تبدیلی کی لہر پی سی بی کے دروازے تک بھی آئے گی
قذافی سٹیڈیم کی راہداریوں میں خدشات کے سائے منڈلانے لگے
DG KHAN:
عمران خان نے 22سال کی جدوجہد میں مسلسل فرسودہ نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگایا، لوگ ساتھ چلتے گئے اور کاررواں بن گیا،اس طویل سفر میں پہلا پڑاؤ پی ٹی آئی کی حالیہ انتخابات میں کامیابی ہے.
عنان اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ لوگوں کے رویئے بھی تبدیل ہوئے، عمران خان کو مبارکبادیں دینے والوں میں ایسے سابق کرکٹرز کی بڑی تعداد بھی شامل تھی جنہوں نے طویل جدوجہد کے دوران کبھی سابق کپتان کے نظریئے کی غیر رسمی حمایت کرنے کا تکلف بھی گوارہ نہیں کیا، خبروں اور تبصروں کے حصول کیلئے راقم الحروف کی کئی سابق کرکٹرز سے بات ہوتی رہی۔ ان میں سے کسی نے کبھی عمران خان کی سیاسی جدوجہد کی حمایت کا اظہار نہیں کیا.
صرف دبئی میں ایک ملاقات کے دوران غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے رمیز راجہ نے کہا تھا کہ میں اپنے سابق کپتان کے کردار سے اچھی طرح واقف ہوں، کوئی مقصد سامنے ہو تو وہ اپنی ذات کو بھول جاتا ہے، پاکستان میں ایسی سوچ رکھنے والے سیاستدان ڈھونڈنے سے نہیں ملتے، ملکی سسٹم میں اس طرح کی شخصیات کا سامنے آنا مشکل ہے لیکن میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ موقع مل گیا تو عمران خان ملک کی تقدیر بدلنے کیلئے 100فیصد سے زیادہ خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ کام کریں گے۔
دوسرے سابق کرکٹر محسن خان تھے جنہوں نے نہ صرف کہ عمران خان کی سوچ کو سلام پیش کیا بلکہ میرے استفسار پر برملا کہا کہ میرے طرف سے پی ٹی آئی میں شمولیت اور کپتان کی غیر مشروط حمایت کا اعلان بھی ''ایکسپریس'' میں شائع کردو، بنی گالا جانے والے سابق کرکٹرز کا تانتا بندھا دیکھ کر بار بار دل میں خیال آتا رہا کہ کاش یہ ''قومی ہیروز'' پی سی بی کے چیئرمینوں کی بارگاہ میں حاضریوں کے بجائے ابتدائی جدوجہد میں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ سابق کرکٹرز اور قوم کے جذبے کی مدد سے اگر شوکت خانم ہسپتال قائم کرنے میں زیادہ وقت نہیں صرف کرنا پڑا تو شاید نیا پاکستان بھی جلد بن جاتا۔
بہر حال عمران خان بطور وزیر اعظم پاکستان حلف اٹھانے جارہے ہیں، فی الحال حکومت سازی، معیشت، لوڈ شیڈنگ اور اخراجات میں کمی جیسے بڑے مسائل پی ٹی آئی قیادت کی صلاحیتوں اور نیتوں کی آزمائش کیلئے تیار ہیں، ترجیحات طے کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری بھی ہے، تاہم تبدیلیوں کی بازگشت کھیلوں کی دنیا میں بھی سنائی دینے لگی ہے، چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی اور عمران خان کے درمیان سرد جنگ سے سیاسی اور کھیلوں کے حلقے دونوں واقف ہیں، الیکشن 2013ء میں نجم سیٹھی کے بطور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کردار پر پی ٹی آئی کی جانب سے انگلیاں اٹھانے کا سلسلہ پورے گزشتہ دور حکومت میں جاری رہا۔
چیئرمین کو ہٹانے کا پی سی بی آئین میں ایک طریقہ کار ہے، تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ذکاء اشرف قانونی موشگافیوں اور طویل قانونی جنگ کے باوجود اپنی کرسی بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے تھے، نجم سیٹھی جیسے زیرک صحافی کو بھی صورتحال کا اچھی طرح ادراک ہوگا، تاہم گزشتہ چند روز میں انہوںنے جلدبازی میں عین اسی طرح کے کئی فیصلے کئے ہیں جو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنے آخری ہفتوں میں کئے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس دوران کی گئی کئی تقرریاں اور فیصلے بعد ازاں عدالتوں نے منسوخ کردیئے، بہرحال جہاں ایک طرف نگران حکومت بیشتر امور میں بڑے فیصلوں کو آئندہ منتخب حکمرانوں پر چھوڑ کر جارہی ہے، وہاں پی سی بی کی ''خودمختاری'' کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی فیصلے کئے گئے ہیں، تنخواہوں اور ترقیوں کے معاملے میں منظور نظر افراد کو نواز دیا گیا جبکہ دیگر کو رسمی کارروائی کرتے ہوئے معمولی اضافے پر ٹرخا دیا گیا۔
