کارکردگی دکھانے کا مرحلہ آن پہنچا
لینن، ماؤزے تنگ اور امام خمینی اپنے ملکوں میں رائج سیاسی نظام کی حدود وقیود میں رہتے ہوئے انقلاب نہیں لائے تھے۔۔۔
لینن، ماؤزے تنگ اور امام خمینی اپنے ملکوں میں رائج سیاسی نظام کی حدود وقیود میں رہتے ہوئے انقلاب نہیں لائے تھے۔
ان کا بنیادی پیغام بلکہ یہ تھا کہ حکمران اشرافیہ اپنے استحصالی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے انتخابات کا ڈھونگ رچاتی ہے۔ اسی لیے جمہوریت کا بنیادی مقصد لوگوں کو اس گمان میں مبتلا کرنا بن جاتا ہے کہ حکومتیں اور ان کی پالیسیاں بنانے میں عوام کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ اپنے ہاں مروج نظام کو قطعی رد کرنے کی وجہ سے لینن کو اپنی سیاسی زندگی کا طویل تر عرصہ زیر زمین یا جلاوطن رہنا پڑا۔ اس کا اخبار خفیہ طورپر چھپتا اور تقسیم ہوتا تھا۔ ماؤزے تنگ بھی اپنا انقلابی پیغام بیجنگ یا شنگھائی میں پرجوش نوجوان DJ بٹ جیسے لوگوں کی ترتیب دی گئی پس پردہ موسیقی کے ذریعے نہیں پھیلاتے تھے۔
اپنے اور اپنے ساتھیوں کو گرفتاری یا ریاستی کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچانے کے لیے ماؤزے تنگ نے دور دراز دیہاتوں اور پہاڑوں میں پناہ لی اور ہزاروں میل تک پھیلے لانگ مارچ کے بعد اقتدار کی راہداریوں تک پہنچے۔ امام خمینی نے 15سے زیادہ سال نجف اشرف میں گزارے۔ وہاں سے وہ اپنا پیغام آڈیو کیسٹ پر ریکارڈ کروانے کے بعد اپنے وفادار رضاکاروں کے ذریعے ایران تک پہنچواتے۔ ان کی تقریر کا کوئی ایک کیسٹ کسی ایک گھر سے برآمد ہوجاتا تو اس کے مکینوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی۔
عمران خان کے پرجوش مداحین مگر یہ ساری باتیں نہیں جانتے۔ اگر جانتے ہیں تو انھیں یاد کرکے ان پر غور نہیں کرنا چاہتے۔ اسی لیے اس خوش گمانی میں مبتلا رہے کہ ٹیلی وژن اسکرینوں پر بڑی جرأت مندی کے ساتھ باتیں کرنے کے بعد عمران خان نے شہروں میں جو بڑے جوش والے جلسے کیے ہیں ان کی وجہ سے 11مئی کو پاکستان میں ایک انقلاب آجائے گا۔
ایسا سوچتے ہوئے وہ یہ بھی بھول بیٹھے کہ پاکستان کا سیاسی نظام پارلیمانی جمہوریت پر مبنی ہے۔ اس نظام میں آپ براہِ راست اپنے ملک کے صدر یا وزیر اعظم کا انتخاب نہیں کرتے۔ قومی اسمبلی کی 272نشستیں ہوتی ہیں جن پر امیدواروں کے درمیان براہِ راست مقابلہ ہوتا ہے۔ جب یہ اراکین منتخب ہوجاتے ہیں تو اقلیتی اورخواتین کی مخصوص نشستیں مختلف سیاسی جماعتوں میں بانٹی جاتی ہیں۔ اس کے بعد 342اراکین پر مشتمل قومی اسمبلی کا انتخابی عمل مکمل ہوجاتا ہے۔ پھر ایک معینہ دن یہ سارے منتخب اراکین مل کر حلف لیتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو منتخب کرتے ہیں اور سب سے آخر میں ایک وزیر اعظم کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔ المختصر وزیراعظم بنانے کی اصل قوت براہِ راست انتخاب کے ذریعے آنے والے 272اراکین کے پاس ہوتی ہے۔ یہ اراکین صرف چند بڑے شہروں سے نہیں بلکہ پاکستان کے سارے صوبوں اور اس کے تمام قصبوں اور دیہاتوں میں پھیلے لوگوں میں سے اُٹھ کر آتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ہر حلقہ کی اپنی اپنی حرکیات ہے۔ اس سے بالاتر ہوکر پاکستانی عوام کی اکثریت کو کسی ایک جماعت یا رہ نما کی شخصیت کے گرد اکٹھاکرنا ایک بہت صبر آزما کام ہے۔
اس کے لیے پورے ملک میں پھیلی وفادار کارکنوں کی ایک بہت بڑی تنظیم چاہیے اور تحریک انصاف کے پاس فی الحال ایسی تنظیم موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود 11مئی کے دن تحریک انصاف نے جو نتائج دکھائے وہ بہت شاندار ہیں۔ ان کی بنیاد پر کی گئی جہدِ مسلسل یقینا آیندہ انتخابات میں وہ سب کچھ حاصل کرسکتی ہے جس کی توقع11مئی 2013ء کو ہونے والے انتخابات سے لگائی گئی تھی۔ اس وقت تو عمران خان کی پہلی ترجیح یہ ہونا چاہیے کہ وہ 11مئی 2013ء کو دکھائی گئی قوت کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں مزید اضافے کی کوششوں کو جاری رکھیں گے۔
اس ضمن میں ان کے لیے پہلا کٹھن مرحلہ خیبرپختون خوامیں صوبائی حکومت کا قیام ہے۔ ان کی جماعت تن تنہا یہ حکومت نہیں بناسکتی۔ اسے جماعت اسلامی اور آفتاب شیر پاؤ کی قومی وطن پارٹی کے علاوہ آزادانہ حیثیت میں صوبائی اسمبلی کا رکن بننے والوں کی حمایت بھی درکار ہے۔ سیاسی لوگ مفت میں اپنی حمایت نہیں بانٹاکرتے۔ ان کی مدد لینے کے لیے کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ ایک مخلوط حکومت کے قیام کے لیے سودے بازی کرنا ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''اصولی اور انقلابی سیاست'' کے جنونی پیروکار یہ سودے بازی آسانی سے ہضم کر پائیں گے؟ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی۔
صوبائی حکومت قائم کرنے کے بعد اسے چلانا بھی ہے اور پہلے نوے دنوں میں یہ پیغام دینا کہ خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف کی چھتری تلے بنی حکومت ماضی کی تمام حکومتوں کے مقابلے میں سب سے بہتر ہے۔ اس کے لوگ قانون کا احترام کرتے اور کرواتے ہیں۔ لوگوں کے روزمرہّ مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے دن رات کوشاں رہتے ہیں اور وزارتوں میں پہنچ کر دیہاڑیاں لگانا نہیں شروع ہوگئے۔ عمران خان کو تین نشستوں سے منتخب ہوجانے کے بعد اب دو نشستیں چھوڑنا ہوں گی۔
فرض کیا وہ راولپنڈی کی نشست چھوڑ دیتے ہیں تو تحریک انصاف کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ اس پر اپنے ہی امیدوار کو کامیاب ہوتا ہوا دکھائے۔ جاوید ہاشمی اگر اسلام آباد کی نشست چھوڑدیتے ہیں تو اسلام آباد میں بھی ایسی ہی صورتحال پید ہوجائے گی۔ اتفاق سے ان نشستوں پرضمنی انتخاب خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت بن جانے کے تقریباً90دن بعد ہوں گے ۔اس حکومت کی کارکردگی ان انتخاب کے نتائج پر فیصلہ کن حوالے سے اثرانداز ہوگی۔
اس لیے میری تحریک انصاف کے انٹرنیٹ جہادیوں سے التجا ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر پر''لفافہ صحافیوں'' کو گالیاں دینے اور اس نظام کو بُرا بھلا کہنے کے بجائے ''جو عمران خان جیسے لوگوں کو وزیر اعظم نہیں بناتا'' اپنی ساری توانائیاں اور توجہ ان امور کی جانب موڑدے جن کی طرف میں نے اس کالم میں کچھ اشارے کیے ہیں۔
ان کا بنیادی پیغام بلکہ یہ تھا کہ حکمران اشرافیہ اپنے استحصالی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے انتخابات کا ڈھونگ رچاتی ہے۔ اسی لیے جمہوریت کا بنیادی مقصد لوگوں کو اس گمان میں مبتلا کرنا بن جاتا ہے کہ حکومتیں اور ان کی پالیسیاں بنانے میں عوام کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ اپنے ہاں مروج نظام کو قطعی رد کرنے کی وجہ سے لینن کو اپنی سیاسی زندگی کا طویل تر عرصہ زیر زمین یا جلاوطن رہنا پڑا۔ اس کا اخبار خفیہ طورپر چھپتا اور تقسیم ہوتا تھا۔ ماؤزے تنگ بھی اپنا انقلابی پیغام بیجنگ یا شنگھائی میں پرجوش نوجوان DJ بٹ جیسے لوگوں کی ترتیب دی گئی پس پردہ موسیقی کے ذریعے نہیں پھیلاتے تھے۔
اپنے اور اپنے ساتھیوں کو گرفتاری یا ریاستی کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچانے کے لیے ماؤزے تنگ نے دور دراز دیہاتوں اور پہاڑوں میں پناہ لی اور ہزاروں میل تک پھیلے لانگ مارچ کے بعد اقتدار کی راہداریوں تک پہنچے۔ امام خمینی نے 15سے زیادہ سال نجف اشرف میں گزارے۔ وہاں سے وہ اپنا پیغام آڈیو کیسٹ پر ریکارڈ کروانے کے بعد اپنے وفادار رضاکاروں کے ذریعے ایران تک پہنچواتے۔ ان کی تقریر کا کوئی ایک کیسٹ کسی ایک گھر سے برآمد ہوجاتا تو اس کے مکینوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی۔
عمران خان کے پرجوش مداحین مگر یہ ساری باتیں نہیں جانتے۔ اگر جانتے ہیں تو انھیں یاد کرکے ان پر غور نہیں کرنا چاہتے۔ اسی لیے اس خوش گمانی میں مبتلا رہے کہ ٹیلی وژن اسکرینوں پر بڑی جرأت مندی کے ساتھ باتیں کرنے کے بعد عمران خان نے شہروں میں جو بڑے جوش والے جلسے کیے ہیں ان کی وجہ سے 11مئی کو پاکستان میں ایک انقلاب آجائے گا۔
ایسا سوچتے ہوئے وہ یہ بھی بھول بیٹھے کہ پاکستان کا سیاسی نظام پارلیمانی جمہوریت پر مبنی ہے۔ اس نظام میں آپ براہِ راست اپنے ملک کے صدر یا وزیر اعظم کا انتخاب نہیں کرتے۔ قومی اسمبلی کی 272نشستیں ہوتی ہیں جن پر امیدواروں کے درمیان براہِ راست مقابلہ ہوتا ہے۔ جب یہ اراکین منتخب ہوجاتے ہیں تو اقلیتی اورخواتین کی مخصوص نشستیں مختلف سیاسی جماعتوں میں بانٹی جاتی ہیں۔ اس کے بعد 342اراکین پر مشتمل قومی اسمبلی کا انتخابی عمل مکمل ہوجاتا ہے۔ پھر ایک معینہ دن یہ سارے منتخب اراکین مل کر حلف لیتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو منتخب کرتے ہیں اور سب سے آخر میں ایک وزیر اعظم کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔ المختصر وزیراعظم بنانے کی اصل قوت براہِ راست انتخاب کے ذریعے آنے والے 272اراکین کے پاس ہوتی ہے۔ یہ اراکین صرف چند بڑے شہروں سے نہیں بلکہ پاکستان کے سارے صوبوں اور اس کے تمام قصبوں اور دیہاتوں میں پھیلے لوگوں میں سے اُٹھ کر آتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ہر حلقہ کی اپنی اپنی حرکیات ہے۔ اس سے بالاتر ہوکر پاکستانی عوام کی اکثریت کو کسی ایک جماعت یا رہ نما کی شخصیت کے گرد اکٹھاکرنا ایک بہت صبر آزما کام ہے۔
