تحریک انصاف نے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی سیاست قبول کرلی
عمران خان خیبرپختونخوا میں پارٹی قیادت کی کھینچاتانی کی اطلاعات پر کافی رنجیدہ ہیں
''مثالی حکومت'' بنانے کی تمام توقعات کے برعکس تحریک انصاف نے کم ازکم خیبرپختونخوا میں ''اسٹیٹس کو'' کی سیاست قبول کرلی ہے اور ایک طرف جہاں تحریک انصاف کی قیادت میں کشمکش شروع ہوگئی ہے وہاں اتحادی جماعتوں نے پرکشش وزارتوں کی توقعات وابستہ کرلی ہیں ۔
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو پہلے ہی پیپلزپارٹی (شیرپائو)، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی نے یرغمال بنالیا ہے اور اس تناظرمیں وہاں ''مثالی'' حکومت بنانے کا انتخابی نعرہ محض خواب نظرآتا ہے۔ ناتجربہ کار وزیراعلیٰ اورنوآموزجماعت کی موجودگی میں غالب امکان ہے کہ شیرپائو گروپ اور جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کی سیاست اور امن وامان جیسی بڑی پالیسیوں میں تحریک انصاف پرچھائی رہیں گی کیونکہ قبل ازیں تحریک انصاف کی قیادت پارٹی عہدوں کیلیے بچگانہ طرزعمل کا مظاہرہ کرچکی ہے۔
جے یوآئی کی طرف سے بھرپورمخالفت کے باوجود ن لیگ نے تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کا موقع دے کر ایک سیاسی چال چلی ہے، یہ ہنی مون پیریڈ آئندہ چند ماہ میں انجام کو پہنچ سکتا ہے اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک مشترکہ اپوزیشن سامنے آسکتی ہے جس میں ن لیگ بھی شامل ہوگی، نوازشریف کی طرف سے تحریک انصاف کوحکومت سازی کی دعوت دینے کے بعد جے یوآئی کے امیرمولانا فضل الرحمن نے خیبرپختونخوا میں انتخابی نتائج مستردکردیے ۔ اگلے3سے6ماہ میں عمران خان کے مرکز اور خیبرپختونخوا میں رویے کو دیکھتے ہوئے ن لیگ اور جے یوآئی دوبارہ قریب آسکتی ہیں ۔ نوازشریف پہلے ہی عمران خان کی اسپتال جاکر عیادت کرنے پراخلاقی برتری حاصل کرچکے ہیں، یوں تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں بڑا رسک لیا ہے۔
اب وہ اتحادیوں اور اپوزیشن دونوں کے دبائو میں رہے گی۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اپنے گھر میں انتشار ہے۔ یہ امید کی جاسکتی ہے کہ تحریک انصاف بطور نئی پارٹی کامیاب ہوگی لیکن آثار اچھے نظر نہیں آتے۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی پہلے ہی2اہم وزارتوں صحت اور تعلیم سے دستبردار ہوچکی ہے حالانکہ18ویں ترمیم کے بعد یہ دونوں صوبائی محکمے انتہائی طاقتور ہوچکے ہیں۔ محکمہ اطلاعات تحریک انصاف کے صوبائی جنرل سیکریٹری شوکت یوسفزئی کو ملنے کا امکان ہے حالانکہ یہ پارٹی کے آئین اور اس وعدے کی خلاف ورزی ہوگی کہ پارٹی عہدیداروں کوکوئی سرکاری عہدہ نہیں ملے گا۔ عمران خان کی علالت ایک اور منفی پہلو ہے اور وہ اگلے کئی ماہ تک صاحب فراش رہ سکتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ وہ علاج کیلیے بیرون ملک چلے جائیں۔
جس طرح خیبرپختونخوا میں وزارت اعلیٰ کیلیے تحریک انصاف کے رہنمائوں میں انتخابی نتائج آنے کے24گھنٹے کے اندرکھینچاتانی نظرآئی اس کے پیش نظر صاف محسوس ہوا کہ انھیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ کس قسم کی بارگیننگ کرنی چاہیے تھی۔ معلوم ہوا ہے کہ عمران خان کو ڈاکٹروں نے امریکا یا برطانیہ میں علاج کا مشورہ دیا ہے لیکن وہ صرف اپنی جرأت اور پارٹی کاز سے کمٹمنٹ کی وجہ سے پاکستان میں رہنے کی مزاحمت کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت پہلے ہی خیبرپختونخوا کی قیادت کے طرزعمل سے نالاں نظر آتی ہے جس نے پارٹی چیئرمین یا جنرل سیکریٹری کی مشاورت کے بغیرحکومت سازی کیلیے رابطے شروع کردیے۔ صوبائی صدر اسد قیصر نے مختلف پارٹی رہنمائوں سے ملاقاتیں کرکے خودکو وزارت اعلیٰ کا امیدوار ظاہر کیا۔
