دنیا کے خطرناک ترین پہاڑوں میں سے ایک کے ٹو پر اسکینگ کرنے والا پہلا سورما

پولش مہم جو نے انسانی عزم وہمت کی نئی تاریخ رقم کر ڈالی

’’جو انسان خطرات مول لے، صرف وہی جان سکتا ہے کہ دلیری کی آخری حد کہاں تک ہے۔‘‘ (انگریز ڈرامہ نگار، ٹی ایس ایلیٹ)۔ فوٹو: فائل

''جو انسان خطرات مول لے، صرف وہی جان سکتا ہے کہ دلیری کی آخری حد کہاں تک ہے۔'' (انگریز ڈرامہ نگار، ٹی ایس ایلیٹ)

اگر کوئی آپ سے کہے کہ چھوغوری المعروف بہ کے ٹو پہاڑ کی چوٹی سے پھسلتے یا اسکینگ (Skiing) کرتے ہوئے نیچے آئیے، تو آپ بے ہوش نہیں تو حواس باختہ ضرور ہوجائیں گے۔ وطن عزیز میں واقع دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ، کے ٹو اپنی عمودی چٹانوں،دشوار گذار موڑوں ،کھائیوں اور خطرناک برفانی تودوں کی وجہ سے دنیائے کوہ پیمائی میں بطور ''بے رحم پہاڑ''(Savage Mountain) مشہور ہے۔ اس پہاڑ پر اسکینگ کرنا تو گویا موت کو دعوت دینا ہے۔

انسان عزم و ہمت کا پتلا ہے۔ خطرات سے مقابلہ اور چیلنج قبول کرنا اس کی فطرت ہے۔ یہ انسان کا عزم ہی ہے جو اس سے بظاہر ناممکن دکھائی دینے والے کام بھی کروا ڈالتا ہے۔ کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے :''کامیابی کو کبھی قطعی نہ سمجھئے اور ناکامی بھی جان لیوا نہیں ہوتی، صرف دلیری و بہادری اہمیت رکھتی ہے۔'' پچھلے دنوں اسی دلیری کے باعث پولینڈ سے تعلق رکھنے والا ایک تیس سالہ نوجوان، آندرے برجیل(Andrzej Bargiel) اسکینگ کرتے ہوئے کے ٹو سے اترنے والا دنیا کا پہلا انسان بن گیا۔ یہ اعزاز اسے اپنی دلیری ،بے خوفی اور تجربے کے باعث ہی حاصل ہوا۔

آندرے برجیل مشہور اسکینگ کوہ پیما ہے۔ اسکینگ کوہ پیمائی (Alpine skiing)فن اسکینگ کی ایک قسم ہے۔ اس میں پہلے بے خوف و نڈر انسان اسکی یا چوبی تختے لیے کسی بلند پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے ہیں۔ وہاں پھر وہ اسکی پیروں پر باندھتے اور اسکینگ کرتے نیچے اترتے ہیں۔ یہ تیز رفتاری اورجوش وولولے کا نہایت سنسی خیز نظارہ ہوتا ہے۔ مگر یہ خطرناک مرحلہ انجام دیتے ہوئے کئی انسان اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔کے ٹو پر اسکی پہ کھڑے ہو کراترنا ہر اسکینگ کوہ پیما کا خواب رہا ہے۔ مگر کٹھن راستے کی دشواریاں خواب کو عملی جامہ پہنانے میں حائل ہوتی رہیں۔1970ء میں چاپان کا اسکینگ کوہ پیما، یوئیشیرو میورا (Yuichiro Miura) دنیا کے بلند ترین پہاڑ، ماؤنٹ ایورسٹ پر اسکینگ کرنے والا پہلا انسان بن گیا۔ تاہم انسانی ہمت کے ٹو پر اسکینگ کرنے کے کٹھن مرحلے کو سر نہ کرسکی۔

آخر 2001ء میں اٹلی کے مشہور کوہ پیما، ہانس کیمرلینڈر(Hans Kammerlander) نے اسکینگ کرتے ہوئے کے ٹو سے اترنے کا فیصلہ کیا۔ یہ کیمرلینڈر ہی ہے جس نے 1990ء میں دنیا کے نویں بلند ترین پاکستانی پہاڑ، نانگا پربت پر اسکینگ کرنے والا پہلے سورما کا اعزاز پایا تھا۔ تاہم ایک المیے کی وجہ سے وہ کے ٹو پر اسکینگ نہیں کرسکا۔ ہوا یہ کہ اس کا جنوبی کورین ساتھی کوہ پیما ایک چٹان پہ چڑھتے ہوئے گر کر ہلاک ہوگیا۔ چناں چہ کیمرلینڈر نے اپنا پروگرام ملتوی کردیا۔

آٹھ سال بعد 2009ء میں امریکی اسکینگ کوہ پیما، ڈیوڈ واٹسن بھی کے ٹو کی ہیبت و خوفناکی پر قابو نہ پاسکا۔ اگلے سال تو یہ قاتل پہاڑ سویڈن کے اسکینگ کوہ پیما، فریڈرک ارکسن کو نگل گیا۔ ارکسن چوٹی پر پہنچ کر اسکینگ کرتے نیچے اترنا چاہتا تھا مگر راستے ہی میں موت کے جان لیوا شکنجے نے اسے آدبوچا۔ 2011ء میں جرمن اسکینگ کوہ پیما، لوئس سٹٹزنگر کی سعی بھی ناکام گئی۔چھ سال بعد 2017ء میں پولش مہم جو،آندرے برجیل نے فیصلہ کیا کہ ناقابل تسخیر بے رحم پہاڑ کو انسانی دلیری اور عزم و حوصلے کی مدد سے مسخر کیا جائے۔ لیکن اس بار موسم کی خرابی آڑے آگئی۔ گویا کے ٹو کی چوٹی سے اسکینگ کرتے ہوئے اترنا سائنس و ٹیکنالوجی کے جدید ترین دور میں بھی ناممکنات میں شامل دکھائی دینے لگا۔ فطرت کی عظمت و شان و شوکت عروج پر تھی۔ وہ انسان کا تمسخر اڑاتے ہوئے اسے دعوت مبازرت دے رہی تھی۔

آندرے برجیل بھی دھن کا پکا تھا۔ اس نے ہمت نہ ہاری اور جون 2018ء میں دوبارہ پاکستان پہنچ گیا۔ اس بار برجیل کا بھائی، بارٹلو میچ بھی ہمراہ تھا۔ دونوں بھائی کے ٹو کے دامن تک پہنچ کر اپنی تیاریوں میں جت گئے۔ بارٹلو میچ ایک ڈرون ساتھ لایا تھا تاکہ بھائی کے ٹوپر اسکینگ کرنے میں کامیاب ہوجائے، تو اس یادگار عمل کو فلمایا جاسکے۔ بھائیوں کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ یہ ڈرون قیمتی انسانی جان بچانے کا سبب بن جائے گا۔ہوا یہ کہ سکاٹ لینڈ سے ایک کوہ پیما، رک ایلن دنیا کے بارہویں بلند ترین پہاڑ، براڈ پیک (8047 میٹر بلند) کو سر کرنے آیا ہوا تھا۔ جب وہ واپس جارہا تھا تو نیچے گر کر زخمی ہوگیا۔

جب رک ایلن وقت پر نچلے کیمپ تک نہ پہنچا تو اس کی تلاش شروع ہوئی۔براڈ پیک سے صرف آٹھ میل دور کے ٹو کے دامن میں برجیل اور بارٹلو میچ ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے۔ ان تک بھی یہ خبر پہنچی کہ براڈ پیک پر ایک کوہ پیما لاپتا ہوگیا ہے۔ ذہین بارٹلو میچ فوراً اپنا ڈرون لیے براڈ پیک تک پہنچا اور اسے فضا میں بلند کردیا۔ ایک گھنٹے اِدھر اُدھر چکر لگانے کے بعد بذریعہ ڈرون رک ایلن کا پشتارہ دیکھ لیا گیا۔ یوں معلوم ہوا کہ ایلن کہاں ہوسکتا ہے۔ چناچہ امدادی ٹیمیں اس مقام پر روانہ کردی گئیں جنہوں نے جلد ہی زخمی ایلن کو ڈھونڈ نکالا۔ پھر پاک فوج کے جوانوں نے بہ سرعت اسے ہسپتال پہنچایا۔ اس طرح انگریز کوہ پیماکی جان بچا لی گئی۔

