جہاں گشت
وہ دروازے میں کھڑی برس رہی تھی
قسط نمبر6
اب تم ضرور واپس آؤ گے۔ اب تمہیں یہاں واپس آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ ہاں دنیا کی کوئی طاقت بھی نہیں، خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہمیشہ رہے گا، دل سے مانگی جانے والی دعا عرش کو چِیر کر اپنا راستہ بناتی اور قبول ہوتی ہے، ظالم کا ہاتھ کبھی تم تک نہیں پہنچ سکے گا اور وہ نیست و نابود رہیں گے، خدا ہے ہمارا محافظ اور جس کی حفاظت وہ کرے اسے کوئی نہیں ضرر پہنچا سکتا۔
گل بی بی کی آنکھیں برس رہی تھیں، ہاتھ بلند تھے اور وہ ایک عالم بے خودی میں دعائیں مانگے جارہی تھی۔ لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ '' تمہارے'' کے بہ جائے ''ہمارا'' کیوں کہہ رہی تھی، میں نے اس پر زیادہ نہیں سوچا۔
تم سچ کہہ رہی ہو گل بی بی...؟ میں بول پڑا۔
ہاں بالکل سچ۔
میں دل ہی دل میں اس کی معصومیت پر ہنس دیا، کیسا رشتہ ہے یہ، ایک اجنبی کے لیے اتنی مصیبتیں، اتنے آنسو اور اتنی دعائیں۔ ہاں یہی ہوتا ہے اصل رشتہ تو۔ تھوڑی دیر بعد بابا آگئے۔ لو بیٹا تمہارا تو کام ہوگیا، آگے اﷲ مالک ہے۔
کیسا کام بابا؟ مجھ سے پہلے گُل بی بی بول پڑی۔
تیرا نہیں پگلی، اس پگلے کا کام۔ میرا ایک دوست ہے وہ یہاں سے کراچی تک ٹرک لے کر جاتا ہے، میں نے اس سے بات کرلی ہے کہ وہ کسی وقت رات کو اگر کراچی کے لیے روانہ ہو تو مجھے بتادے۔ تاکہ میرا ایک مہمان ہے اسے بھی ساتھ لے جائے۔ تو اس نے بتایا ہے کہ وہ پرسوں رات کو یہاں سے نکلے گا تو بس اسے اس کے ٹرک پر بٹھا دوں گا۔ آگے جو خدا کو منظور۔
وہ میری بہ حفاظت واپسی کے لیے کس قدر بے چین تھے۔ میں ان کا کیا لگتا تھا آخر، وہ سب کچھ کیوں کر رہے تھے۔ یہ تھا ناں اصل رشتہ، بے لوث، بے ریا اور انمول۔ دوسرا دن بس گزر ہی گیا، سارا دن میں یہی سنتا رہا کہ اب تمہیں یہاں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا، ہماری حفاظت خدا کرے گا اور بس اس طرح کی باتیں۔ جس دن میری روانگی تھی میں کمرے میں لیٹا رہا اور زندگی ایک فلم کی طرح میرے سامنے چلنے لگی۔ مجھے اب کیا کرنا ہے، نہیں میں نے کبھی نہیں سوچا، میں اک خودکار انسان میں بدل گیا تھا، جیسے اک پرندہ جسے کوئی فکر نہیں ہوتی کہ وہ آگے کیا کرے گا۔
گل بی بی شام ہی سے کھانا بنانے لگی تھی، اسے ایک پل بھی چین نہیں تھا۔ بابا اسے بار بار ہدایات دے رہے تھے کہ راستے کے لیے بھی کھانا بنادینا اور وہ بابا بالکل فکر نہ کرو کہتی ہوئی اپنے کام میں جُتی ہوئی تھی۔ وقت کو کوئی نہیں روک سکا۔ بالکل بھی نہیں، کیسے کوئی روک سکتا ہے وقت کو۔ شب کا پہلا پہر گزر گیا تھا اور اب میرے جانے کا وقت ہوگیا تھا۔ بابا نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور پھر دعا سسکیوں میں بدل گئی۔ یہ آنسو بہت انمول ہوتے ہیں۔ ہم تینوں رو رہے تھے۔ آخر بابا نے اپنی ہمت جمع کی اور جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ گل بی بی ابھی تک رو رہی تھی اور ہم دونوں اسے دیکھ رہے تھے۔ بابا اسے تسلی دے رہے تھے۔ مہمان تو مہمان ہوتے ہیں اور پھر مسافر مہمان تو جانے کے لیے ہوتا ہے۔ بابا نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ وہ پھٹ پڑی نہیں بابا نہیں۔ یہ مسافر نہیں ہے یہ مہمان نہیں ہے، یہ واپس آئے گا، ضرور آئے گا، بابا آپ دیکھنا اور میں آپ کو بتاؤں گی کہ دیکھو یہ واپس آگیا ہے۔
میں بے اختیار آگے بڑھ کر اُس سے لپٹ گیا۔ گھر سے باہر قدم نکالنے سے پہلے اس نے پھر آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھا اور مجھ پر پھونک کر خدائے پہ آمان، اور تمہارے چہرے کے سامنے ہمیشہ روشنی رہے، کہا تھا۔ تم دروازہ بند کرلو میں انشااﷲ جلد واپس آجاؤں گا، کہہ کر بابا نے میرا سامان اٹھایا اور ہم گھر سے باہر نکل گئے۔ وہ دروازے میں کھڑی برس رہی تھی۔ نظروں سے اوجھل ہونے تک میں اسے پیچھے مڑ مڑکر دیکھتا رہا۔ پھر دو ہاتھ بلند ہوئے اور میں رخصت ہوگیا۔ اور نہ جانے رخصت بھی ہوا یا وہیں رہ گیا۔ شاید جسمانی طور پر میں رخصت ہوا تھا ، روح تو میری وہیں رہ گئی تھی۔
میں اور بابا بہت دیر تک چلتے رہے اور بالکل خاموش، رات کے سناٹے کو کُتوں کے بھونکنے کی آوازیں سحرزدہ بنا رہی تھیں، پھر پکی سڑک آگئی اور بابا نے مجھے بیٹھنے کا کہا۔ ہم دونوں سڑک کے کنارے بیٹھ گئے۔ دیکھو بیٹا خود کو اپنے رب کے حوالے کردو، وہ جس حال میں رکھے خوش رہنا، بلندی پر نہیں پستی پر نظر رکھنا، اوپر نہیں نیچے دیکھنا کہ پاؤں تلے جو زمین ہے ناں، وہ ہے ہماری محسن، عیب چھپا لینے والی، جب ماں بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور کہتی ہے کہ زمین کی امانت زمین کے سپرد کردو تو اب تم خود سمجھ جاؤ کہ یہ زمین کتنی عظیم ہے کہ جس پر ماں بھی بھروسا کرتی ہے۔ تم مجھ سے تسلیم کا پوچھ رہے تھے ناں بس یہی تسلیم ہے۔ خالق و مالک کی رضا میں ہنسی خوشی راضی رہنا تسلیم ہے۔
آگے کی منزلیں نہ جانے کیسی ہوں گی، بس راضی رہنا۔ یاد رکھو ہر دکھ کے ساتھ سُکھ بندھا ہوتا ہے اور ہر سُکھ کے ساتھ ایک دُکھ۔ جب سکھ دیکھو تو یہ ضرور یاد رکھنا کہ اس کے ساتھ اک دکھ لگا ہوا ہے اور جب دکھ دیکھو تو پریشان مت ہونا، بالکل بھی نہیں کہ اس دکھ کے ساتھ ایک سکھ بھی تو نتھی ہے، ویسے تو دکھ سکھ تسلیم کے مسافر کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، لیکن تم ابھی بچے ہو تو بس اس لیے کہہ رہا ہوں، سدا ایک جیسا نہیں رہتا یہ وقت، بدلتا رہتا ہے، وقت کی فطرت ہی بدلنا ہے۔
سچ بتاؤں تو مجھے ان کی اکثر باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں، وہ بولے جارہے تھے اور میں بس خاموشی سے سنے جارہا تھا۔ اتنے میں دور سے کسی ٹرک کی روشنیاں نظر آئیں تو بابا اٹھ کھڑے ہوئے۔ مجھے اپنے سینے سے لگاکر بہت پیار کیا اور پھر میری جیب میں کچھ پیسے ڈال کر کہنے لگے جاؤ تمہیں پالن ہار کے حوالے کردیا میں نے۔ اتنے میں ٹرک قریب آکے رکا اور ایک شخص تیزی سے بابا کی طرف بڑھا۔ بابا نے اسے ہدایات دیں وہ مجھے لے کر ٹرک کے اوپر چڑھ گیا، میں بابا کو دور تک دیکھتا رہا پھر ٹرک ایک موڑ مڑ گیا اور بابا میری نظروں سے اوجھل ہوگئے لیکن وہ میرے دل سے اوجھل نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی گل بی بی۔ ٹرک پر عمارتی لکڑی لدی ہوئی تھی۔ اس میں تین لوگ دو ڈرائیور اور ایک کلینر سوار تھا، چوتھا اب میں ان کا ہم سفر تھا۔
کیا بابا سے ملنے آئے تھے تم۔ میرے ہم سفر نے مجھ سے پوچھا۔ نہیں، بس ویسے ہی راستے میں ملاقات ہوگئی تھی ان سے، بہت اچھے انسان ہیں بابا۔ میں یہ کہہ کر خاموش ہوگیا۔ بابا بہت اﷲ والے ہیں۔ جسے وہ دعا دے دیں وہ قبول ہوجاتی ہے۔ بہت قسمت والوں کو ملتا ہے ان کا ساتھ۔ بہت دور دور سے لوگ ان کے پاس دعا کرانے آتے ہیں۔ بہت ہی نیک ہیں۔ تمہاری بہت تعریف کررہے تھے کہہ رہے تھے میرا بچہ ہے بہت خیال رکھنا اس کا۔ میں کیا یہاں تو کوئی بھی بابا کا حکم نہیں ٹالتا وہ بولے چلا جارہا تھا۔ پھر مجھے بابا کی باتیں یاد آنے لگیں جو انسان سے محبت نہ کرے وہ خدا سے بھی نہیں کرتا۔ خدا سے محبت کی ابتدا انسانوں سے محبت میں ہے۔ جو انسانوں سے محبت کرتا ہے خدا اس سے محبت کرتا ہے، جو انسانوں کے کام آئے تو خدا اس کے کام بنا دیتا ہے۔ وہ سب کا پالن ہار ہے۔ ہندو ہو، مسلمان ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو، کوئی اسے مانے، نہ مانے، سب کا پالن ہار ہے وہ، دنیا کی ہر مخلوق کا پالن ہار اور ان سے محبت کرنے والا اور نہ جانے کیا کیا۔ کچھ باتیں مجھے سمجھ آگئی تھیں اور کچھ بالکل بھی نہیں۔
میرا ہم سفر سوگیا تھا، تھوڑی دیر بعد میری بھی آنکھ لگ گئی اور نواز خان اٹھو یار صبح ہوگئی ہے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ ٹرک ایک ہوٹل پر رکا ہوا تھا۔ ہم دونوں نیچے اترے، چلو یار چائے پانی کرو، میں بہت تھک گیا ہوں۔ سنبھالو اپنی ڈیوٹی وہ ڈرائیور تھا اور اس کے ساتھ ایک کلینر، ہم چاروں ایک میز کے گرد بیٹھ گئے، ناشتہ آگیا تو مجھے یاد آیا کہ گل بی بی نے مجھے راستے کے لیے کچھ بنا کر دیا تھا، ذرا ٹھہرو کہہ کر میں ٹرک پر چڑھا اور وہ تھیلا اٹھا لایا۔ اس میں پراٹھے تھے، انڈے تھے، کباب تھے، اچار تھا، مکئی کے دانے تھے، گڑ تھا اور بہت کچھ۔ میری آنکھیں پھر بھیگ گئیں۔ جان نہ پہچان اور اتنا اہتمام۔ یہ سب تمہیں بابا جی کی بیٹی نے بناکر دیا ہے۔ میرا ہم سفر بولا۔ جی یہ سب اسی نے بنایا ہے۔
تھوڑا سا ہمیں بھی دو یار ان کے گھر کا کھانا تو تبرک ہوتا ہے۔ میں نے یہ لفظ پہلی دفعہ سنا تھا۔ میں نے سب کچھ ان کے سامنے رکھ دیا، بسم اﷲ پڑھ کر انہوں نے کھانا شروع کیا۔ اتنے میں ہوٹل کے ساتھ بنی ہوئی چھوٹی سی مسجد سے فجر کی اذان کی آواز ابھری اور سب آوازیں اس میں ڈوب گئیں۔ میں نماز ادا کرکے آتا ہوں، میں نے کہا۔ ہم بھی پڑھتے ہیں نماز یار، تھوڑا ٹھہرو۔ ہم نے نماز فجر ادا کی اور میرے ہم سفر نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔ میں اس کے برابر میں بیٹھا اور وہ دونوں آرام کے لیے ٹرک کے اوپر چلے گئے۔ بسم اﷲ، یااﷲ خیر کہہ کر اس نے ٹرک اسٹارٹ کیا اور ہم پھر رواں دواں تھے۔ صبح صادق کا وقت اور یہ منظر، دیہاتی اپنے کھیت کھلیانوں میں کام میں جتے ہوئے تھے۔ ایک چرواہا اپنا ریوڑ سنبھالے جا رہا تھا۔ ایک لڑکی سر پر چھوٹی سی گڑوی اور دوسرے ہاتھ میں ایک تھیلا لیے جارہی تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے گل بی بی یاد آئی۔ پھول دار اونی چادر اوڑھے ہوئے پاگل سی گُل بی بی اور میں پھر بہت دور نکل گیا۔ سفر میں منظر بہت تیزی سے بدلتے ہیں۔ لیکن کچھ منظر کبھی نہیں بدلتے جیسے کچھ رشتے، کبھی پرانے نہیں ہوتے، ہر دم نئی بہار لیے ہوتے ہیں۔ ان کی ہر ادا نئی ہوتی ہے بہت جاں فزا، وہ ساری زندگی آپ کے سنگ رہتے ہیں اور ایسے رشتے سدا انسان کو جینے پر اُکساتے ہیں، سینے سے کبھی زہر اترنے نہیں دیتے۔
کہاں کھو گئے تم۔ اچانک میرے ہم سفر نے مجھے واپس آنے پر مجبور کردیا تھا۔ کہیں نہیں بس ویسے ہی بابا ہیں ہی ایسے، کوئی ان سے لمحے بھر مل لے تو نہیں بھول پاتا تم تو وہاں بہت دن تک رہے ہو۔ کیسے بھول پاؤگے۔ جی آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں میں بولا۔ لیکن میں بابا سے زیادہ گل بی بی میں کھویا ہوا تھا۔ مجھے اس احساس نے گھیر لیا تھا کہ مجھے وہیں رہنا چاہیے تھا۔ میں نے وہاں سے آکر غلطی کی کئی دفعہ میں نے سوچا میں واپس چلا جاؤں لیکن پھر میں نے بہت مشکل سے اس خیال سے باہر آنے کی کوشش کی۔ تم نے یہ تو بتایا نہیں کہ تم کراچی میں کیا کام کرتے ہو۔ میرے ہم سفر نے اچانک مجھ سے پوچھ لیا۔ میں وہاں کھلونوں کی اک دکان پر کام کرتا ہوں، چھوڑو یہ دکان کا کام کوئی ہنر سیکھو، ہنر مند انسان کبھی بھوکا نہیں رہتا۔ اگر چاہو تو میرے ساتھ کلینر بن جاؤ، کچھ سالوں میں تم ٹرک چلانا سیکھ لوگے پھر کمائی ہی کمائی ہے۔
ہے ذرا مشکل کام لیکن انسان بستی بستی گھومتا ہے، طرح طرح لوگوں سے ملتا ہے، بہت مزے مزے کے کھانے کھاتا ہے اور کیا چاہیے زندگی میں۔ ٹرک اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا اور مجھے آنے والی منزل کی تیاری کرنی تھی۔ تیسرے دن مغرب ہونے والی تھی کہ ہم کراچی میں داخل ہوئے۔ وہ پرانا حاجی کیمپ کا علاقہ تھا جہاں آج بھی عمارتی لکڑی کی مارکیٹ ہے۔ میں نے وہاں اتر کر اپنے ہم سفر کر شکریہ ادا کیا اور رخصت کی اجازت چاہی۔ بس یہاں قریب ہی رہتا ہوں۔ کبھی کبھی ملنے آجایا کرو ہم تو مہینے میں تین چار چکر لگاتے ہیں۔ یہاں کے منشی سے پوچھ لینا وہ تمہیں ہمارے آنے کا بتادے گا اور اگر بابا سے ملنے کو دل چاہے تو میں تمہیں لے چلوں گا، اچھا ہے، گپ شپ میں سفر آسانی سے کٹ جاتا ہے۔ جی ضرور خدا نے چاہا تو ملاقات ہوگی کہہ کر میں رخصت ہوگیا۔
بابا کے دیے ہوئے پیسے میرے پاس تھے۔ میں نے رکشہ لیا اور اپنی پرانی دکان پہنچا وہ بند ہوچکی تھی، میں نے ایک ہوٹل پر چائے پی اور اپنے ٹھکانے قبرستان پہنچا۔ حیرت تھی میری پوٹلی وہیں موجود تھی، میں نے اس کی گرد جھاڑی اور پھر اپنے کپڑے دیکھے سب موجود تھے۔ میں نے گل بی بی کے دیے ہوئے مکئی کے دانے چبانا شروع کیے، اچانک مجھے کالی چادر کا خیال آیا اور میں پھر کپڑوں کو الٹے پلٹنے لگا وہ چادر غائب تھی۔ زندگی میں پہلی دفعہ مجھ میں کوئی قیمتی چیز چھن جانے کا احساس پیدا ہوا۔ سب کچھ موجود تھا وہ کہاں چلی گئی، کون لے گیا وہ آخر، اگر کسی نے کچھ چرانا تھا تو سب کچھ لے جاتا، آخر وہی کالی چادر کیوں۔ بہت دیر تک میں سوچتا رہا پھر اچانک ہی میں نے چلّانا شروع کیا کہاں گئی میری چادر، کون لے گیا، قبرستان کے سناٹے میں میری کون سنتا صرف مردے سن رہے تھے لیکن وہ مجھے جواب کیسے دیتے۔ اور اگر دیتے بھی تو میں ان کی زبان اس وقت نہیں جانتا تھا۔
آدھی سے زیادہ رات گزرگئی تھی اور میں محرومی کی گہری دلدل میں اترتا چلا جارہا تھا۔ پھر مجھے یاد آیا وہ کالا کتا بھی غائب تھا، میں نے اسے ڈھونڈنا شروع کیا، ٹوٹی پھوٹی قبریں، کُتے، جھاڑ جھنکاڑ، خود رو پودے اور گہرا سناٹا۔ میں تھک ہار کر واپس اپنی جگہ آکر بیٹھ گیا اور پھر میری آنکھ لگ گئی۔ اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ کوئی میرے پاؤں چاٹ رہا ہے۔ میری آنکھ کھل گئی وہ کالا کتا میرے پاؤں چاٹ رہا تھا۔ کہاں چلے گئے تھے تم؟ میں نے اسے ڈانٹ دیا لیکن وہ تو مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں اسے بتائے بغیر کہاں چلا گیا تھا۔ میں نے اسے اپنی پوری روداد سنائی۔
میری کالی چادر کہاں غائب ہوگئی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا۔ وہ میرے آگے آگے چلنے لگا، پھر اک ٹوٹی ہوئی قبر سے اس نے وہ کھینچ نکالی۔ بالکل صحیح سلامت تھی وہ۔ اس دن مجھے کھوئی ہوئی نعمت کے پانے کی مسرت اور خوشی کا ادراک ہوا۔ میں بہت دیر تک چادر کو چومتا رہا اور میری آنکھیں برستی رہیں۔ اتنے میں قریبی مسجد سے اﷲ جی کی کبریائی کا آوازہ بلند ہوا اور میں نے اپنے محسن کتے سے اجازت چاہی۔ ہم رات کو ملیں گے موتی کہہ کر میں مسجد پہنچا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کتے کو اگر آپ دُور دُور کہیں تو وہ خفا ہوجاتا ہے اور اگر اسے موتی کہیں تو وہ آپ کا دوست بن جاتا ہے، یہ بات تو ویسے ہی درمیان میں آگئی، آپ کیا کریں گے ایسی باتیں جان کر، خیر امام صاحب جو موذن اور خادم بھی تھے مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ کہاں چلے گئے تھے تم۔ بس جی چلا نہیں گیا تھا، لے گئے تھے، کہہ کر میں وضو کرنے لگا۔ ہم سب پریشان تھے۔
وہ مجھ سے گلہ کرنے لگے اور میں نے خاموشی اختیار کی۔ بہت کم نمازی ہوتے تھے مسجد میں۔ سب مجھ سے مل کر خوش ہوئے اور گلے شکوے بھی کیے۔ میں اپنے پرانے ہوٹل پہنچا تو وہ سب میرے گرد جمع ہوگئے اور سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ کہاں چلا گیا تھا تُو۔ او یار تو عجیب آدمی ہے ، تجھے پتا بھی ہے ہم سب یہاں مرگئے تیرے بغیر۔ اور نہ جانے کیا کیا اور پھر تو میرے اعزاز میں چھوٹی سی تقریب بھی منعقد ہوگئی۔ کتنی چاہت ہے، کتنی اپنائیت ہے ان میں۔ اب آپ سب کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی کہہ کر میں دکان کے لیے روانہ ہوا۔ اب اگر بغیر بتائے گیا تو تیری ٹانگیں توڑ دیں گے، اچھا ہے جا ہی نہیں سکے گا۔ پیچھے سے میرے دوست داؤد کی آواز آئی۔ وہ گدھا گاڑی چلاتا تھا۔
دکان بند تھی۔ میں انتظار کرنے لگا اور پھر وہ مجھے اپنی کھٹارا موٹرسائیکل پر آتے نظر آئے۔ آتے ہی انھوں نے مجھے گلے لگایا، وہ رو رہے تھے۔
