خان صاحب اب آپ کی طاقت ہم اور ہماری طاقت آپ ہیں
ہم نے26جولائی کو نئے پاکستان میں آنکھ کھولی،جس کی جدوجہد میں ہم آپ کی آواز بنے،اب آپ کی باری ہے ہماری آوازبننے کی
خاندان میں جب شادی ہوتی ہے تو کچھ دن نئی آنے والی بہو کے خوب ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں، لیکن کچھ بیاہ نظریہ ضرورت کے تحت بھی رچائے جاتے ہیں؛ جن کا واحد مقصد یہی ہوتا کہ کوئی ایسا فرد خاندان کا حصہ بنے جو آتے ہی سب ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر اٹھا لے۔ تحریک انصاف بھی وہ دلہن ہے جس کے پاس سستانے یا اپنے حکومت میں آنے کی کامیابی کا جشن منانے کا وقت نہیں، کیونکہ پاکستان اس وقت وینٹیلیٹر پر ہے۔ جی ہاں، قرضوں کے بوجھ تلے ڈوبا پاکستان اقتصادی وینٹیلیٹر پر ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والے پہلے پانچ ممالک میں سے ایک پاکستان بھی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں عوام ٹیکس دینے سے گھبراتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے دیے ہوئے Tax سے عوامی فلاح کا کوئی منصوبہ نہیں بلکہ حکمرانوں کی عیاشی کےلیے سامان اکٹھا کیا جائے گا۔
دیکھا جائے تو سب سے پہلا کام جو ہماری نو منتخب حکومت کو کرنا ہے وہ بالکل نئی نویلی دلہن کی طرح سب کا اعتماد جیتنا ہے۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ اتنی اکثریت سے جیتنے والی جماعت پر عوام نے اعتماد کا اظہار کر دیا ہے؛ لیکن بنظرِ غائر دیکھا جائے تو اصل کہانی تو اب شروع ہونی ہے۔
22 سال کی جدوجہد ایک طرف، لیکن پچھلے تین سال کا سفر تحریک انصاف کا بہت کٹھن اور صبر آزما تھا۔ بلاشبہ عمران کے کھلاڑی ہونے نے اسے ڈٹے رہنے میں بہت مدد دی اورعوام میں سیاسی بیداری، اپنے حقوق کی حفاظت، شعور و آگہی اور انصاف کےلیے آواز بلند کرنا جیسی صفات اجاگر کی جس کے نتیجے میں پاکستان میں پہلی بار بلوچستان کی وہ خاتون بھی ووٹ ڈالنے آئی جو صرف اشد ضرورت کے تحت ہی گھر سے قدم باہر نکالتی ہے۔
مشکل سفر تو اب شروع ہو گا آپ کا خان صاحب! جو خواب آپ نے دکھائے ہیں ان کی تکمیل میں یہ پوری قوم آپ کی طاقت توبنے گی لیکن اگر وہی پہلی حکومتوں والے اطوار اپنائے گئے تو اپوزیشن شاید بعد میں آواز اٹھائے، پہلے یہی عوام آپ سے سوال کرنے کےلیے ضرور کھڑی ہو گی۔
اگست، وہ مہینہ جب ممکنہ طور پرنئی حکومت اپنی کابینہ کے ساتھ حلف اٹھائے گی اور پاکستان کا یومِ پیدائش بھی اسی ماہ ہوتا ہے۔ دیکھنا ہے آپ کیسے عوامی لیڈر بن کر ابھرتے ہیں؟ کیا اب بھی اسلام آباد کی شاہراہوں کو بادشاہ سلامت کی سواری کےلیے جام کر دیا جائے گا؟ یا پھر امید رکھی جائے کہ آپ کی سواری کسی غریب کی گدھا گاڑی یا ایمبولینس کو اہمیت دیتے ہوئے رک جائے گی۔
گرمیوں کی تعطیلات کے بعد تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسکولز بھی اگست میں کھل جائینگے۔ تعلیمی اصلاحات کےلیے ہمیں کسی قرضے یا فنڈز کی توضرورت بالکل نہیں، ہاں صرف سوچ چاہیے۔ نظامِ تعلیم کی بہتری کےلیے۔ آغاز میں ایک سا نظام تعلیم رائج کرنا شاید کچھ مشکل ہو, لیکن ناممکن نہیں۔ ہمارے بچوں کے درمیان یہ طبقاتی جنگ جب تک ختم نہیں ہوگی، یہ ننھے ذہن کھل کر جینا شروع نہیں کرسکتے۔
وزیراعظم ہاؤس بچوں کی کہانیوں میں موجود وہ جادوئی محل ہے جس کا کہانی میں بھی بس خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کیا، پنجاب کے گورنر ہاؤس کی مالیت بانوے ارب روپے ہے۔ وہ کتنے رقبے پر محیط ہے، یہ تو ایک الگ سوال؛ اعتبار بنانے اور اعتماد جیتنے کےلیے آپ کو عام آدمی کے ساتھ زمین پر بیٹھنا ہو گا حضور۔
ایک بات اور... ذرا اندازہ لگائیں ایک مزدور کی ایک دن کی اجرت پانچ سو روپے۔ اسے ایک مہینے پر لے کر جائیں تو اتوار کی چھٹی نکال کر کل 26 دن بنے۔ یعنی تیرہ ہزار روپے مہینہ۔ تین سے چار بچے، گھر کا راشن، کرایہ اور بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کی فیس اور دوا کا خرچ، بجلی کا بل اضافی۔ اس پر اگر یہ سوچا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول پڑھنے بھیجے گا تو یہ ایک خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔
آپ ڈیٹا اکٹھا کریں، آپ کی اپنی جماعت میں بہت سے افراد این جی اوز چلا رہے ہیں۔ بچوں اور خواتین کی فلاح کےلیے سب ڈیٹا با آسانی مل جائے گا آپ کو۔ پانچ سال سے کم عمر بچے یا تو گدا گری کر رہے ہیں یا پھر اچھے وقت کا انتظار۔
فوراً حاصل کیے جانے والے مقاصد میں اہم سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار تعلیم بہتر کرنا ہے۔ آپ اساتذہ کی تنخواہ اور مراعات ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے طے کریں، کیونکہ یہی وہ معمار ہیں جو قوم کےلیے ہیرے تراشتے ہیں تا کہ وہ معاشی فکر سے آزاد ہو کر اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو بطریق احسن انجام دیں۔ تعلیم بنیاد ہے، کیونکہ ماں کی گود کے بعد دوسری درسگاہ ہماری جامعات ہی ہیں۔
آپ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کا وہ تاریخی جملہ بیان کرتے ہیں ناں کہ ''اگر فرات کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو حکمران کی ذمہ داری۔'' بات سولہ آنے درست ہے لیکن خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی، ہمارے ہاں روزانہ اتنا کھانا ضائع ہوتا ہے کہ کوئی جانور بھوک سے نہیں مر سکتا۔ حیرت انگیز طور پر ہمارے آوارہ جانور بہت صحت مند ہوتے ہیں۔ ہاں لیکن پانی کی وجہ سے موت ضرور واقع ہو سکتی ہے کیونکہ یہ بنیادی انسانی ہی نہیں حیوانی ضرورت بھی ہے۔
جھونپڑیوں میں رہنے والے خاندان بھی پانی خرید کر پیتے ہیں، کیونکہ ہمارے نلکوں میں آنے والا پانی تک صاف نہیں۔ پانی کی کمی اپنی جگہ، لیکن میسر پانی بھی اس قابل نہیں کہ اسے پینے کےلیے استعمال کیا جا سکے۔
پاکستان میں کینسر ہسپتال کا قیام ایک خواب ہی تھا جس کو تعبیر آپ نے پہنائی، لیکن آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی شوکت خانم کی مینجمنٹ، ٹیم اور حالات سب ایسے ہیں جیسے یہ پراجیکٹ آج ہی شروع ہوا ہو۔ صحت کا ہر دروازے تک بنیادی سہولت کے طور پر پہنچنا بہت ضروری ہے اور خاص طور پر اس اس طبقے کےلیے جس کےلیے دو وقت کے کھانے کا انتظام ہی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یقیناً صحت کی یہ سہولیات سرکاری ہسپتالوں کی حالت سنوارنے کے بعد ہی ممکن ہونگے۔ وہ ڈاکٹر حضرات جو سرکاری تنخواہ تو لیتے ہیں مگر مریض کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے پرائیویٹ کلینک پر آ کر اپنا علاج کروائے ایسے مسیحا موت ہی بانٹ سکتے ہیں۔ یقیناً اس طرف توجہ دینے سے نومولود بچوں اور زچگی کے دوران ماؤں کی اموات پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
ہم نے چھبیس جولائی کو ایک نئے پاکستان میں آنکھ کھولی ہے، وہ نیا پاکستان جس کی جدوجہد میں ہم آپ کی آواز بنے ہیں۔ اب آپ کی باری ہے، ہماری آواز بننے کی۔ ہم نے ایک نڈر لیڈر چنا ہے جو یہ نہیں بتاتا کہ کیا ممکن نہیں بلکہ وہ ممکنات کے راستے روشن کرنے میں مدد دیتا ہے، ایسا لیڈر جس کےلیے عزت پیسے سے نہیں اعمال سے بنے اوروہ جو دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتا سکے کہ پاکستانی قوم جھکنے والی نہیں ہے۔
بزرگ کہتے تھے کہ ''باپ نڈر ہو تو اولاد خودبخونڈر بن جاتی ہے'' تو خان صاحب! اب آپ کی طاقت ہم، اور ہماری طاقت آپ ہیں۔ تبدیلی جادو کی چھڑی گھمانے سے نہیں بلکہ عمل سے آئے گی؛ جس کےلیے کام کرنا ہو گا۔ مسلسل محنت، جو ہم کرینگے۔ قائد کے اس قول کے مطابق کہ ''کام، کام اور بس کام۔''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والے پہلے پانچ ممالک میں سے ایک پاکستان بھی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں عوام ٹیکس دینے سے گھبراتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے دیے ہوئے Tax سے عوامی فلاح کا کوئی منصوبہ نہیں بلکہ حکمرانوں کی عیاشی کےلیے سامان اکٹھا کیا جائے گا۔
دیکھا جائے تو سب سے پہلا کام جو ہماری نو منتخب حکومت کو کرنا ہے وہ بالکل نئی نویلی دلہن کی طرح سب کا اعتماد جیتنا ہے۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ اتنی اکثریت سے جیتنے والی جماعت پر عوام نے اعتماد کا اظہار کر دیا ہے؛ لیکن بنظرِ غائر دیکھا جائے تو اصل کہانی تو اب شروع ہونی ہے۔
22 سال کی جدوجہد ایک طرف، لیکن پچھلے تین سال کا سفر تحریک انصاف کا بہت کٹھن اور صبر آزما تھا۔ بلاشبہ عمران کے کھلاڑی ہونے نے اسے ڈٹے رہنے میں بہت مدد دی اورعوام میں سیاسی بیداری، اپنے حقوق کی حفاظت، شعور و آگہی اور انصاف کےلیے آواز بلند کرنا جیسی صفات اجاگر کی جس کے نتیجے میں پاکستان میں پہلی بار بلوچستان کی وہ خاتون بھی ووٹ ڈالنے آئی جو صرف اشد ضرورت کے تحت ہی گھر سے قدم باہر نکالتی ہے۔
مشکل سفر تو اب شروع ہو گا آپ کا خان صاحب! جو خواب آپ نے دکھائے ہیں ان کی تکمیل میں یہ پوری قوم آپ کی طاقت توبنے گی لیکن اگر وہی پہلی حکومتوں والے اطوار اپنائے گئے تو اپوزیشن شاید بعد میں آواز اٹھائے، پہلے یہی عوام آپ سے سوال کرنے کےلیے ضرور کھڑی ہو گی۔
اگست، وہ مہینہ جب ممکنہ طور پرنئی حکومت اپنی کابینہ کے ساتھ حلف اٹھائے گی اور پاکستان کا یومِ پیدائش بھی اسی ماہ ہوتا ہے۔ دیکھنا ہے آپ کیسے عوامی لیڈر بن کر ابھرتے ہیں؟ کیا اب بھی اسلام آباد کی شاہراہوں کو بادشاہ سلامت کی سواری کےلیے جام کر دیا جائے گا؟ یا پھر امید رکھی جائے کہ آپ کی سواری کسی غریب کی گدھا گاڑی یا ایمبولینس کو اہمیت دیتے ہوئے رک جائے گی۔
گرمیوں کی تعطیلات کے بعد تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسکولز بھی اگست میں کھل جائینگے۔ تعلیمی اصلاحات کےلیے ہمیں کسی قرضے یا فنڈز کی توضرورت بالکل نہیں، ہاں صرف سوچ چاہیے۔ نظامِ تعلیم کی بہتری کےلیے۔ آغاز میں ایک سا نظام تعلیم رائج کرنا شاید کچھ مشکل ہو, لیکن ناممکن نہیں۔ ہمارے بچوں کے درمیان یہ طبقاتی جنگ جب تک ختم نہیں ہوگی، یہ ننھے ذہن کھل کر جینا شروع نہیں کرسکتے۔
وزیراعظم ہاؤس بچوں کی کہانیوں میں موجود وہ جادوئی محل ہے جس کا کہانی میں بھی بس خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کیا، پنجاب کے گورنر ہاؤس کی مالیت بانوے ارب روپے ہے۔ وہ کتنے رقبے پر محیط ہے، یہ تو ایک الگ سوال؛ اعتبار بنانے اور اعتماد جیتنے کےلیے آپ کو عام آدمی کے ساتھ زمین پر بیٹھنا ہو گا حضور۔
ایک بات اور... ذرا اندازہ لگائیں ایک مزدور کی ایک دن کی اجرت پانچ سو روپے۔ اسے ایک مہینے پر لے کر جائیں تو اتوار کی چھٹی نکال کر کل 26 دن بنے۔ یعنی تیرہ ہزار روپے مہینہ۔ تین سے چار بچے، گھر کا راشن، کرایہ اور بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کی فیس اور دوا کا خرچ، بجلی کا بل اضافی۔ اس پر اگر یہ سوچا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول پڑھنے بھیجے گا تو یہ ایک خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔
آپ ڈیٹا اکٹھا کریں، آپ کی اپنی جماعت میں بہت سے افراد این جی اوز چلا رہے ہیں۔ بچوں اور خواتین کی فلاح کےلیے سب ڈیٹا با آسانی مل جائے گا آپ کو۔ پانچ سال سے کم عمر بچے یا تو گدا گری کر رہے ہیں یا پھر اچھے وقت کا انتظار۔
فوراً حاصل کیے جانے والے مقاصد میں اہم سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار تعلیم بہتر کرنا ہے۔ آپ اساتذہ کی تنخواہ اور مراعات ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے طے کریں، کیونکہ یہی وہ معمار ہیں جو قوم کےلیے ہیرے تراشتے ہیں تا کہ وہ معاشی فکر سے آزاد ہو کر اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو بطریق احسن انجام دیں۔ تعلیم بنیاد ہے، کیونکہ ماں کی گود کے بعد دوسری درسگاہ ہماری جامعات ہی ہیں۔
آپ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کا وہ تاریخی جملہ بیان کرتے ہیں ناں کہ ''اگر فرات کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو حکمران کی ذمہ داری۔'' بات سولہ آنے درست ہے لیکن خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی، ہمارے ہاں روزانہ اتنا کھانا ضائع ہوتا ہے کہ کوئی جانور بھوک سے نہیں مر سکتا۔ حیرت انگیز طور پر ہمارے آوارہ جانور بہت صحت مند ہوتے ہیں۔ ہاں لیکن پانی کی وجہ سے موت ضرور واقع ہو سکتی ہے کیونکہ یہ بنیادی انسانی ہی نہیں حیوانی ضرورت بھی ہے۔
جھونپڑیوں میں رہنے والے خاندان بھی پانی خرید کر پیتے ہیں، کیونکہ ہمارے نلکوں میں آنے والا پانی تک صاف نہیں۔ پانی کی کمی اپنی جگہ، لیکن میسر پانی بھی اس قابل نہیں کہ اسے پینے کےلیے استعمال کیا جا سکے۔
پاکستان میں کینسر ہسپتال کا قیام ایک خواب ہی تھا جس کو تعبیر آپ نے پہنائی، لیکن آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی شوکت خانم کی مینجمنٹ، ٹیم اور حالات سب ایسے ہیں جیسے یہ پراجیکٹ آج ہی شروع ہوا ہو۔ صحت کا ہر دروازے تک بنیادی سہولت کے طور پر پہنچنا بہت ضروری ہے اور خاص طور پر اس اس طبقے کےلیے جس کےلیے دو وقت کے کھانے کا انتظام ہی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یقیناً صحت کی یہ سہولیات سرکاری ہسپتالوں کی حالت سنوارنے کے بعد ہی ممکن ہونگے۔ وہ ڈاکٹر حضرات جو سرکاری تنخواہ تو لیتے ہیں مگر مریض کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے پرائیویٹ کلینک پر آ کر اپنا علاج کروائے ایسے مسیحا موت ہی بانٹ سکتے ہیں۔ یقیناً اس طرف توجہ دینے سے نومولود بچوں اور زچگی کے دوران ماؤں کی اموات پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
ہم نے چھبیس جولائی کو ایک نئے پاکستان میں آنکھ کھولی ہے، وہ نیا پاکستان جس کی جدوجہد میں ہم آپ کی آواز بنے ہیں۔ اب آپ کی باری ہے، ہماری آواز بننے کی۔ ہم نے ایک نڈر لیڈر چنا ہے جو یہ نہیں بتاتا کہ کیا ممکن نہیں بلکہ وہ ممکنات کے راستے روشن کرنے میں مدد دیتا ہے، ایسا لیڈر جس کےلیے عزت پیسے سے نہیں اعمال سے بنے اوروہ جو دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتا سکے کہ پاکستانی قوم جھکنے والی نہیں ہے۔
بزرگ کہتے تھے کہ ''باپ نڈر ہو تو اولاد خودبخونڈر بن جاتی ہے'' تو خان صاحب! اب آپ کی طاقت ہم، اور ہماری طاقت آپ ہیں۔ تبدیلی جادو کی چھڑی گھمانے سے نہیں بلکہ عمل سے آئے گی؛ جس کےلیے کام کرنا ہو گا۔ مسلسل محنت، جو ہم کرینگے۔ قائد کے اس قول کے مطابق کہ ''کام، کام اور بس کام۔''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