دہشت گردی کا مقابلہ ہماری اپنی جنگ ہے

پچھلے چند روز کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف،جنرل اشفاق پرویزکیانی کی طرف سے دیے جانے والے دو بیانات بحث کا موضوع بنے۔۔۔


Babar Ayaz May 15, 2013
[email protected]

پچھلے چند روز کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف،جنرل اشفاق پرویزکیانی کی طرف سے دیے جانے والے دو بیانات بحث کا موضوع بنے ۔نظریاتی طور پر مخالف سیاست دانوں اور صحافیوں نے ان بیانات پر تنقیدکی ہے۔

جنرل کیانی نے پہلا بیان پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں دیا جہاں انھوں نے 127ویں لانگ کورس کی گریجویشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا '' میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا اور اسلام کو پاکستان سے کبھی بھی خارج نہیں کیا جاسکتا۔

اسلام ہمیشہ ہمارے اتحاد کی قوت رہے گا ۔'' انھوں نے دوسرا بیان یوم شہدا کے موقعے پر دیا اور اعلان کیا کہ ''فوج جو جنگ لڑ رہی ہے وہ پاکستان کی جنگ ہے'' انھوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کے خلاف لڑائی،جو طاقت کے زور پر اپنے نظریات مسلط کرنا چاہتے ہیں،جو حکومت کی رٹ کو مسترد کرتے ہیں،جو آئین سے انحراف کرتے ہیں،جو فوج اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کے جوانوں اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں، اصل میں پاکستان کی جنگ ہے۔انھوں نے کہا کہ لوگوں کو ایسی باتوں سے الجھاؤ پیدا نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے،کیونکہ ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ان کے پہلے بیان پر بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اور لبرل لوگوں نے تنقید کی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ فوجی سربراہ کی طرف سے اسلامی نظریے پر زور دینے سے دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ مگر میرا خیال ہے کہ جنرل کیانی پاکستان کی جس تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہیں،وہ سیاست دانوں سے نہیں بلکہ اپنے افسروں سے خطاب کر رہے تھے۔فوج پچھلے65سالوں سے اپنے افسروں اور جوانوں میں اس نظریے کی تبلیغ کرر ہی ہے کہ وہ اسلام کے سپاہی ہیں اور اس طرح نظریاتی سرحدوں کے بھی محافظ ہیں۔

فوج جن دہشت گردوں کے ساتھ لڑ رہی ہے وہ بڑے فخر کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اسلام کے سچے سپاہی ہیںکیونکہ وہ ملک میں اصل شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جمہوریت،آئینِ پاکستان اور فوج اسلام دشمن اور مغرب کے ایجنٹ ہیں۔چنانچہ اب یہ جنگ کیانی کے اعتدال پسند اسلام،پاکستان کی اکثریت اور القاعدہ گروپوں کے انتہا پسند سلفی/ وہابی اسلام اور ان کے اسلام پسند حامیوں کے درمیان جنگ ہے۔

اسلامی نظریہ کے بارے میںبیان کی حمایت کرنے والوں کا خیال ہے کہ جنرل کیانی کودہشت گردی کے خلاف جنگ کو'ہماری اپنی جنگ' قرار نہیںدینا چاہیے کیونکہ اس طرح وہ بالآخر 9/11کے بعد امریکا کے ایماء پر پرویز مشرف کی جانب سے اختیار اور پھر پی پی پی کی اتحادی حکومت کی طرف سے جاری رکھی جانے والی نقصان دہ پالیسیوں کی حمایت کر رہے ہیں ۔اور اصل میں اس بارے میں قوم کا اتفاق رائے چاہتے ہیں کہ فوج ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرے ،جنھوں نے امریکا کی مسلط کردہ حکمت عملی کے اثرات کے خلاف بغاوت کر رکھی ہے۔

طالبان کے یہ حامی جس بات کو بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان،افغان طالبان کی در پردہ حمایت کرتا رہا ہے۔فوج کی حمایت کے بغیر وہ کبھی بھی اپنی جنگ جاری رکھنے کے قابل نہ ہوتے ۔ہماری فوج القاعدہ کے اس ایجنڈے کے خلاف ہے کہ پوری دنیا میں اسلام کے غلبے کے لیے وہ پہلے قدم کے طور پرمسلم اکثریتی ممالک میں اقتدار پر قبضہ کر لے۔

بعض سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کا خیال ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے القاعدہ گروپ وہی لوگ ہیں 'جنھوں نے امریکا کی مسلط کردہ حکمت عملی کے اثرات کے خلاف بغاوت کی تھی'۔یہ خطرناک رجحان ان دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے جو4000 فوجی جوانوں سمیت 45000 سے زیادہ پاکستانیوں کو قتل کر چکے ہیں اور اگر کوئی اس کے خلاف بات کرے تو وہ لوگ جو عقلی دلائل نہیں دے سکتے،اس پر 'لبرل فاشسٹ' کا ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔

دو ایسے لفظوں کو جوڑکر جو ایک دوسرے کی ضد ہیں 'لبرل فاشسٹ' کی اصطلاح وہ لوگ ہی تیار کر سکتے ہیں جو یا تو اتنے بھولے ہیں کہ دو سیاسی اصطلاحات کے متضاد مطلب کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر وہ مذہبی انتہا پسندوںاور دہشت گردوں کے فسطائی عزائم کو چھُپانا چاہتے ہیں۔لبرل لوگ اپنے نظریات طاقت کے ذریعے دوسروں پر مسلط نہیں کرتے اور اگر انھیں اختلاف ہو تب بھی وہ ان لوگوں کے اظہار رائے کے حق کا احترام کرتے ہیں۔

دوسری طرف یہ لوگ، جن عسکریت پسندوں کی اس بنیاد پر حمایت کرتے ہیں کہ انھوں نے حکومت کی حکمت عملی کے خلاف بغاوت کر رکھی ہے 'فاشسٹ' کی تعریف پر پورا اترتے ہیںکیونکہ وہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتے۔تحریک طالبان پاکستان اور اس سے جُڑے ہوئے دہشت گرد گروپ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے حالانکہ یہ وہی جمہوریت ہے جس میں اسلام پسند آزادی سے انتخاب لڑ رہے ہیں اور منور حسن جیسے رہنماؤں کو یہ فرمان جاری کرنے کی کھُلی چھوٹ ہے کہ لبرل لوگوں کوووٹ ڈالنے کے لیے اقلیتوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرانا چاہئے۔

تحریک طالبان اوردوسرے اسلامی عسکریت پسند گروپ آزادی اظہار رائے کے مخالف ہیں ۔ جناب والا! کیا لبرل جمہوریت کی بجائے فاشزم آپ کو یہ حق دیتا ہے کہ آ پ پوری آزادی کے ساتھ اپنے نظریات کا اظہار کریں حالانکہ بعض اوقات جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ مہذب صحافتی اقدار کے منافی ہوتی ہے۔TTP ٹیلی ویژن کے خلاف ہے مگر اس کے باوجود دوسروں تک اپنے پیغامات پہنچانے کے لیے وہ اسی ذریعہ ابلاغ کو استعمال کرتی ہے اور اس کے حامی اپنے نظریات کے پرچار کے لیے ٹی وی پر آنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔

وہ اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کے آنے سے پہلے بھی دہشت گردی موجود تھی کیونکہ پاکستان نے امریکا کی مدد سے دنیا کا سب سے بڑا خفیہ آپریشن شروع کر رکھا تھااور بڑی تعداد میں جہادی گروپ میدان میں تھے۔جب افغانستان میں طالبان حکومت نے لشکرِجھنگوی کے بسرا گروپ کوقندھار میں اپنا دفتر کھولنے کی اجازت دیتو فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں بھی اضافہ ہو گیا۔

ہم چیف آف آرمی اسٹاف کے بیانات کی طرف واپس آتے ہیں،فوج اس بات کا احساس نہیں کر پارہی کہ معاملات چلانے اور قومی سلامتی کے نظریے کی بنیاد مذہب کے استحصال پر رکھنا ایک خطرناک سیاسی تدبیر ہے ۔سیاست میں استعمال کیے جانے والے طریقوں ، جیسے کہ زیر بحث معاملے میں اسلام کا استحصال ہے،کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں جو ایک ایسے انجام کی طرف دھکیلتی ہیں،جس طرف ہمارا ملک بڑھ رہا ہے۔

سیاست میں مذہب کے استعمال نے پاکستان میں سیاسی اور عسکریت پسند اسلامی قوتوں کو وسیع گنجائش فراہم کی ہے اور اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ ملک کو ان عناصر کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ان تمام سیاسی جماعتوں کے لیے جو اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ 'ہماری جنگ' ہے،خطرے کی نسبت اسی نام نہاد نظریہ ء پاکستان سے ہے۔فوجی اسٹیبلشمنٹ کو تسلیم کرنا چاہیے کہ گزشتہ65 سالوں کے دوران جن پالیسیوں پر عمل کیا گیا انھوں نے ہمیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔زیادہ تر ملکوں کی فوج کو،ان ملکوں میں رہنے والی اکثریت کے مذہب کی بنیاد پر متحرک نہیں کیا جاتا۔

انھیں کسی نظریے کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ اپنے ملک و قوم کی حفاظت کے لیے متحرک رکھا جاتا ہے،کیونکہ وہ اپنی ایک قومیت پر یقین رکھتی ہیں۔فوج میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کے لیے نظریے کا استعمال ایک خطرناک رجحان ہے،اس صورت میں کوئی دوسرا گروپ یا ملک یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ اس نظریے کی زیادہ متبرک سوچ کاپیروکار ہے۔ایران کی مذہبی حکوت نظریاتی بنیاد پر دوسرے ملکوں میں شیعہ گروپوں کی حمایت کرنا چاہتی ہے جب کہ سعودی عرب مسلمان ملکوں میںاپنے متبرک وہابی مسلک کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔

کاکول اکیڈمی میں دیے جانے والے بیان کا مقصد فوجی افسروں سے اس وعدے کی تجدید ہے کہ فوج اب بھی اسلامی نظریے پر یقین رکھتی ہے کیونکہ اس کے افسر اور جوان اس بارے میں تذبذب کا شکار ہیں کہ آیا تحریک طالبان پاکستان یا حزب التحریر جیسی اسلامی تحریک حق پر ہے یا وہ حق پر ہیں جن کے خلاف انھیں لڑنے کے لیے کہا جاتا ہے۔دوسرے بیان میں سیاسی جماعتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ایسی باتیں کر کے ابہام میں اضافہ نہ کریں کہ یہ ہماری جنگ نہیں بلکہ امریکا کی جنگ ہے۔

سیاسی پیغامات اور نظریات کو فوجی دفاتر کے دروازوں سے اندر داخل ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔اس لیے جب ہم پہلے ہی اپنی فوج کی پرورش '' اسلامی فوج'' کی حیثیت سے کر چکے ہیں تو پھر'' اسلامی عسکریت پسندوں'' کے ساتھ لڑنا،جو خلافت قائم کرنے کے لیے جہاد کر رہے ہیں،مشکل بھی ہے اور غیر واضح بھی۔اس کا مستقل حل یہ ہے کہ مذہب کو سیاست سے الگ کر دیا جائے اور فوج کو یہ سبق پڑھایا جائے کہ انھیں جہاد سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے قومی فرض کی حیثیت سے پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرنی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں