عرب ممالک میں اونٹ کی دوڑمیں استعمال ہونیوالے پاکستانی بچے اپنا ذہنی توازن کھودیتے ہیں
اونٹوں کی دوڑ کے لئے اسمگل کئے گئے بچوں میں سے وطن واپس لوٹے 1200 بچوں میں سے 200 اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔
عرب ممالک میں بچوں کی اونٹوں کی دوڑ میں حصہ لینے کا رواج بہت پرانا ہے اور اس دوڑ کے لئے پاکستان سے بچوں کی ایک بڑی کھیپ بھی بھیجی جاتی ہے تاہم دوڑ میں حصہ لینے والے بچوں کے دماغ پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
عرب ممالک میں اونٹوں کی دوڑ کے لئے اسمگل کئے گئے بچوں میں سے سالوں پہلے وطن واپس لوٹے 1200 بچوں میں سے 200 اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے ہیں، 19 سالہ شکیل اور اس کا بھائی خلیل جو کہ رحیم یار خان کے ایک اسکول میں زیر تعلیم ہیں لیکن ذہنی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے پڑھائی پر دھیان نہیں دے پاتے، دونوں بھائیوں کے دوست عمران شکور کی بھی کہانی مختلف نہیں وہ بھی زہنی توازن بگڑ جانے کے باعث اپنی پڑھائی پوری کرنے سے قاصر ہے، عمران کہتا ہے کہ وہ جہاں کام کرتا تھا وہاں اس کا شیخ اور اس کے ٹرینرز اسے مستقل مارتے پیٹتے تھے۔
بہاولپور میں واقع بہاولپور وکٹوریا اسپتال کے ڈاکٹر نعیم نے بتایا کہ 2005 سے 2007 کے درمیان ان کے اسپتال میں لائے گئے 34 اونٹ سوار بچوں میں سے زیادہ تر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں،2002 میں پاکستان نے انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لئے قانون وضع کیا اور اسی سال متحدہ عرب امارات میں بھی ایک قانون نافذالعمل ہوا جس کے تحت اب اس دوڑ میں 15 سال سے کم عمر کے بچے حصہ نہیں لے سکتے۔
پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے قانون نافذ ہونے کے 10 سال گزر جانے کے باوجود بھی پاکستان سے عرب مالک میں بچوں کی اسمگلنگ جاری ہے، یہ بچے زیادہ تر رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور سے اسمگل کئے جاتے ہیں۔ رحیم یار خان کے انسپیکٹر انٹیلی جنس بیورو بخش تحیم کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں 12 انسانی اسمگلنگ کے گروہ کام کر رہے ہیں جو عرب ممالک میں اونٹوں کی ریس کے لئے بچوں کو عرب ممالک میں اسمگل کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ گروہ غربت کے مارے افراد کو ان کے بچوں کے لئے نوکری اور اچھی تعلیم دلانے کا جھانسہ دے کر انہیں اسمگل کر دیتے ہیں۔
عرب ممالک میں اونٹوں کی دوڑ کے لئے اسمگل کئے گئے بچوں میں سے سالوں پہلے وطن واپس لوٹے 1200 بچوں میں سے 200 اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے ہیں، 19 سالہ شکیل اور اس کا بھائی خلیل جو کہ رحیم یار خان کے ایک اسکول میں زیر تعلیم ہیں لیکن ذہنی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے پڑھائی پر دھیان نہیں دے پاتے، دونوں بھائیوں کے دوست عمران شکور کی بھی کہانی مختلف نہیں وہ بھی زہنی توازن بگڑ جانے کے باعث اپنی پڑھائی پوری کرنے سے قاصر ہے، عمران کہتا ہے کہ وہ جہاں کام کرتا تھا وہاں اس کا شیخ اور اس کے ٹرینرز اسے مستقل مارتے پیٹتے تھے۔
بہاولپور میں واقع بہاولپور وکٹوریا اسپتال کے ڈاکٹر نعیم نے بتایا کہ 2005 سے 2007 کے درمیان ان کے اسپتال میں لائے گئے 34 اونٹ سوار بچوں میں سے زیادہ تر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں،2002 میں پاکستان نے انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لئے قانون وضع کیا اور اسی سال متحدہ عرب امارات میں بھی ایک قانون نافذالعمل ہوا جس کے تحت اب اس دوڑ میں 15 سال سے کم عمر کے بچے حصہ نہیں لے سکتے۔
پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے قانون نافذ ہونے کے 10 سال گزر جانے کے باوجود بھی پاکستان سے عرب مالک میں بچوں کی اسمگلنگ جاری ہے، یہ بچے زیادہ تر رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور سے اسمگل کئے جاتے ہیں۔ رحیم یار خان کے انسپیکٹر انٹیلی جنس بیورو بخش تحیم کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں 12 انسانی اسمگلنگ کے گروہ کام کر رہے ہیں جو عرب ممالک میں اونٹوں کی ریس کے لئے بچوں کو عرب ممالک میں اسمگل کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ گروہ غربت کے مارے افراد کو ان کے بچوں کے لئے نوکری اور اچھی تعلیم دلانے کا جھانسہ دے کر انہیں اسمگل کر دیتے ہیں۔