ڈیل کامیاب کمزور چالان کے باعث راؤ انوار کی ضمانت منظور

 جے آئی ٹی رپورٹ پس پشت، ڈیپارٹمنٹ اور پس پردہ طاقتوں نے اپنا کام دکھا دیا


کاشف ہاشمی August 05, 2018
 راؤ انوار مرکزی ملزم، ان کی موجودگی میں 4 بے گناہوں کو قتل کیا گیا، ڈاکٹر رضوان۔ فوٹو: فائل

بالآخر سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کو جعلی پولیس مقابلے میں مارنے کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد ضمانت پر رہا ہو ہی گئے۔

انویسٹی گیشن پولیس جعلی پولیس مقابلے میں ملوث سابق ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاون امان اللہ مروت کے علاوہ راوانوار کی ٹیم میں شامل سابق ایس ایچ او سہراب گوٹھ شعیب شوٹر سمیت دیگر پولیس افسران و اہلکاروں کی گرفتاری تو دور کی بات اس بات کا بھی پتہ نہیں چلا سکی کہ وہ شہر میں موجود ہیں یا اندورن ملک جا کر روپوش ہوگئے جو کہ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ پولیس کی جانبداری کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔

راؤ انوار کی گرفتاری سے لے کر ضمانت پر رہائی تک انویسٹی گیشن پولیس ان مفرور پولیس افسران و اہلکاروں کو گرفتار کرنے میں سنجیدہ ہی دکھائی نہیں دی تاکہ راو انوار کے خلاف مزید کوئی ثبوت یا گواہ سامنے نہ آجائے اور بالآخر ہائی پروفائل نقیب قتل کیس کے تفتیش کاروں کی ڈیل کے تحت حکمت عملی رنگ لے آئی۔ منصوبے کے تحت کیس کی ناقص تفتیش نے کیس کمزور کر دیا جس کے باعث مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار بغیر کسی دباو کے ضمانت پر رہا ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

عدالت میں راؤ انوار کے اس موقف کہ جس وقت مقابلہ ہوا میں موقع پر موجود نہیں تھا کو رد کرنے کے لیے انویسٹی گیشن پولیس اور وکیل نے نہ تو کوئی ٹھوس شواہد پیش کیے اور نہ ہی بھرپور موقف اختیار کیا، جس کے نتیجے میں عدالت نے راو انوار کے وکیل کے موقف پر ضمانت دیدی۔

تفتیشی آفیسر نے ملزم سے صرف نقیب قتل کیس کی حد تک تفتیش کی اور ڈیل کے تحت دوسرے معاملات پر ناصرف آنکھیں بند رکھیں بلکہ راوانوار کے دیگر جعلی مقابلوں اور دیگر غیر قانونی کارروائیوں کے حوالے سے جرگے میں مختلف افراد کی جانب سے دی جانے والی درخواستوں کو کسی بھی خاطر میں نہیں لایا گیا اور نقیب قتل کیس میں بھی ملزم کے خلاف ٹھوس شواہد کی بنیاد پر چالان پیش کرنے کے بجائے صرف موبائل ڈیٹا کو بنیاد بنا کر چالان جمع کرا دیا۔ سینئر انویسٹی گیشن افسروں کا کہنا ہے کہ مرکزی ملزم کی ضمانت سے فرار شوٹر ٹیم کو قانونی طورپر فائدہ ملے گا اور امکان ہے کہ اب وہ خود سے گرفتاری دے سکتے ہیں۔

روزنامہ ایکسپریس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہائی پروفائل نقیب قتل کیس کے حوالے سے جو خبر شائع کی گئی تھیں کہ پولیس کے تفتیش کاروں اور ملزم کے سہولت کاروں کے درمیان کامیاب ڈیل ہوئی تھی کہ وہ راو انوار سے صرف نقیب سمیت 4 افراد کے قتل کیس کے کردار تک تفتیش کرینگے اور مزید مبینہ مقابلے میں ہلاک کیے جانے والے افراد و دیگر معاملات کے حوالے سے تفتیش نہیں کی جائے گی اور پھر تفتیشی افسر ایس پی ڈاکٹر رضوان نے اپنے اعلیٰ افسران کے حکم اور ڈیل کے مطابق ملزم راو انوار سے نقیب قتل کیس کی حد تک ہی تفتیش کا عمل جاری رکھا۔

عدالت کے حکم پر راو انوار پر تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹٰی ممبران نے تفتیش میں ڈیل کے مطابق راو انوار کو ٹیکنیکل بنیاد پر ملزم قرار دے کر جان چھڑائی۔ جے آئی ٹی ممبران نے راوانوار کو اس کی مفرور شوٹر ٹیم کے ساتھ موبائل فون ڈیٹا کے شواہد پر ماورائے عدالت قتل میں ملوث قرار دیا تھا۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں ممبران نے یہ اعتراف کیا تھا کہ واردات میں استعمال ہونے والے آلہ قتل تاحال برآمد نہیں کیے جاسکے جن کی برآمدگی سے تفتیش کا رخ تبدیل ہوسکتا ہے ، جے آئی ٹی رپورٹ میں راو انوار کے علاوہ دوسرے ملزمان کے کردار کا تعین نقیب کے ساتھ اغوا کیے جانے والے دو گواہان، تفتیش کے دوران گرفتار کیے جانے والے پولیس افسر و اہلکاروں کے بیانات اور جائے وقوعہ سے حاصل شدہ شہادتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

جے آئی ٹی کی 13صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہیں بھی گرفتار اہلکار کے بیان کی روشنی میں یا نقیب کے ساتھ اغوا کیے جانے والے دو گواہان قاسم اور حضرت علی کے بیان کی بنیاد پر نہیں کہا گیا تھا کہ نقیب اللہ سمیت چاروں افراد کے اغوا اور قتل کے لیے راو انوار نے کوئی ہدایت دی تھی یا راو انوار کو گواہان نے اغوا اور قتل میں ملوث ملزم کے طور پر شناخت کیا ہے پوری رپورٹ میں راو انوار کو مرکزی ملزم موبائل فون ڈیٹا کی بنیاد پر قرار دیا گیا تھا۔ جبکہ سینئر تفتیش کار ذرائع نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ تفتیشی آفیسر جن ٹیکنکل بنیادوں پر راو انوار کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہے ان کا وکیل سی ڈی آر (کال ڈیٹا ریکارڈ) پر کئی سوالات اٹھا کر ضمانت دلواسکتا ہے اور ہوا بھی یہی۔ جے آئی ٹی ممبران اور راو انوار کے درمیان ہونے والی ڈیل میں راؤ انوار نے پولیس کو بوتل میں اتار لیا تھا اور اسی ڈیل کے تحت راؤ انوار کے باقی جرائم ، سہولت کاروں کے حوالے سے کوئی تفتیش اور ذکر تک نہیں کیا گیا حالانکہ اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ملیر کے تھانوں میں الگ مقدمات بھی درج کیے جا چکے ہیں۔

راوانوار نے ڈیل کے تحت تفتیشی آفیسر کی جانب سے عدالت میں جب کمزور چالان جمع کرا دیا تو اس کے بعد راو انوار نے تفتیشی آفیسر ڈاکٹر رضوان اور اعلیٰ پولیس افسران کو ایسا چکر دیا کہ انھوں نے مفرور ساتھیوں کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی بھی مدد فراہم نہیں کی۔ اس حوالے سے تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان کا کہنا ہے کہ راو انوار مرکزی ملزم ہے ان کی موجودگی میں 4 بے گناہوں کو قتل کیا گیا ، پولیس نے ملزم راو انوار اور ان کی مفرور شوٹر ٹیم کے موبائل فونز نمبروں کی سی ڈی آر اور جیوفینسنگ ڈیٹا سے ثابت کیا ہے کہ راو انوار اور اس کی شوٹر ٹیم جائے وقوعہ پر کس وقت سے لے کر کس وقت تک موجود تھی ، محکمہ سندھ پولیس میں کوئی بھی افسر یہ کیس لینے کے لیے تیار نہیں تھا ، ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان نے اس کیس کی ذمہ داری اٹھائی اور ان کے ماتحت ہم پولیس افسران نے کیس کی باریک بینی سے تفتیش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس جلد دیگر مفرور ساتھیوں کو گرفتار کر کے یہ ثابت کر دیگی کہ راو انوار دفعہ 109 کے ملزم ہیں جس میں کسی کی ایما پر کوئی جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے ، نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کو جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے کے الزام میں سابق ایس ایس پی ملیر راو انوار کی گرفتاری اور ضمانت پر رہائی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک بااثر پولیس افسر ہیں، جنھیں گرفتاری کے بعد جیل لے جانے کے بجائے ان کے گھر کو ہی سب جیل قرار دیا گیا، پھر بذریعہ ہوائی جہاز پولیس افسروں کے ساتھ کراچی تک کا سفر خوش گپیوں میں گزارا، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ راو انوار کو بچانے میں پس پردہ طاقتیں بھی متحرک تھیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں