ہر معاملے کو متنازعہ نہ بنائیے
ہمارے انصاف کی تعریف بھی اپنی ہے۔صرف وہ انصاف چاہیے جو ہمارے فائدے کاہو۔
ہماری سب سے بڑی منفی قوت یہ ہے کہ ہرچیز، واقعہ بلکہ ہراَمرکومتنازعہ بنانے کی طاقت رکھتے ہیں۔کسی بھی سچ کے متعلق شکوک پیداکرسکتے ہیں۔قبیح سے قبیح جھوٹ کوعقیدت اورروایات کے چمکیلے ورق لگاکرسچ ثابت کرسکتے ہیں۔بنیادی طورپرہم ماضی میں رہنے والے وہ لوگ ہیں جنھیں اپنے حال کاتجزیہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
مستقبل کے متعلق بات کرناتوعبث ہے کیونکہ اتنی ذہنی پختگی ابھی معاشرے کی اکثریت کوحاصل نہیں کہ دیوار کے پیچھے دیکھ سکیں۔ہمارے ہاں دانشوراسے سمجھاجاتاہے جودقیق اردولکھ کرعلمیت کارعب جھاڑسکے اورفارسی کے اشعارسے گفتگویاتحریرکومزین کرسکے۔ماڈرن سائنس، ادب یابدلتی ہوئی دنیاکے متعلق شعورانتہائی درمیانہ درجے کا ہے۔اس صورتحال میں ہر شہری کااپناسچ ہے اوروہ اسی پر قائم ہے۔پچھلے چندماہ کے واقعات انسان کوسوچنے پر مجبور کردیتے ہیںکہ آخرہم لوگ کیا ہیں۔ کیا ہماری "جینز" پست درجہ کی ہیں۔کیاہماراخمیراس درجہ ادنیٰ ہے کہ کسی بھی صورت میں اپنے مفادکے خلاف کوئی چیزبرداشت نہیں کرسکتے۔
الیکشن کسی بھی ملک میں سب سے سنجیدہ معاملہ ہوتا ہے۔مہذب دنیامیں عام شہریوں کی رائے سے پرانی حکومتیں ختم ہوتی ہیں اوراقتدارنئے لوگوں کومنتقل ہوجاتا ہے۔مہذب دنیاکے متعلق عرض کررہاہوں۔اس میں بہرحال پاکستان نہیں آتا۔ہمارے ملک میں شدت پسند سیاسی رویے اورمستقل مزاجی حددرجہ ہے۔ہمارے انصاف کی تعریف بھی اپنی ہے۔صرف وہ انصاف چاہیے جو ہمارے فائدے کاہو۔مغربی دنیاہمارے طرزِعمل سے نہ صرف نالاں ہے بلکہ اب ان کا رویہ انتہائی تشویش اور فکر کا ہے۔ترقی یافتہ ممالک اس بات سے بھی پریشان ہیں کہ بالٓاخرہماری ترجیحات کیاہیں اورہمارے اندردوعملی یا منافقت اتنی معراج پرکیسے پہنچ گئی ہے۔ ماضی کے متعلق بات نہیں کرنا چاہتا۔ مگرچندامورایسے ہیں جن پردلیل سے بات کرنے کودل چاہتاہے۔
الیکشن سے پہلے کے واقعات کودیکھنااوراس کے بعد الیکشن کے نتائج پرغورکرنابے حداہم ہے۔پاناما لیکس نے بنیادی طورپرپوری دنیاکوہلاکررکھ دیا۔آپ اس کی بنیاددیکھیے تو یہ وہ نفرت تھی جودنیاکی مضبوط ترین آف شورکمپنی کے ملازم کے ذہن میں آئی اوراس نے یہ"ڈیٹا"دنیاسے شیئر کر لیا۔ امیرترین طبقے کی ناجائزدولت کے خلاف دراصل یہ ایک شدیدردِعمل تھاجس سے دنیاکو معلوم ہواکہ ان کے سیاسی قائدین کیسے انھیں بیوقوف بناکردولت جمع کررہے ہیں۔ ہمارے قائدین کاردِعمل فطری تھاکہ نہیں ہم اس میں ملوث نہیں۔انسان کبھی بھی دل سے اپنی ذاتی کوتاہی یاخرابی کوفی الفورتسلیم نہیں کرتا۔روایات کے عین مطابق ہم نے اس معاملے کو اتنا سنسنی خیزبنادیاکہ پورانظام حکومت ختم ہوکررہ گیا۔
سب جانتے ہیں کہ کس نے دولت کمائی اورمغربی دنیا کی محفوظ پناہ گاہوں میں چھپاڈالی۔یہ بالکل کوئی عجیب بات نہیں۔ سیکڑوں لوگوں کوجانتاہوں جن کے گھراور ساری دولت باہر کے ملکوں میں ہے۔مشکل بات یہ ہے کہ جب کرپشن کو جمہوریت جیسے بہترین نظام میں چھپاکرعام لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی گئی۔جمہوریت کواپنی جیب میں ڈال کرپیسے کے ذریعے ایسی"سموک اسکرین" بنانے کی سعی کی کہ مالی جرائم کوچھپایاجاسکے۔حالیہ الیکشن کا نتیجہ اسی مشکل بیانیہ کاعام فہم ردِعمل ہے۔کسی اَن پڑھ شخص سے بھی بات کرلیجیے۔انتہائی اعتمادسے بتائیگاکہ ہاں چندملکی سیاستدانوں نے واقعی قومی خزانے پرڈاکہ ڈالا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس چوری کوپکڑے جانے پر سارا ملبہ فوج اورعدلیہ پرڈال دیاگیا۔یقین کامل ہے کہ باہر چھپائی گئی دولت ضرورواپس لائی جائے گی۔ اس کے علاوہ قومی بچاؤکاکوئی طریقہ نہیں ہے۔
دیگرمعاملات کوپرکھیے۔کراچی میں ایم کیوایم میں سیاسی بغاوت ہوئی۔الطاف حسین کے ملک دشمن تقاریر کے بعدکسی بھی صاحب الرائے شخص کے لیے ناممکن ہوگیاکہ لندن میں مقیم اس انسان کی حمایت کرسکے۔سیاسی خلفشار اور کراچی میں بالادستی سے مغلوب جذبات کے تحت"پاک سرزمین پارٹی"بنائی گئی۔اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر ہمارے دانشوروں،میڈیاپرسنزاورسیاسی پنڈتوں نے آسمان سرپراُٹھالیاکہ یہ سب کچھ فوج نے کروایا ہے۔ بات یہاں نہیں رکتی۔پروپیگنڈے کی انتہاکردی گئی کہ سرزمین پارٹی کو سندھ میں سیاسی پارٹیوں کی طاقت کوتوڑنے کے لیے استعمال کیاجائیگا۔مجھے ایک سیاسی لیڈریاکارکن کہہ دیجیے جس نے برملااپنے شکوک وشبہات کویقینی طور پر پیش نہ کیا ہو۔
غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کاشوراس قدر مچایا گیاکہ لگتا تھا کہ بس چندمہینوں میں اس پارٹی کا سربراہ، مقتدر قوتوں کے سہارے سے کراچی کے تخت پرقبضہ کرلیگا۔ لیکن الیکشن میں پاک سرزمین پارٹی کو خوفناک شکست ہوئی۔کیایہ شکست اس بات کوظاہرنہیں کرتی کہ عسکری اداروں کی اس سیاسی پارٹی کے متعلق تمام پروپیگنڈاجھوٹ اورلغوتھا۔کیاکسی سیاسی لیڈرنے قوم سے معافی مانگی کہ "ہم"سے غلطی ہوگئی یا ہمارا سچ دراصل غلط بیانی تھی۔کسی ایک بھی شخص نے اپنے غلط تجزیے یاحقائق کے برعکس تقریرکاذکرتک نہیں کیا۔
اب سندھ کے اندر"گرینڈڈیموکریٹک"جی ڈی اے کی طرف نظردوڑائیے۔کیاہرطرف یہ نہیں کہا جارہا تھا کہ یہ سب کچھ بھی"خفیہ ہاتھ"پیپلزپارٹی کو ہرانے کے لیے کر رہے ہیں۔خودپیپلزپارٹی کے سرکردہ لوگ ببانگ دہل یہ فرمارہے تھے کہ یہ سب کچھ بوٹوں والے کررہے ہیں۔ الیکشن کے نتیجہ میں جی ڈی اے کوئی قابل ذکرکامیابی حاصل نہیں کرسکا۔کیاواقعی یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگرفوج ملوث ہوتی تواتنی کمزورہے کہ جی ڈی اے کو جتوانہ پاتی۔تجزیہ ہے کہ اگر دفاعی ادارے کسی بھی جماعت یاشخص کواوپرلاناچاہیں توکوئی انھیں نہیں روک سکتا۔نوازشریف اورشہبازشریف کا قومی سطح پر اُبھرنا صرف اورصرف"فرشتوں"کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ زمانہ جانتاہے کہ حقائق کیا ہیں۔ کیاجی ڈی اے کے ہارنے سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ عسکری ادارے مکمل طور پر غیرجانبدارتھے۔
"جیپ"کے انتخابی نشان کی طرف آئیے۔باقاعدہ ایک مہم چلائی گئی جس میں بغیرکسی شہادت کے یہ ثابت کیا گیاکہ جیپ کے نشان لینے والے اُمیدواروں کے پیچھے آئی ایس آئی ہے۔سینہ کوبی شروع ہوگئی۔جیدترین دانشوروں نے آسمان سے تارے توڑکرثابت کرنے کی کوشش کی کہ جیپ کے نشان والے اُمیدواروں کوفوج جتائے گی۔ چوہدری نثاراس گروپ کی قیادت کرینگے اور پھر عمران خان کا پتہ صاف کردیاجائیگا۔کوئی سقراط، چوہدری نثارکووزیراعظم بنوارہاتھاتوکوئی فلسفی اسے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنوانے پر مصر تھے۔
عام لوگوں میں یہ تاثرایک مخصوص حکمتِ عملی کے تحت پھیلایاگیاکہ فوج پنجاب میں سیاست کررہی ہے۔الیکشن نے یہ مفروضہ بھی ختم کر ڈالا۔جس شخص کوجیپ والے گروہ کا لیڈربنایاگیا۔وہ بری طرح الیکشن ہارکرزخم چاٹ رہا ہے۔ جیپ کے نشان والے اُمیدواربھی کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کرسکے۔دلیل کی بنیادپریہ بات غلط ثابت ہوئی مگر کسی"بقراط"نے یہ نہیں فرمایاکہ صاحب،میراتجزیہ غلط تھا۔ پاک سرزمین پارٹی، جی ڈی اے اورجیپ والی بات سے کیا یہ نکتہ ثابت نہیں ہوتاکہ فوج کاادارہ مکمل طورپر غیرجانبدار تھا۔ضمنی سوال دوبارہ کرتاہوں کہ کیاعسکری ادارے کے لیے ان تمام کو الیکشن جتوانامشکل تھا۔ہرگزنہیں۔غیرمتعصب تجزیے سے مکمل طورپرثابت ہوتاہے کہ الیکشن میں ایک طبقہ، خاص حکمتِ عملی کے تحت،فوج کومتنازعہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ کوشش مکمل طورپرناکام ہوئی۔
رویوں کوگہرائی سے جانچیں توانسانوں کی قائدانہ خصوصیات کھل کرسامنے آجاتی ہیں۔پنجاب کے سابقہ وزیراعلیٰ متحرک انسان ہیں۔کام کرنے کاشوق بھی ہے۔ مگر الیکشن سے پہلے انکابیانیہ انتہائی غورطلب ہے۔ باربارعوامی جلسوں میں کہہ رہے تھے کہ اگر25جولائی کو الیکشن میں ان کے مینڈیٹ کونقصان پہنچایاگیاتووہ عوامی سیلاب لے کر آئینگے۔یہاں تک کہتے رہے کہ ان کی پارٹی کو حکومت نہ ملی، تو اسکامطلب ہے کہ الیکشن کا پورا "پراسس" ہی مشکوک ہے۔ چلیے،مان لیتے ہیں کہ انتخاب سے پہلے کی تقاریرمیں ہیجان کا پہلو ہوتا ہے۔
مگر 25جولائی کو ساڑھے گیارہ بجے یا شائد اس سے بھی پہلے انھوں نے حیران کن اعلان کردیاکہ وہ الیکشن کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں۔عجیب بات تویہ ہے کہ ان کی تقریرکے وقت تک پورے ملک میں صرف ایک یا دو حلقوں کے نتائج پرائیویٹ چینلزپربتائے گئے تھے۔ پورے ملک سے کوئی بھی نتیجہ حتمی طورپرسامنے نہیں آیاتھا۔ پھروہ کون سے ذرایع تھے،جنہوں نے سابقہ وزیراعلیٰ کو بتایا کہ تحریک انصاف میدان مارچکی ہے اور مسلم لیگ ہارگئی ہے۔مکمل نتائج سے پہلے، جذباتیت کے زیرِاثر،ایک ملکی سطح کے قائدکونتائج مستردکرنے کی بات فہم سے باہرہے۔اس کا ایک مطلب تویہ بھی ہوسکتا ہے کہ انتخابی تقاریرمیں جوباتیں کہی جارہی تھیں،اس وقت بھی انھیں ادراک ہوچکا تھا کہ سیاسی میدان میں شکست ہوچکی ہے۔
25جولائی کو انتہائی مشکل تقریر دیوارپرلکھے ہوئے فیصلے کے نقصان سے بچنے کی کوشش تھی۔ بہرحال جوبھی معاملہ ہو،قومی سطح پر تنازعات کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کے بجائے ارتعاش پھیلانا سنجیدہ رویہ نہیں۔ہمارے جید قائدین اس بات کا ادراک نہیں کرپارہے کہ لوگ ان کی باتوں سے کتناتنگ آچکے ہیں۔ ان کے متضادعملی رویوں کودیکھ کرنا اُمید ہوچکے ہیں۔نوجوان نسل میں گلے سڑے نظام سے صرف اورصرف نفرت کے جذبات ہیں۔ اخلاص یہ ہے کہ الیکشن سمیت کسی بھی نازک معاملے کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔ترقی کی شاہراہ پر چلیے۔ شائد ہمارانھیں تو ہمارے بچوں کامستقبل ہی سنورجائے!