تبدیلی

ن لیگ ویسے ہی تڑپ رہی ہے کہ کیا ہوا اصل میں ن لیگ کو نقصان نواز شریف نے خود پہنچایا۔

fnakvi@yahoo.com

الیکشن 2018ء اس لحاظ سے منفرد رہا کہ بڑے بڑے بت پاش پاش ہوگئے اور ان لوگوں نے شور ڈال دیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے ، مولانا فضل الرحمن جوکہ اپنے مختلف ناموں اور ایک ہی کام یعنی اقتدار کی وجہ سے لوگوں میں کافی مشہور ہیں اس بار حکومت میں رہنے سے محروم ہوگئے۔ حالانکہ انھوں نے الیکشن سے پہلے اشاروں کنایوں میں کہنا شروع کردیا تھا کہ وہ نئی آنے والی متوقع تحریک انصاف کی حکومت سے بھی اپنا تعاون جاری رکھیں گے مگر ووٹرز نے یہ سنتے ہی ووٹ کو عزت دینے کا فیصلہ کرلیا۔

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا دونوں سیٹیں ہار گئے مگر پایہ استقلال میں کمی نہ آئی ابھی بھی ضمنی انتخاب میں حصہ لے کر پارلیمنٹ میں جانے کے خواب دیکھ رہے ہیں اس سے پہلے ایسی تمام پارٹیاں جوکہ انتخابات میں ناکامی کی رسوائی لیے ہوئے ہیں ان کو بلاکر الیکشن کو دوبارہ کروانے کی فرمائش لے بیٹھے مگر ان کی باتوں میں کوئی نہ آیا کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ اگر الیکشن دوبارہ ہوگیا تو ان سیٹوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

اس لیے موجودہ سیٹوں پر ہی قناعت کی گئی اور کسی نے ان کی باتوں پر کان نہ دھرے اور پارلیمنٹ میں جانے کو ہی بہتری قرار دیا حیرت کی بات تو یہ تھی کہ اس نام نہاد اے پی سی میں وہ دو جماعتیں بھی موجود تھیں جو ایک دوسرے سے ہی مل کر الیکشن کمیشن کی دھائیاں دے رہی تھیں کوئی پوچھے کہ جناب دونوں پارٹی آمنے سامنے ہیں آپس میں ہی فیصلہ کر لیں کہ کس نے مینڈیٹ چرایا اس میں خلائی مخلوق کہاں سے آ گئی مگر دونوں نے الیکشن میں غیر مرئی قوتوں کا تذکرہ تو کیا مگر سامنے کی بات کو نظر انداز کردیا۔

مصلحت اس میں تھی حیرت تو پیپلزپارٹی پر ہو رہی ہے 2013ء میں بھی پنجاب میں کون سا کارنامہ انجام دیا تھا جو 2018ء میں دھاندلی کا شور ڈالا ہوا ہے۔ سندھ ان کے قبضے میں ہی تھا اور ہے پھر کس بات کا رونا مگر منہ کے ذائقے بدلنے کو شور شرابا کر دیاتاکہ سند رہے۔ ہمیں تو بلاول کے لیاری سے ہارنے میں کوئی اچبنھے کی بات اس لیے نہیں نظر آئی کہ نواز شریف نے ووٹ کی عزت کو اپنا بیانیہ بنا کر ووٹر کوخواب غفلت سے جگا دیا اور ووٹر نے عملی کارکردگی کی بنیاد پر یہ فیصلہ صادر فرمایا کیونکہ کراچی بد ترین مسائل کا شکار رہا۔

بلدیاتی اداروں کو کام کرنے نہیں دیا گیا، پانی کی کمی، کچرے کی زیادتی، آپس کی چپقلش، دھڑے بازیوں نے یہ دن دکھایا کہ بلاول نے لیاری جیسے گڑھ سے اپنی ہار کو ممکن بنایا۔ پیپلزپارٹی کا یہ وعدہ کہ سمندر کے پانی کو میٹھا بنائیںگے اس نے بھی ووٹر کو ہنسنے پر مجبورکیا کہ پانچ سال میں کیوں اس پر کام نہیں کیا تو آیندہ کیا کریںگے ۔