عام طور پر اسٹاف کی تنخواہوں میں 10فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا، 40ہزار سے کم تنخواہ والے چند ملازمین کی تنخواہ 15فیصد بھی بڑھی ہے، دوسری طرف فیورٹ ملازمین ترقیاں،بونس اور 30سے 40فیصد تک اضافہ پانے میں بھی کامیاب ہوئے،سفارشی کلچرکو ختم کرنے کے دعوے کرنے والے نجم سیٹھی کی جانب سے اس نوعیت کے فیصلوں نے کئی سوال اٹھائے ہیں، موجودہ غیر یقینی صورتحال میں ملازمین بڑی بے چینی سے آنے والے فیصلوں کا انتظار کررہے ہیں۔
دوسری جانب ہارون رشید جیسے کچھ ''سیانے'' عہدیدار پی سی بی ہیڈکوارٹرز میں ممکنہ اکھاڑ پچھاڑ سے دور جاکر اپنی نوکریوں کو محفوظ بنانے کیلئے چال چل رہے ہیں، اسی کوشش میں ہارون رشید نے پی سی بی کے ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز کا پرکشش عہدہ چھوڑ کر کراچی میں کھیل کی خدمت کرنے کی منصوبہ بندی کر لی۔ آبائی شہر میں قائم ہائی پرفارمنس سنٹر میں ڈائریکٹر ساؤتھ کی نئی آسامی متعارف کرواکر انہیں باقی زندگی سکون سے گزارنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد بڑھاپے تک بھاری فائلوں کو بغل میں دبائے پی سی بی کی راہداریوں میں گھومنے والے سابق کرکٹر نے ابھی تک مختلف عہدوں پر پاکستان کیلئے ''بے مثال'' کام کیا ہے، ایک سیزن میں ''شاندار'' پالیسی بنانا، تعریفوں کے پل باندھ کر اگلے سال اس کو تبدیل کر دینا، ان کی بے پناہ محنت کا ثبوت ہے،اسی طرح کی خوبیوں کے مالک کئی اور عہدیدار بھی خود کو پاکستان کرکٹ کی بقا کیلئے ناگزیر بنائے رکھنے میں کامیاب ہیں۔
ہارون رشید کو ہائی پرفارمنس سنٹر میں ڈائریکٹر ساؤتھ کی نئی آسامی پر تعینات کرنے سے قبل پی سی بی نے اشتہار دینے کی رسمی کارروائی کی ضرورت بھی نہیں محسوس کی، پی سی بی کی کسی بھی آسامی کو پر کرنے کیلئے اخبار میں اشتہار دینے کا طریقہ کار ہے، اس صورتحال پر کراچی کے کرکٹ حلقوں میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے، میرٹ اور طریقہ کار کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے 65سالہ منظور نظر سابق ٹیسٹ کرکٹر کو لاکر ہائی پرفارمنس سنٹر میں بٹھادینے پر شہر کی کرکٹ کیلئے طویل عرصہ سے کام کرنے والوں کی حق تلفی ہوئی ہے۔
پاکستان میں کرکٹ پچز کی تیاری کیلئے عملہ تعلیم یافتہ نہیں، ڈومیسٹک سیزن میں غیر معیاری ٹرف بنائے جانے کی شکایات عام ہیں، اس ضمن میں ایک اہم پیشرفت 5 شہروں میں ایگریکلچر ڈگری ہولڈر ڈپٹی اور اسسٹنٹ کیوریٹرز بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم ساتھ ہی سابق کرکٹرز کو بھی درخواست دینے کا اہل قرار دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس شعبے میں بھی منظور نظر افراد کو نوازے جانے کے امکانات مسترد نہیں کئے جاسکتے۔
ملک میں کسی تبدیلی سے قبل ہی پی سی بی میں تبدیلیاں کرتے ہوئے فیورٹس کو فائدہ پہنچایا گیا یا ان کی راہ میں کانٹے بوئے گئے ہیں، اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا، ملک میں چلنے والی احتساب کی لہر پی سی بی کے دروازے تک پہنچے گی تو کھرے، کھوٹے کی پہچان ہوجائے گی، عہدوں کی اکھاڑ پچھاڑ کو کافی سمجھنے کے بجائے صرف اختیارات کا غلط استعمال کرنے والوں پر ہاتھ ڈالا جائے تو پی سی بی اور پاکستان کرکٹ دونوں کا بھلا ہوگا۔
عمران خان نے 22سال کی جدوجہد میں مسلسل فرسودہ نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگایا، لوگ ساتھ چلتے گئے اور کاررواں بن گیا،اس طویل سفر میں پہلا پڑاؤ پی ٹی آئی کی حالیہ انتخابات میں کامیابی ہے.
عنان اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ لوگوں کے رویئے بھی تبدیل ہوئے، عمران خان کو مبارکبادیں دینے والوں میں ایسے سابق کرکٹرز کی بڑی تعداد بھی شامل تھی جنہوں نے طویل جدوجہد کے دوران کبھی سابق کپتان کے نظریئے کی غیر رسمی حمایت کرنے کا تکلف بھی گوارہ نہیں کیا، خبروں اور تبصروں کے حصول کیلئے راقم الحروف کی کئی سابق کرکٹرز سے بات ہوتی رہی۔ ان میں سے کسی نے کبھی عمران خان کی سیاسی جدوجہد کی حمایت کا اظہار نہیں کیا.
صرف دبئی میں ایک ملاقات کے دوران غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے رمیز راجہ نے کہا تھا کہ میں اپنے سابق کپتان کے کردار سے اچھی طرح واقف ہوں، کوئی مقصد سامنے ہو تو وہ اپنی ذات کو بھول جاتا ہے، پاکستان میں ایسی سوچ رکھنے والے سیاستدان ڈھونڈنے سے نہیں ملتے، ملکی سسٹم میں اس طرح کی شخصیات کا سامنے آنا مشکل ہے لیکن میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ موقع مل گیا تو عمران خان ملک کی تقدیر بدلنے کیلئے 100فیصد سے زیادہ خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ کام کریں گے۔
دوسرے سابق کرکٹر محسن خان تھے جنہوں نے نہ صرف کہ عمران خان کی سوچ کو سلام پیش کیا بلکہ میرے استفسار پر برملا کہا کہ میرے طرف سے پی ٹی آئی میں شمولیت اور کپتان کی غیر مشروط حمایت کا اعلان بھی ''ایکسپریس'' میں شائع کردو، بنی گالا جانے والے سابق کرکٹرز کا تانتا بندھا دیکھ کر بار بار دل میں خیال آتا رہا کہ کاش یہ ''قومی ہیروز'' پی سی بی کے چیئرمینوں کی بارگاہ میں حاضریوں کے بجائے ابتدائی جدوجہد میں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ سابق کرکٹرز اور قوم کے جذبے کی مدد سے اگر شوکت خانم ہسپتال قائم کرنے میں زیادہ وقت نہیں صرف کرنا پڑا تو شاید نیا پاکستان بھی جلد بن جاتا۔
بہر حال عمران خان بطور وزیر اعظم پاکستان حلف اٹھانے جارہے ہیں، فی الحال حکومت سازی، معیشت، لوڈ شیڈنگ اور اخراجات میں کمی جیسے بڑے مسائل پی ٹی آئی قیادت کی صلاحیتوں اور نیتوں کی آزمائش کیلئے تیار ہیں، ترجیحات طے کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری بھی ہے، تاہم تبدیلیوں کی بازگشت کھیلوں کی دنیا میں بھی سنائی دینے لگی ہے، چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی اور عمران خان کے درمیان سرد جنگ سے سیاسی اور کھیلوں کے حلقے دونوں واقف ہیں، الیکشن 2013ء میں نجم سیٹھی کے بطور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کردار پر پی ٹی آئی کی جانب سے انگلیاں اٹھانے کا سلسلہ پورے گزشتہ دور حکومت میں جاری رہا۔
چیئرمین کو ہٹانے کا پی سی بی آئین میں ایک طریقہ کار ہے، تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ذکاء اشرف قانونی موشگافیوں اور طویل قانونی جنگ کے باوجود اپنی کرسی بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے تھے، نجم سیٹھی جیسے زیرک صحافی کو بھی صورتحال کا اچھی طرح ادراک ہوگا، تاہم گزشتہ چند روز میں انہوںنے جلدبازی میں عین اسی طرح کے کئی فیصلے کئے ہیں جو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنے آخری ہفتوں میں کئے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس دوران کی گئی کئی تقرریاں اور فیصلے بعد ازاں عدالتوں نے منسوخ کردیئے، بہرحال جہاں ایک طرف نگران حکومت بیشتر امور میں بڑے فیصلوں کو آئندہ منتخب حکمرانوں پر چھوڑ کر جارہی ہے، وہاں پی سی بی کی ''خودمختاری'' کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی فیصلے کئے گئے ہیں، تنخواہوں اور ترقیوں کے معاملے میں منظور نظر افراد کو نواز دیا گیا جبکہ دیگر کو رسمی کارروائی کرتے ہوئے معمولی اضافے پر ٹرخا دیا گیا۔
