لیاری میں پیپلز پارٹی کی شکست

پولیٹیکل انجنیئرنگ اورکچھ پیپلز پارٹی کی مایوس کن کارکردگی بلاول کو شکست سے دوچار کرگئی۔

tauceeph@gmail.com

بلاول بھٹو زرداری لیاری سے انتخاب ہار گئے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کا قیام لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی قیام گاہ پر عمل میں آیا تھا مگر لیاری کے عوام نے سب سے پہلے پیپلز پارٹی کی پذیرائی کی تھی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن ذوالفقار علی بھٹو نے چاکیواڑہ میں سڑک کے کنارے ہوٹل پرچائے پی کر اور قریبی کھوکھے سے پان کھا کر لیاری کے عوام کے دلوں میں جانے والا راستہ ہموار کیا تھا۔

پیپلز پارٹی 1970ء سے منعقد ہونے والے 10 انتخابات میں یہاں سے کامیاب ہوتی آئی ہے مگر اب پولیٹیکل انجنیئرنگ اورکچھ پیپلز پارٹی کی مایوس کن کارکردگی بلاول کو شکست سے دوچار کرگئی۔ بلاول کی مہم کا آغاز ہی لیاری میں ایک احتجاجی مظاہرے سے ہوا تھا مگر شاید پیپلز پارٹی کی منصوبہ سازی کے ماہرین سیاسی منظرنامے کے پس پشت محرکات کو محسوس نہیں کرسکے۔ قومی اسمبلی کا حلقہ 246 لیاری کا حلقہ ہے مگر نئی حلقہ بندی میں اس حلقے کی حدود تبدیل ہوگئی ہے ۔ اب اس حلقے میں گارڈن ویسٹ سے متصل کراچی کے قدیم حسین ڈی سلوا فلیٹ، دھوبی گھاٹ، نشتر روڈ اور گھاس منڈی کے علاقے بھی شامل کیے گئے۔

ان علاقوں میں نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی مختلف برادریاں رہتی ہیں، جن میں اردو بولنے والے میمن ، پنجابی،پٹھان، بلوچ اور ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والی دیگر زبانیں بولنے والی برادریاں ہیں۔ ان علاقوں میں روایتی طور پر بریلوی مکتبہ فکرکا اثر زیادہ ہے۔ لیاری میں مختلف برادریوں کی آبادی کا تناسب بھی تبدیل ہوا ہے۔ اب ملک کے مختلف علاقوں سے آکر آباد ہونے والے سندھی، پٹھان، بلوچ اور پنجابیوں کی تعداد بھی خاطرخواہ بڑھ گئی ہے۔ ایک پرانے سیاسی کارکن کا کہنا ہے کہ اب آبادی کے اعتبار سے بلوچ اور کچھی برادری کی بالادستی ماضی کی طرح نہیں رہی۔

لیاری گزشتہ صدی کے آخری حصے میں ایک دفعہ پھرگینگسٹرزکی یلغار کا شکار ہوا، انور بھائی جان نے بلوچ اتحاد کی تحریک کے نام سے پیپلز پارٹی کے متبادل ایک تحریک کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ وقت تھا جب بلوچستان میں نئے تضادات ابھارے جا رہے تھے۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس مری کے قتل کے الزام میں مری قبیلے کے سردار خیر بخش مری کوگرفتارکیا گیا تھا اور نامعلوم افراد بعض کارکنوں کے اغواء کے بعد لاپتہ افراد کی اصطلاح سیاسی بیانیے میں شامل ہوگئی تھی۔ بلوچستان میں ایک نئی مزاحمتی تحریک جنم لے رہی تھی۔

تاریخی طور پر لیاری ہمیشہ بلوچستان میں چلنے والی تحریکوں کا مرکز رہا ہے۔چاکیواڑہ ٹرام اسٹاف کو انقلاب جنکشن کا مقام اصل تھا۔ بلوچستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے لیاری کے عوام کو علیحدہ رکھنے کے لیے لیاری کوگینگ وار میں دھکیلنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی، یوں لیاری گینگ وار کا مرکز بن گیا، پیپلز پارٹی لیاری کی وارث تھی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف اپنا بیانیہ تیار کرنا چاہیے تھا مگر 2008ء کے انتخابات میں لیاری پیپلز پارٹی کے رہنما ان گینگسٹرز (جن کی قیادت رحمن بلوچ عرف رحمن ڈکیت کررہا تھا) سے فاصلہ بڑھانے کے بجائے انھیں اپنی حلقے میں شامل کیا، قائم علی شاہ کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔

اس دور میں قائم علی شاہ کے سوا تین اور وزراء بھی وزیر اعلیٰ کے اختیارات استعمال کررہے تھے۔ ان میں سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا بھی شامل تھے جنہوں نے کالعدم لیاری پیپلز امن کمیٹی کی باقاعدہ سرپرستی کا فخریہ اعلان کیا۔ وہ یہ سب کچھ ایم کیو ایم کی مخالفت میں کررہے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب پیپلز پارٹی کی قیادت اور کالعدم لیاری پیپلز امن کمیٹی کے درمیان خوشگوار تعلقات تھے۔

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی ڈاکٹرائن کے منفی اثرات کو صدر زرداری نے محسوس کیا اور ذوالفقار مرزا معزول کر دیے گئے مگر لیاری کے گینگسٹرز نے لیاری کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں میں بھی کارروائیاں تیز کردیں۔ شیر شاہ کا کباڑی بازار اس صورتحال سے براہِ راست متاثر ہوا۔ بغیرکسی وجہ کے اردو بولنے والوں اور بلوچوں کے درمیان تصادم کی افسوس ناک شکل سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی نے پولیس افسر چوہدری اسلم کو ان گینگسٹرز کے خاتمے کا ٹاسک دیا، یوں ''چیل چوک'' دنیا بھر میں مشہور ہوا، مگر اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی کچھ اور تھی۔


اب رحمن ڈکیت کے وارث عزیر بلوچ سردار کا لقب حاصل کرچکے تھے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے پھر 2013ء کے انتخابات میں ایک اور تاریخی غلطی کی۔ عزیر بلوچ کی سفارش پر انتخابی ٹکٹ بانٹے گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کی ڈاکٹرائن ہر صورت دہشت گردی کا خاتمہ تھی۔ پہلی دفعہ گینگسٹرز کے خلاف بھرپور آپریشن ہوا۔ لیاری کی صورتحال معمول پر آگئی مگر لیاری بجلی ، پانی اور بے روزگاری کے شدید بحران کا شکار ہوا۔

بعض مبصرین کہتے ہیں کہ 25 جولائی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے انتخاب میں غلطی کی اور ان لوگوں کو امیدوار بنایا جن پر گینگ وار میں ملوث ہونے کے الزامات تھے۔ لیاری کی صورتحال پر نظر رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے 1970 ء میں امداد حسین شاہ، احمد علی سومرو جیسے کارکنوں کو ٹکٹ دیے تھے۔ یہ کارکن منتخب ہونے کے بعد بھی لیاری میں رہے مگر 1996ء اور اس کے بعد کے تمام انتخابات میں جن کارکنوں کو ٹکٹ دیے گئے وہ منتخب ہونے کے بعد لیاری چھوڑ گئے۔

منتخب نمایندوں کے عوام سے رابطہ کم ہونے کی بناء پر قومی اور صوبائی اسمبلی کے منتخب ہونے والے امیدواروں کے ووٹوں کا تناسب کم ہورہا تھا۔ 1992ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار واجہ کریم داد، ماما یونس بلوچ کے مقابلے میں 300ووٹ سے کامیاب ہوئے تھے۔ 2002ء میں پیپلز پارٹی کے ووٹوں کا تناسب بڑھ گیا۔ 2008ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کی بناء پر ہمدردی کی لہر کی بناء پر ووٹوں کا تناسب بڑھ گیا۔ 2013ء کے انتخابات میں عزیر بلوچ کے جنگجوؤں نے پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ پرانے سیاسی کارکن ابراہیم اسماعیل کہتے ہیں کہ گینگ وار سے کچھی برادری براہِ راست متاثر ہوئی۔ ان انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے امیدواروں پر گینگ وار میں ملوث ہونے کے الزامات تھے۔

اس بناء پر کچھی برادری نے پیپلز پارٹی کی حمایت نہیں کی۔ کچھی برادری سے تعلق رکھنے والے حسن علی مارشل نے اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے ایک معتبر انگریزی اخبار کے رپورٹر کو بتایا کہ پیپلز پارٹی نے کچھی برادری سے تعلق رکھنے والی ایک کارکن خاتون کو مخصوص نشستوں پر نامزد کیا۔ اس بناء پر یہ برادری پیپلز پارٹی کی حامی تھی۔ اسی طرح کا تاثر ہنگورا برادری کے بارے میں بھی ہے۔

ہنگورا برادری سے تعلق رکھنے والے ابراہیم صالح جو مارکسٹ نظریات کے حامل ہیں کہتے ہیں کہ ہنگورا برادری پیپلز پارٹی کی گینگسٹرز سے تعلق کی پالیسی سے مایوس تھی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس برادری کے رہنماؤں کو 2013ء میں ایک نشست کی پیشکش کی تھی مگر اس صورتحال کی بناء پر اس پیشکش کو قبول نہیں کیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شکور شاد خود پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور پیپلز پارٹی کے پرانے فعال کارکن تھے، یوں وہ بھی کچھ ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ لیاری میں پیداہونے والے سینئر صحافی اور معروف ادیب کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف دونوں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ہارگئی۔ تحریک انصاف کو پولیٹیکل انجینئرنگ کی بناء پر قومی اسمبلی میں کامیابی حاصل ہوئی۔

1965ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد لیاری میں معروف کمیونسٹ یوسف نسکندی کے گھر پر رکھی گئی تھی۔ اس اجلاس میں ایک نوجوان بھی شریک تھا۔ اب اس معمر شخص نے جو کئی کتابوں کا مصنف ہے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ گینگ وار اور پیپلز پارٹی کی آپس کی چپقلش شکست کی وجہ بنی۔ پیپلز پارٹی کے کارکن کہتے ہیں کہ لیاری کراچی کا پسماندہ ترین علاقہ ہے۔ لیاری میں مکانات سڑکیں، تعلیمی ادارے اور اسپتال سب پیپلز پارٹی کے دور میں تعمیر ہوئے۔ لیاری والوں کے لیے وفاقی اور صوبائی اداروں کے دروازے کھل گئے۔ لیاری کو پیپلز پارٹی ہی ترقی دے سکتی ہے۔

246 NA-کے انتخابی نتائج پولیٹیکل انجنیئرنگ کے نہ نظر آنے والے نظام کی بناء پر تبدیل ہوئے۔ بظاہر پیپلز پارٹی کی شکست عارضی ہے، اگر بلاول حالات کا تجزیہ کریں، لیاری کے عوام سے براہِ راست رابطہ کریں تو پھر پولیٹیکل انجنیئرنگ کا نظام لیاری میں بھی اسی طرح ناکام ہوگا جیسے لاڑکانہ اور نواب شاہ میں ہوا۔
Load Next Story