انتخابات تو یہ بھی ہیں مگر

امسال انتخابات میں اساتذہ، طلبہ، انجینئر، نرسیں، سماجی و معاشی ماہرین، کسان، بڑھئی، الیکٹریشن، پائپ فٹر حصہ لے رہے ہیں


سویڈن کے انتخابات میں بددیانتی، وعدہ خلافی، جھوٹ، بے ایمانی، کرپشن اور دیگر اخلاقی برائیوں میں ملوث شخص امیداوار نہیں بن سکتا؛ گویا صادق اور امین کی شرائط کا عملی اطلاق کیا جاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سیاسی جماعتوں نے چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات کی تیاریاں گزشتہ سال سے شروع کررکھی ہیں اور ایک مربوط منصوبہ بندی کے تحت سرگرمیاں شروع ہورہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں رکنیت سازی، جماعتی تنظیم اور منشور سازی بہت پہلے مکمل ہوچکی ہے؛ اب عوامی سطح پر مہم شروع ہورہی ہے۔ لیکن نہ حزب مخالف کی جانب سے بے بنیاد الزامات عائد کیے جارہے ہیں اور نہ ہی حکومت سنگ بنیاد، افتتاح اور ترقیاتی فنڈز کا لالچ عوام کو دے رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کی فہرستیں تیار کرکے الیکشن کمیشن کو ارسال کردی ہیں۔ حکومتی اور حزب مخالف کی جماعتیں اپنی کارکردگی اور منشور عوام کے سامنے رکھیں گی اور عوام قیمے والے نان اور بریانی کھا کر یا ذات برادری، مذہبی اور لسانی تعصبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ نظریات اور کارکردگی کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔ یہ پس منظر سویڈن میں اس سال 9 ستمبر کو ہونے والے انتخابات کا ہے۔

سویڈن میں جمہوریت کی تعلیم و تربیت اسکول کے زمانے سے ہی دی جاتی ہے۔ نوجوانوں اور سول سوسائٹی کا سویڈش ادارہ ملک کے اسکولوں میں عام انتخابات سے قبل طلبہ کے انتخابات منعقد کرواتا ہے جس مقصد کےلیے اسے حکومت خطیر رقم مہیا کرتی ہے۔ منتخب اسکولوں اور کالجوں میں طلبہ کا اپنا الیکشن کمیشن ہوتا ہے جو سارے نظام کی نگرانی کرتا ہے اور انتخابات کے بعد نتائج کا بھی اعلان کیا جاتا ہے۔ سویڈن میں سیاسی جماعتوں کے یوتھ ونگ موجود ہیں لیکن اسکولوں اور کالجوں میں طلبہ یونین کے انتخابات غیر جماعتی ہوتے ہیں اور یہاں کے تعلیمی ادارے سیاسی جماعتوں کے بغل بچہ تنظیموں کے اکھاڑے نہیں۔

یہاں سرکاری ملازم نہ صرف سیاسی جماعت کا رکن بن سکتا ہے بلکہ سیاست میں حصہ لیتے ہوئے انتخابی امیداور بھی بن سکتا ہے جبکہ پاکستان میں سرکاری ملازمین کی جاسوسی کی جاتی ہے اور اگر ان میں سے کسی کا رجحان کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف ہو تو اسے سالانہ کارکردگی رپورٹ میں لکھا جاتا ہے جس بنیاد پر حزب مخالف سے ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے افسر اکثر کھڈے لائن لگا دیئے جاتے ہیں۔

اس سال ہونے والے انتخابات میں کل 53000 امیداوار حصہ لے رہے ہیں۔ ان میں سے 43000 امیدواروں نے اپنے پیشوں کے نام بھی ظاہر کیے ہیں جن کے مطابق 2870 اساتذہ، 1707 طلبہ، 1651 انجینئر، 3058 کاروباری افراد، 825 نرسیں، 1328 ماہرین معیشت، 1355 زیرتربیت نرسیں، 767 کسان، 633 سماجی ماہرین، 590 سول انجینئر، 187 ترکھان یا بڑھئی، 158 الیکٹریشن اور 12 پائپ فٹر حصہ لے رہے ہیں۔

سویڈن میں ہر چار سال بعد ستمبر کے دوسرے اتوار کو انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ اس سال 9 ستمبر کو سویڈش پارلیمنٹ کے 349 اراکین منتخب کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ایک ہی دن بلدیاتی اور ریجنل کونسلوں کے انتخابات بھی منعقد ہوں گے۔ چار فیصد سے کم ووٹ لینے والی جماعت پارلیمان میں نہیں پہنچ سکتی۔ بلدیاتی انتخابات ہوں یا پارلیمنٹ کے امیدوار، ان کا سب انتخاب ہر سیاسی جماعت کی منتخب کمیٹی، انتخابات کی ذمہ دار کونسل کرتی ہے۔ انتخابی ٹکٹ میرٹ پر دیئے جاتے ہیں۔ کسی بھی جماعت کا سربراہ نہ تو کسی کو ٹکٹ لے کردے سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی نامزدگی کو روک سکتا ہے۔ سویڈن میں انتخابات متناسب نمائدگی کی بنیاد پر ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی عوام کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جماعت کے ہر حلقے کی انتخابی فہرست سے اپنے پسندیدہ امیداور کا انتخاب کرلیں۔ اس طرح متناسب نمائدگی اور شخصی خوبیاں دونوں پیش نظر ہوتی ہیں۔

سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کا انتخاب میرٹ اور احتیاط سے کرتی ہیں۔ بددیانتی، وعدہ خلافی، جھوٹ، بے ایمانی، کرپشن اور دیگر اخلاقی برائیوں میں ملوث شخص امیداوار نہیں بن سکتا؛ گویا صادق اور امین کی شرائط کا عملی اطلاق کیا جاتا ہے جسے پاکستان میں کئی حلقے تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں جن میں وہ ریٹرننگ افسران بھی شامل ہیں جو امیدوار کے جرائم کو دیکھنے کے بجائے ان سے کلمے اور ایمان کی صفتیں سنتے ہیں۔ جمہوریت، انصاف، حقوق انسانی اور سماجی بہبود کے نظام کی حامل جنت نظیر مملکت سویڈن کو یہاں کے عوام نے خود اپنے ہاتھوں سے تراشا ہے۔ یہاں سیاسی جماعتیں اپنے نظریات اور جمہوری اقدار کا پاس رکھتی ہیں اور اصولوں پر سودے بازی کرکے حصول اقتدار کو کوشش نہیں کرتیں۔

اس کی واضح مثال گزشتہ دو بار سویڈن کے انتخابات میں نسل پرست جماعت سویڈش ڈیموکریٹس نے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور حکومت سازی میں بادشاہ گر کی حیثیت حاصل کرلی لیکن اس کے باوجود پارلیمنٹ میں موجود کسی بھی سیاسی جماعت نے اس سے تعاون حاصل نہ کیا۔ ایک طرف دائیں بازو کا چار جماعتی اتحاد تھا تو دوسری جانب بائیں بازو کا سرخ سبز اتحاد، لیکن نسل پرست جماعت کی حمایت حاصل کرنا تو ایک طرف رہا، کسی نے ان سے بات کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ یہ ہے اصولوں پر مبنی جمہوریت۔

ممکن ہے کہ نسل پرست جماعت تیسری بار پھر بادشاہ گر کی حیثیت حاصل کرلے لیکن تمام سیاسی جماعتوں نے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون کو خارج از امکان قرار دیا ہے اور ان کا حقہ پانی بند رہے گا۔ پاکستانی عوام کو بھی خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے کہ انہوں نے زبان، نسل، مذہب اور علاقائی تعصب کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کو مسترد کردیا ہے۔ پاکستان میں جمہوری عمل کا تسلسل رہا تو مزید بہتری آئے گی اور پاکستان میں بھی صاف ستھری سیاست کو پنپنے کا موقع مل سکے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں