APC اپوزیشن کی نئی اسٹریٹجی

پی ٹی آئی کی طرف سے ممکنہ حکومت سازی اور اپوزیشن کے نئے لائحہ عمل سے سیاسی صورتحال کا تعین آسان نہ ہوگا۔

پی ٹی آئی کی طرف سے ممکنہ حکومت سازی اور اپوزیشن کے نئے لائحہ عمل سے سیاسی صورتحال کا تعین آسان نہ ہوگا۔ فوٹو : فائل

اپوزیشن کی ہم خیال جماعتوں کی کُل جماعتی کانفرنس نے جمعرات کو وزیراعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے مشترکہ امیدوار لانے کا اعلان کیا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے لیے امیدوار مسلم لیگ ن، اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے پیپلز پارٹی جب کہ ڈپٹی اسپیکر کے لیے متحدہ مجلس عمل سے لانے پر اتفاق کیا گیا جب کہ اپوزیشن لیڈر بھی مسلم لیگ ن سے ہی ہوگا۔ اے پی سی نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر فورم پر کھل کر اپوزیشن کرتے ہوئے تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ملکی سیاسی کشمکش اور حکومت سازی میں ڈیڈ لاک سے بچنے کے لیے پی ٹی آئی پر دباؤ بڑھانے کی سرگرمیاں دیدنی ہیں، متحدہ اپوزیشن کے تیور فیصلہ کن اور جذبہ مسابقت ومزاحمت سے لبریز بتائے جاتے ہیں، بظاہر پی ٹی آئی کو نمبر گیم کی برتری حاصل ہے جب کہ میڈیا پنڈتوں میں آزاد پنچھیوں کو قابوکرنے کی حکمت عملی کے سامنے ہمہ اقسام کے اخلاقی جواز اور پارلیمانی اقدار کی رسوائی کے بیشمار تاریخی اور سیاسی حوالے سیاسی درجہ حرارت بڑھانے میں ممد ومعاون ثابت ہو رہے ہیں۔ سر دست جو منظر نامہ ابھرا ہے اسے مبصرین دلچسپ قراردے رہے ہیں، ایک طرف حکومت سازی کے لیے جوڑتوڑ جاری ہے، اپوزیشن اپنے پتے کھیلنے کی مزاحمتی بساط بچھانے میں مصروف ہے۔

دوسری طرف اکثریت ثابت کرنے کے لیے پی ٹی آئی اور اپوزیشن میں اعلانات و بیانات کی اعصابی جنگ نکتہ عروج پر ہے، وفاق میں پی ٹی آئی پہلی کامیابی کے لیے کوشاں ہے مگر ساتھ ہی وہ پنجاب میں بھی حکومت بنانے کے لیے اپنی پوزیشن کو سیکیور قراردے رہی ہے، ن لیگ پنجاب حکومت کے قیام کی بقا کی جنگ لڑنے پر کمر بستہ اور اے پی سی کے فیصلوں کو آخری حد تک لے جانے کا عزم رکھتی ہے تاہم لائحہ عمل اور حکمت عملی کی کلید کس کے ہاتھ میں ہے اس ضمن میں صورتحال گومگو ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے حوالہ سے صورتحال قدرے تعجب انگیز ہے، انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے متحدہ نے کراچی میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں اعلان کیا کہ ہمیں خلائی اور زمینی مخلوق نے ہرایا ، ادھر متحدہ کا وفد خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں عمران سے بنی گالہ میں سیاسی گیو اینڈ ٹیک میں مصروف تھا۔ اسلام آباد میں نعیم الحق کی قیادت میں تحریک انصاف کے وفد نے اختر مینگل سے ملاقات کی۔

جس میں انھیں عمران خان سے ملاقات کی دعوت دی گئی، ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اختر مینگل نے کہا کہ اتحاد میں شمولیت کی دعوت پر تحریک انصاف کے وفد کے ممنون ہیں، ہم نے تحریک انصاف کے سامنے بلوچستان کے مسائل رکھے، لاپتہ افراد کی بازیابی اورسی پیک پر عملدرآمد کا بھی مطالبہ کیا ہے، لہٰذا ہمیں مثبت جواب ملا تو ساتھ دینے کو تیار ہیں، یار محمد رند نے کہا کہ یقین ہے عمران خان سے ملاقات کے بعد اختر مینگل کی جماعت اور ہم ساتھ چلیں گے۔

واضح رہے آل پارٹیزکانفرنس سے بڑی ہلچل مچی ہے ، اپوزیشن کا گیم پلان تبدیل ہوا ہے، کانفرنس میں وزیراعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا مشترکہ امیدوار لانے کے لیے 16 رکنی جوائنٹ ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں مسلم لیگ ن سے مشاہد حسین، سعد رفیق، احسن اقبال، پیپلز پارٹی سے شیری رحمان، قمر زمان کائرہ جب کہ دیگر رہنماؤں میں میاں افتخار حسین، غلام احمد بلور، مولانا عبدالغفور حیدری، اویس نورانی، لیاقت بلوچ، بیرسٹر مسرور، عثمان کاکڑ، رضامحمد رضا، ملک ایوب، انیسہ زیب طاہر خیلی، سینیٹر میر کبیر شامل ہیں۔

