یمن کی جنگ اور پراسرار خاموشی
یہ دو واقعات تو یمن کی جنگ کی ہلکی سی جھلک ہیں۔ پورا منظرنامہ تو بہت خوفناک ہے۔
پاکستانی میڈیا پر اظہار رائے کی کوئی قدغن عائد نہیں ہے۔ سب یہاں اپنا اپنا راگ کھل کر الاپتے ہیں۔ بعض اوقات اخلاقیات کا دامن بھی ہاتھ سے چُھٹنے لگتا ہے مگر اس کی فکرکس کو ہے، فکر ہے تو بس اپنے اپنے مفادات کی۔ اسی فکر میں پاکستانی میڈیا کبھی تو اپنی زبان کو آپ ہی تالا لگا لیتا ہے، کبھی حقیقت سے آنکھیں پھیرکر انجان بن جاتا ہے اورکبھی تصویرکا صرف ایک رخ دکھا کر جان چھڑا لیتا ہے۔ لیکن یمن کا عالمی بحران اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
ایسا ایک بار نہیں بار بار ہوا ہے کہ یمن کے بارے میں جب کبھی کچھ جاننے کی جستجو نے بے چین کیا تو اپنی توجہ کا رخ بین الاقوامی میڈیا کی جانب موڑنا پڑا۔ پاکستانی میڈیا نے اس معاملے پر سوائے تشنگی بڑھانے کے دوسرا کوئی کردار نہ نبھایا۔ یہ کیسے مفادات ہیں جن کا تحفظ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کرکیا جا رہا ہے۔ یمنیوں کی آواز سے آواز ملانے میں کون سی مصلحت آڑے آرہی ہے؟ دوستی کے پل آخرکس قیمت پر استوارکیے جا رہے ہیں؟
پاکستان کا آزاد میڈیا یمن کے سانحے کی طرف سے آنکھیں موندے خود کوکتنا ہی بے خبر اور غافل ثابت کرے لیکن ان سوالوں کے جواب کبھی نہ کبھی ضروردینا پڑیں گے۔ یمن میں موجودہ دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحران کی قلعی کھولتی ایک تصویر کو میں کتنی ہی دیر تک اپنے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر دیکھتی رہی۔ تصویر یمن کے مردہ خانے میں ایک ہی اسٹریچر پر پڑی دو لاشوں کی تھی۔ یہ لاشیں کسی یمنی عورت اور اس کے کمسن بچے کی تھیں۔
تصویر میں زندگی کی بیڑیوں سے آزاد ان جسموں کے صرف پاؤں نمایاں تھے۔ بچے کے پاؤں بے جان ہوکر بھی اپنی ماں کے وجود سے الگ ہونے کو تیار نہ تھے۔ وہ پاؤں اس تصویر کا عنوان بھی تھے اور آنسوؤں میں بھیگی ایک مکمل کہانی بھی۔ ان کی موت کی وجہ میں جانے کی ضرورت نہیں۔ عالمی طاقتوں کے پسندیدہ کھیل میں بری طرح پسپا ہوکر جبراً عدم کی طرف روانہ کیے گئے ایسے ہزاروں یمنی باشندے لاشوں کی صورت میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں، لیکن افسوس جیتے جاگتے یمنی، لاشوں میں تبدیل ہوکر بھی ہمارے میڈیا میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ یمن کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی بحران کا مشاہدہ کرنے والی آنکھیں تو سلامت ہیں لیکن ان کا حال رقم کرنے والے قلم اپنی نوک توڑ چکے ہیں۔
یہ بے اعتنائی اور خاموشی پراسرار بھی ہے اور قابلِ شرم بھی۔ مجھے حیرت تو اس بات پر ہے کہ یمن کی جنگ میں امریکا کے خفیہ ہاتھ کا راز آشکار ہونے کے باوجود امریکی میڈیا میں یمن کے بحران پر اچھی خاصی بحث کی جارہی ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ یمن کے بحران میں امریکی حصے داری کا پول کھولنے والا خود امریکی میڈیا ہی ہے، اگرچہ وہاں بھی ریاستی مفادات کے تحفظ کے لیے انسانی اقدارکو قربان کرتے چینل اور اخبارات موجود ہیں لیکن دوسری طرف روشن چہرے والا میڈیا بھی ہے جو یمن کے حوالے سے امریکا کے کردار پر مسلسل انگلی اٹھا رہا ہے۔
