعلوم جامع نقشبندیہ کریمیہ کا افتاح 30 نومبر 1990ء بروز جمعہ بدست حضرت محبوب الرحمن نقشبندی سجادہ نشین عیدگاہ راولپنڈی ہوا۔''
مسجد کے نائب امام صاحب سے ملاقات ہوئی جو بہت خوش اخلاق ہیں۔ مسجد کی تاریخ کے متعلق ان سے سوال کیا تو انہیں بھی کچھ زیادہ علم تو نہ تھا، مگر ان کا برتاؤ خاصا متاثر کن تھا۔ نیویں مسجد، لاہور میں موجود دوسری مساجد کی طرح بہت عالیشان تو نہیں البتہ یہ مسجد سادگی کے باوجود بےحد حسین ہے۔ اس مسجد کا طرز تعمیر مغلوں سے مختلف ہے اور اس کی سادہ تعمیر ہی اس کا حسن ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