ان کا مخالف گروپ جس کی قیادت پرویزخٹک اور شوکت یوسفزئی کررہے ہیں نے بھی اپنے طور پرسرگرمیاں شروع کردیں۔ ایک دن پرویزخٹک وزیراعلیٰ نامزد ہوئے تو اگلے روز اسد قیصرکا نام لیاگیا۔ پھرخٹک کا نام دوبارہ سامنے آیا اور اب کہاجارہا ہے کہ کوئی تیسرا شخص امیدوار ہوگا۔ ذرائع نے بتایا کہ عمران خان ان اطلاعات پرکافی رنجیدہ ہیں اورانھوں نے اس صورتحال پر پارٹی کی سنیئر قیادت سے مشاورت بھی کی ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ تحریک انصاف کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا ابھی تک اس بارے میں کوئی اجلاس نہیں ہوا جس نے چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پارلیمانی لیڈر اور خیبرپختونخوا میں قائد ایوان کیلیے نامزدگی کا فیصلہ کرنا ہے۔
اب تک جو بات ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے رہنمائوں نے ''اقتدار کی ہوس'' ظاہر کی ہے اور پارٹی کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیے بغیر فیصلہ دے مارا۔ عمران خان ذاتی طور پراتحادی حکومت اور ''اسٹیٹس کو'' کے مخالف تھے لیکن ان کی پارٹی نے خیبرپختونخوا میں غلط آغازکیا جو مخالفین کے لیے 'آئیڈیل' ثابت ہوسکتا ہے۔ اس بات پرحیرت ہے کہ کیا کوئی عمران خان کو اصل صورتحال پر بریفنگ بھی دے رہا ہے کہ نہیں۔یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ خیبرپختونخوا کے عوام سیاسی طور پر بہت پختہ ہیں اور1970کے بعد سے وہ مسلسل پارٹیوں کو تبدیل کرتے رہے ہیں، کسی کو غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو پہلے ہی پیپلزپارٹی (شیرپائو)، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی نے یرغمال بنالیا ہے اور اس تناظرمیں وہاں ''مثالی'' حکومت بنانے کا انتخابی نعرہ محض خواب نظرآتا ہے۔ ناتجربہ کار وزیراعلیٰ اورنوآموزجماعت کی موجودگی میں غالب امکان ہے کہ شیرپائو گروپ اور جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کی سیاست اور امن وامان جیسی بڑی پالیسیوں میں تحریک انصاف پرچھائی رہیں گی کیونکہ قبل ازیں تحریک انصاف کی قیادت پارٹی عہدوں کیلیے بچگانہ طرزعمل کا مظاہرہ کرچکی ہے۔
جے یوآئی کی طرف سے بھرپورمخالفت کے باوجود ن لیگ نے تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کا موقع دے کر ایک سیاسی چال چلی ہے، یہ ہنی مون پیریڈ آئندہ چند ماہ میں انجام کو پہنچ سکتا ہے اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک مشترکہ اپوزیشن سامنے آسکتی ہے جس میں ن لیگ بھی شامل ہوگی، نوازشریف کی طرف سے تحریک انصاف کوحکومت سازی کی دعوت دینے کے بعد جے یوآئی کے امیرمولانا فضل الرحمن نے خیبرپختونخوا میں انتخابی نتائج مستردکردیے ۔ اگلے3سے6ماہ میں عمران خان کے مرکز اور خیبرپختونخوا میں رویے کو دیکھتے ہوئے ن لیگ اور جے یوآئی دوبارہ قریب آسکتی ہیں ۔ نوازشریف پہلے ہی عمران خان کی اسپتال جاکر عیادت کرنے پراخلاقی برتری حاصل کرچکے ہیں، یوں تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں بڑا رسک لیا ہے۔