اے پی سی میں ن لیگ کے صدر شہباز شریف، راجہ ظفرالحق، چوہدری تنویر، مشاہد حسین، مریم اورنگزیب، پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ، یوسف رضا گیلانی، پرویز اشرف، شیری رحمان، مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، لیاقت بلوچ، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی، حاجی غلام احمد بلور، میاں افتخار حسین، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب خان شیرپاؤ نے شرکت کی۔


ذرائع کا کہنا ہے متحدہ اپوزیشن نے وزیراعظم کی حلف برداری کے موقع پر اسلام آباد میں ریڈ زون کے قریب احتجاجی جلسہ منعقد کرنیکا فیصلہ بھی کیا۔ البتہ خورشید شاہ کی طرف سے عمران کو زیتون کی شاخ بھی پیش کی گئی ، شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے پورا موقع فراہم کریں گے' وہ 100 دنوں کے بجائے 200 دن لے لیں۔

انھوں نے کہا کہ ایک کروڑ افراد کو روزگار مل جاتا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے، خورشید شاہ نے مزید کہا کہ دیکھیں گے کہ ایم کیوایم نے پی ٹی آئی سے معاہدے میں کیا دیا اور کیا لیا ہے،ایک اور مسئلہ پر انھوں نے کہا کہ عمران وزیراعظم بننے کے بعد اسپیکر ہاؤس میں رہائش اختیار نہیں کرسکتے کیونکہ اسپیکر ہاؤس پارلیمنٹ کی پراپرٹی ہے اور پارلیمنٹ کی پراپرٹی میں وزیراعظم نہیں آسکتے ، عمران کے غیر روایتی بیانات کا دلچسپ تناظر پی ٹی آئی ووٹرزکے دل لبھانے کو کافی ہے، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا وعدہ ہے کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں کے وہ خود محافظ ہیں، نہ خود پروٹوکول لیں گے اور نہ لینے دیں گے۔

وہ وزیراعظم ہاؤس سمیت تمام گورنر ہاؤسز کو مفاد عامہ میں استعمال کرنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں، چنانچہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی زیرصدارت پارٹی کا اہم مشاورتی اجلاس بنی گالہ میں ہوا جس میں جہانگیرترین، شاہ محمود قریشی، نعیم الحق سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس میں پنجاب، خیبر پختونخوا، مرکز میں حکومت سازی اور وفاق اور پنجاب میں شراکت اقتدارکے فارمولے اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے مطالبات کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر عمران خان کو آزاد ارکان قومی و پنجاب اسمبلی کے ساتھ رابطوں میں پیشرفت پربریفنگ دی گئی۔

یہ تیز ترین سیاسی پیش رفت اپنی جگہ ،ادھر الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کی ناکامی کی تحقیقات کا دوررس فیصلہ کیا ہے، اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے سیکریٹری کابینہ ڈویژن کو خط لکھتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ آر ٹی ایس کی تحقیقات کے لیے این ٹی آئی ایس بی اور پی ٹی اے کے تکنیکی ماہرین پر مشتمل کمیٹی قائم کرکے تحقیقات چار ہفتوں میں مکمل کی جائے۔

دریں اثنا لاہور ہائیکورٹ میں این اے 131 کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے خواجہ سعد رفیق کی درخواست کی سماعت میں عدالت نے حکم دیا ہے کہ عدالت کو آگاہ کیا جائے کہکن حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کروائی گئی اور کہاں درخواستیں مسترد کیں، دیکھنا ہوگا کہ کہیں ووٹوں کی گنتی کی اجازت دینا اور کہیں روکنا آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی تو نہیں، سیاسی منظر میں سابق چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو بھی نظر آرہے ہیں۔

بنی گالہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ عمران خان سے مل کر انھیں سندھ کے مسائل سے آگاہ کیا۔ ابھی اسپیکر کی آفر آئی نہیں ہے اس لیے قبل از وقت بات کرنا درست نہیں، محمد میاں سومرو نے بتایا کہ ہمیں اکثریت مل چکی ہے، وزرائے اعلیٰ کے ناموں کا بھی جلد اعلان کر دیا جائے گا۔

بلاشبہ پی ٹی آئی کی طرف سے ممکنہ حکومت سازی اور اپوزیشن کے نئے لائحہ عمل سے سیاسی صورتحال کا تعین آسان نہ ہوگا، مطلع ابر آلود ہے، سیاسی شو ڈاؤن کلائمکس پر ہے، لیکن تمام سیاسی قوتوں سے یہی استدعا ہے کہ وہ جمہوری اور پارلیمانی حدود کا لحاظ رکھیں، اسی میں سب کا فائدہ ہے۔
Load Next Story