ایسے چینل بھی ہیں جو یمن کے سلگتے ایشو پرکئی کئی گھنٹے کی نشریات دکھاتے ہیں۔ امریکا کے ایک چینل پی بی ایس نے گزشتہ دنوں ایک رپورٹ چلائی جس میں رپورٹر ایک یمنی ڈاکٹر سے انٹرویوکررہا تھا۔ اس ڈاکٹر نے کہا''دنیا پوچھتی ہے کہ یمن کی جنگ میں امریکا کہاں ہے؟ میں پوچھتا ہوں کہ امریکا کہاں نہیں ہے؟ یہاں چاروں طرف امریکا ہی تو ہے۔ جو جنگی طیارے ہمیں مار رہے ہیں وہ امریکی ہیں ۔ جو ٹینک ہم پر چڑھائے جاتے ہیں وہ امریکا میں بنائے جاتے ہیں۔ ہم پر جو اسلحہ برس رہا ہے وہ امریکا اپنے دوستوں کو فروخت کر رہا ہے۔
جو میزائل داغے جارہے ہیں وہ امریکا سے بن کر آرہے ہیں۔ یہاں برسنے والے کلسٹر بم امریکا اور برطانیہ سے لائے جا رہے ہیں۔ پھر دنیا یہ احمقانہ سوال کیوں کرتی ہے کہ امریکا یمن میں کہاں ہے؟'' یمنی ڈاکٹر نے جوکہا اس کی صداقت میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ امریکا عملی طور پر اس جنگ کا ایک بڑا فریق ہے۔ ڈرون حملوں کی ذمے داری تو امریکا نے ڈرون طیاروں کی فروخت کے قوانین کا پاس رکھتے ہوئے خود ہی اٹھا رکھی ہے۔
امریکا کا میڈیا یہ سوال مسلسل اٹھا رہا ہے کہ کل تک تو القاعدہ کے خلاف امریکا کو حوثیوں کی ہی مدد درکار تھی آج پانسہ کیسے پلٹ گیا؟ سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستانی میڈیا میں یمن کی جنگ پر بات کرنے میں آخر حرج کیا ہے، مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اگر یہ نہ بھی بتایا جائے کہ اس تنازعے میں کون حق پر ہے اور کون ناحق خون کی ہولی کھیل رہا ہے تو کم ازکم یہ تو بتایا جا سکتا ہے کہ چار لاکھ یمنی بچے بھوک کی وجہ سے موت کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ آٹھ ملین یمنی باشندوں کو صرف ایک وقت کی خوراک کا آسرا ہے۔
یمن کے اقتصادی ڈھانچے کا اب صرف ڈھانچا ہی باقی بچا ہے اور تو اور یمن میں ہیضے کی وبا ایک بار پھر لوٹ آئی ہے۔ پاکستانی میڈیا ریاست کی خارجہ پالیسی کا احترام کرتے ہوئے آگ برساتے طیاروں کی تصاویر نہیں دکھاسکتا تو نہ دکھائے لیکن ان ماؤں کے چہرے تو دنیا کو دکھائے جن کے کم زور ہاتھوں میں فاقوں کا شکار لاغر بچے دم توڑ رہے ہیں اور وہ بے بسی سے آسمان تک رہی ہیں۔ وہ مرد جو اپنے تباہ برباد مکانوں کے ملبے پر سر پکڑے بیٹھے وہ گناہ یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی پاداش میں ان پر یہ زمینی قہر توڑا گیا۔ کسی پاکستانی چینل پر وہ روتی یمنی عورت کیوں جگہ نہ بناسکی جو بچے کی میت کے پاس بیٹھی کہہ رہی تھی کہ ''ہم مجبور ہیں۔ اپنے بچوں کو بچانے سے ہم قاصر ہیں۔'' پاکستانی میڈیا یمن کے حوالے سے اپنی آزادی اظہار رائے میں ڈنڈی شاید اس لیے مارتا ہے کہ ان سوالات سے بچ سکے جو یقیناً حساس نوعیت کے ہیں۔