یہ یقینی ہے کہ خدائے برتر کو دونوں بھائیوں کی انسان دوستی اور ہمدردی بھاگئی۔ اسی لیے تقدیر الٰہی نے انہیں بہتر اجر عطا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ 2001ء میں جب کے ٹو پر چڑھتے ہوئے کیمرلینڈر کا ساتھی ہلاک ہوگیا تو اس نے نہایت افسردہ ہوکے اپنے اسکی(چوبی تختے) ایک طرف رکھ دیئے اور کہا تھا: ''مستقبل میں کوئی انسان ضرور کے ٹو پر اسکینگ کرے گا۔ مگر یہ کارنامہ انجام دینے کی خاطر اسے بے پناہ صلاحیتیں اور نہایت خوش قسمتی درکار ہوگی۔'' اطالوی کوہ پیما کا قول درست ثابت ہوا۔

19 جولائی کو برجیل نے کے ٹو پر چڑھائی کا آغاز کیا۔ 21 جولائی کی صبح وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گیا۔ تعجب خیز بات یہ کہ تب وہ کھلی فضا میں سانس لے رہا تھا یعنی اس نے سلنڈر سے آکسیجن لینے کی ضرورت نہ سمجھی۔ یہ امر عیاں کرتا ہے کہ برجیل جسمانی و ذہنی طور پر نہایت مضبوط و توانا انسان ہے۔ اسی مضبوطی نے اسے یہ طاقت و دلیری بخشی کہ وہ بے رحم پہاڑ کا غرور پیوند خاک کرسکے۔21 جولائی کو صبح ساڑھے گیارہ وہ کے ٹو کی چوٹی پر پہنچ گیا۔


وہاں برجیل نے کچھ دیر آرام کیا۔ اردگرد کے شاندار قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوا ۔ قدرت الٰہی کے نظاروں نے اسے مبہوت کر دیا۔ پھر اس نے پیروں پر اسکی باندھ لیے۔اب اسے اسکینگ کرتے ہوئے نیچے اپنے بیس کیمپ پہنچنا تھا جو پہاڑ کے دامن میں واقع تھا۔برجیل نے اسکینگ کا آغاز کیا، تو اس کے بھائی کا ڈرون سر پر منڈلا رہا تھا۔ وہ اس تاریخی اور بے مثال اترائی کی ویڈیو تیار کرنے لگا۔کئی گھنٹے مسلسل اسکینگ کرنے کے بعد شام کو سورج ڈھلنے سے قبل برجیل بیس کیمپ پہنچنے میں کامیاب رہا۔

دوران سفر کہیں بھی اس نے اپنے اسکی نہیں اتارے اور محو حرکت رہا۔ راستے میں کئی خطرناک اور پُر پیچ موڑ آئے مگر برجیل اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر تمام دشواریاں عبور کرتا چلا گیا۔خدانخواستہ کسی کھائی کے نزدیک برجیل معمولی غلطی بھی کرتا تو ہزاروں فٹ نیچے گر جاتا۔ایسی صورت میں اس کی ہڈی پسلی بھی نہ ملتی۔انسانی عزم و ہمت کی تاریخ میں اس طرح پولش مہم جو نے ایک اور شاندار باب کا اضافہ کر دیا۔ برجیل نے ثابت کردکھایا کہ اگر انسان ہمت و دلیری سے کام لے تو وہ محیر العقول اور بظاہر ناممکن کام بھی انجام دے سکتا ہے۔ اپنی مخفی قوتوں کو بروئے کار لاکر ہی کرہ ارض پر انسان نے اشرف المخلوقات کا خطاب پایا۔

کے ٹو پر کامیابی سے اسکینگ کرکے برجیل نے نامی گرامی کوہ پیماؤں کے دل جیت لیے۔ایلن ہنکس پہلا برطانوی کوہ پیما ہے جسے آٹھ ہزار میٹر سے بلند دنیا کے تمام چودہ چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز ہوا۔ اس نے کہا ''میرے نزدیک دنیائے کوہ پیمائی میں کے ٹو سر کرنا گولڈ میڈل حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ مگر کے ٹو کی چوٹی پر چڑھ کر وہاں سے اسکینگ کرتے ہوئے اترنا... یہ معاملہ انسان کو دنگ کردیتا ہے۔ میرے نزدیک برجیل غیر معمولی انسان ہے۔''

