شریف حکومت سے اہم توقعات
ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے منچلوں کا جوش۔ کہیں انتخابی دفتر پر ہُو کا عالم۔ کہیں جابجا پھول۔۔۔
ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے منچلوں کا جوش۔
کہیں انتخابی دفتر پر ہُو کا عالم۔ کہیں جابجا پھول کی پتیاں تو کہیں اُجڑی ہوئی خزاں کا منظر۔ کہیں مبارکبادوں کے پیغامات تو کہیں موبائل فون ہی بند۔ یہ ہے ۱۱ مئی 2013ء کو ہونے والے انتخابات کے بعد کی صورتحال۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ہے کہ کسی بھی بڑی ممکنا دہشتگردی کی کاروائی کے بغیر یہ مرحلہ اختتام پذیر ہوا اور ملک بھر کے تقریبا ساٹھ فیصد عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور اپنی من پسند سیاسی قیادت کو اقتدار کے ایوان تک رسائی کا محفوظ راستہ فراہم کیا۔
میڈیا میں 24/7 چلنے والی خبروں اور شام سات بجے کے بعد حشر برپا کرتے کہنہ مشق اینکرز کے دعو ٰے اکژ غلط ثابت ہوئے اور مسلم لیگ ن بلا شرکت غیرے قومی اور پنجاب اسمبلی میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ ماضی میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد اکثر ہارنے والی سیاسی جماعتیں "دھاندلی" کے الزامات عائد کرتی رہی ہیں اس بار بھی یہ بازگشت سنائی ضرور دے رہی ہے مگر اس کی شدت کم ہے۔
اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سندھ میں ہونے والی مبینہ دھاندلی صرف کراچی تک محدود رہی اور دوسری طرف پنجاب میں دھاندلی کے الزامات صرف تحریک انصاف کی طرف سے لگائے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے واحد متحرک لیڈر عمران خان حادثے کی وجہ سے شوکت خانم کے ایک کمرے میں مقید ہو کر رہ گئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک زور نہیں پکڑ پا رہی۔ دوسری طرف ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی یعنی سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی شکست کو تسلیم کر لیا ہے۔
جو بھی ہو مگر یہ حقیقت اٹل ہے کہ میاں نواز شریف اس ملک کے آیندہ وزیر اعظم ہوں گے۔ میاں صاحب پہلے بھی دو مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بنوائے گئے۔ اور اب تیسری مرتبہ خود وزیر اعظم بننے والے ہیں۔ ن لیگ کو مبارک ہو !! مگر "عشق کے امتحان اور بھی ہیں" کے مصداق سیاست کے بھی بہت سے امتحان ابھی باقی ہیں۔ اُمید ہے کہ میاں صاحب چودہ برس قبل جنرل پرویز مشرف کی جانب سے آئین پر مارے گئے شب خون کو ابھی تک بھلا نہیں پائے ہوں گئے۔ اب وہی پرویز مشرف قید میں ہے اور میاں صاحب اقتدار کے ایوان میں۔
میاں صاحب کو یہ نہیں بھولنا چاہئیے کے آئین کو پامال کرنے والا صرف ان کا ذاتی دشمن نہیں بلکہ پوری قوم کا مجرم ہے۔ اور اس قوم نے اُن کو آئین کی عمل داری کا مینڈیٹ دیا ہے نہ کہ کسی قومی مجرم کو اپنا ذاتی مجرم سمجھتے ہوئے معاف کر دینے کا۔ میاں صاحب کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 11 اکتوبر 1999ء کو فوجی آمر نے نواز شریف ولد میاں محمد شریف کو قید نہیں کیا تھا بلکہ پاکستانی قوم کے نمایندہ وزیر اعظم کو قید کیا تھا۔ اسی طرح کارگل آپریشن کے حقائق کو منظر عام پر لانے کا جو وعدہ میاں صاحب نے اپنے جلسوں میں کیا تھا اُس وعدہ کو ایفاء کرنا اب ان کی اخلاقی ذمے داری ہے۔
دوسری طرف کراچی میں روزانہ کے بنیاد پر گرتی ہوئی لاشیں بھی میاں صاحب کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں۔ گزشتہ ادوار میں کراچی کے حالات کو پولیس کے بجائے رینجرز کی مدد سے کنڑول کیا جاتا رہا ہے جب کہ ن لیگ کراچی میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے حکومتی اتحاد پر تنقید کرتی رہی ہے۔
اب رینجرز وفاقی وزرات داخلہ یعنی میاں صاحب کی حکومت کے ماتحت ہونے کے بعد کراچی میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟ یہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔ کراچی میں جاری خونریزی کو روکنے کے لیے میاں صاحب کو جلد ہی کوئی جا مع پالیسی مرتب کرنی ہو گی۔ اس مرتبہ کیونکہ وفاقی حکومت کے لیے نواز شریف صاحب کو متحدہ قومی موومنٹ کی بیساکھی کی ضرور ت نہیں ہے اور نہ ہی سند ھ میں ن لیگ کا کسی سیاسی جماعت کے اتحاد سے صوبائی حکومت بنانے کا کوئی امکان ہے۔ اس لیے میا ں صاحب کے ہاتھ پوری طرح آزاد ہیں اور 90ء کی دہائی کی طرح کراچی میں ایک اور بڑے آپریشن کے قوی امکانات موجود ہیں۔ بصورت دیگر حالات جوں کے توں رہے تو میاں صاحب کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔
اسی طرح خیبر پختون خوا میں جاری دہشت گردی بھی ایک بڑ ا مسئلہ ہے۔ اس صوبے میں پاکستان تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کر لی ہے اگر خان صاحب اس صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے تو تحریک انصاف کو خیبر۔ پی۔ کے کے عوام کو یہ بات باور کروانی ہو گی کہ ابھی معاملات کلی طور پر تحریک انصاف کے اختیار میں نہیں ہیں۔ ورنہ عوام انجانے میں آیندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے ساتھ بھی شاید وہی حشر کریں جو انھوں نے اے۔ این۔ پی کے ساتھ کیا۔ خیبر ۔ پی ۔ کے میں امن و امان کے حوالے سے جو بھی پیشرفت ہو گی وہ مرکز میں "میاں حکوم" نے ہی کرنی ہے۔
انتہا پسندی کا براہ راست تعلق ملک کی "خارجہ پالیسی" اور "دفاعی پالیسی" سے ہے۔ اور مذکورہ دونوں وزارتیں مرکز کے ماتحت ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں جاری دہشت گردی پر کنٹرول بھی وزارت دفاع سے ہی منسلک ہے۔ پاکستان میں جاری دہشتگردی کا ہیڈ کوارٹر فاٹا کے علاقوں کو تصور کیا جاتا ہے۔ فاٹا کے علاقے براہ راست صدر پاکستان کی عملداری میں آتے ہیں۔ اس وقت کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جناب آصف علی زرداری اب ایوان صدر میں زیادہ عرصہ قیام نہیں کر سکیں گے۔ لہذا عنقریب آنے والا نیا صدر اور فاٹا کے حالات کلی طور پر نواز شریف حکومت کے مرہون منت ہوں گے۔
پاکستان کے عوام حال ہی میں یہ بات سن کر شدید اداس ہو گئے کہ الیکشن کمپین میں کیا گیا شہباز شریف کے بجلی کا وزیر بننے کا وعدہ اقتدار میں آنے سے پہلے ہی وفا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ کہا جائے تو غلط نہیں کے پنجاب کے ووٹر کے نزدیک ن لیگ کو ووٹ ڈالنے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ شہباز شریف کے بجلی کے وزیر بن کر میٹرو بس کے منصوبے کی طرح ریکارڈ ٹائم میں ملک اور بالخصوص پنجاب کو بجلی کے بحران سے چھٹکارا دلوانے کا خواب تھا۔ امید ہے گیلانی حکومت کی قلابازیوں کی ریت توڑتے ہوئے چھوٹے میاں صاحب اپنے عہد اور اپنے ووٹرز کے اعتماد پر پورا اتریں گے اور وفاقی وزیر بجلی بن کر پاکستان کو اندھیروں سے ضرور نکالیں گے۔ بصورت دیگر ن لیگ کے ووٹروں کا اعتماد اور امید لوڈ شیڈنگ کی تاریکی میں کہیں کھو جائے گی۔
اب سوال یہ کہ چھوٹے میاں صاحب درباری قسم کے لوگوں کی چاپلوسی کا شکار ہو کر ایک بار پھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننا پسند فرماتے ہیں یا عوام کی سب سے بڑی تکلیف یعنی لوڈ شیڈنگ کے تدارک اور اپنے وعدے کو اہمیت دیتے ہیں؟