مسلم لیگ ن کا منشور اور معاشی مسائل

مسلم لیگ (ن) جیسے ہی عنان اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو گی اسے دیگر مسائل کے علاوہ بہت سے۔۔۔


ایم آئی خلیل May 15, 2013

مسلم لیگ (ن) جیسے ہی عنان اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو گی اسے دیگر مسائل کے علاوہ بہت سے معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونا ہو گا، کیونکہ پاکستان اس وقت معاشی بحران کے دور سے گزر رہا ہے، ایک طرف توانائی کے بحران کے باعث معیشت ہچکولے کھا رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں روز بروز کمی کے باعث تجارتی صورتحال بے یقینی کا شکار بنتی چلی جا رہی ہے، دوسری طرف روپے کی قدر گرتی چلی جا رہی ہے، مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نعرہ تھا کہ مضبوط معیشت اور مضبوط پاکستان۔ چونکہ سردست معیشت کی حالت انتہائی کمزور ترین ہے، ملک میں ٹیکس کلچر نہ ہونے کے باعث جہاں آمدنی میں کمی ہوئی ہے وہیں پر سابقہ حکومت کے بے تحاشا اخراجات نے بھی ملک کی مالیاتی صورت حال کو مزید ابتر بنا کر رکھ دیا تھا۔

بجٹ خسارہ جو کہ ہر سال بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے مسلم لیگ (ن) نے اپنے منشور میں یہ واضح کیا ہے کہ ٹیکسوں کی شرح جی ڈی پی کے9 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کی جائے گی۔ ظاہر ہے اس کے لیے تاجروں کا تعاون حاصل کرنا پڑے گا، لیکن تاجروں، صنعتکاروں اور ٹیکس کی عدم فراہمی کے باعث بہت سے کارخانے بند بھی ہوئے۔ کئی ملوں نے اپنی گنجائش سے کم کام کیا، بہت سے برآمدی آرڈر بروقت پورے نہ ہونے کی بنا پر بیرون ملک خریداروں نے خطے کے دوسرے ملکوں کا رخ کر لیا جس سے عالمی منڈی میں پاکستان کا تاثر خراب ہوتا رہا، نیز ملک میں امن و امان کے بڑھتے ہوئے مسائل کے سبب غیر ملکی تاجروں، سرمایہ کاروں نے پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا، مختلف جائزوں کے مطابق صرف توانائی کے بحران کے باعث پاکستان کو سالانہ 500 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، نیز 10 لاکھ افراد بیروزگار ہو چکے ہیں۔

یہاں چونکہ مسلم لیگ (ن) کا منشور اور معاشی مسائل پر بات ہو رہی ہے لہٰذا اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ منشور میں بجٹ خسارے کو 4 فیصد تک لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جب کہ ایسا سردست ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

اگرچہ نواز شریف یہ بات کر چکے ہیں کہ تاجر برادری ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے انتخابات سے قبل بھی تاجر برادری سے رابطہ استوار رکھا تھا۔ الیکشن کے دوران بھی بہت سے تاجر رہنماؤں اور تنظیموں کی جانب سے ن لیگ کی حمایت نظر آ رہی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کئی انڈسٹریل اسٹیٹ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ مسلم لیگ کے پیش کردہ معاشی نکات کو کامیاب بنائیں گے، مزدوروں کو خوش حال بنانے کے لیے ملازمتوں میں اضافہ کر دیا جائے گا،

اگر حقیقی معنوں میں اس بات پر عملدرآمد ہو جاتا ہے تو یہ بات انتہائی خوش آیند ہو گی، اس قسم کے جذبات صنعتکاروں، تاجروں اور دیگر نجی اداروں کے مالکان کو بھی اپنانا چاہیے کہ اپنے اداروں میں گنجائش کے مطابق نئی ملازمتیں ضرور پیدا کی جائیں، اس لیے کہ ملازمتیں فراہم کرنا صرف حکومت کی ذمے داری نہیں بنتی بلکہ نجی ادارے، مل مالکان اور کارخانہ داروں کو ملک کے معاشی مسائل کے حل میں اپنا دست تعاون بڑھاتے ہوئے اپنے بجٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے ملازم رکھنے چاہئیں، کیونکہ وطن عزیز میں بے روزگاروں کی تعداد مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

اگرچہ اعداد و شمار کے مطابق کل لیبر فورس کا 6 فیصد بیروزگاروں میں شمار کیا جا رہا ہے لیکن اصل تعداد اس سے زیادہ ہے، اول دیہی علاقوں میں مستور بیروزگاری پائی جاتی ہے، نیز بہت سے افراد اپنی تعلیمی قابلیت، اہلیت کے مطابق برسر روزگار نہیں ہیں اور پاکستان میں یہ مسئلہ ایسا ہے جس کا کوئی حل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا، کیونکہ پاکستان معاشی ترقی کے اس معیار پر ابھی تک نہیں پہنچا ہے کہ ہر شخص نہیں تو کم از کم زیادہ تر لوگوں کو ان کی تعلیمی قابلیت ان کے ہنر اور اہلیت کے مطابق انھیں ملازمت حاصل ہو جائے۔

مسلم لیگ (ن) کے انتخابات جیتنے کے فوری بعد کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تاجر رہنماؤں نے آنے والی حکومت کو اپنے تعاون کی یقین دہانی کرا دی ہے، نئی حکومت کی پہلی ترجیح بھی صنعت و تجارت کی ترقی کے لیے امن و امان کا قیام، معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات اور توانائی کے مسائل کو فوری حل کرنا ہے، اس کے لیے بجٹ 2013-14ء میں بجلی بحران حل کے لیے کافی رقم مختص کرنا ہو گی، لیکن اس کام کے لیے اگر حسب سابق نئے نوٹ چھاپ کر یا قرض لے کر کام چلانے کی کوشش کی گئی تو سابقہ حکومت کی طرح مسائل بڑھتے چلے جائیں گے، لہٰذا نئی حکومت کو اپنے منشور میں پیش کردہ نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیکس وصولی کو پہلے کی نسبت کم از کم 50 فیصد اضافہ کرنا ہو گا، اس کے علاوہ اپنے اخراجات میں کمی لانے کے لیے ہر ممکن طریق کار کو اختیار کرنا پڑے گا۔ گزشتہ حکومتیں بار بار اس بات کا اعادہ کرتی رہتی تھیں کہ اخراجات میں کمی کے لیے اکنامک کٹ عائد کر دی گئی ہے۔

بعض اوقات اخراجات میں 30 فیصد کمی کا اعلان کیا جاتا رہا ہے، لیکن اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد نہیں ہوتا تھا، لیکن اس دفعہ معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو گا۔ حال ہی میں چین کے نئے وزیر اعظم نے اپنے انتخاب کے فوری بعد اعلان کیا تھا کہ تمام تر غیر ضروری اخراجات کو کم یا ختم کر دیا جائے گا۔ آنے والی حکومت کو اپنی سادہ اکثریت حاصل کرنے کے بعد اس بات کی زیادہ ضرورت نہ ہو گی کہ اپنے اتحادیوں کو خوش رکھنے کے لیے وزارتوں کی تعداد بڑھائی جائے، وزرائے مملکت زیادہ سے زیادہ لیے جائیں، مشیروں کی فوج بھرتی کر لی جائے، ڈیویلپمنٹ کے نام پر کروڑوں روپے فنڈ میں دیے جائیں۔

لہٰذا ان تمام باتوں کے علاوہ دیگر باتوں سے پرہیز کرتے ہوئے حکومتی اخراجات کو کنٹرول کیا جانا چاہیے، کیونکہ بصورت دیگر اخراجات کے لیے رقوم کی کمی جس طرح پوری کی جاتی ہے اس سے معیشت پر بوجھ پڑتا ہے، قرضوں کا حجم بڑھتا ہے، بے تحاشا نوٹ چھاپے جانے کے باعث افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے، ایک طرف روپے کی قدر گرتی چلی جاتی ہے، بالآخر لوگوں کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے، اور مزید لوگ غربت کی اتھاہ گہرائی میں دھکیلے جاتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) نے اپنے منشور میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ نئے سی این جی اسٹیشنز پر پابندی عائد کی جائے گی اور گیس کی فراہمی میں پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دی جائے گی، بلاشبہ یہ عوام کو ریلیف دینے والا اقدام ہو گا، کیونکہ سی این جی کی عدم دستیابی کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ والے جب توانائی کے دیگر ذرایع کا استعمال کرتے ہیں تو کرایوں میں مزید 10 تا 20 فیصد تک اضافہ کر دیا جاتا ہے اور عوام پر کرایوں کا اضافی بوجھ پڑ جاتا ہے۔

اگرچہ عوام بھی ان کے اس رویے سے نالاں ہوتے ہیں۔ لیکن پبلک ٹرانسپورٹرز کو ایک معقول بہانہ ہاتھ آ جاتا ہے، اب اگر انھیں سی این جی کی فراہمی میں ترجیح دی جائے گی تو ٹرانسپورٹرز اضافی کرایہ وصول نہیں کر سکیں گے، اس طرح عوام کو ایک طرح سے ریلیف ملے گا۔

مسلم لیگ (ن) کے منشور میں دیگر کئی معاشی نکات بیان کیے گئے ہیں جن کا جائزہ معاشی جائزہ میں پیش کیا جاتا رہے گا۔ جس سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ آنے والی حکومت معیشت کی بہتری کے لیے اپنے معاشی پروگرام کے مطابق کس حد تک عمل درآمد کر رہی ہے، یہاں یہ بات خوش آیند ہے کہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے فوراً بعد کاروباری ہفتے کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی آئی ہے، 329 پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ انڈیکس تاریخ کی بلند ترین سطح 20245 تک پہنچ چکا ہے، جو کہ سرمایہ کاروں کا آنے والی حکومت پر اعتماد کا اظہار ہے، تاجر اور صنعتکار اس بارے میں پرامید ہیں کہ مسلم لیگ (ن) ملک کے معاشی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں