مذہبی رواداری اور انسان دوستی …

عیسائیوں کی قبروں پر صلیب کا نشان اور مسلمانوں کی قبروں پر قرآنی آیات کندہ کی گئی تختیاں نصب ہوتی ہیں۔

رواداری، بھائی چارہ، وسیع القلبی، ہم دردی، اخوت، اب یہ الفاظ بس کتابوں میں رہ گئے ہیں۔ عملی زندگی میں یہ شازونادر ہی بروئے کارنظر آتے ہیں۔ ہمیں بس بم دھماکوں،خودکش حملوں، لوٹ مار، قتل وغارت گری، بستیوں کو جلانے، خواتین کے چہروں پر تیزاب پھینکنے، ٹارگٹ کلنگ جیسی بریکنگ نیوز نے اپنی نحوست میںجکڑا ہوا ہے۔ ہماری سماعت خوشی کی خبروں کو سننے کو ترس گئی ہے۔ لیکن یہ بھی کتنی ستم ظریفی ہے کہ کبھی انتہائی دکھ کی خبر میں خوشی کی خبر پوشیدہ ہو۔ ہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ غم کی خبر سے خوشی کا احساس پیدا اور امید کا دیا روشن ہوجائے۔ ایسی ہی اک دکھ کی خبر ہم نے پڑھی۔ پہلے آپ یہ خبر دیکھیے۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا میں فرقہ وارانہ تشدد کے حوالے سے حساس شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں مذہبی رواداری کا ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے، جس میں ہندو جوان کو بچاتے ہوئے دو مسلمان بھی ہلاک ہو گئے۔ دونوں افراد میں سے ایک حافظ قرآن تھے اور دوسرے ڈیڑھ سال پہلے عیسائیت چھوڑ کر مسلمان ہوئے تھے۔ یہ واقعہ ڈیرہ اسماعیل خان میں تبلیغی مرکز زکریا مسجد کے سامنے پیش آیا۔ عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ مسجد کے سامنے صفائی پر معمور ہندو نوجوان راجیش گٹر کی صفائی کے لیے نیچے اترے، جہاں زہریلی گیس کے باعث وہیں بے ہوش ہو گئے۔ راجیش کی جان بچانے کے لیے داؤد نامی نوجوان گٹر میں اترے، لیکن وہ بھی بے ہوش ہو گئے۔ داؤد ڈیڑھ سال پہلے عیسایت چھوڑ کر مسلمان ہوئے تھے۔

ان دونوں کو بچانے کے لیے ذکریا مسجد سے حافظ اسداللہ وہاں پہنچے اور انھیں بچانے کے لیے گٹر میں اتر گئے۔ حافظ اسد اللہ نے دونوں کو اپنی چادر سے باندھا اور باہر نکال رہے تھے کہ ان کا پاؤں پھسلا اور وہ بھی گٹر میں گر گئے، جس کے نتیجے میں تینوں ہلاک ہو گئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کے حوالے سے انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پیش آتے رہے ہیں، شدت پسندوں نے بھی اس علاقے میں بڑے پیمانے پر قتل وغارت کی ہیں۔ ایسے میں یہ خبر انتہائی افسردہ ہونے کے ساتھ بے حد حوصلہ افزاء بھی ہے لیکن مذہبی رواداری کی اس علاقے میں یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہے، بلکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ایسا قبرستان بھی ہے جہاں مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں کو بھی دفن کیا جاتا ہے۔


عیسائیوں کی قبروں پر صلیب کا نشان اور مسلمانوں کی قبروں پر قرآنی آیات کندہ کی گئی تختیاں نصب ہوتی ہیں۔ مذہبی ہم آہنگی کی یہ ایک انوکھی اور قابل تقلید مثال بھی ہے، ایسی کوئی اور مثالکسی اور شہر میں نہیں ملتی۔ پاکستان بننے کے بعد سے ہندو اپنے مْردوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرتے ہیں۔ چاہ سید منورنامی اس قبرستان میں مسلمانوں کے مختلف مسلکوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی قبروں کے علاوہ یہاں ہندوؤوں اور عیسائیوں کی قبریں ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ اس قبرستان کے منتظم شوکت علی شاہ کے مطابق کبھی کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا ہے۔ شوکت علی شاہ نے بتایا کہ یہ قبرستان سیکڑوں سال پرانا ہے اور یہاں سید منور کا مزار ہے جنہوں نے اس قبرستان کی بنیاد ڈالی تھی۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں ہندو پنڈت آر سی شرما نے کہا کہ ماضی میں یہاں ایک شمشان گھاٹ تھا جہاں ہندو اپنے مْردوں کی آخری رسومات ادا کرتے تھے لیکن اب چاہ سید منور قبرستان میں مردے دفناتے ہیں اور کبھی اس قبرستان میں انھیں کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک اندازے کے مطابق ہندوؤں کے اسی سے زیادہ گھرانے ہیں اور پنڈت جی کے بقول انھیں اپنی دیگر مذہبی رسومات ادا کرنے میں کوئی مشکلات پیش نہیں آتیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی سرحدیں ایک طرف جنوبی وزیرستان ایجنسی سے ملتی ہیں اور دوسری جانب صوبہ پنجاب واقع ہے۔ وزیرستان میں کوئی چھ لاکھ پناہ گزین بھی اسی شہر میں رہ رہے ہیں۔ اس شہر میں بڑی تعداد میں بم دھماکے اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آچکے ہیں لیکن چاہ سید منور قبرستان میں مذہبی رواداری کی یہ مثال کم ہی کہیں ملتی ہے۔

آپ نے یہ خبر دیکھی اس میں دکھ کے ساتھ کتنی خوشیاں بھی ہیں۔ باہر کی دنیا ہمیں بس مذہبی انتہا پسند سمجھتی ہے لیکن ہمارا سماج اس کے بر عکس ہے۔ چند لوگوں کو چھوڑ کر ہمارے لوگ بے حد روادار، ملن سار، ہم درد اور محبت کرنے والے ہیں۔ ہمارے ذرایع ابلاغ ایسی خبروں پر توجہ نہیں دیتے جن کا اس نوعیت کی خبریں تقاضا کرتی ہیں۔ ایسی ہی خبریں حوصلہ بڑھاتی اور دنیا میں ہمارا اجلا چہرہ پیش کرتی ہیں۔ انسان دشمن تخریب کار تو ہر سماج میں ہوتے ہیں اور ہم ان کی خبریں پڑھتے اور دیکھتے بھی رہتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ پورے سماج کی نمایندگی قطعاً نہیں کرتے۔ ہمیں انسان دوست افراد پر زیادہ توجہ دینی ہوگی تب ہی ہم اپنا چہرہ عالمی سماج کے سامنے روشن کر سکیں گے۔

bintefarman@gmail.com
Load Next Story