شعور‘ جس نے لکیر کھینچ دی

2013ء کے انتخابات نے بڑے واشگاف نتائج دیے، پورے پاکستان اور خصوصی طور پر سندھ کے عوام نے شعور۔۔۔

2013ء کے انتخابات نے بڑے واشگاف نتائج دیے، پورے پاکستان اور خصوصی طور پر سندھ کے عوام نے شعور کی ایک ایسی لکیر کھینچ دی جس میں مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کو مسترد کر کے ثابت کر دیا کہ دین کی حرمت اس لیے نہیں کہ اس کی مقدس اقدار کو پامال کر کے سیاست کی چادر میں لپیٹ کر سڑکوں اور چوراہوں پر گھسیٹا جائے۔

اصل حقیقت اس کا احترام دل میں اور اس کا سبق عمل میں ہونا چاہیے نہ کہ لاٹھی کے زور پر پھیلا یا جائے اور ڈنڈے کے زور پر قبول کیا جائے۔ جس کی ناکام کوششیں گزشتہ 3 دھائیوں سے جاری ہیں۔ اس کے نتیجے میں بعض مذہبی جماعتیں جو ماضی میں اسمبلیوں کی سیٹیں حاصل کرتی تھیں ان کو نہ صرف قومی بلکہ صوبائی نمایندگی بھی حاصل نہ ہو سکی حتیٰ کہ جن بستیوں اور علاقوں میں انھوں نے اپنی فکر کو مسلط کر کے خود ساختہ شریعت کے تحت عورت کو ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی تھی، انھی بستیوں سے کسی عورت کا بحیثیت نمایندہ میدان سیاست میں اتر آنا ان منفی طاقتوں کی لازماً شکست ہے۔

ممکن ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ووٹر کی حیثیت سے مذہبی انتہا پسندوں نے کسی سیاسی مصلحت کے پیش نظر ووٹ تو ڈالا ہو لیکن ایسے عناصر ماسوا چند سیٹوں کے بحیثیت نمایندہ کامیابی حاصل نہ کر سکے اور یہ فیصلہ عوام کا ہے۔

اور یہ بھی ہوا کہ ان منفی سوچ کے لوگوں نے جب بیلٹ باکس کی طرف بڑھتی ہوئی لمبی لمبی قطاروں میں اپنی فکر کے لوگوں کو نہ پایا تو اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے انھوں نے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے الیکشن کا ہی بائیکاٹ کر دیا اور اب ان کا اگلا قدم احتجاج ، ہڑتالیں اور دھرنے ہیں اور اس سے پیدا ہونے والی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال عوام کے لیے تکلیف دہ تو ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ بے نقاب چہرے اب باشعور عوام کے ذہن کو تبدیل نہ کر سکیں گے۔


ان کی منافقت بھری سیاست کہ اپنے بچے امریکا میں زیر تعلیم اور امریکا کے خلاف ہی نعرے بازی، کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف بیان بازیوں سے اپنے آپ کو زندہ رکھنا، ایم کیو ایم کو متعصب قرار دینا لیکن قوم پرستوں کے ساتھ بیٹھنے اور اتحاد میں کوئی حرج محسوس نہ کرنا، قول و فعل کے یہ تضاد عوام اب سمجھ چکے ہیں کہ دوسروں کو نصیحت خود را فضیحت یعنی عوام کو سادگی کی تلقین اور خود کی شاہانہ زندگی، گھر گاڑی، بینک بیلنس، غیر ملکی دورے، سب سے بڑھ کر خود نمائی کا فن۔

یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بھی یہ بہت ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود سیاسی ایوانوں میں اپنا مقام نہ بنا سکے اور اس فرسٹریشن میں وہ گلی کوچوں اور محلوں میں جنت و دوزخ کے جھوٹے خواب دکھاتے نعرے بازیاں کرتے رہے۔ ان کا ماضی ہمیشہ برائے فروخت رہا، سوداگری کے ماہر خواہ ہارس ٹریڈنگ ہو یا ڈالروں کے کرائے کے گوریلا سپاہی ''ہر گھڑی تیار'' ان کا ٹریڈ مارک رہا۔ خواہ وہ افغانستان کے راستے روس کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہی خریدے جائیں یا پاکستان کے معصوم عوام کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے خون میں غلطاں کرنے کی مہم جوئی میں مصروف عمل رہیں، اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان کو پارہ پارہ کرنے میں انھوں نے معصوم نوجوانوں کو جنگ کا ایندھن بنانے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی گئی۔

لیکن پاکستانی عوام کو سلام پیش کرنا چاہیے کہ انھوں نے ہر ایسے گروہ اور اس کے سرغنہ کو جو دوسرے ملکوں کی مذہبی شہہ پر انھی کے فکر و فقہے کا لبادہ اوڑھ کر سر زمین پاکستان کو اکھاڑہ بنانے کی کوشش میں مصروف عمل تھا، اسے مکمل طور پر رَد کر کے جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور اس کے ساتھ ہی ان نام نہاد ایجنٹوں کو یہ باور کرا دیا کہ جنت اور دوزخ ملے گی تو انسان کے اپنے عمل سے، ہمیں کسی داروغہ کی ضرورت نہیں۔

اب قابل توجہ امر یہ ہے کہ عوام نے تو بالغ النظری سے ووٹ کی طاقت کے ذریعے اپنا فیصلہ دے دیا، اب منتخب سیاسی قوتوں کو ذہنی بالیدگی کا ثبوت دینا ہو گا تا کہ ایک روشن خیال، ترقی یافتہ اور فلاحی معاشرے کی تشکیل ممکن ہو سکے جس کو قائدِ اعظم نے اپنی پہلی تقریر میں باور کرا دیا تھا۔ بانی پاکستان کی فکر، ان کا منشور، ان کا عمل عین اخلاقیات اور احترام انسانیت پر مبنی تھا خواہ اس کا تعلق کسی بھی گروہ، مذہب، فقہے اور نسل سے ہو کیونکہ یہی ہمہ جہتی دینِ اسلام کا اصل پیغام ہے اور عوام کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ انھیں قائد اعظم کا پاکستان چاہیے نہ کہ دوسرے ملکوں کے مخصوص مذہبی اطوار کا پاکستان۔
Load Next Story