انتخاب خواب یا حقیقت
ان دنوں عالمی حالات ایسے تھے کہ امریکا نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی تحریک کو تقویت بخشی۔
پاکستان کے لوگ، تفریق اور تقسیم کی وجہ سے اپنی منزل سے بھٹک چکے ہیں، دنیا بھر میں لوگ اپنے مسائل کے حق میں اور مطالبات کے لیے مظاہرے کرتے ہیں مگر پاکستان مسائل کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں ڈوبا رہا، ایک دو ماہ نہیں بلکہ 5 برس جمہوریت کی چھتری کے نیچے لیکن کسی جماعت نے مسائل کے حل کے لیے نہ آواز بلند کی اور نہ عوام کی رہنمائی کی بلکہ تفریق پر زور لگاتے رہے اور بس اسی طرح اپنے ووٹ بینک کو مضبوط رکھنے کا فارمولا تھا۔
خیبرپختونخوا کے عوام چونکہ گزشتہ 85 برسوں سے تحریکوں کی زد پر رہنے اور خان عبدالغفار خان کی قیادت میں تھے پھر تقسیم ہند کا وقت آیا چونکہ باچا خان المعروف باچا خان سرحدی گاندھی کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے اور ان کی پارٹی جو ابتدائی طور پر خدائی خدمت گار کہلاتے تھے پاکستان بننے کے بعد یہ تحریک سرخ پوش تحریک کے طور پر سامنے آئی اسی طرح بلوچستان میں عبدالصمد اچکزئی اسی راہ پر گامزن تھے وہ بلوچی گاندھی کے نام سے پہچانے جاتے تھے، کوئٹہ میں پشتون عوام ان کے زیر اثر تھے، کوئٹہ سے لے کر گلستان، لورالائی، قلعہ عبداﷲ، قلعہ سیف اﷲ اور مورٹ سنڈے (ژوب) ان کے زیر اثر تھا۔ ایک وقت تھا یہ دونوں ایک ہی راہ اور منزل پر گامزن تھے۔
ان دنوں مسلم لیگ ان کے خلاف تھی اور خان عبدالقیوم خان ان دونوں کے خلاف تھے اور بہت عرصے تک پاکستانی حکومت ان دونوں پر شک و شبہ کرتی تھی کیونکہ یہ دونوں رہنما بھارت اور پاکستان میں قریب ترین اور بہترین دوست ملک کا درجہ دینے کو تیار تھے اور چونکہ یہ تقسیم ہند کے بعد کا عرصہ تھا تو ایسے رہنماؤں کو غدار کی فہرست میں ڈال دیا گیا تھا جب کہ اب بھارت اور پاکستان کے رہنما 65 برس کے بعد اس راز سے واقف ہوئے۔ دونوں ملکوں نے ایٹم بم کی سیاست کھیلی، پہلے بھارت نے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے پھر پاکستان نے بھی مجبوراً یہ راہ اختیار کرلی مگر 65 برس بعد یہ راز کھلا کہ موجودہ عالمی حالات بھی جنگ کے لیے موزوں نہیں لہٰذا مختلف گوشوں سے امن کے گیت گائے جاتے رہے جن میں پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ اور این جی او پیش پیش رہے گویا جنگ نے دونوں ملکوں کی ترقی کو روکے رکھا اور خصوصاً پاکستان اور غیرضروری فوجی اخراجات نے دونوں ملکوں کے عوام کو زبردست نقصان پہنچایا۔
پہلے ایک وقت تھا کہ جب بھارت کے خلاف نعرہ لگانے والی قوتیں انتخابات میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ اور عوامی نمایندگی کرتی تھیں مگر بدلتے وقت نے تمام ان جماعتوں کو عددی اعتبار سے متحرک قوت بننے میں نمایاں کردار تو ضرور ادا کیا مگر سیاسی قوت نہ بن سکیں اور رفتہ رفتہ ان کا ووٹ بینک کم ہوتا گیا۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ نواز شریف نے سب سے پہلے بھارت سے دوستی کا مستحکم ہاتھ بڑھایا، ایک مرتبہ ماضی میں واجپائی کے ساتھ مذاکرات کرکے بعدازاں اس وقت من موہن سنگھ کو اولیت دے کر ، 1965 کی جنگ کے بعد روس نے جب معاہدہ تاشقند کرایا تو ذوالفقار علی بھٹو نے ہزار سال تک جنگ کا نعرہ لگایا اور ایوب خان کے خلاف مہم چلائی کیونکہ ملکی حالات اسی طرح ان کے زیرنگیں آسکتے تھے۔
اس وقت کے حاکم ایوب خان کی دیگر خامیوں نے اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف کو یہ موقع دیا کہ ان کے خلاف تحریک چلائی جائے۔ ان دنوں عالمی حالات ایسے تھے کہ امریکا نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی تحریک کو تقویت بخشی کیونکہ اس وقت اس بات کے امکانات پیدا ہوگئے تھے کہ سوشلسٹ پاکستان پر قابض ہوجائیں کیونکہ انڈرگراؤنڈ کمیونسٹ مضبوط ہورہے تھے۔ پاکستان میں سوشلسٹوں نے اپنی تحریک کی بدولت عوام میں امریکا کے خلاف زبردست جذبہ پیدا کردیا تھا لہٰذا معاہدہ تاشقند کی مخالفت خود امریکا کے لیے ایک اچھی بات تھی اور روس کے خلاف جو سردجنگ جاری تھی اس میں امریکی خارجہ پالیسی کا ایک یہ نعرہ اہم جز تھا، چین میں ماؤزے تنگ کے آخری دور میں روس اور چین میں ایک نظریاتی تصادم شروع ہوگیا تھا۔ ماؤزے تنگ نے لن پیائوتینگ، لیوشائوچی وغیرہ کو اپنے نظریات میں رکاوٹ سمجھا ، انھی دنوں این ایس ایف نے مجموعی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں فیصلہ کرلیا، طلبا کی یہ تنظیم اس وقت ملک گیر قوت کی حامل تھی۔
کراچی سے لے کر پشاور تک جب بھٹو ریل سے سفر کرتے تھے تو چھوٹے بڑے اسٹیشنوں پر بھٹو کا استقبال کیا جاتا تھا حالانکہ بھٹو نے 1961 میں جب کنونشن مسلم لیگ کے رہنما کی حیثیت سے جب کراچی پولوگراؤنڈ میں جلسہ کیا تو معراج محمد خان، ڈاکٹر باقر عسکری، جوہر حسین، علی مختار رضوی، آغا جعفر اور دیگر رہنماؤں نے ان کا جلسہ ناکام بنادیا۔ پھر ایسا وقت آیا جب یہ تجزیہ کیا جانے لگا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جو نعرہ لگایا تو این ایس ایف کے کارکنان ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت PPP کی ہمنوا بن گئی، ان دنوں بعض کامریڈوں میں یہ خیال پیدا ہوچکا تھا کہ ہم پیپلزپارٹی کو اپنے رخ پر چلائیں گے، سب کو ایک ایسی جمہوریت سے آشنا کریں گے کہ جس سے ملک میں معاشی انقلاب کا راستہ ہموار ہوگا مگر ایسا نہ ہو سکا اور بھارت پاکستان دونوں جانب کے حکمراں عوام کو اصل راستے پر نہ چلاسکے جو ان کی ناکامی تھی۔
پاکستان بھارت کے مقابلے میں نسبتاً چھوٹا ملک ہے اس کی معیشت کمزور ہے اس لیے جنگی اخراجات نے اس کی کمر توڑ دی اس وقت حالانکہ بعض چوٹی کے دانشور اس کے خلاف تھے کیونکہ وہ معاہدہ تاشقند کو ایک مثبت عمل قرار دیتے تھے مگر نوجوان نہ رکے۔ ان کو پی پی کا یہ نعرہ اسلام ہمارا دین، سوشلزم ہماری معیشت ہوگی اس نے عوام کو ہلاکر رکھ دیا، جاگیرداری کے خاتمے کا مشن بھی تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو پر کئی مرتبہ ،جب کہ الیکشن ریلی پر سانگھڑ میں حملہ ہوا اور جان بچی مگر وہ ہرگز نہ ڈرے۔ اس بات کے عینی گواہ معراج خود ہیں جو اس وقت موجود تھے مگر ایک دور بعدازاں یہ آیا کہ معراج محمد خان کو جو پیپلزپارٹی کے جانشین کہلاتے تھے جب پارٹی کامیاب ہوگئی تو اس کا وہ راستہ بدلنے لگا۔ شہنشاہ ایران کے کہنے پر بلوچستان میں آپریشن کیا گیا اور شیخ مجیب کی آواز نہ سنی گئی، شیخ مجیب نے 6 نکات کا نعرہ لگایا تھا مگر وہ اس بات پر تیار تھے کہ اگر ان کے 6 پوائنٹ کے بجائے 4½ پوائنٹ مل جائیں تو وہ مشترکہ پاکستان میں رہیں گے مگر ایک نہ سنی گئی۔
ایک تو اسٹیبشلمنٹ دوم خود لیڈران کی محدود نگاہ نے ملک کو دولخت کردیا، پھر بھی بھٹو نے اپنی سیاسی پسپائی کے باوجود ملک کو 5 برس خوبصورتی سے چلایا، نئی راہیں کھولیں، اسلامی کانفرنس کے ذریعے غریبوں کو عرب ممالک خلیجی ریاستوں میں نوکریاں ملیں، کپڑا اور مکان تو نہ ملا، مگر روٹی تو ملنے لگی نسبتاً پہلے سے بہتر، تعلیم سستی ہوئی اور عام ہوئی، اساتذہ کا معیار بڑھا اور مگر جو وعدے عوام سے کیے گئے تھے وہ پورے نہ کیے گئے اور پارٹی کے قائم کرنے والے طلبا، مزدور اور کسان لیڈران کی ایک نہ سنی جاتی تھی اور رفتہ رفتہ سوشلسٹوں کو مجبوراً پارٹی کو چھوڑنا پڑا۔ معراج جو پی پی پی کے جانشین تھے انھوں نے بھی اپنا استعفیٰ بھٹو کو پیش کیا۔ عوام کے خواب چکنا چور ہوگئے ، ناتا ٹوٹ گیا، بھٹو جاگیرداری سماج میں پھنستے چلے گئے۔
رفتہ رفتہ پیپلز پارٹی کے جسم سے وہ روح خارج ہوتی گئی جو اصل میں اس پارٹی کی حرارت تھی پھر ایک ایسا وقت آیا جب ایک آمر نے ان کا تختہ الٹ دیا، پھر ان کا سفر مقتل شروع ہوا۔ اس درمیان ایک بار پھر پرانے لوگ جمع ہوئے کہ وہ ان کی رہائی کے لیے تحریک شروع کریں مگر بیگم نصرت بھٹو نے عدالت کا راستہ اختیار کیا۔ مجھے ولی خان مرحوم کا وہ جملہ یاد آرہا ہے کہ انھوں نے ضیاء الحق سے کہا تھا کہ وہ پھانسی سے باز رہیں کیونکہ شہید بھٹو زندہ بھٹو سے زیادہ خطرناک ہوگا۔ بھٹو کے وہ خواب جو ادھورے تھے، امید تھی کہ میر مرتضیٰ بھٹو یا ان کی بیٹی پوری کرے گی مگر سیاست کا المیہ یہ ہے کہ تینوں کو شہید کردیا گیا مگر اس قربانی کا یہ اثر ہوا کہ اب ملک آمریت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے عوام کو ہر انتخاب میں لیڈران نگینے جڑے حسین خواب دکھاتے ہیں مگر کوئی خواب پورا نہیں ہوتا کیونکہ مینڈیٹ کی فکر میں عوام تقسیم ہوچکے ہیں اور لیڈران انھی خطوط پر گامزن ہیں، رنگ نسل، عقیدہ، زبان جو مختلف خوش رنگ پھولوں کی مانند ہیں ملک میں گروہ بندی کے لیے استعمال ہورہی ہے، کوئی ایسا حکمراں کاش آئے جو نئے خواب دکھانے کے بجائے عملاً کچھ کرکے دکھائے۔ ایسا وقت آگیا ہے کہ ہر روز، بچے یتیم، سہاگنیں گنوں کی زد پر ہیں۔موت سستی ہے،روٹی مہنگی۔
پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں کی ترجمان بن کے سامنے آئی ہے۔ ن لیگ نے فاتح کی حیثیت سے خود کو پیش کیا ہے ، عمران خان نے مقبولیت کی جو کوشش کی وہ ضایع نہ ہوئی اور ایسا محسوس ہوا کہ تبدیلی کی خواہش ملک میں تیزی سے بڑھ رہی ہے، محض سیاسی محاذ پر نہیں بلکہ معاشی محاذ پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔
خیبرپختونخوا کے عوام چونکہ گزشتہ 85 برسوں سے تحریکوں کی زد پر رہنے اور خان عبدالغفار خان کی قیادت میں تھے پھر تقسیم ہند کا وقت آیا چونکہ باچا خان المعروف باچا خان سرحدی گاندھی کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے اور ان کی پارٹی جو ابتدائی طور پر خدائی خدمت گار کہلاتے تھے پاکستان بننے کے بعد یہ تحریک سرخ پوش تحریک کے طور پر سامنے آئی اسی طرح بلوچستان میں عبدالصمد اچکزئی اسی راہ پر گامزن تھے وہ بلوچی گاندھی کے نام سے پہچانے جاتے تھے، کوئٹہ میں پشتون عوام ان کے زیر اثر تھے، کوئٹہ سے لے کر گلستان، لورالائی، قلعہ عبداﷲ، قلعہ سیف اﷲ اور مورٹ سنڈے (ژوب) ان کے زیر اثر تھا۔ ایک وقت تھا یہ دونوں ایک ہی راہ اور منزل پر گامزن تھے۔
ان دنوں مسلم لیگ ان کے خلاف تھی اور خان عبدالقیوم خان ان دونوں کے خلاف تھے اور بہت عرصے تک پاکستانی حکومت ان دونوں پر شک و شبہ کرتی تھی کیونکہ یہ دونوں رہنما بھارت اور پاکستان میں قریب ترین اور بہترین دوست ملک کا درجہ دینے کو تیار تھے اور چونکہ یہ تقسیم ہند کے بعد کا عرصہ تھا تو ایسے رہنماؤں کو غدار کی فہرست میں ڈال دیا گیا تھا جب کہ اب بھارت اور پاکستان کے رہنما 65 برس کے بعد اس راز سے واقف ہوئے۔ دونوں ملکوں نے ایٹم بم کی سیاست کھیلی، پہلے بھارت نے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے پھر پاکستان نے بھی مجبوراً یہ راہ اختیار کرلی مگر 65 برس بعد یہ راز کھلا کہ موجودہ عالمی حالات بھی جنگ کے لیے موزوں نہیں لہٰذا مختلف گوشوں سے امن کے گیت گائے جاتے رہے جن میں پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ اور این جی او پیش پیش رہے گویا جنگ نے دونوں ملکوں کی ترقی کو روکے رکھا اور خصوصاً پاکستان اور غیرضروری فوجی اخراجات نے دونوں ملکوں کے عوام کو زبردست نقصان پہنچایا۔
پہلے ایک وقت تھا کہ جب بھارت کے خلاف نعرہ لگانے والی قوتیں انتخابات میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ اور عوامی نمایندگی کرتی تھیں مگر بدلتے وقت نے تمام ان جماعتوں کو عددی اعتبار سے متحرک قوت بننے میں نمایاں کردار تو ضرور ادا کیا مگر سیاسی قوت نہ بن سکیں اور رفتہ رفتہ ان کا ووٹ بینک کم ہوتا گیا۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ نواز شریف نے سب سے پہلے بھارت سے دوستی کا مستحکم ہاتھ بڑھایا، ایک مرتبہ ماضی میں واجپائی کے ساتھ مذاکرات کرکے بعدازاں اس وقت من موہن سنگھ کو اولیت دے کر ، 1965 کی جنگ کے بعد روس نے جب معاہدہ تاشقند کرایا تو ذوالفقار علی بھٹو نے ہزار سال تک جنگ کا نعرہ لگایا اور ایوب خان کے خلاف مہم چلائی کیونکہ ملکی حالات اسی طرح ان کے زیرنگیں آسکتے تھے۔
اس وقت کے حاکم ایوب خان کی دیگر خامیوں نے اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف کو یہ موقع دیا کہ ان کے خلاف تحریک چلائی جائے۔ ان دنوں عالمی حالات ایسے تھے کہ امریکا نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی تحریک کو تقویت بخشی کیونکہ اس وقت اس بات کے امکانات پیدا ہوگئے تھے کہ سوشلسٹ پاکستان پر قابض ہوجائیں کیونکہ انڈرگراؤنڈ کمیونسٹ مضبوط ہورہے تھے۔ پاکستان میں سوشلسٹوں نے اپنی تحریک کی بدولت عوام میں امریکا کے خلاف زبردست جذبہ پیدا کردیا تھا لہٰذا معاہدہ تاشقند کی مخالفت خود امریکا کے لیے ایک اچھی بات تھی اور روس کے خلاف جو سردجنگ جاری تھی اس میں امریکی خارجہ پالیسی کا ایک یہ نعرہ اہم جز تھا، چین میں ماؤزے تنگ کے آخری دور میں روس اور چین میں ایک نظریاتی تصادم شروع ہوگیا تھا۔ ماؤزے تنگ نے لن پیائوتینگ، لیوشائوچی وغیرہ کو اپنے نظریات میں رکاوٹ سمجھا ، انھی دنوں این ایس ایف نے مجموعی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں فیصلہ کرلیا، طلبا کی یہ تنظیم اس وقت ملک گیر قوت کی حامل تھی۔
کراچی سے لے کر پشاور تک جب بھٹو ریل سے سفر کرتے تھے تو چھوٹے بڑے اسٹیشنوں پر بھٹو کا استقبال کیا جاتا تھا حالانکہ بھٹو نے 1961 میں جب کنونشن مسلم لیگ کے رہنما کی حیثیت سے جب کراچی پولوگراؤنڈ میں جلسہ کیا تو معراج محمد خان، ڈاکٹر باقر عسکری، جوہر حسین، علی مختار رضوی، آغا جعفر اور دیگر رہنماؤں نے ان کا جلسہ ناکام بنادیا۔ پھر ایسا وقت آیا جب یہ تجزیہ کیا جانے لگا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جو نعرہ لگایا تو این ایس ایف کے کارکنان ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت PPP کی ہمنوا بن گئی، ان دنوں بعض کامریڈوں میں یہ خیال پیدا ہوچکا تھا کہ ہم پیپلزپارٹی کو اپنے رخ پر چلائیں گے، سب کو ایک ایسی جمہوریت سے آشنا کریں گے کہ جس سے ملک میں معاشی انقلاب کا راستہ ہموار ہوگا مگر ایسا نہ ہو سکا اور بھارت پاکستان دونوں جانب کے حکمراں عوام کو اصل راستے پر نہ چلاسکے جو ان کی ناکامی تھی۔
پاکستان بھارت کے مقابلے میں نسبتاً چھوٹا ملک ہے اس کی معیشت کمزور ہے اس لیے جنگی اخراجات نے اس کی کمر توڑ دی اس وقت حالانکہ بعض چوٹی کے دانشور اس کے خلاف تھے کیونکہ وہ معاہدہ تاشقند کو ایک مثبت عمل قرار دیتے تھے مگر نوجوان نہ رکے۔ ان کو پی پی کا یہ نعرہ اسلام ہمارا دین، سوشلزم ہماری معیشت ہوگی اس نے عوام کو ہلاکر رکھ دیا، جاگیرداری کے خاتمے کا مشن بھی تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو پر کئی مرتبہ ،جب کہ الیکشن ریلی پر سانگھڑ میں حملہ ہوا اور جان بچی مگر وہ ہرگز نہ ڈرے۔ اس بات کے عینی گواہ معراج خود ہیں جو اس وقت موجود تھے مگر ایک دور بعدازاں یہ آیا کہ معراج محمد خان کو جو پیپلزپارٹی کے جانشین کہلاتے تھے جب پارٹی کامیاب ہوگئی تو اس کا وہ راستہ بدلنے لگا۔ شہنشاہ ایران کے کہنے پر بلوچستان میں آپریشن کیا گیا اور شیخ مجیب کی آواز نہ سنی گئی، شیخ مجیب نے 6 نکات کا نعرہ لگایا تھا مگر وہ اس بات پر تیار تھے کہ اگر ان کے 6 پوائنٹ کے بجائے 4½ پوائنٹ مل جائیں تو وہ مشترکہ پاکستان میں رہیں گے مگر ایک نہ سنی گئی۔
ایک تو اسٹیبشلمنٹ دوم خود لیڈران کی محدود نگاہ نے ملک کو دولخت کردیا، پھر بھی بھٹو نے اپنی سیاسی پسپائی کے باوجود ملک کو 5 برس خوبصورتی سے چلایا، نئی راہیں کھولیں، اسلامی کانفرنس کے ذریعے غریبوں کو عرب ممالک خلیجی ریاستوں میں نوکریاں ملیں، کپڑا اور مکان تو نہ ملا، مگر روٹی تو ملنے لگی نسبتاً پہلے سے بہتر، تعلیم سستی ہوئی اور عام ہوئی، اساتذہ کا معیار بڑھا اور مگر جو وعدے عوام سے کیے گئے تھے وہ پورے نہ کیے گئے اور پارٹی کے قائم کرنے والے طلبا، مزدور اور کسان لیڈران کی ایک نہ سنی جاتی تھی اور رفتہ رفتہ سوشلسٹوں کو مجبوراً پارٹی کو چھوڑنا پڑا۔ معراج جو پی پی پی کے جانشین تھے انھوں نے بھی اپنا استعفیٰ بھٹو کو پیش کیا۔ عوام کے خواب چکنا چور ہوگئے ، ناتا ٹوٹ گیا، بھٹو جاگیرداری سماج میں پھنستے چلے گئے۔
رفتہ رفتہ پیپلز پارٹی کے جسم سے وہ روح خارج ہوتی گئی جو اصل میں اس پارٹی کی حرارت تھی پھر ایک ایسا وقت آیا جب ایک آمر نے ان کا تختہ الٹ دیا، پھر ان کا سفر مقتل شروع ہوا۔ اس درمیان ایک بار پھر پرانے لوگ جمع ہوئے کہ وہ ان کی رہائی کے لیے تحریک شروع کریں مگر بیگم نصرت بھٹو نے عدالت کا راستہ اختیار کیا۔ مجھے ولی خان مرحوم کا وہ جملہ یاد آرہا ہے کہ انھوں نے ضیاء الحق سے کہا تھا کہ وہ پھانسی سے باز رہیں کیونکہ شہید بھٹو زندہ بھٹو سے زیادہ خطرناک ہوگا۔ بھٹو کے وہ خواب جو ادھورے تھے، امید تھی کہ میر مرتضیٰ بھٹو یا ان کی بیٹی پوری کرے گی مگر سیاست کا المیہ یہ ہے کہ تینوں کو شہید کردیا گیا مگر اس قربانی کا یہ اثر ہوا کہ اب ملک آمریت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے عوام کو ہر انتخاب میں لیڈران نگینے جڑے حسین خواب دکھاتے ہیں مگر کوئی خواب پورا نہیں ہوتا کیونکہ مینڈیٹ کی فکر میں عوام تقسیم ہوچکے ہیں اور لیڈران انھی خطوط پر گامزن ہیں، رنگ نسل، عقیدہ، زبان جو مختلف خوش رنگ پھولوں کی مانند ہیں ملک میں گروہ بندی کے لیے استعمال ہورہی ہے، کوئی ایسا حکمراں کاش آئے جو نئے خواب دکھانے کے بجائے عملاً کچھ کرکے دکھائے۔ ایسا وقت آگیا ہے کہ ہر روز، بچے یتیم، سہاگنیں گنوں کی زد پر ہیں۔موت سستی ہے،روٹی مہنگی۔
پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں کی ترجمان بن کے سامنے آئی ہے۔ ن لیگ نے فاتح کی حیثیت سے خود کو پیش کیا ہے ، عمران خان نے مقبولیت کی جو کوشش کی وہ ضایع نہ ہوئی اور ایسا محسوس ہوا کہ تبدیلی کی خواہش ملک میں تیزی سے بڑھ رہی ہے، محض سیاسی محاذ پر نہیں بلکہ معاشی محاذ پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