ان میں سب سے بڑا سوال تو یہ کہ ایرانی سرپرستی میں لڑنے والے حوثی صراط مستقیم پر ہیں یا سعودی اور اس کے اتحادی؟ لیکن میرے نزدیک ایسے تمام سوالات سے زیادہ حساس یہ امر ہے کہ اس ملٹی پولر جنگ میں پسنے والے عام یمنی باشندے ہماری طرح گوشت پوست کے انسان ہیں۔ کھنڈر میں بدلنے والے اسکول، مدرسے، گھر اور مسجدیں ہیں۔ کچلی جانے والی آفاقی اقدار اور مسخ ہونے والی انسانی تاریخ ہے۔ پاکستانی میڈیا نے یمن ایک ٹیبو بنا دیا ہے۔ اس موضوع سے گریزکیا جا رہا ہے، صرف اس لیے کہ اگر یمن کے بحران کی وجوہات کو کریدا گیا تو پہلی کدال قریبی دوستوں سے روا رکھے جانے والے دیرینہ مراسم پر پڑے گی۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ یمن کا بحران صرف یمنیوں کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو بالعموم اور مسلم دنیا کو بالخصوص اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے۔ جولائی کے آخری ہفتے میں حوثیوں نے ابوظبی ایئر پورٹ پر تین ڈرون حملے کیے۔
متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ابتدا میں اسے لاکھ چھپانے کی کوشش کی بالآخر تسلیم کرنا ہی پڑا۔ اگر چہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن خوف کی جو فضا قائم ہوئی اس نے عام شہریوں کے سامنے بہت سارے سوالات کھڑے کردیے۔ دوسری طرف حوثیوں نے بحیرہ احمر میں سعودی عرب کی تیل کی شپمنٹ پر بھی حملے کیے۔ بحیرۂ احمر کا یہ سمندری روٹ بہت سارے ممالک کے لیے تجارتی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ آئل ٹینکر دو ملین بیرل سے زائد تیل لے کر منزل کی جانب رواں تھے۔
اس حملے کے بعد سعودی آئل کمپنی'' آرامکو '' نے تحفظ کے پیش نظر تمام شپ منٹ روک دیں، جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوگیا۔ یہ دو واقعات تو یمن کی جنگ کی ہلکی سی جھلک ہیں۔ پورا منظرنامہ تو بہت خوفناک ہے۔ ان حالات میں میڈیا کے کاندھوں پر ذمے داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ حقائق کا غیرجانبداری سے جائزہ لے اور کل انسانیت کے مفادات کی بات کرے ۔ چاہے اس کی زد میں کوئی اپنا آئے یا پرایا۔ یمن کے بحران کو دنیا کتنا بھی درگزرکرے، پاکستان یا کسی بھی ملک کا میڈیا یمن کے سانحے کو ذاتی مفادات پر بے شک قربان کردے، آنے والی نسلیں اسے اپنے نصابوں میں پھر بھی پڑھیں گیاور ہماری خاموشی اورخود ساختہ بے زبانی پر نگاہِ ملامت ڈالیں گی۔
ایسا ایک بار نہیں بار بار ہوا ہے کہ یمن کے بارے میں جب کبھی کچھ جاننے کی جستجو نے بے چین کیا تو اپنی توجہ کا رخ بین الاقوامی میڈیا کی جانب موڑنا پڑا۔ پاکستانی میڈیا نے اس معاملے پر سوائے تشنگی بڑھانے کے دوسرا کوئی کردار نہ نبھایا۔ یہ کیسے مفادات ہیں جن کا تحفظ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کرکیا جا رہا ہے۔ یمنیوں کی آواز سے آواز ملانے میں کون سی مصلحت آڑے آرہی ہے؟ دوستی کے پل آخرکس قیمت پر استوارکیے جا رہے ہیں؟
پاکستان کا آزاد میڈیا یمن کے سانحے کی طرف سے آنکھیں موندے خود کوکتنا ہی بے خبر اور غافل ثابت کرے لیکن ان سوالوں کے جواب کبھی نہ کبھی ضروردینا پڑیں گے۔ یمن میں موجودہ دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحران کی قلعی کھولتی ایک تصویر کو میں کتنی ہی دیر تک اپنے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر دیکھتی رہی۔ تصویر یمن کے مردہ خانے میں ایک ہی اسٹریچر پر پڑی دو لاشوں کی تھی۔ یہ لاشیں کسی یمنی عورت اور اس کے کمسن بچے کی تھیں۔