حالانکہ پیپلزپارٹی ایک نظریاتی جماعت ہے جوکہ ن لیگ سے قطعی مختلف ہے، یہاں شیری رحمان، چوہدری اعتزاز احسن، رضا ربانی جیسے لوگ موجود ہیں کارکنوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جوکہ بھٹو کے نظریے کو لے کر چلنے میں ہی بہتری سمجھتی ہیں مگر میثاق جمہوریت نے پہلے بھی پیپلزپارٹی کو نقصان پہنچایا اور ن لیگ کا بھلا کیا اور اگر اب بھی ن لیگ سے پینگیں بڑھائی گئیں تو اسی میں پیپلزپارٹی کا ہی نقصان ہو گا۔ پیپلزپارٹی کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس سے کہاں غلطیاں ہوئیں یہ ایک وفاقی جماعت ہے آصف زرداری نے بالکل درست فیصلہ کیا کہ پارلیمنٹ میں جانا چاہیے اور صرف سندھ میں اپنی کارکردگی کو ہی نگاہ میں رکھا جائے تو پھر دوبارہ سے بھاگا ہوا ووٹر واپس آ جائے گا۔

ایم کیو ایم کے ساتھ بھی کسی نے برا نہیں کیا بلکہ انھوں نے اپنے ساتھ خود برا کیا۔ الیکشن سے دو چار دن پہلے تک خالد مقبول اور فاروق ستار کے اختلافات ہی ختم نہیں ہو رہے تھے۔ پی ایس پی، حقیقی، بہادرآباد والے کہ پی آئی بی والے ان دھڑوں نے ہی ایم کیو ایم کا دھڑن تختہ کیا۔ پی ایس پی نے تو منہ کی کھائی۔ ایم کیو ایم نے تو پھر بھی 6 سیٹیں لے لیں اور آج بھی حکومت سازی میں ان کی اہمیت وہی رہی مگر جس طرح سے ووٹر نے ان کو مسترد کیا وہ صرف ان کی آپس کی چپقلش کا ہی نتیجہ ہے۔ ووٹر کنفیوژ تھا کہ کس کو ووٹ ڈالے، مصطفی کمال کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

اصل میں مہاجروں کی نمایندہ جماعت ہونے کے باوجود ہر حکومت میں شامل ہونے کے باوجود ووٹرز کے لیے کچھ نہیں کیا مہاجر طلبا پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کیے روزگار کے مواقعے نہ ہونے کے برابر، ملازمتیں کوٹہ سسٹم کھاگئیں۔ اس لیے ووٹر نے اپنی امیدوں کر مرکز کسی اور کو بنالیا اپنی بقا کے لیے کسی اور طرف رجوع کرنا ان کا حق تھا۔

فاروق ستار کیوں چیخ پکار کررہے ہیں تحریک لبیک مذہبی جماعتوں میں کچھ کام دکھا گئی مگر جنت کے وعدے پر بھی ووٹ نہ ہونے کے برابر پڑے کہ ووٹر کو شعور آگیا کہ جنت ووٹ سے نہیں اعمال سے ملتی ہے اور دین تو وہ 14 سو سال پہلے ہی آگیا تھا ۔ نئی حکومت تحریک انصاف بناتی نظر آرہی ہے مگر ان کو بیلٹ میں سجاکر یہ حکومت نہیں ملے گی۔ اب ان کو اپوزیشن کی سختی کو بھی سہنا پڑے گا اور اپنے اندرونِ خانہ مضبوط تنظیم بھی کرنی پڑے گی کیونکہ کارکردگی دکھائے بغیر پانچ سال گزارنا مشکل ہوجائے گا۔

ن لیگ ویسے ہی تڑپ رہی ہے کہ کیا ہوا اصل میں ن لیگ کو نقصان نواز شریف نے خود پہنچایا اگر پاناما کیس کی وجہ سے وہ عدالت میں جانے سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیتے تو عزت بچ جاتی ۔ نا اہل ہونے کے بعد بھی تو وزارت عظمیٰ شاہد خاقان عباسی کو دی گئی یہ فیصلہ پہلے ہو جاتا تو ن لیگ کا ووٹ بینک بڑھ جاتا۔ مریم نواز کو اداروں کے خلاف اُکسانے والے بھی نواز شریف کے دوست نہیں آستین کے سانپ تھے۔
Load Next Story