پنجاب میں ن لیگ حکومت کیوں نہیں

اگر ہارنے والی جماعتیں اس لہر کے گزرنے کا انتظار نہیں کریں گی تو یہ لہر انھیں بہا کر لے جا سکتی ہے۔

پاکستان کی سیاست میں ایک نئی صورتحال ہے نیا ماحول ہے، جو بعض روایتی سیاست دانوں خصوصاً جے یو آئی کے سربراہ کی سمجھ سے بالاتر ہے اور وہ عوامی دھارے کی نئی لہر سے لڑکر ہر جگہ اپنا مذاق بنا رہے ہیں۔

حیرت انگیز حالات ہیں ہر شخص آنے والے حکومت کا خیر مقدم کر رہا ہے دنیا بھرکے ممالک سے مبارک باد کے پیغامات آ رہے ہیں۔ پاکستان کے وہ عوام جو کل تک آنے والی حکومت کے مخالف تھے،آج کھلے عام محفلوں میں آنے والی حکومت کی بڑھ چڑھ کر تعریف کر رہے ہیں۔

متوقع وزیراعظم عمران خان کی انتخابات میں کامیابی کے بعدکی جانے والی تقریرکی پذیرائی انتہا کو چھو رہی ہے۔ ایسے حالات میں دیگر جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے نتائج پر وا ویلا کرنے کو ناپسند کیا جا رہا ہے ابتداء میں ایم ایم اے کی جانب سے حلف نہ لینے کا اعلان کیاگیا تھا اور مسلم لیگ (ن) کو بھی اس پر آمادہ کرنے کی کو شش کی گئی۔ اس اعلان سے تمام آزاد اراکین میں خوف پیدا ہوا کہ یہ انھیں اسمبلیوں میں نہیں جانے دیں گے لہذا وہ سب آنے والی نئی حکومت سے جا ملے خود مسلم لیگ (ن) میں کھلبلی مچ گئی۔

شاید اس بیان اور احتجاجی رویے کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) میں ٹوٹ پھوٹ بھی ہوسکتی ہے۔ اب نتیجے کے طور پر وہ پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ رہی۔ مولانا فضل الرحمن کے بیان نے جو نقصان مسلم لیگ (ن) کو پہنچایا ہے اس کا ازالہ میڈیا کے سامنے مدتوں ممکن نہ رہے گا، میڈیا کے سامنے پوری اپوزیشن جماعتوں کے موقف کو مولانا فضل الرحمن پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس سلسلے میں آگے آنا چاہیے ورنہ اس طرح کاسلسلہ بے اثر ہو جائے گا۔ اگر مولانا کی حلف نہ لینے کی خواہش پر عمل ہو بھی جائے تو چند ایک کو چھوڑ کر تمام اراکین اسمبلی ایوانوں میں چلے جائیں گے اور وہاں جا کر انھوں نے اپنے پارلیمانی قائد کا انتخاب کر لیا تو باہر رہنے والے مکمل طور پر غیر موثر ہو جائیں گے ۔


اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ دانشمندی کامظاہرہ پاکستان پیپلز پارٹی نے کیا۔ انھوں نے مولانا فضل الرحمان کی بات کو رد کیا۔ اسمبلیوں میں جانے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح اپنی پارٹی کو متحد رکھا اور ایک پیغام دیا کہ وہ آنے والی حکومت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ انھیں موقع دیں گے۔ مولانا فضل الرحمن چونکہ اسمبلی میں نہیں ہیں تو وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے دیگر ساتھی یا شہباز شریف اورا ن کے دیگر ساتھی اسمبلی میں جائیں۔ بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کی اسمبلی میں موجودگی مولانا فضل الرحمان کے لیے بے چینی اور پریشانی کا باعث ہے۔

مولانا فضل الرحمان اقتدار سے علیحد گی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے سب کو جمع کر کے پس پردہ کوئی ڈیل کر کے شیر بننے کی کوشش کی ہو، اس میں بھی ناکامی ہوئی ہو۔ عرصہ دراز بعد ایسے حالات ہیں کہ وہ اقتدار سے باہر ہیں۔ نہ وہ وزارت کے ٹھاٹ باٹھ ہیں وزارت والا عالیشان بنگلہ بھی ہاتھ سے جا رہا ہے۔ اب وہ کسی کی فائل لے کر وزیر اعظم کے پاس بھی نہیں جا سکتے۔

یہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہے اس سلسلے میں پیپلزپا رٹی نے بہت زیادہ سمجھ بوجھ سے کام لیا۔ ایسی حکمت عملی اپنائی جسے زیادہ پذیرائی ملے۔ پیپلزپارٹی نے بلاول بھٹو کو آگے کر دیا ہے اور ہر قسم کی محاذ آرائی سے دور کر دیا ہے اب وہ اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس رویے کا پیپلزپارٹی کو فائدہ ہو سکتا ہے اور مستقبل میں ملک بھر میں ایک مرتبہ پھر اپنی پارٹی کو عوام میں مقبول بنانے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ اس کے لیے اہم ترین بات سندھ کو ترقی کی منزلوں تک پہنچانا ہو گا۔ سندھ کو پسماندگی اور غربت سے نکالنا ہو گا۔ سٹرکوں کا جال بچھا نا ہو گا اچھی ٹرانسپورٹ لانی ہو گی، تعلیمی اداروں کو بہتر بنانا ہو گا، صحت عامہ کی سہولتوں میں اضافہ کرنا ہو گا، آیندہ کے انتخابات میں کارکردگی اہم ترین مسئلہ ہوگا۔

موجودہ پانچ سالوں میں سندھ کی حکومت کو انتھک محنت کرنی ہوگی۔چند روز کے بعد ملک بھر میں نئی وفاق اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل ہو جائے گی ۔ سیاسی استحکام کے آثار واضح ہیں، دھاندلی کے الزامات کو عوام قبول کرنے تو تیار نہیں ہیں ۔ اگر ہارنے والی جماعتیں عوام کے رحجان کا بھی اندازہ نہیں لگا رہی ہیں تو انھیں اپنی سیاست کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا ۔ ایک نئی لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے جوکم ازکم ہارنے والی جماعتوں کے حق میں نہیں ہے۔

اگر ہارنے والی جماعتیں اس لہر کے گزرنے کا انتظار نہیں کریں گی تو یہ لہر انھیں بہا کر لے جا سکتی ہے۔ سیاست ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی نہ ہی اس میں کوئی جمود ہوتا ہے سیاست میں حالات کے نئے رخ کو اچھی طرح سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور اس میں غلطی کرنے سے شدید نقصان ہوتا ہے ۔ لہذا سیاست دانوں کونئے حالات کو اچھی طرح سمجھنا ہو گا ۔
Load Next Story