اب وہ اتحادیوں اور اپوزیشن دونوں کے دبائو میں رہے گی۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اپنے گھر میں انتشار ہے۔ یہ امید کی جاسکتی ہے کہ تحریک انصاف بطور نئی پارٹی کامیاب ہوگی لیکن آثار اچھے نظر نہیں آتے۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی پہلے ہی2اہم وزارتوں صحت اور تعلیم سے دستبردار ہوچکی ہے حالانکہ18ویں ترمیم کے بعد یہ دونوں صوبائی محکمے انتہائی طاقتور ہوچکے ہیں۔ محکمہ اطلاعات تحریک انصاف کے صوبائی جنرل سیکریٹری شوکت یوسفزئی کو ملنے کا امکان ہے حالانکہ یہ پارٹی کے آئین اور اس وعدے کی خلاف ورزی ہوگی کہ پارٹی عہدیداروں کوکوئی سرکاری عہدہ نہیں ملے گا۔ عمران خان کی علالت ایک اور منفی پہلو ہے اور وہ اگلے کئی ماہ تک صاحب فراش رہ سکتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ وہ علاج کیلیے بیرون ملک چلے جائیں۔
جس طرح خیبرپختونخوا میں وزارت اعلیٰ کیلیے تحریک انصاف کے رہنمائوں میں انتخابی نتائج آنے کے24گھنٹے کے اندرکھینچاتانی نظرآئی اس کے پیش نظر صاف محسوس ہوا کہ انھیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ کس قسم کی بارگیننگ کرنی چاہیے تھی۔ معلوم ہوا ہے کہ عمران خان کو ڈاکٹروں نے امریکا یا برطانیہ میں علاج کا مشورہ دیا ہے لیکن وہ صرف اپنی جرأت اور پارٹی کاز سے کمٹمنٹ کی وجہ سے پاکستان میں رہنے کی مزاحمت کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت پہلے ہی خیبرپختونخوا کی قیادت کے طرزعمل سے نالاں نظر آتی ہے جس نے پارٹی چیئرمین یا جنرل سیکریٹری کی مشاورت کے بغیرحکومت سازی کیلیے رابطے شروع کردیے۔ صوبائی صدر اسد قیصر نے مختلف پارٹی رہنمائوں سے ملاقاتیں کرکے خودکو وزارت اعلیٰ کا امیدوار ظاہر کیا۔
ان کا مخالف گروپ جس کی قیادت پرویزخٹک اور شوکت یوسفزئی کررہے ہیں نے بھی اپنے طور پرسرگرمیاں شروع کردیں۔ ایک دن پرویزخٹک وزیراعلیٰ نامزد ہوئے تو اگلے روز اسد قیصرکا نام لیاگیا۔ پھرخٹک کا نام دوبارہ سامنے آیا اور اب کہاجارہا ہے کہ کوئی تیسرا شخص امیدوار ہوگا۔ ذرائع نے بتایا کہ عمران خان ان اطلاعات پرکافی رنجیدہ ہیں اورانھوں نے اس صورتحال پر پارٹی کی سنیئر قیادت سے مشاورت بھی کی ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ تحریک انصاف کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا ابھی تک اس بارے میں کوئی اجلاس نہیں ہوا جس نے چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پارلیمانی لیڈر اور خیبرپختونخوا میں قائد ایوان کیلیے نامزدگی کا فیصلہ کرنا ہے۔
اب تک جو بات ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے رہنمائوں نے ''اقتدار کی ہوس'' ظاہر کی ہے اور پارٹی کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیے بغیر فیصلہ دے مارا۔ عمران خان ذاتی طور پراتحادی حکومت اور ''اسٹیٹس کو'' کے مخالف تھے لیکن ان کی پارٹی نے خیبرپختونخوا میں غلط آغازکیا جو مخالفین کے لیے 'آئیڈیل' ثابت ہوسکتا ہے۔ اس بات پرحیرت ہے کہ کیا کوئی عمران خان کو اصل صورتحال پر بریفنگ بھی دے رہا ہے کہ نہیں۔یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ خیبرپختونخوا کے عوام سیاسی طور پر بہت پختہ ہیں اور1970کے بعد سے وہ مسلسل پارٹیوں کو تبدیل کرتے رہے ہیں، کسی کو غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