کراچی کے مسائل کب اور کون حل کرے گا

کراچی انتہائی خوبصورت فلاحی و رفاحی شہر کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کی سہولیات و آسائشات کا حامل شہر تھا۔

SANTIAGO:
زمانہ قدیم سے یہاں موجود کئی بستیوں میں سے ایک بستی کا نام '' کلاچی جو گوٹھ'' سے آہستہ آہستہ کراچی تک سفر کرنیوالا یہ شہر ِ قائد، شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالے کی داستان '' مورڑو ملاح اور مگر مچھ '' کے مطابق مچھیروں کی بستی تھا ۔ 1843میں انگریز نے سندھ پر مکمل فتح پانے کے بعد کراچی کو سندھ کا دارالحکومت بنایا اور پھر 1854میں یہاں کراچی پورٹ قائم کیا۔

بندرگاہ کے قیام سے یہ شہر آمدو رفت کا مرکز بن گیا پھر تو یہاں سڑکوں کا جال بچھ گیا ، یہاں ریل ، ٹرام اوروکٹوریا بگیوںکے ساتھ ساتھ موٹر گاڑیاں دوڑنے لگیں ۔ یہاں ایمپریس مارکیٹ ، فریئر ہال اور میری وید رٹاور، ڈی جے سائنس کالج وغیرہ جیسے منصوبے بننے لگے ۔ 1911میں کراچی کو میونسپل کمیٹی کا درجہ ملنے کے بعدپہلے میئر سیٹھ ہرچند رائے وشنداس کی جانب سے بڑے پیمانے پر ترقیاتی و تعمیراتی کاموںاور شہر میں صنعت و تجارت کو فروغ دینے کے اقدامات کی وجہ سے اُنہیں بابائے کراچی کہا گیا ،جس نے عملی طور پر جدید کراچی کی بنیاد رکھی۔

یہاں سے کراچی کے اس عروج کا آغاز ہوا جس کا ماضی قریب کی تاریخ کے اوراق میں ذکر ملتا ہے اور کئی بزرگ آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ انگریز کے زمانے میںکراچی کا موازنہ پیرس اور لندن جیسے شہروں سے کیا جاتا تھا ۔ جس کی وجہ کراچی کو اس وقت جمشید نسروانجی مہتا ، ایڈلجی ڈنشا، جی ایم سید و ہاشم گذدر اور عبداللہ ہارون وغیرہ جیسی ملنے والی قیادت ہے جس نے مسلسل محنت کرکے کراچی کی یہ پہچان بنائی ۔قیام ِ پاکستان کے وقت کراچی سندھ کا سب سے بڑا شہر تھا اور اس کی آبادی 4لاکھ تھی ۔

کراچی انتہائی خوبصورت فلاحی و رفاحی شہر کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کی سہولیات و آسائشات کا حامل شہر تھا۔ لیکن جب کراچی کی غیر فطری طریقے سے آبادی بڑھی یعنی پاکستان کے دیگر علاقوں سے(حتیٰ کہ بیرون ِ پاکستان سے) لوگ کراچی میں آکر آباد ہونے لگے تو کراچی مسائل کا شکار ہوتا چلا گیا ۔ بلا روک ٹوک و مانیٹرنگ کے ،ان باہر سے آنیوالے لوگوں کے لیے حکومتی جانب سے کوئی پلاننگ نہیں کی گئی ۔ نہ اُن کی رہائش ،غذائی و آبی اور دیگر ضروریات ِ زندگی کو پورا کرنیوالی اشیاء کی دستیابی کا بندوبست کیا گیا اور نہ ہی اُن آنیوالے لوگوں کی وجہ سے شہر کی ڈیمو گرافی پر بڑھنے والے بوجھ کے تدارک کا کوئی انتظام کیا گیا ۔ جس کے نتیجے میں دیگر صوبوں سے آنیوالے لوگ اور Refugeesشہر میں موجود سرکاری زمینوں پر قبضہ کرکے اپنے مکانات بناتے گئے۔ نہ اُنہیں روکا گیا اور نہ ہی اُنہیں کوئی متبادل دیا گیا ۔

اس شدید صورتحال کے باوجود ہماری حکومت و انتظامیہ کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آتے ۔ نہ ہی ان تجاوزات کو مستقل بنیادوں پر ہٹایا جاتا ہے ، نہ ان بیرون ِ پاکستان سے آکر یہاں بسنے والے غیر قانونی لوگوں کو ڈی پورٹ کیا جاتا ہے۔حالانکہ غیر فطری طورپر بڑھنے والی قانونی و غیر قانونی آبادی کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو کراچی کے وسائل پر وہ بوجھ ہے ۔جس نے کراچی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ صرف غیر قانونی لوگوں کا ذکر کیا جائے تو وہ بھی لاکھوں میں ہیں۔