کینٹن کول کا شمار ان خوش قسمت کوہ پیماؤں میں ہوتا ہے جو دنیا کے دس بلند ترین پہاڑ مسخر کرچکے۔ وہ کہتا ہے ''اسکینگ کوہ پیمائی سے تعلق رکھنے والے بہترین ہنرمند عرصہ دراز سے کوشش کررہے تھے کہ وہ بے رحم پہاڑ پر اپنے فن کا مظاہرہ کریں مگر انہیں کامیابی نہ ہوسکی۔ اب کے ٹو پر اسکینگ کرنے سے پولش ہم جو کسی اور ہی دنیا کا باسی بن چکا۔''

آندرے برجیل غیر معمولی کارنامہ دکھانے پر بہت خوش ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کے ٹو پر اسکینگ کرکے اس کا دیرینہ خواب پورا ہوگیا۔ اب وہ کسی اور مشکل و خطرناک کام میں ہاتھ ڈال کر دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کی دلیری و عزم کی حدود کہاں تک ہیں۔ کے ٹو پر برجیل کی زبردست اسکینگ کے دلفریب اور مبہوت کردینے والے نظارے نیٹ پر دستیاب دل کی دھڑکنیں روک دینے والی ویڈیوز میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

قاتل پہاڑ کی ہیبت

پاکستان اور چین کی سرحد پر علاقہ بلتستان میں واقع دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ، کے ٹو 8611 میٹر (28 ہزار 251 فٹ) بلند ہے۔ یہ قراقرم سلسلہ ہائے کوہ کا بلند ترین پہاڑ ہے۔ بلتستان میں چھوغوری کہلاتا ہے جس کے معنی ہیں بڑا پہاڑ۔ انگریز سرویئر، تھامس چارج نے 1850ء کے لگ بھگ اس کو ''کے ٹو'' کا نام دیا۔ اب سرکاری طور پر پہاڑ اسی نام سے مشہور ہے۔

کے ٹو کی بیشتر چٹانیں عمودی ہیں، اسی لیے اس پر چڑھنا اور اترنا، دونوں مرحلے بڑے خطرناک اور کٹھن ہیں۔ یہی وجہ ہے پچھلے ستر برس میں تین ہزار سے زائد کوہ پیما دنیا کا بلند ترین پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرچکے۔ لیکن اسی عرصے میں تقریباً تین سو کوہ پیما ہی کے ٹو سر کرپائے۔ جبکہ ''ستتر'' کوہ پیماؤں کو اس بے رحم پہاڑ نے موت کی نیند سلادیا۔ بہت سے زخمی بھی ہوئے۔

چین میں واقع کے ٹو کی سمت زیادہ عمودی ہے، اسی لیے تمام کوہ پیما پاکستان کی سمت سے کے ٹو پر چڑھتے ہیں۔ چھبیس ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ کر کوہ پیما ''احاطہ موت'' (Death Zone) میں داخل ہوجاتا ہے۔ کے ٹو کے اس حصّے میں آکسیجن بہت کم ہوتی ہے۔ اسی لیے تمام کوہ پیما آکسیجن سلنڈر استعمال کرتے ہیں۔ خدانخواستہ سلنڈر خراب ہوجائے، تو آکسیجن کی کمی کے باعث کوہ پیما کی موت یقینی ہے۔

عمودی چٹانوں، آکسیجن کی کمی کے علاوہ کوہ پیماؤں کو دیگر قدرتی آفات کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً کہیں کہیں برف پگھلنے سے اس کے ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں انسان گہری کھائی میں گرسکتا ہے۔ پھر کبھی کبھی برفانی تودے توٹنے سے برفشار (Avalanche) بھی کوہ پیماؤں کو دبوچ لیتے ہیں۔ لہٰذا کے ٹو سمیت تمام بلند پہاڑوں پر چڑھنا اترنا بچوں کا کھیل نہیں،اس کے لیے زبردست دل گردہ رکھنا شرط ِاولیں ہے۔یاد رہے، دنیا کے پچیس بلند ترین پہاڑوں میں سے تقریباً نصف یعنی گیارہ پاکستان میں واقع ہیں۔اسی لیے کوہ پیمائی کی دنیا میں پاکستان خاص مقام رکھتا ہے۔
Load Next Story