بھارت سے تعلقات کے معاملے میں نواز شریف کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا
جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ پروفیسر ساجد میر کا فورم میں اظہار خیال
KARACHI:
پروفیسر ساجد میر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ اور سینٹ آف پاکستان کے رکن ہیں۔
ایکسپریس فورم میں حالیہ انتخابات کے حوالے سے ان سے مکالمہ کیاگیا اور ملکی حالات کی روشنی میں ان کی جماعت کا موقف جاننے کے لیے ایک نشست کا اہتمام کیاگیا جس کی تفصیل سوال و جوابات کی صورت میں نذر ِ قارئین ہے۔
٭ ایکسپریس ـ :موجودہ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے آپ کی رائے کیا ہے ۔کیا یہ توقع کے مطابق ہیں یا برعکس؟
پروفیسر ساجد میر :انتخابات کے نتائج توقعات کے مطابق آئے۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی پانچ سالہ کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بدامنی جیسے مسائل اپنی انتہا کو پہنچے اور عوام کی زندگی دوبھر ہو گئی۔
علاوہ ازیں ملکی تحفظ اور وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ حکومت اور فوج کی ملی بھگت سے بے گناہ لوگ ڈرون حملوں میں شہید ہوتے رہے اور حکومت مصنوعی احتجاج سے آگے نہ بڑھ سکی۔ انہوں نے لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ جس کا غصہ عوا م نے ووٹ کے ذریعے نکالا۔ عوام کوروٹی کپڑا اور مکان دینے کی بجائے چھین لیا گیا۔ زرداری صاحب کے بقول جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے تو عوا م نے11 مئی کو جمہوریت کے ذریعے یہ انتقام لے لیا اور میڈیا پرسیاسی مخالفین کی کردار کشی پرکروڑوں روپے لگانے کے باوجود عوام نے انہیں مسترد کردیا۔
٭ایکسپریس :ملک کی بعض جماعتوں نے ان انتخابات میں دھاندلی کاالزام لگاتے ہوئے نتائج کو مسترد کردیا ہے جبکہ بعض نے توالیکشن کے دوران ہی بائیکاٹ کردیا تھا کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ انجینئر ڈ نتائج تھے ؟
پروفیسر ساجد میر :ایک متفقہ اور خود مختار الیکشن کمیشن کے قیام کو تمام جماعتوں نے خوش آئند قراردیا تھا۔ اس کی کارکردگی مجموعی طور پر اچھی رہی، انتخابات میں دھاندلی جزوی اور محدود سطح پر نظر آئی ہے جس کا زیادہ تر مظاہرہ کراچی میں دیکھا گیا۔ جس کا احساس کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے وہاں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دے دیا ہے اور اگر کسی کے پاس ٹھوس شواہد کسی اور حلقے کے حوالے سے ہیں تو قانون کے مطابق امیدوار کا حق ہے کہ اس کے خلاف اپیل کرے۔ میںسمجھتا ہوں کہ مینڈیٹ چرانے کی گھٹیا روایات اب ختم ہو نی چاہیں۔
11 مئی کے انتخابات پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر ہوئے جوکہ خوش آئند بات ہے۔ ماضی میں جرنیل نتائج تبدیل کرکے،'' سیاسی دہشت گردی'' کا ارتکاب کرتے رہے۔ مگر اب کی بار ان کی مداخلت کہیں دکھائی نہیں دی۔ اکا دکا واقعات کے علاوہ مجموعی طور پر الیکشن شفاف اور منصفانہ رہے۔ تحریک انصاف کھلے دل سے الیکشن نتائج قبول کرکے ملکی تعمیر میں اپنا کردار اداکرے ، ملک کو پہلے ہی بڑے بحرانوں کا سامنا ہے، ہمیں الزامات اور میں نہ مانوں کی سیاست سے نکل کر بالغ نظری دکھانا ہوگی۔ میاں نواز شریف نے عمران خاں کی عیادت کر کے ''نئے پاکستان'' کی خوشگوار روایت ڈالی۔ عمران خاں کو بھی اپنے رویے میں ٹھرائو اور برداشت پیدا کرنی چاہیے۔