گزشتہ 30برس سے سندھ میں حکومت کرنے والی دو بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہیں جو کراچی سمیت صوبہ کی تمام تر صورتحال کی مکمل اور مشترکہ طور پر ذمے دار ہیں ۔ پی پی پی اگر صوبائی حکومت کرتی رہی ہے تو شہری حکومت مسلسل ایم کیو ایم کے پاس رہی ہے ۔ لیکن ان دونوں جماعتوں نے اپنی ذمے داریاں بجا طور پر سرانجام نہیں دیں اور صوبہ بھر کو مسائل کی دلدل بنا دیا ہے ۔ اگر کراچی کی بات کریں توصوبائی حکومت اور شہری حکومت شہر کی ذمے داری اٹھانے کے بجائے صرف ایک دوسرے پر بہتان تراشیوں میں مصروف رہیں۔

شہری حکومت کے سربراہ کراچی کے میئر صوبائی حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ شہر کو بجٹ میں مناسب حصہ نہیں دیا جاتا اس لیے شہر کی حالت زار ہوگئی ہے ۔ جب کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کے ڈی اے، واٹر بورڈ اور کے ایم سی کے ادارے30سال قبل 1988میں فاروق ستار کے میئر بننے سے لے کر آج تک ایم کیو ایم کے اختیار میں رہے ہیں لیکن شہر کی حالت بد سے بدترین ہوتی چلی گئی اور اسی عرصہ کے دوران شہر کے مسائل میں شدت نظر آتی ہے۔

خود کو کراچی کا مینڈیٹ کہنے والی جماعت ایم کیو ایم آج بھی خود کو کراچی اور سندھ کے مسائل سے جوڑکر صوبہ سندھ کی حکمرانی کے بننے والے سیٹ اپ سے نظریں چراتے ہوئے وفاق میں بننے والے حکومتی سیٹ اپ کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے حسب ِ روایت جن شرائط پرپی ٹی آئی کی حمایت کی ہے اُن میں دیگر مطالبوں کے ساتھ ساتھ'' بلدیاتی اداروں پر اختیار'' اور'' کراچی پیکیج ''شامل ہیں ۔ جہاں تک بات ہے بلدیاتی اداروں پر اختیار کی تو درج بالا کیمطابق 30سال سے ایم کیو ایم ہی بلدیاتی اداروں پر قابض رہی ہے ۔ لیکن انھوں نے کراچی کے گوٹھوں اور سوسائٹیز و کالونیوں کو تو چھوڑیں ایم کیو ایم کے گڑھ سمجھے جانے والے ضلع وسطی میں بھی کوئی قابل ذکر کام نہیں کیے ۔ جب کہ کراچی پیکیج کی بھی کیا بات ہے ۔


مشرف دور ہو یا پی پی پی یا پھر نواز دور ہو اس طرح کے پیکیج سے کبھی بھی کراچی کے عوام کوفائدہ نہیں پہنچا اور نہ ہی کراچی کے دیرینہ مسائل حل ہوئے ہیں بلکہ اس طرح کے پیکیج کی آڑ میں ایم کیو ایم آئینی اداروں کو بائی پاس کرتے ہوئے ہمیشہ رقم بٹورتی رہی ہے جو کبھی بھی کراچی کے عوامی مسائل کے حل کے لیے استعمال نہیں ہوئی۔ جس کی تازہ مثال حال ہی میں ختم ہونے والی ن لیگ کی وفاقی حکومت سے مفاہمت کے لیے پیکیج کے نام پر حاصل ہونیوالی رقم ہے ۔ جس کا ابھی تک کوئی پتا نہیں کہ وہ کب اور کہاں لگائی گئی ؟

دوسری جانب پی پی پی ہے جو ایم کیو ایم کی طرح ہی 1988سے مختلف ادوار میں اور گزشتہ 10برس سے مسلسل سندھ میں حکومت کرنے کے باوجود کراچی کے مسائل سے آنکھیں چراتی رہی ہے۔ صوبہ کے دارالحکومت کراچی کے انڈسٹریل اور تجارتی حب ہونے کے باوجوداب تک اس شہر کے انڈسٹریل کے لوازمات تک پورے نہیں کیے گئے ۔ نہ لیبر قوانین پر عمل ہورہا ہے نہ سائٹ ایریا کے مسائل حل ہورہے ہیں اور نہ ہی تاجروں کے مسائل کو توجہ دی جارہی ہے ۔

اب تک حفظان ِ صحت کے اصولوں کے مطابق پالیسیاں نہ ہونا بھی ان دونوں جماعتوں کی ہی کوتاہی ہے۔ اکثر پروجیکٹ بغیر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے چل رہے ہیں ، جس وجہ سے کارخانوں سے نکلنے والے کیمیکلز اور دیگر فضلہ شہرو سمندر کی تباہی کا باعث بنا ہوا ہے۔