اب تم ضرور واپس آؤ گے۔ اب تمہیں یہاں واپس آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ ہاں دنیا کی کوئی طاقت بھی نہیں، خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہمیشہ رہے گا، دل سے مانگی جانے والی دعا عرش کو چِیر کر اپنا راستہ بناتی اور قبول ہوتی ہے، ظالم کا ہاتھ کبھی تم تک نہیں پہنچ سکے گا اور وہ نیست و نابود رہیں گے، خدا ہے ہمارا محافظ اور جس کی حفاظت وہ کرے اسے کوئی نہیں ضرر پہنچا سکتا۔
گل بی بی کی آنکھیں برس رہی تھیں، ہاتھ بلند تھے اور وہ ایک عالم بے خودی میں دعائیں مانگے جارہی تھی۔ لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ '' تمہارے'' کے بہ جائے ''ہمارا'' کیوں کہہ رہی تھی، میں نے اس پر زیادہ نہیں سوچا۔
تم سچ کہہ رہی ہو گل بی بی...؟ میں بول پڑا۔
ہاں بالکل سچ۔
میں دل ہی دل میں اس کی معصومیت پر ہنس دیا، کیسا رشتہ ہے یہ، ایک اجنبی کے لیے اتنی مصیبتیں، اتنے آنسو اور اتنی دعائیں۔ ہاں یہی ہوتا ہے اصل رشتہ تو۔ تھوڑی دیر بعد بابا آگئے۔ لو بیٹا تمہارا تو کام ہوگیا، آگے اﷲ مالک ہے۔
کیسا کام بابا؟ مجھ سے پہلے گُل بی بی بول پڑی۔
تیرا نہیں پگلی، اس پگلے کا کام۔ میرا ایک دوست ہے وہ یہاں سے کراچی تک ٹرک لے کر جاتا ہے، میں نے اس سے بات کرلی ہے کہ وہ کسی وقت رات کو اگر کراچی کے لیے روانہ ہو تو مجھے بتادے۔ تاکہ میرا ایک مہمان ہے اسے بھی ساتھ لے جائے۔ تو اس نے بتایا ہے کہ وہ پرسوں رات کو یہاں سے نکلے گا تو بس اسے اس کے ٹرک پر بٹھا دوں گا۔ آگے جو خدا کو منظور۔
وہ میری بہ حفاظت واپسی کے لیے کس قدر بے چین تھے۔ میں ان کا کیا لگتا تھا آخر، وہ سب کچھ کیوں کر رہے تھے۔ یہ تھا ناں اصل رشتہ، بے لوث، بے ریا اور انمول۔ دوسرا دن بس گزر ہی گیا، سارا دن میں یہی سنتا رہا کہ اب تمہیں یہاں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا، ہماری حفاظت خدا کرے گا اور بس اس طرح کی باتیں۔ جس دن میری روانگی تھی میں کمرے میں لیٹا رہا اور زندگی ایک فلم کی طرح میرے سامنے چلنے لگی۔ مجھے اب کیا کرنا ہے، نہیں میں نے کبھی نہیں سوچا، میں اک خودکار انسان میں بدل گیا تھا، جیسے اک پرندہ جسے کوئی فکر نہیں ہوتی کہ وہ آگے کیا کرے گا۔
گل بی بی شام ہی سے کھانا بنانے لگی تھی، اسے ایک پل بھی چین نہیں تھا۔ بابا اسے بار بار ہدایات دے رہے تھے کہ راستے کے لیے بھی کھانا بنادینا اور وہ بابا بالکل فکر نہ کرو کہتی ہوئی اپنے کام میں جُتی ہوئی تھی۔ وقت کو کوئی نہیں روک سکا۔ بالکل بھی نہیں، کیسے کوئی روک سکتا ہے وقت کو۔ شب کا پہلا پہر گزر گیا تھا اور اب میرے جانے کا وقت ہوگیا تھا۔ بابا نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور پھر دعا سسکیوں میں بدل گئی۔ یہ آنسو بہت انمول ہوتے ہیں۔ ہم تینوں رو رہے تھے۔ آخر بابا نے اپنی ہمت جمع کی اور جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ گل بی بی ابھی تک رو رہی تھی اور ہم دونوں اسے دیکھ رہے تھے۔ بابا اسے تسلی دے رہے تھے۔ مہمان تو مہمان ہوتے ہیں اور پھر مسافر مہمان تو جانے کے لیے ہوتا ہے۔ بابا نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ وہ پھٹ پڑی نہیں بابا نہیں۔ یہ مسافر نہیں ہے یہ مہمان نہیں ہے، یہ واپس آئے گا، ضرور آئے گا، بابا آپ دیکھنا اور میں آپ کو بتاؤں گی کہ دیکھو یہ واپس آگیا ہے۔
میں بے اختیار آگے بڑھ کر اُس سے لپٹ گیا۔ گھر سے باہر قدم نکالنے سے پہلے اس نے پھر آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھا اور مجھ پر پھونک کر خدائے پہ آمان، اور تمہارے چہرے کے سامنے ہمیشہ روشنی رہے، کہا تھا۔ تم دروازہ بند کرلو میں انشااﷲ جلد واپس آجاؤں گا، کہہ کر بابا نے میرا سامان اٹھایا اور ہم گھر سے باہر نکل گئے۔ وہ دروازے میں کھڑی برس رہی تھی۔ نظروں سے اوجھل ہونے تک میں اسے پیچھے مڑ مڑکر دیکھتا رہا۔ پھر دو ہاتھ بلند ہوئے اور میں رخصت ہوگیا۔ اور نہ جانے رخصت بھی ہوا یا وہیں رہ گیا۔ شاید جسمانی طور پر میں رخصت ہوا تھا ، روح تو میری وہیں رہ گئی تھی۔