٭ایکسپریس ۔:آپ کی جماعت کو مسلک اہل حدیث کی نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ ہے لیکن ایوان میں اس کی نمائندگی اس دعویٰ کی نفی کرتی ہے ،کیا آپ اس پوزیشن پر مطمئن ہیں؟
پروفیسر ساجد میر : ہم نے کبھی انفرادی حیثیت میںا پنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخاب نہیں لڑا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مروجہ انتخابات کے لیے درکار ماحول ،قوت سرمایہ اور دیگر لوازمات سے محروم ہیں۔ سوائے ایک آدھ مذہبی جماعت کے اکثر مذہبی جماعتوں کی بھی یہی صورت حال ہے۔
خیبر پختونخواہ کے علاوہ پنجاب میں جماعت اسلامی کا تنہا الیکشن لڑنے کا تجربہ ہمیشہ ناکام رہا۔ حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدوار پنجاب اور سندھ سے ہار گئے۔ ایک اور مثال صاحبزادہ فضل کریم کی ہے جو مسلم لیگ ن کی سیٹ پر منتخب ہوتے رہے۔11 مئی کے الیکشن میں ان کی پارٹی کان لیگ کے ساتھ اتحاد نہ ہوا تو ان کا بیٹا الیکشن ہارگیا۔اس لیے ہم براہ راست الیکشن میں حصہ لینے کی بجائے اپنی ہم خیال جماعت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کو ترجیح دیتے ہیں اور ہم مسلم لیگ کو ووٹ پلیٹ میں ڈا ل کر نہیں دیتے ، وہ ہمارے کارکنوں اور پارٹی کے مسائل کے حل کی یقین دہانی کراتے ہیں ہمارے کارکن اپنی حیثیت اور وجود کو تسلیم کراتے ہیں۔ اس انتخابی اتحاد کی باقاعدہ مجلس شوری میں مکمل بحث کے بعد منظوری لی جاتی ہے۔
امیر یا ناظم اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا۔ مسلم لیگ سے اتحاد کے نتیجے میں مجھے گزشتہ 20 سال سے سینٹ کی نمائندگی حاصل ہے اور یہ نمائندگی مجھے میری جماعت کی وجہ سے ملی ہے۔ اور 2013 کے انتخابات میں ہماری پارٹی کے ناظم اعلی ڈاکٹر حافظ عبدالکریم قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں اور اسی طرح پنجاب اسمبلی میں بھی ہماری نمائندگی ملک ذوالقرنین ڈوگر کررہے ہیں۔ یہ سیٹیں اتحادی جماعت کی حیثیت سے ہمیں ملی ہیں۔
ہم ان مناصب پر رہتے ہوئے اپنی پارٹی اور اپنے ورکروںکی عزت ووقار کے لیے بھرپور کردار اداکریں گے۔ ہماری جماعت الحمد للہ ملکی سطح پر اہل حدیث مکتبہ فکر نمائندہ قوت ہے یہ دعوی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ ہمارا سیاسی اور انتخابی اتحاد مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے۔ اس اتحاد کے دو بنیادی محور ہیں اسلام اور پاکستان۔
مسلم لیگ ن کو باقی جماعتوںکی نسبت ہم اسلام اور پاکستان کے نسبتا قریب سمجھتے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دور حکومت میں کتاب و سنت کی بالادستی کا ایک اچھا قانون (آئینی ترمیم) قومی اسمبلی میں پاس کرایا اور سینٹ سے منظور کرانا چاہتے تھے کہ ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ امید ہے کہ وہ اب کی بار یہ عظیم فریضہ پھر اداکریں گے۔ مسلم لیگ ن نے ملکی معیشت کے پہیہ کو بھی بہتر طور پر حرکت دی اور ایٹمی دھماکے، موٹروے اور انفراسٹرکچر کی بہتری جیسے اقدامات کیے ۔
٭ایکسپریس ۔ : مذہبی سیاسی جماعتوں نے انفرادی حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے کر اپنی حیثیت کو ظاہر (expose) کردیا ہے ان جماعتوں کے امیدواروں کو اس قدر ووٹ بھی نہیں مل سکے کہ ضمانت محفوظ رہ سکتی ۔ اس پس منظر میں مذہبی جماعتوں کا مستقبل آپ کیا دیکھتے ہیں ؟
پروفیسر ساجد میر ۔: مذہبی جماعتیں خاص طور پرجماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) خیبر پختو نخوا اور بلوچستان کے سوا کہیں بھی انفرادی حیثیت میں جیتنے کی پوزیشن میں نہیں۔ جمعیت علمائے پاکستان کی تو کسی بھی جگہ تنہا کامیابی ناممکن ہے حالیہ انتخابات میں شاید ہی انہوں نے کوئی سیٹ جیتی ہو ۔ جہاں کامیابی کے آثار نہیں وہاں حقیقت پسند ی کامظاہرہ کرتے ہوئے مذہبی جماعتوں کو اپنے ووٹ ضائع کرنے کی بجائے ہم خیال جماعتوں سے اتحاد کر لینا چاہیے۔ عدم اتفاق کا فائدہ سیکولر قوتیں اٹھاتی ہیں۔ مجھے مذہبی جماعتوں کا اس حوالے سے مستقبل تابناک نظر نہیں آرہا ۔ بعض مذہبی جماعتیں اپنی حیثیت اور وجود کا صحیح ادراک نہیں کرتیں۔ مجلس عمل کا تجربہ معروضی حالات میں کامیاب رہا۔
ایکسپریس ـ: سیاسی حلقوں کے ساتھ ساتھ خود آپ کی اپنی جماعت میں یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ آپ نے مسلم لیگ ن کے حلیف کے طورپر اپنی جماعت کی شناخت ختم کردی ہے ۔ آپ کی انہی پالیسیوں کی وجہ سے آپ کی جماعت کے ایک اہم رہنما ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی دل برداشتہ ہوکر جماعت کو چھوڑ گئے۔ آپ اس پر کیا کہیں گے ؟
ایکسپریس ـ: نہیں ایسا بالکل بھی نہیں، ہم نے مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کے باوجود ملکی سطح پر اپنا مسلکی تشخص برقرار رکھا ہے۔ جماعتیں اپنی دعوتی، تبلیغی، تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں کی بنیاد پر زندہ رہتی ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا مضبوط نیٹ ورک ہے جس کا جال پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ ہم نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت کے پیش نظردنیا بھر میں قرآن وسنت کی دعوت گھر گھرمیں پہچانے کے لیے پیغام ٹی وی کا اجراء کیا ہے۔ جس سے لاکھوں لوگ اسلام کی حقانیت اور اس کی دعوت سے متاثر ہوکر اپنے عقائدکی اصلاح کررہے ہیں۔
ہم نے کبھی اپنے اصول اور نظریات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ہمیشہ ذاتی کی بجائے قومی اور جماعتی مفاد کو ترجیح دی۔ الحمد للہ ملکی وبین الاقوامی سطح پر مرکز ی جمعیت اہل حدیث کی ایک شناخت ہے۔ دیگر بین الاقوامی فورموں کے ساتھ ساتھ رابطہ عالم اسلامی کی مجلس اعلی کے تاسیسی رکن ہونے کا اعزاز بھی بحیثیت امیر جماعت مجھے حاصل ہوا۔ جہاں تک ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی کا تعلق ہے توان کا خاندان آج بھی جماعت کے ساتھ ہے۔ انہیںاپنے انتخابی حلقے کی سیاست پر کچھ تحفظات تھے جنہیں جماعت نے حتی المقدور دور کرکے انہیں سیاسی مقام دلانے اور جماعت کے ساتھ وابستہ رکھنے کی کوشش کی جس کا اعتراف ان کا خاندان آج بھی کرتا ہے۔ ان کا اختلاف مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ تھا جس کی بنیاد پر انہوں نے اپنی سیاسی راہیں جدا کرلیں۔
ایکسپریس ـ: نئے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی ہے ایک حلیف جماعت کے طورپر آپ کے خیال میں ملک کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسے کیا حکمت عملی اخیتار کرنی چاہیے؟
پروفیسر ساجد میر ـ : ہمیں امید ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے منشورمیں عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرے گی ،ملک کو امریکی غلامی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلائے گی۔ اس وقت ملک کو داخلی وخارجی محازوں پر درپیش چیلنجز ہیں جس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مضبوط اور مستحکم جمہوری حکومت ناگزیر ہے۔ عوام نے جن مسائل اور عوامل کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور ان کے اتحادیوں پر عدم اعتماد کیا ہے، مسلم لیگ ن کی قیادت کو اگرچہ ان مسائل کا ادراک ہے۔
تاہم خدانخواستہ انہوں نے بھی ان غلطیوں کو دہرایا تو پھر جمہوری نظام پر عوام کا اعتماد ہمیشہ کے لیے اٹھ جائے گا، بھاری مینڈیٹ کے ساتھ مسلم لیگ ن پر بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوگئی ہے۔ امید ہے کہ وہ اسلام کی سربلندی اور حب الوطنی کے جذبہ کے تحت ملک کو فلاحی اسلامی ریاست بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ انہیں تعمیری اور مثبت سوچ کے تحت اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کراقدامات کرنا ہوں گے۔ خصوصاً بلوچستان کا مسئلہ وہاں کے عوا م کی امنگوں کے مطابق حل کرنا ہوگا۔
ایکسپریس ـ:کشمیر کے مسئلے اور جہاد کشمیر پر آپ کا موقف بڑا واضح ہے کیا مسلم لیگ ن کی حکومت میں اس مسئلے کے حل کے ضمن میں کوئی بریک تھروہوسکے گا ؟
پروفیسر ساجد میر ـ: کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ پاکستانی قوم کسی بھی ایسے حل کو قبول نہیں کرے گی جس سے کشمیری عوا م کی امنگوں کا خون ہو۔ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق ملنا چاہیے انہیں یہ فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا خودمختاری چاہتے ہیں ۔ بھارت کو پسندیدہ قوم یا ملک قراردینے یا ان سے تجارت کرنے سمیت تمام تعلقات کا انحصار کشمیر کے مسئلہ کے حل سے جڑا ہوا ہے۔ بھارت پاکستان سے آبی دہشت گردی بھی کرتا ہے، تخریب کاری بھی کرتا ہے، اپنے ایجنٹ پاکستان میں بھیج کر ہماری سلامتی سے بھی کھیلتا ہے۔ ایسے حالات میں میاں نواز شریف کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔
پروفیسر ساجد میر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ اور سینٹ آف پاکستان کے رکن ہیں۔
ایکسپریس فورم میں حالیہ انتخابات کے حوالے سے ان سے مکالمہ کیاگیا اور ملکی حالات کی روشنی میں ان کی جماعت کا موقف جاننے کے لیے ایک نشست کا اہتمام کیاگیا جس کی تفصیل سوال و جوابات کی صورت میں نذر ِ قارئین ہے۔
٭ ایکسپریس ـ :موجودہ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے آپ کی رائے کیا ہے ۔کیا یہ توقع کے مطابق ہیں یا برعکس؟
پروفیسر ساجد میر :انتخابات کے نتائج توقعات کے مطابق آئے۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی پانچ سالہ کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بدامنی جیسے مسائل اپنی انتہا کو پہنچے اور عوام کی زندگی دوبھر ہو گئی۔
علاوہ ازیں ملکی تحفظ اور وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ حکومت اور فوج کی ملی بھگت سے بے گناہ لوگ ڈرون حملوں میں شہید ہوتے رہے اور حکومت مصنوعی احتجاج سے آگے نہ بڑھ سکی۔ انہوں نے لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ جس کا غصہ عوا م نے ووٹ کے ذریعے نکالا۔ عوام کوروٹی کپڑا اور مکان دینے کی بجائے چھین لیا گیا۔ زرداری صاحب کے بقول جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے تو عوا م نے11 مئی کو جمہوریت کے ذریعے یہ انتقام لے لیا اور میڈیا پرسیاسی مخالفین کی کردار کشی پرکروڑوں روپے لگانے کے باوجود عوام نے انہیں مسترد کردیا۔
٭ایکسپریس :ملک کی بعض جماعتوں نے ان انتخابات میں دھاندلی کاالزام لگاتے ہوئے نتائج کو مسترد کردیا ہے جبکہ بعض نے توالیکشن کے دوران ہی بائیکاٹ کردیا تھا کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ انجینئر ڈ نتائج تھے ؟
پروفیسر ساجد میر :ایک متفقہ اور خود مختار الیکشن کمیشن کے قیام کو تمام جماعتوں نے خوش آئند قراردیا تھا۔ اس کی کارکردگی مجموعی طور پر اچھی رہی، انتخابات میں دھاندلی جزوی اور محدود سطح پر نظر آئی ہے جس کا زیادہ تر مظاہرہ کراچی میں دیکھا گیا۔ جس کا احساس کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے وہاں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دے دیا ہے اور اگر کسی کے پاس ٹھوس شواہد کسی اور حلقے کے حوالے سے ہیں تو قانون کے مطابق امیدوار کا حق ہے کہ اس کے خلاف اپیل کرے۔ میںسمجھتا ہوں کہ مینڈیٹ چرانے کی گھٹیا روایات اب ختم ہو نی چاہیں۔
11 مئی کے انتخابات پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر ہوئے جوکہ خوش آئند بات ہے۔ ماضی میں جرنیل نتائج تبدیل کرکے،'' سیاسی دہشت گردی'' کا ارتکاب کرتے رہے۔ مگر اب کی بار ان کی مداخلت کہیں دکھائی نہیں دی۔ اکا دکا واقعات کے علاوہ مجموعی طور پر الیکشن شفاف اور منصفانہ رہے۔ تحریک انصاف کھلے دل سے الیکشن نتائج قبول کرکے ملکی تعمیر میں اپنا کردار اداکرے ، ملک کو پہلے ہی بڑے بحرانوں کا سامنا ہے، ہمیں الزامات اور میں نہ مانوں کی سیاست سے نکل کر بالغ نظری دکھانا ہوگی۔ میاں نواز شریف نے عمران خاں کی عیادت کر کے ''نئے پاکستان'' کی خوشگوار روایت ڈالی۔ عمران خاں کو بھی اپنے رویے میں ٹھرائو اور برداشت پیدا کرنی چاہیے۔
٭ایکسپریس ۔:آپ کی جماعت کو مسلک اہل حدیث کی نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ ہے لیکن ایوان میں اس کی نمائندگی اس دعویٰ کی نفی کرتی ہے ،کیا آپ اس پوزیشن پر مطمئن ہیں؟
پروفیسر ساجد میر : ہم نے کبھی انفرادی حیثیت میںا پنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخاب نہیں لڑا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مروجہ انتخابات کے لیے درکار ماحول ،قوت سرمایہ اور دیگر لوازمات سے محروم ہیں۔ سوائے ایک آدھ مذہبی جماعت کے اکثر مذہبی جماعتوں کی بھی یہی صورت حال ہے۔
خیبر پختونخواہ کے علاوہ پنجاب میں جماعت اسلامی کا تنہا الیکشن لڑنے کا تجربہ ہمیشہ ناکام رہا۔ حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدوار پنجاب اور سندھ سے ہار گئے۔ ایک اور مثال صاحبزادہ فضل کریم کی ہے جو مسلم لیگ ن کی سیٹ پر منتخب ہوتے رہے۔11 مئی کے الیکشن میں ان کی پارٹی کان لیگ کے ساتھ اتحاد نہ ہوا تو ان کا بیٹا الیکشن ہارگیا۔اس لیے ہم براہ راست الیکشن میں حصہ لینے کی بجائے اپنی ہم خیال جماعت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کو ترجیح دیتے ہیں اور ہم مسلم لیگ کو ووٹ پلیٹ میں ڈا ل کر نہیں دیتے ، وہ ہمارے کارکنوں اور پارٹی کے مسائل کے حل کی یقین دہانی کراتے ہیں ہمارے کارکن اپنی حیثیت اور وجود کو تسلیم کراتے ہیں۔ اس انتخابی اتحاد کی باقاعدہ مجلس شوری میں مکمل بحث کے بعد منظوری لی جاتی ہے۔
امیر یا ناظم اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا۔ مسلم لیگ سے اتحاد کے نتیجے میں مجھے گزشتہ 20 سال سے سینٹ کی نمائندگی حاصل ہے اور یہ نمائندگی مجھے میری جماعت کی وجہ سے ملی ہے۔ اور 2013 کے انتخابات میں ہماری پارٹی کے ناظم اعلی ڈاکٹر حافظ عبدالکریم قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں اور اسی طرح پنجاب اسمبلی میں بھی ہماری نمائندگی ملک ذوالقرنین ڈوگر کررہے ہیں۔ یہ سیٹیں اتحادی جماعت کی حیثیت سے ہمیں ملی ہیں۔