عام طور پر اسٹاف کی تنخواہوں میں 10فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا، 40ہزار سے کم تنخواہ والے چند ملازمین کی تنخواہ 15فیصد بھی بڑھی ہے، دوسری طرف فیورٹ ملازمین ترقیاں،بونس اور 30سے 40فیصد تک اضافہ پانے میں بھی کامیاب ہوئے،سفارشی کلچرکو ختم کرنے کے دعوے کرنے والے نجم سیٹھی کی جانب سے اس نوعیت کے فیصلوں نے کئی سوال اٹھائے ہیں، موجودہ غیر یقینی صورتحال میں ملازمین بڑی بے چینی سے آنے والے فیصلوں کا انتظار کررہے ہیں۔
دوسری جانب ہارون رشید جیسے کچھ ''سیانے'' عہدیدار پی سی بی ہیڈکوارٹرز میں ممکنہ اکھاڑ پچھاڑ سے دور جاکر اپنی نوکریوں کو محفوظ بنانے کیلئے چال چل رہے ہیں، اسی کوشش میں ہارون رشید نے پی سی بی کے ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز کا پرکشش عہدہ چھوڑ کر کراچی میں کھیل کی خدمت کرنے کی منصوبہ بندی کر لی۔ آبائی شہر میں قائم ہائی پرفارمنس سنٹر میں ڈائریکٹر ساؤتھ کی نئی آسامی متعارف کرواکر انہیں باقی زندگی سکون سے گزارنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد بڑھاپے تک بھاری فائلوں کو بغل میں دبائے پی سی بی کی راہداریوں میں گھومنے والے سابق کرکٹر نے ابھی تک مختلف عہدوں پر پاکستان کیلئے ''بے مثال'' کام کیا ہے، ایک سیزن میں ''شاندار'' پالیسی بنانا، تعریفوں کے پل باندھ کر اگلے سال اس کو تبدیل کر دینا، ان کی بے پناہ محنت کا ثبوت ہے،اسی طرح کی خوبیوں کے مالک کئی اور عہدیدار بھی خود کو پاکستان کرکٹ کی بقا کیلئے ناگزیر بنائے رکھنے میں کامیاب ہیں۔
ہارون رشید کو ہائی پرفارمنس سنٹر میں ڈائریکٹر ساؤتھ کی نئی آسامی پر تعینات کرنے سے قبل پی سی بی نے اشتہار دینے کی رسمی کارروائی کی ضرورت بھی نہیں محسوس کی، پی سی بی کی کسی بھی آسامی کو پر کرنے کیلئے اخبار میں اشتہار دینے کا طریقہ کار ہے، اس صورتحال پر کراچی کے کرکٹ حلقوں میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے، میرٹ اور طریقہ کار کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے 65سالہ منظور نظر سابق ٹیسٹ کرکٹر کو لاکر ہائی پرفارمنس سنٹر میں بٹھادینے پر شہر کی کرکٹ کیلئے طویل عرصہ سے کام کرنے والوں کی حق تلفی ہوئی ہے۔
پاکستان میں کرکٹ پچز کی تیاری کیلئے عملہ تعلیم یافتہ نہیں، ڈومیسٹک سیزن میں غیر معیاری ٹرف بنائے جانے کی شکایات عام ہیں، اس ضمن میں ایک اہم پیشرفت 5 شہروں میں ایگریکلچر ڈگری ہولڈر ڈپٹی اور اسسٹنٹ کیوریٹرز بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم ساتھ ہی سابق کرکٹرز کو بھی درخواست دینے کا اہل قرار دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس شعبے میں بھی منظور نظر افراد کو نوازے جانے کے امکانات مسترد نہیں کئے جاسکتے۔
ملک میں کسی تبدیلی سے قبل ہی پی سی بی میں تبدیلیاں کرتے ہوئے فیورٹس کو فائدہ پہنچایا گیا یا ان کی راہ میں کانٹے بوئے گئے ہیں، اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا، ملک میں چلنے والی احتساب کی لہر پی سی بی کے دروازے تک پہنچے گی تو کھرے، کھوٹے کی پہچان ہوجائے گی، عہدوں کی اکھاڑ پچھاڑ کو کافی سمجھنے کے بجائے صرف اختیارات کا غلط استعمال کرنے والوں پر ہاتھ ڈالا جائے تو پی سی بی اور پاکستان کرکٹ دونوں کا بھلا ہوگا۔