تصویر میں زندگی کی بیڑیوں سے آزاد ان جسموں کے صرف پاؤں نمایاں تھے۔ بچے کے پاؤں بے جان ہوکر بھی اپنی ماں کے وجود سے الگ ہونے کو تیار نہ تھے۔ وہ پاؤں اس تصویر کا عنوان بھی تھے اور آنسوؤں میں بھیگی ایک مکمل کہانی بھی۔ ان کی موت کی وجہ میں جانے کی ضرورت نہیں۔ عالمی طاقتوں کے پسندیدہ کھیل میں بری طرح پسپا ہوکر جبراً عدم کی طرف روانہ کیے گئے ایسے ہزاروں یمنی باشندے لاشوں کی صورت میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں، لیکن افسوس جیتے جاگتے یمنی، لاشوں میں تبدیل ہوکر بھی ہمارے میڈیا میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ یمن کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی بحران کا مشاہدہ کرنے والی آنکھیں تو سلامت ہیں لیکن ان کا حال رقم کرنے والے قلم اپنی نوک توڑ چکے ہیں۔
یہ بے اعتنائی اور خاموشی پراسرار بھی ہے اور قابلِ شرم بھی۔ مجھے حیرت تو اس بات پر ہے کہ یمن کی جنگ میں امریکا کے خفیہ ہاتھ کا راز آشکار ہونے کے باوجود امریکی میڈیا میں یمن کے بحران پر اچھی خاصی بحث کی جارہی ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ یمن کے بحران میں امریکی حصے داری کا پول کھولنے والا خود امریکی میڈیا ہی ہے، اگرچہ وہاں بھی ریاستی مفادات کے تحفظ کے لیے انسانی اقدارکو قربان کرتے چینل اور اخبارات موجود ہیں لیکن دوسری طرف روشن چہرے والا میڈیا بھی ہے جو یمن کے حوالے سے امریکا کے کردار پر مسلسل انگلی اٹھا رہا ہے۔
ایسے چینل بھی ہیں جو یمن کے سلگتے ایشو پرکئی کئی گھنٹے کی نشریات دکھاتے ہیں۔ امریکا کے ایک چینل پی بی ایس نے گزشتہ دنوں ایک رپورٹ چلائی جس میں رپورٹر ایک یمنی ڈاکٹر سے انٹرویوکررہا تھا۔ اس ڈاکٹر نے کہا''دنیا پوچھتی ہے کہ یمن کی جنگ میں امریکا کہاں ہے؟ میں پوچھتا ہوں کہ امریکا کہاں نہیں ہے؟ یہاں چاروں طرف امریکا ہی تو ہے۔ جو جنگی طیارے ہمیں مار رہے ہیں وہ امریکی ہیں ۔ جو ٹینک ہم پر چڑھائے جاتے ہیں وہ امریکا میں بنائے جاتے ہیں۔ ہم پر جو اسلحہ برس رہا ہے وہ امریکا اپنے دوستوں کو فروخت کر رہا ہے۔
جو میزائل داغے جارہے ہیں وہ امریکا سے بن کر آرہے ہیں۔ یہاں برسنے والے کلسٹر بم امریکا اور برطانیہ سے لائے جا رہے ہیں۔ پھر دنیا یہ احمقانہ سوال کیوں کرتی ہے کہ امریکا یمن میں کہاں ہے؟'' یمنی ڈاکٹر نے جوکہا اس کی صداقت میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ امریکا عملی طور پر اس جنگ کا ایک بڑا فریق ہے۔ ڈرون حملوں کی ذمے داری تو امریکا نے ڈرون طیاروں کی فروخت کے قوانین کا پاس رکھتے ہوئے خود ہی اٹھا رکھی ہے۔
امریکا کا میڈیا یہ سوال مسلسل اٹھا رہا ہے کہ کل تک تو القاعدہ کے خلاف امریکا کو حوثیوں کی ہی مدد درکار تھی آج پانسہ کیسے پلٹ گیا؟ سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستانی میڈیا میں یمن کی جنگ پر بات کرنے میں آخر حرج کیا ہے، مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اگر یہ نہ بھی بتایا جائے کہ اس تنازعے میں کون حق پر ہے اور کون ناحق خون کی ہولی کھیل رہا ہے تو کم ازکم یہ تو بتایا جا سکتا ہے کہ چار لاکھ یمنی بچے بھوک کی وجہ سے موت کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ آٹھ ملین یمنی باشندوں کو صرف ایک وقت کی خوراک کا آسرا ہے۔