ہم ان مناصب پر رہتے ہوئے اپنی پارٹی اور اپنے ورکروںکی عزت ووقار کے لیے بھرپور کردار اداکریں گے۔ ہماری جماعت الحمد للہ ملکی سطح پر اہل حدیث مکتبہ فکر نمائندہ قوت ہے یہ دعوی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ ہمارا سیاسی اور انتخابی اتحاد مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے۔ اس اتحاد کے دو بنیادی محور ہیں اسلام اور پاکستان۔
مسلم لیگ ن کو باقی جماعتوںکی نسبت ہم اسلام اور پاکستان کے نسبتا قریب سمجھتے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دور حکومت میں کتاب و سنت کی بالادستی کا ایک اچھا قانون (آئینی ترمیم) قومی اسمبلی میں پاس کرایا اور سینٹ سے منظور کرانا چاہتے تھے کہ ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ امید ہے کہ وہ اب کی بار یہ عظیم فریضہ پھر اداکریں گے۔ مسلم لیگ ن نے ملکی معیشت کے پہیہ کو بھی بہتر طور پر حرکت دی اور ایٹمی دھماکے، موٹروے اور انفراسٹرکچر کی بہتری جیسے اقدامات کیے ۔
٭ایکسپریس ۔ : مذہبی سیاسی جماعتوں نے انفرادی حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے کر اپنی حیثیت کو ظاہر (expose) کردیا ہے ان جماعتوں کے امیدواروں کو اس قدر ووٹ بھی نہیں مل سکے کہ ضمانت محفوظ رہ سکتی ۔ اس پس منظر میں مذہبی جماعتوں کا مستقبل آپ کیا دیکھتے ہیں ؟
پروفیسر ساجد میر ۔: مذہبی جماعتیں خاص طور پرجماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) خیبر پختو نخوا اور بلوچستان کے سوا کہیں بھی انفرادی حیثیت میں جیتنے کی پوزیشن میں نہیں۔ جمعیت علمائے پاکستان کی تو کسی بھی جگہ تنہا کامیابی ناممکن ہے حالیہ انتخابات میں شاید ہی انہوں نے کوئی سیٹ جیتی ہو ۔ جہاں کامیابی کے آثار نہیں وہاں حقیقت پسند ی کامظاہرہ کرتے ہوئے مذہبی جماعتوں کو اپنے ووٹ ضائع کرنے کی بجائے ہم خیال جماعتوں سے اتحاد کر لینا چاہیے۔ عدم اتفاق کا فائدہ سیکولر قوتیں اٹھاتی ہیں۔ مجھے مذہبی جماعتوں کا اس حوالے سے مستقبل تابناک نظر نہیں آرہا ۔ بعض مذہبی جماعتیں اپنی حیثیت اور وجود کا صحیح ادراک نہیں کرتیں۔ مجلس عمل کا تجربہ معروضی حالات میں کامیاب رہا۔
ایکسپریس ـ: سیاسی حلقوں کے ساتھ ساتھ خود آپ کی اپنی جماعت میں یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ آپ نے مسلم لیگ ن کے حلیف کے طورپر اپنی جماعت کی شناخت ختم کردی ہے ۔ آپ کی انہی پالیسیوں کی وجہ سے آپ کی جماعت کے ایک اہم رہنما ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی دل برداشتہ ہوکر جماعت کو چھوڑ گئے۔ آپ اس پر کیا کہیں گے ؟
ایکسپریس ـ: نہیں ایسا بالکل بھی نہیں، ہم نے مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کے باوجود ملکی سطح پر اپنا مسلکی تشخص برقرار رکھا ہے۔ جماعتیں اپنی دعوتی، تبلیغی، تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں کی بنیاد پر زندہ رہتی ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا مضبوط نیٹ ورک ہے جس کا جال پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ ہم نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت کے پیش نظردنیا بھر میں قرآن وسنت کی دعوت گھر گھرمیں پہچانے کے لیے پیغام ٹی وی کا اجراء کیا ہے۔ جس سے لاکھوں لوگ اسلام کی حقانیت اور اس کی دعوت سے متاثر ہوکر اپنے عقائدکی اصلاح کررہے ہیں۔
