نظام کی تبدیلی کے دعوے
مسلم لیگ (ن) چونکہ اقتدار کی منزل پر پہنچ چکی ہے لہٰذا اسے اس کے وعدے یاد دلانا ہمارا فرض بھی ہے۔
ملک میں انتخابی مہم کی دھند چھٹ گئی اور نگراں حکومت کے تشکیل دیے ہوئے الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج کا اعلان کردیا، ان نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) پنجاب اور مرکز کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر عوام کے سامنے آئی ہے۔ ہمارے آئین کے مطابق تین ہفتوں کے اندر نئی حکومتوں کو قائم ہوجانا چاہیے۔ سابقہ پی پی کی حکومت کو چونکہ مرکز یا صوبوں میں حکومت بنانے کا مینڈیٹ نہیں ملا تھا اس لیے اسے نہ صرف حکومت بنانے میں مشکلات کا سامنا رہا بلکہ حکومتیں چلانے میں حکومتیں بنانے سے زیادہ مشکلات کا سامنا رہا۔
مسلم لیگ (ن) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ نہ اسے حکومت بنانے میں کسی محتاجی کا سامنا ہے نہ حکومت چلانے میں اسے یہ محتاجی درپیش ہے، اس آزادی کی وجہ سے اسے حکومت بنانے اور اپنے وعدوں کے مطابق عوام کے مسائل حل کرنے میں پوری آزادی حاصل ہے۔ اس لیے عوام اس حکومت سے یہ امید کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اپنے وعدے پورے کرے گی۔ ہماری سیاسی روایات کے مطابق انتخابی مہم کے دوران کیے جانے والے وعدے وفا کرنے کے لیے نہیں کیے جاتے بلکہ بھلا دینے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ہماری اسی روایت نے ملک کو اس مقام تک پہنچادیا ہے جس مقام کو سیاسی آئی سی یو یا وینٹی لیٹر کہا جاتا ہے لیکن اسے ہمارے خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ ہمارا ملک عشروں سے آئی سی یو میں رہنے کے باوجود ابھی تک سانس لے رہا ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے دوسری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طرح اتنے وعدے کیے ہیں کہ ان کی ایک لمبی فہرست بن سکتی ہے لیکن ہم ان تمام وعدوں کی بھیڑ سے صرف ایک وعدے کا انتخاب کر رہے ہیں جو انتخابی مہموں کی جان رہا ہے اور وہ وعدہ ہے ''نظام کی تبدیلی یا انقلاب'' کا وعدہ۔ یہ وعدہ ویسے تو بہت ساری جماعتیں کرتی رہی ہیں لیکن ان کے وعدے اس لیے بے وزن ہیں کہ یہ وعدے کرنے والے اقتدار کی منزل تک نہیں پہنچ سکے چونکہ انتخابی وعدے اقتدار سے مشروط ہوتے ہیں اس لیے اقتدار سے باہر رہنے والی جماعتوں سے وعدہ خلافی کی شکایت نہیں کی جاسکتی۔
مسلم لیگ (ن) چونکہ اقتدار کی منزل پر پہنچ چکی ہے لہٰذا اسے اس کے وعدے یاد دلانا ہمارا فرض بھی ہے ہماری ذمے داری بھی، لیکن جیساکہ ہم نے کہا ہے کہ وعدوں کی بھیڑ بھاڑ میں ہم صرف ایک وعدے کی یاد دہانی ضروری سمجھتے ہیں جس کا تعلق ہمارے ملک اور 18 کروڑ عوام کے مستقبل سے ہے، وہ وعدہ ہے انقلاب کا وعدہ ۔ ہم نے نواز شریف کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ ''ہم عوام سے کیا ہوا ایک ایک وعدہ پورا کریں گے''۔ ہمارے ملک اور سیاستدانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے پاس ایسا کوئی دانشور، مفکر یا فلسفی موجود نہیں جو قومی اور بین الاقوامی اہم مسائل کا تعین کرکے ان کی ترجیحات طے کرکے اپنے قائدین کے سامنے رکھے اور ان پر عملدرآمد کی حکمت عملی سے انھیں آگاہ کرے۔
اس کمزوری کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے پاس نہ قومی اور اہم بین الاقوامی مسائل کے بارے میں آگہی ہے نہ ان کے حل کی کوئی حکمت عملی۔ ویسے تو ہمارے ملک میں قدم قدم پر دانشور و مفکر موجود ہیں لیکن ان کی فکرودانش کا سارا زور ٹی وی کے ٹاک شوز میں حکمرانوں اور اپوزیشن کی حمایت یا مخالفت پر رہتا ہے، ہم نے کسی دانشور، کسی مفکر کو اہم قومی مسائل کی نشان دہی کرتے نہیں دیکھا لیکن اس کے باوجود ان کی دانشوری اور مفکری اس لیے مستند ہے کہ یہ حضرات کسی نہ کسی وسیلے، لابنگ یا میڈیا کی نظر میں آگے ہیں۔ اس حوالے سے میرٹ اس لیے بے معنی ہے کہ ہمارے معاشرے کی نفسیات یہ ہے کہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کہہ رہا ہے یہ بالکل نہیں دیکھا جاتا تاکہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہ نفسیات آج کی بھی ہے، صدیوں پہلے کی بھی اور اس نفسیات کی وجہ سے معاشرے بانجھ ہوکر رہ گئے ہیں۔
نظام کی تبدیلی یا انقلاب کا مطلب ایک کمتر نظام سے بہتر نظام میں تبدیلی یا ایک پسماندہ نظام سے ترقی یافتہ نظام کو اپنانا ہے۔ اس پس منظر میں اگر ہم اپنے نظام کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بھیانک تصویر ہمارے سامنے آتی ہے کہ ہم ایک ایسے نظام میں زندہ ہیں جو قبائلی سرداری اور جاگیرداری کا ایک ایسا منصوبہ ہے جسے کوئی ایک نام دینا مشکل ہے لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جو ملک بھی نظام کی تبدیلی سے گزرا، اس نے پسماندہ سے ترقی یافتہ نظام کی طرف پیش رفت کی۔ دنیا کے تقریباً تمام ملکوں نے جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کے بعد ہی آگے کی طرف سفر کیا۔ لیکن 65 سال گزرنے کے باوجود بھی ہم ابھی تک نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام ہی میں اٹکے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے نہ ہم سیاسی زندگی کی طرف پیش رفت کرسکے ہیں، نا معاشرتی و معاشی، یوں ہمارا ملک اور معاشرہ ایک جمود کا شکار ہے۔
شریف برادران کا تعلق بنیادی طور پر ایک محنت کش خاندان سے ہے لیکن اس خاندان میں ہم محنت کش کی خو بو اس لیے نہیں تلاش کرسکتے کہ یہ خاندان ''خدا کے فضل'' سے اپنی جون بدل کر ملک کی سب سے بڑی ایمپائر میں جگہ حاصل کرچکا ہے۔ اس کے باوجود تاریخی طور پر یہ امر مسلمہ ہے کہ ایک حقیقی صنعتکار اپنے راستے میں حائل دیوار کو سب سے پہلے گرانا چاہتا ہے، یہ اس کی طبقاتی ضرورت ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ میاں برادران کی سیاسی تربیت جس ''معلم'' کے ہاتھوں ہوئی ہے وہ بذات خود ایک انتہائی رجعت پرست تھا اور پاکستانی معاشرے کو قبائلی معاشرے میں بدلنے کے لیے کوشاں تھا اور اس کی ان ہی کوششوں کو ہم آج مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی شکل میں پھلتا پھولتا دیکھ رہے ہیں۔
بحیثیت ایک صنعتکار میاں صاحب یقیناً اس بات کا ادراک رکھتے ہوں گے کہ ہمارے نیم قبائلی جاگیردارانہ معاشرے میں انقلاب یا نظام کی تبدیلی کا مطلب صنعتی معاشرے میں قدم رکھنا ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اس سڑے گلے نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں کرلیتے۔ بعض حلقوں میں یہ تاثر موجود ہے کہ ہمارے ملک سے جاگیردارانہ نظام ختم ہوچکا ہے۔
یہ تاثر سرے سے غلط ہے ہمارے دو صوبوں میں یہ نظام پوری آب و تاب سے موجود ہے جس کی گواہی قانون ساز اداروں میں بیٹھے جاگیردار دیتے ہیں، جس کی گواہی ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کی ملکیت دیتی ہے، جس کی گواہی وہ شخصیت پرستی کا کلچر دیتا ہے جو جاگیردارانہ نظام کی پہچان اور اثاثہ ہے، جو ترقی کرکے اب شخصیت پرستی سے خاندان پرستی کی شکل اختیار کرگیا ہے اور جس کا زندہ ثبوت وہ چند خاندان ہیں جو ہماری سیاست ہمارے اقتدار پر قابض ہیں جن میں خود میاں صاحب کا خاندان شامل ہے اور میاں صاحب مجبور ہیں کہ اپنی کامیابی خاص طور پر انتخابی کامیابی کے لیے جاگیرداروں اور وڈیروں کو انتخابی ٹکٹ دیں تاکہ ان کی انتخابی جیت شک و شبہ سے بالاتر ہو۔ اس طبقے نے اپنی گدیوں کو مضبوط بنانے کے لیے جبہ و دستار بھی اوڑھ رکھا ہے۔ دور کیوں جائیں 2013 ہی کے الیکشن میں جھانک کر دیکھیں اس میں آپ کو جگہ جگہ وڈیروں اور جاگیرداروں کے چہرے نظر آئیں گے۔ جنہوں نے باضابطہ ولی عہدوں کے نظام کو اپناکر پاکستان میں ایک بار پھر مغل ایمپائر کو متعارف کرادیا ہے۔
اس لمبی چوڑی تمہید کی ضرورت یوں پیش آرہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس وقت دو طاقتیں برسرپیکار ہیں ایک وہی قبائلی طاقت جو ملک کو ہزاروں سال پیچھے لے جانا چاہتی ہے جو اس مقصد کے لیے دہشت گردی کا راستہ اپنائے ہوئے ہیں، اس کے پاس نظریاتی کارکن کی بہتات ہے جو قبائلی معاشرے کی دین ہے، مختلف ناجائز اور لوٹ مار سے بنائے جانے والے وسائل کی بہتات ہے، بیرونی سرمایہ کاری ہے اور ملک کے اندر موجود وہ اہل دانش ہیں جو ساری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے والے اس شارٹ کٹ پر یقین رکھتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ میں موجود وہ عنصر ہے جو ان دہشت گردوں کا ہم خیال ہے۔
لیکن اس ساری صورت حال کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ آج مذہبی جماعتیں تک یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ جاگیردارانہ نظام ختم ہونا چاہیے۔ دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ اب جب کہ شریف برادران برسر اقتدار آرہے ہیں اور نظام کی تبدیلی اور انقلاب کے دعوے بھی کررہے ہیں تو سب سے پہلے انھیں نظام کی تبدیلی اور انقلاب کے معنی سمجھنا چاہئیں، اس کے بعد ملک کے حکمران کے طور پر عوام کو روز روز کی قتل و غارت گری سے بچانے کے لیے دہشت گردی اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ یہی ان کے خلوص نیت اور ملک و قوم کی بھلائی کی کسوٹی ہے۔ کیا میاں صاحب ملک و قوم کے مستقبل کو اولیت دیں گے یا اپنے سیاسی مفادات کو؟ اس کا اندازہ آنے والے چند ماہ میں ہوجائے گا۔