مور بی بی کا دکھ بھرا بیان

زندگی رہی اور کسی نے چھینی نہیں کیونکہ اب تک تو زندگی ہی میرے پاس رہ چکی ہے۔


Saad Ulllah Jaan Baraq May 16, 2013
[email protected]

پختونوں کی مور بی بی اور لالہ امیر محمد خان اور باچا خان گھرانے کی خاتون آہن بیگم نسیم ولی خان کا بیان آپ نے پڑھ لیا ہو گا اور یہ بھی جان لیا ہو گا کہ ہماری اور اے این پی کی دشمنی کیا تھی، افسوس کہ اپنی ساری زندگی، ساری جوانی، ساری خواہشیں اور تمنائیں قربان کر دینے والا اجمل خٹک اب بیان دینے کے قابل نہیں ہے لیکن ہم تو ہیں۔ وہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ سورج غروب ہونے پر جب دیا جلا تو کسی نے پوچھا، تم اس بے پناہ اندھیرے کو کیسے روشن کرو گے تو اس نے کہا کہ بے شک میں سورج کی جگہ تو نہیں لے سکتا لیکن اپنی بضاعت کے مطابق تو سورج نکلنے تک روشنی کو زندہ رکھ سکتا ہوں۔ اب پتہ نہیں سورج نکلنے گا بھی یا نہیں لیکن دیے کو تو جلنا ہے، جب تک اس کی رگوں میں تیل باقی ہے۔

غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

بیگم نسیم ولی خان اور اجمل خٹک کے بارے میں ہمیشہ سے لکھتا آیا ہوں، اپنی کتاب ''خدمت گاری سے فوج داری تک'' میں کافی تفصیل سے ان دنوں ''کانٹوں'' کو راستے سے ہٹانے کا ذکر ہوا ہے۔

لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں چکاں

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

ہم نے جب کتاب ''خدمت گاری سے فوج داری تک'' لکھی اور یہ واضح کیا کہ ٹینکوں کے آگے لیٹ کر زندگی ہارنے والے کیسے ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں میں سوار ہوئے تو ایک کتاب بیگم صاحب کو بھی بھجوا دی۔ انھوں نے پڑھ کر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ پھر ہم نے خواہش ظاہر کی کہ ہم آپ پر بھی ایک کتاب لکھنا چاہتے ہیں تو جواب میں انھوں نے جو کہا وہ اتنا دل خراش تھا کہ ہم سے مزید سنا نہیں گیا۔ انھوں نے کہا ''بیٹا میں تو اب قصہ پارینہ ہو چکی ہوں، شوہر بھی نہ رہا اور اکلوتا بیٹا بھی مجھے اکیلا چھوڑ کر جا چکا ہے، اب چراغ سحری ہوں، میں کیا اور مجھ پر کتاب کیا؟'' میں نے آخر میں کہا کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنھیں ''قصہ ہائے پارینہ'' پڑھنے میں مزہ آتا ہے کیونکہ

تازہ خواہی داشتن گر داغہائے سینہ را

گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را

وہ کتاب نصف سے زیادہ مکمل ہو چکی ہے۔ زندگی رہی اور کسی نے چھینی نہیں کیونکہ اب تک تو زندگی ہی میرے پاس رہ چکی ہے باقی تو سب کچھ ان لوگوں نے چھین لیا جو شریک سفر تو نہ تھے لیکن ''شریک منافع'' ضرور ہیں، بیگم صاحبہ نے جناب عبدالولی خان کا ایک شخص کے بارے میں حوالہ دیا ہے جو اس نئی نیلامی اور نئے کھیل کا حصہ ہے لیکن اس کے بارے میں کسی اور وقت تفصیل سے لکھوں گا کیونکہ ایک طرح سے میرے شاگرد بھی ہیں اور استاد کا حق بنتا ہے کہ شاگرد کے بارے میں کچھ کہے، خواہ شاگرد استادوں کا استاد ہی کیوں نہ بن گیا ہو، یہاں صرف اتنا عرض کرنا کافی ہے کہ بیگم صاحبہ نے جس کا ذکر کیا ہے، اس کے بارے میں ولی خان نے خود اپنی کتاب ''رشتیا رشتیاری'' (حقائق حقائق ہیں) میں بتایا ہے لیکن بعد کے ایڈیشنوں میں سے وہ بات حذف کر دی گئی ہے۔