اسی عرصہ میں ان دونوں جماعتوں سے یہ بھی نہ ہوسکا کہ کچرے کو ری سائیکل کرنے یا مناسب طریقے سے ضایع کرنے کے لیے کوئی نتیجہ خیز اقدامات ہی کرلیتے۔یا پھر کراچی میں قلت ِ آب کا سدباب ہی کرلیتے جو کہ آسان تھا کیونکہ پانی کی کمی نہیں ہے بلکہ عوام کے پانی کو ٹینکر مافیہ و دیگر اداروں کی ملی بھگت سے بیچا جارہا ہے ۔ جس کا بدلہ کراچی کے عوام نے گزشتہ تین عشروں سے خود کو کراچی کا کرتا دھرتا سمجھنے والی دونوں پارٹیوں کو انتخابات میں Ignoreکرکے لیا ۔ حالانکہ یہ پہلی بار نہیں کہ عوام نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے لیکن اس بار کراچی کے عوام میں ان دونوں جماعتوں کے لیے ناراضگی کے ساتھ ساتھ بیزاری کا عنصر بھی نمایاں طور پر نظر آیا ہے ۔ جس کی سب سے بڑی مثال لیاری کے عوام ہیں جنھوں نے '' بجاں تیر بجاں '' کی تال پر ناچتے ہوئے ہمیشہ جس بے نظیر بھٹو کا انتخاب کیا ، اس مرتبہ اُسی بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ لیاری آنے پر اُسے آڑے ہاتھوں بھی لیا ۔جس کی وجہ لیاری سمیت اولڈ کراچی کہلانے والے ایریا کے وہ مسائل ہیں جو گذشتہ تین دہائیوں کے دوران حل نہ ہوپائے۔

دونوں جماعتوں نے صرف کرپشن ، اقربا پروری اور نسلی تضادات کو فروغ دیا اور ساتھ ہی دونوں ایک دوسرے کے خلاف وسائل و اختیارات کا پروپیگنڈہ کرتی رہیں ۔ جس سے یہاں پی ٹی آئی کو اپنے پاؤں جمانے کی جگہ ملی ۔

جہاں تک بات ہے پی ٹی آئی کی تواُس نے کراچی سے کچھ سیٹیں حاصل تو کرلی ہیں لیکن اب تک نہ اس کی تنظیمی دفاتر کا کوئی نیٹ ورک ہے اور نہ ہی وہ سندھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے تو وہ یہا ں کس طرح اداروں سے کام لے سکتی ہے ؟ اگر یہ کہا جائے کہ پی ٹی آئی مرکز میں حکومت میں ہونے کی وجہ سے کراچی میں اقدامات کرسکتی ہے ، تو ماضی کے تجربات سے کراچی اور کراچی کے عوام کو کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

ملکی مالیاتی ذخائر کی ابتر حالت کی بناء پر آئی ایم ایف سے قرض کی بھی باتیں ہورہی ہیں جس سے روپے کی قیمت کے مزید کم ہونے کا خدشہ ہے ۔ جس سے مہنگائی میں اضافے اور سرمایہ کاری میں کمی کے باعث پاکستان بھر میں بیروزگاری کی شرح بڑھنے کا بوجھ بھی کراچی پر پڑنے کا اندیشہ ہے۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر کراچی کے سنجیدہ حلقے تذبذب کا شکار ہیں۔

حالیہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا نہیں ؟ ... اور کس سطح پر ہوئی؟ کی بحث کوایک سائیڈ پر رکھ کر دیکھا جائے تو اس مرتبہ پی پی پی سندھ میں بڑی اکثریت سے جیت کر آئی ہے اور وہ اکثریت کی بنیاد پر حکومت بنانے جارہی ہے ۔ تو یہ اسے سمجھنا چاہیے کہ خدا نے اسے ایک مزید مگر سنہری موقع دیا ہے کہ وہ کراچی سمیت سندھ بھر کے مسائل پر خصوصی توجہ دے اور ان دیرینہ مسائل کے حل کے لیے نہ صرف قانون سازی کرے بلکہ اعلیٰ تعلیمی و تربیتی اداروں کا قیام عمل میں لائے اور بدعنوانی سے پیچھا چھڑا کر اداروں میں شفافیت کے ساتھ کارکردگی بہتر بناکر نہ صرف خود پر لگے نااہلی و کرپشن کے داغ کو مٹاسکتی ہے بلکہ کراچی کو پھر سے روشنیوں اور خوشبوؤں کا شہر بھی بناسکتی ہے ۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ جب تک عوام اپنے نمائندوں سے عملی اقدامات سے متعلق سوال نہیں کریں گے تب تک یہ مسائل حل ہوتے نظر نہیں آرہے ۔ اس لیے کراچی کی اونرشپ یہاں کے اصل مکینوں کو خود کرنی پڑے گی ۔
Load Next Story