یمن کے اقتصادی ڈھانچے کا اب صرف ڈھانچا ہی باقی بچا ہے اور تو اور یمن میں ہیضے کی وبا ایک بار پھر لوٹ آئی ہے۔ پاکستانی میڈیا ریاست کی خارجہ پالیسی کا احترام کرتے ہوئے آگ برساتے طیاروں کی تصاویر نہیں دکھاسکتا تو نہ دکھائے لیکن ان ماؤں کے چہرے تو دنیا کو دکھائے جن کے کم زور ہاتھوں میں فاقوں کا شکار لاغر بچے دم توڑ رہے ہیں اور وہ بے بسی سے آسمان تک رہی ہیں۔ وہ مرد جو اپنے تباہ برباد مکانوں کے ملبے پر سر پکڑے بیٹھے وہ گناہ یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی پاداش میں ان پر یہ زمینی قہر توڑا گیا۔ کسی پاکستانی چینل پر وہ روتی یمنی عورت کیوں جگہ نہ بناسکی جو بچے کی میت کے پاس بیٹھی کہہ رہی تھی کہ ''ہم مجبور ہیں۔ اپنے بچوں کو بچانے سے ہم قاصر ہیں۔'' پاکستانی میڈیا یمن کے حوالے سے اپنی آزادی اظہار رائے میں ڈنڈی شاید اس لیے مارتا ہے کہ ان سوالات سے بچ سکے جو یقیناً حساس نوعیت کے ہیں۔
ان میں سب سے بڑا سوال تو یہ کہ ایرانی سرپرستی میں لڑنے والے حوثی صراط مستقیم پر ہیں یا سعودی اور اس کے اتحادی؟ لیکن میرے نزدیک ایسے تمام سوالات سے زیادہ حساس یہ امر ہے کہ اس ملٹی پولر جنگ میں پسنے والے عام یمنی باشندے ہماری طرح گوشت پوست کے انسان ہیں۔ کھنڈر میں بدلنے والے اسکول، مدرسے، گھر اور مسجدیں ہیں۔ کچلی جانے والی آفاقی اقدار اور مسخ ہونے والی انسانی تاریخ ہے۔ پاکستانی میڈیا نے یمن ایک ٹیبو بنا دیا ہے۔ اس موضوع سے گریزکیا جا رہا ہے، صرف اس لیے کہ اگر یمن کے بحران کی وجوہات کو کریدا گیا تو پہلی کدال قریبی دوستوں سے روا رکھے جانے والے دیرینہ مراسم پر پڑے گی۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ یمن کا بحران صرف یمنیوں کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو بالعموم اور مسلم دنیا کو بالخصوص اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے۔ جولائی کے آخری ہفتے میں حوثیوں نے ابوظبی ایئر پورٹ پر تین ڈرون حملے کیے۔
متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ابتدا میں اسے لاکھ چھپانے کی کوشش کی بالآخر تسلیم کرنا ہی پڑا۔ اگر چہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن خوف کی جو فضا قائم ہوئی اس نے عام شہریوں کے سامنے بہت سارے سوالات کھڑے کردیے۔ دوسری طرف حوثیوں نے بحیرہ احمر میں سعودی عرب کی تیل کی شپمنٹ پر بھی حملے کیے۔ بحیرۂ احمر کا یہ سمندری روٹ بہت سارے ممالک کے لیے تجارتی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ آئل ٹینکر دو ملین بیرل سے زائد تیل لے کر منزل کی جانب رواں تھے۔
اس حملے کے بعد سعودی آئل کمپنی'' آرامکو '' نے تحفظ کے پیش نظر تمام شپ منٹ روک دیں، جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوگیا۔ یہ دو واقعات تو یمن کی جنگ کی ہلکی سی جھلک ہیں۔ پورا منظرنامہ تو بہت خوفناک ہے۔ ان حالات میں میڈیا کے کاندھوں پر ذمے داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ حقائق کا غیرجانبداری سے جائزہ لے اور کل انسانیت کے مفادات کی بات کرے ۔ چاہے اس کی زد میں کوئی اپنا آئے یا پرایا۔ یمن کے بحران کو دنیا کتنا بھی درگزرکرے، پاکستان یا کسی بھی ملک کا میڈیا یمن کے سانحے کو ذاتی مفادات پر بے شک قربان کردے، آنے والی نسلیں اسے اپنے نصابوں میں پھر بھی پڑھیں گیاور ہماری خاموشی اورخود ساختہ بے زبانی پر نگاہِ ملامت ڈالیں گی۔