اس کے لیے پورے ملک میں پھیلی وفادار کارکنوں کی ایک بہت بڑی تنظیم چاہیے اور تحریک انصاف کے پاس فی الحال ایسی تنظیم موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود 11مئی کے دن تحریک انصاف نے جو نتائج دکھائے وہ بہت شاندار ہیں۔ ان کی بنیاد پر کی گئی جہدِ مسلسل یقینا آیندہ انتخابات میں وہ سب کچھ حاصل کرسکتی ہے جس کی توقع11مئی 2013ء کو ہونے والے انتخابات سے لگائی گئی تھی۔ اس وقت تو عمران خان کی پہلی ترجیح یہ ہونا چاہیے کہ وہ 11مئی 2013ء کو دکھائی گئی قوت کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں مزید اضافے کی کوششوں کو جاری رکھیں گے۔
اس ضمن میں ان کے لیے پہلا کٹھن مرحلہ خیبرپختون خوامیں صوبائی حکومت کا قیام ہے۔ ان کی جماعت تن تنہا یہ حکومت نہیں بناسکتی۔ اسے جماعت اسلامی اور آفتاب شیر پاؤ کی قومی وطن پارٹی کے علاوہ آزادانہ حیثیت میں صوبائی اسمبلی کا رکن بننے والوں کی حمایت بھی درکار ہے۔ سیاسی لوگ مفت میں اپنی حمایت نہیں بانٹاکرتے۔ ان کی مدد لینے کے لیے کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ ایک مخلوط حکومت کے قیام کے لیے سودے بازی کرنا ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''اصولی اور انقلابی سیاست'' کے جنونی پیروکار یہ سودے بازی آسانی سے ہضم کر پائیں گے؟ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی۔
صوبائی حکومت قائم کرنے کے بعد اسے چلانا بھی ہے اور پہلے نوے دنوں میں یہ پیغام دینا کہ خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف کی چھتری تلے بنی حکومت ماضی کی تمام حکومتوں کے مقابلے میں سب سے بہتر ہے۔ اس کے لوگ قانون کا احترام کرتے اور کرواتے ہیں۔ لوگوں کے روزمرہّ مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے دن رات کوشاں رہتے ہیں اور وزارتوں میں پہنچ کر دیہاڑیاں لگانا نہیں شروع ہوگئے۔ عمران خان کو تین نشستوں سے منتخب ہوجانے کے بعد اب دو نشستیں چھوڑنا ہوں گی۔
فرض کیا وہ راولپنڈی کی نشست چھوڑ دیتے ہیں تو تحریک انصاف کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ اس پر اپنے ہی امیدوار کو کامیاب ہوتا ہوا دکھائے۔ جاوید ہاشمی اگر اسلام آباد کی نشست چھوڑدیتے ہیں تو اسلام آباد میں بھی ایسی ہی صورتحال پید ہوجائے گی۔ اتفاق سے ان نشستوں پرضمنی انتخاب خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت بن جانے کے تقریباً90دن بعد ہوں گے ۔اس حکومت کی کارکردگی ان انتخاب کے نتائج پر فیصلہ کن حوالے سے اثرانداز ہوگی۔
اس لیے میری تحریک انصاف کے انٹرنیٹ جہادیوں سے التجا ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر پر''لفافہ صحافیوں'' کو گالیاں دینے اور اس نظام کو بُرا بھلا کہنے کے بجائے ''جو عمران خان جیسے لوگوں کو وزیر اعظم نہیں بناتا'' اپنی ساری توانائیاں اور توجہ ان امور کی جانب موڑدے جن کی طرف میں نے اس کالم میں کچھ اشارے کیے ہیں۔