میں اور بابا بہت دیر تک چلتے رہے اور بالکل خاموش، رات کے سناٹے کو کُتوں کے بھونکنے کی آوازیں سحرزدہ بنا رہی تھیں، پھر پکی سڑک آگئی اور بابا نے مجھے بیٹھنے کا کہا۔ ہم دونوں سڑک کے کنارے بیٹھ گئے۔ دیکھو بیٹا خود کو اپنے رب کے حوالے کردو، وہ جس حال میں رکھے خوش رہنا، بلندی پر نہیں پستی پر نظر رکھنا، اوپر نہیں نیچے دیکھنا کہ پاؤں تلے جو زمین ہے ناں، وہ ہے ہماری محسن، عیب چھپا لینے والی، جب ماں بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور کہتی ہے کہ زمین کی امانت زمین کے سپرد کردو تو اب تم خود سمجھ جاؤ کہ یہ زمین کتنی عظیم ہے کہ جس پر ماں بھی بھروسا کرتی ہے۔ تم مجھ سے تسلیم کا پوچھ رہے تھے ناں بس یہی تسلیم ہے۔ خالق و مالک کی رضا میں ہنسی خوشی راضی رہنا تسلیم ہے۔
آگے کی منزلیں نہ جانے کیسی ہوں گی، بس راضی رہنا۔ یاد رکھو ہر دکھ کے ساتھ سُکھ بندھا ہوتا ہے اور ہر سُکھ کے ساتھ ایک دُکھ۔ جب سکھ دیکھو تو یہ ضرور یاد رکھنا کہ اس کے ساتھ اک دکھ لگا ہوا ہے اور جب دکھ دیکھو تو پریشان مت ہونا، بالکل بھی نہیں کہ اس دکھ کے ساتھ ایک سکھ بھی تو نتھی ہے، ویسے تو دکھ سکھ تسلیم کے مسافر کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، لیکن تم ابھی بچے ہو تو بس اس لیے کہہ رہا ہوں، سدا ایک جیسا نہیں رہتا یہ وقت، بدلتا رہتا ہے، وقت کی فطرت ہی بدلنا ہے۔
سچ بتاؤں تو مجھے ان کی اکثر باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں، وہ بولے جارہے تھے اور میں بس خاموشی سے سنے جارہا تھا۔ اتنے میں دور سے کسی ٹرک کی روشنیاں نظر آئیں تو بابا اٹھ کھڑے ہوئے۔ مجھے اپنے سینے سے لگاکر بہت پیار کیا اور پھر میری جیب میں کچھ پیسے ڈال کر کہنے لگے جاؤ تمہیں پالن ہار کے حوالے کردیا میں نے۔ اتنے میں ٹرک قریب آکے رکا اور ایک شخص تیزی سے بابا کی طرف بڑھا۔ بابا نے اسے ہدایات دیں وہ مجھے لے کر ٹرک کے اوپر چڑھ گیا، میں بابا کو دور تک دیکھتا رہا پھر ٹرک ایک موڑ مڑ گیا اور بابا میری نظروں سے اوجھل ہوگئے لیکن وہ میرے دل سے اوجھل نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی گل بی بی۔ ٹرک پر عمارتی لکڑی لدی ہوئی تھی۔ اس میں تین لوگ دو ڈرائیور اور ایک کلینر سوار تھا، چوتھا اب میں ان کا ہم سفر تھا۔
کیا بابا سے ملنے آئے تھے تم۔ میرے ہم سفر نے مجھ سے پوچھا۔ نہیں، بس ویسے ہی راستے میں ملاقات ہوگئی تھی ان سے، بہت اچھے انسان ہیں بابا۔ میں یہ کہہ کر خاموش ہوگیا۔ بابا بہت اﷲ والے ہیں۔ جسے وہ دعا دے دیں وہ قبول ہوجاتی ہے۔ بہت قسمت والوں کو ملتا ہے ان کا ساتھ۔ بہت دور دور سے لوگ ان کے پاس دعا کرانے آتے ہیں۔ بہت ہی نیک ہیں۔ تمہاری بہت تعریف کررہے تھے کہہ رہے تھے میرا بچہ ہے بہت خیال رکھنا اس کا۔ میں کیا یہاں تو کوئی بھی بابا کا حکم نہیں ٹالتا وہ بولے چلا جارہا تھا۔ پھر مجھے بابا کی باتیں یاد آنے لگیں جو انسان سے محبت نہ کرے وہ خدا سے بھی نہیں کرتا۔ خدا سے محبت کی ابتدا انسانوں سے محبت میں ہے۔ جو انسانوں سے محبت کرتا ہے خدا اس سے محبت کرتا ہے، جو انسانوں کے کام آئے تو خدا اس کے کام بنا دیتا ہے۔ وہ سب کا پالن ہار ہے۔ ہندو ہو، مسلمان ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو، کوئی اسے مانے، نہ مانے، سب کا پالن ہار ہے وہ، دنیا کی ہر مخلوق کا پالن ہار اور ان سے محبت کرنے والا اور نہ جانے کیا کیا۔ کچھ باتیں مجھے سمجھ آگئی تھیں اور کچھ بالکل بھی نہیں۔
میرا ہم سفر سوگیا تھا، تھوڑی دیر بعد میری بھی آنکھ لگ گئی اور نواز خان اٹھو یار صبح ہوگئی ہے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ ٹرک ایک ہوٹل پر رکا ہوا تھا۔ ہم دونوں نیچے اترے، چلو یار چائے پانی کرو، میں بہت تھک گیا ہوں۔ سنبھالو اپنی ڈیوٹی وہ ڈرائیور تھا اور اس کے ساتھ ایک کلینر، ہم چاروں ایک میز کے گرد بیٹھ گئے، ناشتہ آگیا تو مجھے یاد آیا کہ گل بی بی نے مجھے راستے کے لیے کچھ بنا کر دیا تھا، ذرا ٹھہرو کہہ کر میں ٹرک پر چڑھا اور وہ تھیلا اٹھا لایا۔ اس میں پراٹھے تھے، انڈے تھے، کباب تھے، اچار تھا، مکئی کے دانے تھے، گڑ تھا اور بہت کچھ۔ میری آنکھیں پھر بھیگ گئیں۔ جان نہ پہچان اور اتنا اہتمام۔ یہ سب تمہیں بابا جی کی بیٹی نے بناکر دیا ہے۔ میرا ہم سفر بولا۔ جی یہ سب اسی نے بنایا ہے۔
تھوڑا سا ہمیں بھی دو یار ان کے گھر کا کھانا تو تبرک ہوتا ہے۔ میں نے یہ لفظ پہلی دفعہ سنا تھا۔ میں نے سب کچھ ان کے سامنے رکھ دیا، بسم اﷲ پڑھ کر انہوں نے کھانا شروع کیا۔ اتنے میں ہوٹل کے ساتھ بنی ہوئی چھوٹی سی مسجد سے فجر کی اذان کی آواز ابھری اور سب آوازیں اس میں ڈوب گئیں۔ میں نماز ادا کرکے آتا ہوں، میں نے کہا۔ ہم بھی پڑھتے ہیں نماز یار، تھوڑا ٹھہرو۔ ہم نے نماز فجر ادا کی اور میرے ہم سفر نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔ میں اس کے برابر میں بیٹھا اور وہ دونوں آرام کے لیے ٹرک کے اوپر چلے گئے۔ بسم اﷲ، یااﷲ خیر کہہ کر اس نے ٹرک اسٹارٹ کیا اور ہم پھر رواں دواں تھے۔ صبح صادق کا وقت اور یہ منظر، دیہاتی اپنے کھیت کھلیانوں میں کام میں جتے ہوئے تھے۔ ایک چرواہا اپنا ریوڑ سنبھالے جا رہا تھا۔ ایک لڑکی سر پر چھوٹی سی گڑوی اور دوسرے ہاتھ میں ایک تھیلا لیے جارہی تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے گل بی بی یاد آئی۔ پھول دار اونی چادر اوڑھے ہوئے پاگل سی گُل بی بی اور میں پھر بہت دور نکل گیا۔ سفر میں منظر بہت تیزی سے بدلتے ہیں۔ لیکن کچھ منظر کبھی نہیں بدلتے جیسے کچھ رشتے، کبھی پرانے نہیں ہوتے، ہر دم نئی بہار لیے ہوتے ہیں۔ ان کی ہر ادا نئی ہوتی ہے بہت جاں فزا، وہ ساری زندگی آپ کے سنگ رہتے ہیں اور ایسے رشتے سدا انسان کو جینے پر اُکساتے ہیں، سینے سے کبھی زہر اترنے نہیں دیتے۔
کہاں کھو گئے تم۔ اچانک میرے ہم سفر نے مجھے واپس آنے پر مجبور کردیا تھا۔ کہیں نہیں بس ویسے ہی بابا ہیں ہی ایسے، کوئی ان سے لمحے بھر مل لے تو نہیں بھول پاتا تم تو وہاں بہت دن تک رہے ہو۔ کیسے بھول پاؤگے۔ جی آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں میں بولا۔ لیکن میں بابا سے زیادہ گل بی بی میں کھویا ہوا تھا۔ مجھے اس احساس نے گھیر لیا تھا کہ مجھے وہیں رہنا چاہیے تھا۔ میں نے وہاں سے آکر غلطی کی کئی دفعہ میں نے سوچا میں واپس چلا جاؤں لیکن پھر میں نے بہت مشکل سے اس خیال سے باہر آنے کی کوشش کی۔ تم نے یہ تو بتایا نہیں کہ تم کراچی میں کیا کام کرتے ہو۔ میرے ہم سفر نے اچانک مجھ سے پوچھ لیا۔ میں وہاں کھلونوں کی اک دکان پر کام کرتا ہوں، چھوڑو یہ دکان کا کام کوئی ہنر سیکھو، ہنر مند انسان کبھی بھوکا نہیں رہتا۔ اگر چاہو تو میرے ساتھ کلینر بن جاؤ، کچھ سالوں میں تم ٹرک چلانا سیکھ لوگے پھر کمائی ہی کمائی ہے۔
ہے ذرا مشکل کام لیکن انسان بستی بستی گھومتا ہے، طرح طرح لوگوں سے ملتا ہے، بہت مزے مزے کے کھانے کھاتا ہے اور کیا چاہیے زندگی میں۔ ٹرک اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا اور مجھے آنے والی منزل کی تیاری کرنی تھی۔ تیسرے دن مغرب ہونے والی تھی کہ ہم کراچی میں داخل ہوئے۔ وہ پرانا حاجی کیمپ کا علاقہ تھا جہاں آج بھی عمارتی لکڑی کی مارکیٹ ہے۔ میں نے وہاں اتر کر اپنے ہم سفر کر شکریہ ادا کیا اور رخصت کی اجازت چاہی۔ بس یہاں قریب ہی رہتا ہوں۔ کبھی کبھی ملنے آجایا کرو ہم تو مہینے میں تین چار چکر لگاتے ہیں۔ یہاں کے منشی سے پوچھ لینا وہ تمہیں ہمارے آنے کا بتادے گا اور اگر بابا سے ملنے کو دل چاہے تو میں تمہیں لے چلوں گا، اچھا ہے، گپ شپ میں سفر آسانی سے کٹ جاتا ہے۔ جی ضرور خدا نے چاہا تو ملاقات ہوگی کہہ کر میں رخصت ہوگیا۔
بابا کے دیے ہوئے پیسے میرے پاس تھے۔ میں نے رکشہ لیا اور اپنی پرانی دکان پہنچا وہ بند ہوچکی تھی، میں نے ایک ہوٹل پر چائے پی اور اپنے ٹھکانے قبرستان پہنچا۔ حیرت تھی میری پوٹلی وہیں موجود تھی، میں نے اس کی گرد جھاڑی اور پھر اپنے کپڑے دیکھے سب موجود تھے۔ میں نے گل بی بی کے دیے ہوئے مکئی کے دانے چبانا شروع کیے، اچانک مجھے کالی چادر کا خیال آیا اور میں پھر کپڑوں کو الٹے پلٹنے لگا وہ چادر غائب تھی۔ زندگی میں پہلی دفعہ مجھ میں کوئی قیمتی چیز چھن جانے کا احساس پیدا ہوا۔ سب کچھ موجود تھا وہ کہاں چلی گئی، کون لے گیا وہ آخر، اگر کسی نے کچھ چرانا تھا تو سب کچھ لے جاتا، آخر وہی کالی چادر کیوں۔ بہت دیر تک میں سوچتا رہا پھر اچانک ہی میں نے چلّانا شروع کیا کہاں گئی میری چادر، کون لے گیا، قبرستان کے سناٹے میں میری کون سنتا صرف مردے سن رہے تھے لیکن وہ مجھے جواب کیسے دیتے۔ اور اگر دیتے بھی تو میں ان کی زبان اس وقت نہیں جانتا تھا۔
آدھی سے زیادہ رات گزرگئی تھی اور میں محرومی کی گہری دلدل میں اترتا چلا جارہا تھا۔ پھر مجھے یاد آیا وہ کالا کتا بھی غائب تھا، میں نے اسے ڈھونڈنا شروع کیا، ٹوٹی پھوٹی قبریں، کُتے، جھاڑ جھنکاڑ، خود رو پودے اور گہرا سناٹا۔ میں تھک ہار کر واپس اپنی جگہ آکر بیٹھ گیا اور پھر میری آنکھ لگ گئی۔ اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ کوئی میرے پاؤں چاٹ رہا ہے۔ میری آنکھ کھل گئی وہ کالا کتا میرے پاؤں چاٹ رہا تھا۔ کہاں چلے گئے تھے تم؟ میں نے اسے ڈانٹ دیا لیکن وہ تو مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں اسے بتائے بغیر کہاں چلا گیا تھا۔ میں نے اسے اپنی پوری روداد سنائی۔
میری کالی چادر کہاں غائب ہوگئی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا۔ وہ میرے آگے آگے چلنے لگا، پھر اک ٹوٹی ہوئی قبر سے اس نے وہ کھینچ نکالی۔ بالکل صحیح سلامت تھی وہ۔ اس دن مجھے کھوئی ہوئی نعمت کے پانے کی مسرت اور خوشی کا ادراک ہوا۔ میں بہت دیر تک چادر کو چومتا رہا اور میری آنکھیں برستی رہیں۔ اتنے میں قریبی مسجد سے اﷲ جی کی کبریائی کا آوازہ بلند ہوا اور میں نے اپنے محسن کتے سے اجازت چاہی۔ ہم رات کو ملیں گے موتی کہہ کر میں مسجد پہنچا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کتے کو اگر آپ دُور دُور کہیں تو وہ خفا ہوجاتا ہے اور اگر اسے موتی کہیں تو وہ آپ کا دوست بن جاتا ہے، یہ بات تو ویسے ہی درمیان میں آگئی، آپ کیا کریں گے ایسی باتیں جان کر، خیر امام صاحب جو موذن اور خادم بھی تھے مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ کہاں چلے گئے تھے تم۔ بس جی چلا نہیں گیا تھا، لے گئے تھے، کہہ کر میں وضو کرنے لگا۔ ہم سب پریشان تھے۔
وہ مجھ سے گلہ کرنے لگے اور میں نے خاموشی اختیار کی۔ بہت کم نمازی ہوتے تھے مسجد میں۔ سب مجھ سے مل کر خوش ہوئے اور گلے شکوے بھی کیے۔ میں اپنے پرانے ہوٹل پہنچا تو وہ سب میرے گرد جمع ہوگئے اور سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ کہاں چلا گیا تھا تُو۔ او یار تو عجیب آدمی ہے ، تجھے پتا بھی ہے ہم سب یہاں مرگئے تیرے بغیر۔ اور نہ جانے کیا کیا اور پھر تو میرے اعزاز میں چھوٹی سی تقریب بھی منعقد ہوگئی۔ کتنی چاہت ہے، کتنی اپنائیت ہے ان میں۔ اب آپ سب کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی کہہ کر میں دکان کے لیے روانہ ہوا۔ اب اگر بغیر بتائے گیا تو تیری ٹانگیں توڑ دیں گے، اچھا ہے جا ہی نہیں سکے گا۔ پیچھے سے میرے دوست داؤد کی آواز آئی۔ وہ گدھا گاڑی چلاتا تھا۔
دکان بند تھی۔ میں انتظار کرنے لگا اور پھر وہ مجھے اپنی کھٹارا موٹرسائیکل پر آتے نظر آئے۔ آتے ہی انھوں نے مجھے گلے لگایا، وہ رو رہے تھے۔