ہم نے کبھی اپنے اصول اور نظریات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ہمیشہ ذاتی کی بجائے قومی اور جماعتی مفاد کو ترجیح دی۔ الحمد للہ ملکی وبین الاقوامی سطح پر مرکز ی جمعیت اہل حدیث کی ایک شناخت ہے۔ دیگر بین الاقوامی فورموں کے ساتھ ساتھ رابطہ عالم اسلامی کی مجلس اعلی کے تاسیسی رکن ہونے کا اعزاز بھی بحیثیت امیر جماعت مجھے حاصل ہوا۔ جہاں تک ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی کا تعلق ہے توان کا خاندان آج بھی جماعت کے ساتھ ہے۔ انہیںاپنے انتخابی حلقے کی سیاست پر کچھ تحفظات تھے جنہیں جماعت نے حتی المقدور دور کرکے انہیں سیاسی مقام دلانے اور جماعت کے ساتھ وابستہ رکھنے کی کوشش کی جس کا اعتراف ان کا خاندان آج بھی کرتا ہے۔ ان کا اختلاف مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ تھا جس کی بنیاد پر انہوں نے اپنی سیاسی راہیں جدا کرلیں۔
ایکسپریس ـ: نئے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی ہے ایک حلیف جماعت کے طورپر آپ کے خیال میں ملک کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسے کیا حکمت عملی اخیتار کرنی چاہیے؟
پروفیسر ساجد میر ـ : ہمیں امید ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے منشورمیں عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرے گی ،ملک کو امریکی غلامی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلائے گی۔ اس وقت ملک کو داخلی وخارجی محازوں پر درپیش چیلنجز ہیں جس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مضبوط اور مستحکم جمہوری حکومت ناگزیر ہے۔ عوام نے جن مسائل اور عوامل کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور ان کے اتحادیوں پر عدم اعتماد کیا ہے، مسلم لیگ ن کی قیادت کو اگرچہ ان مسائل کا ادراک ہے۔
تاہم خدانخواستہ انہوں نے بھی ان غلطیوں کو دہرایا تو پھر جمہوری نظام پر عوام کا اعتماد ہمیشہ کے لیے اٹھ جائے گا، بھاری مینڈیٹ کے ساتھ مسلم لیگ ن پر بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوگئی ہے۔ امید ہے کہ وہ اسلام کی سربلندی اور حب الوطنی کے جذبہ کے تحت ملک کو فلاحی اسلامی ریاست بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ انہیں تعمیری اور مثبت سوچ کے تحت اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کراقدامات کرنا ہوں گے۔ خصوصاً بلوچستان کا مسئلہ وہاں کے عوا م کی امنگوں کے مطابق حل کرنا ہوگا۔
ایکسپریس ـ:کشمیر کے مسئلے اور جہاد کشمیر پر آپ کا موقف بڑا واضح ہے کیا مسلم لیگ ن کی حکومت میں اس مسئلے کے حل کے ضمن میں کوئی بریک تھروہوسکے گا ؟
پروفیسر ساجد میر ـ: کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ پاکستانی قوم کسی بھی ایسے حل کو قبول نہیں کرے گی جس سے کشمیری عوا م کی امنگوں کا خون ہو۔ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق ملنا چاہیے انہیں یہ فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا خودمختاری چاہتے ہیں ۔ بھارت کو پسندیدہ قوم یا ملک قراردینے یا ان سے تجارت کرنے سمیت تمام تعلقات کا انحصار کشمیر کے مسئلہ کے حل سے جڑا ہوا ہے۔ بھارت پاکستان سے آبی دہشت گردی بھی کرتا ہے، تخریب کاری بھی کرتا ہے، اپنے ایجنٹ پاکستان میں بھیج کر ہماری سلامتی سے بھی کھیلتا ہے۔ ایسے حالات میں میاں نواز شریف کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