سیاست ایک عجیب مجنونانہ غیر انسانی اور سنگ دلانہ کاروبار کا نام ہے، بیگم نسیم ولی خان جنھیں قوم نے مور بی بی (ماں جی) کا خطاب دیا تھا اور ہم اسے خاتون آہن بلکہ خاتون فولاد کہیں گے، تاریخ کی وہ پہلی مظلوم خاتون نہیں ہیں جن کو ان ہی کلہاڑیوں نے کاٹا جن کے دستے خود اسی شجر کا حصہ تھے، ایسی مثالیں تاریخ میں بے شمار ہیں لیکن ہمارے سامنے تازہ ترین مثال بیگم نسیم ولی خان کی ہے، انھیں قید کیا گیا تھا نہ مارا گیا صرف سر...پر... اور پیر کاٹ کر چھوڑ دیا گیا۔

انھوں نے بڑی خوب صورت بات یہ کہی ہے کہ اسفند یار سیاست کی الف بے بھی نہیں جانتا، انداز ایسا ہے جیسے ''ڈس کوالی فیکشن'' بیان کر رہی ہوں۔ اگر وہ سیاست کی الف ب جانتے تو بغیر کسی جلاوطنی کے اپنی مرضی سے جلاوطنی اختیار کر کے اسلام آباد کا مکین کیوں ہوتے، الطاف حسین اور دوسرے کچھ سیاست دان اگر اختیاری جلاوطنی اختیار کیے ہوئے ہیں تو ان کے خلاف کچھ کیسز وغیرہ ہیں لیکن یہاں تو نہ کوئی کیس تھا نہ مقدمہ۔ حالانکہ وہ جس عظیم دادا کے پوتے ہیں اور جانشین بھی ہیں ان کو ایک مرتبہ حکومت نے ضلع پشاور یا شاید تحصیل چارسدہ سے جلاوطن کر دیا تھا اور وہ کہاں فرار ہوئے یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ وہ ایک ایسی جگہ جا کر ٹھہر گئے جہاں چارسدہ اور مردان کی حد بندی ایک آبپاشی کی نالی تھی۔

انھوں نے بڑے آرام سے اپنی چارپائی نالے کے اوپر بچھا دی جس کے دو پائے مردان میں اور دو پائے چارسدہ میں تھے، انگریزی حکومت قانون کی سخت پابند تھی چنانچہ وہ بڑے آرام سے ''حدود چارسدہ''میں بیٹھے ہوئے بات چیت کرتے تھے، جب سرکاری لوگ چیکنگ کے لیے آتے تو وہ بڑے آرام سے چارپائی کی پائتی ہو کر اپنی بات جاری رکھتے تھے، کاش ان کا پوتا بھی کہیں اٹک کے پل پر قیام کرتا تو کم از کم اپنی مٹی سے تو جڑا رہتا، لیکن ایسا کیسے ممکن تھا، ان کے لیے کوئی خطرہ تھا یا نہیں لیکن ان لوگوں کو تو خطرہ تھا جو صوبے میں خدائی خدمت گاروں کی بدنامی کا باعث بن رہے تھے، بیگم صاحبہ نے فرمایا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر سیاست میں فعال ہوں گی۔

شاید اس خاتون کے نصیب میں ہی یہی لکھا ہے کہ طوفان میں اس چراغ کو بجھنے نہ دینے کا کام ان سے لیا جائے گا حالانکہ وہ عمر اور صحت کے اس مرحلے میں ہیں کہ اپنی جان ناتواں کو بھی سنبھالنے کی طاقت نہیں رکھتیں، شاید شوہر کھونے پر، بیٹے کے کھونے پر وہ صبر کر کے بیٹھ سکتی ہیں لیکن پوری پختون قوم کی صد سالہ تحریک اور عظیم ورثے اور ایک روشنی کی موت پر ان کو ایک مرتبہ پھر اٹھنا ہو گا، کیوں کہ اندھیروں کو روشنی کی ضرورت ہے، امن شانتی اور عدم تشدد کے سپاہیوں کا ایک پورا لشکر موجود ہے لیکن منتشر ہے، کونے کھدروں میں رونے پر مجبور ہے اور ہر پختون اس گھر کی خانہ جنگی کو امن میں بدلنے کا خواہاں ہے کیونکہ اس جنگ میں ہر طرف سے مرنے والا پختون ہی ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں