آنے والی حکومت کی خارجہ پالیسی کے اشارے
پی ٹی آئی کی نئی آنے والی حکومت کو داخلی اور خارجی سطح پر بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا
RAWALPINDI:
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ابھی وزیراعظم کا حلف نہیں اٹھایا لیکن انھوں نے اپنی نئی آنے والی حکومت کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے چیدہ چیدہ نکات سے عوام اور عالمی دنیا کو آگاہ کرنا شروع کر دیا ہے اور وہ ان گائیڈ لائنز کو واضح کر رہے ہیں جن پر چلتے ہوئے وہ مستقبل میں اپنے حکومتی امور سرانجام دیں گے۔
ہفتے کو بنی گالہ میں ملاقات کے لیے آنے والے ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست پر عمران خان نے اپنی خارجہ پالیسی کے امور بالخصوص اپنے ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے واضح کیا کہ پاکستان نہ صرف ایران سمیت تمام ہمسایوں کے ساتھ تجارت کا خواہاں ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں جنم لینے والے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازعہ کے حل کے لیے تعمیری اور مثبت کردار ادا کرنے کو بھی تیار ہے۔اس موقع پر ایرانی سفیر نے اپنی حکومت کے موقف کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعاون اور اشتراک کی تمام راہیں کھلی ہیں، ایران علاقائی تعاون اور ترقی کے ایجنڈے میں پاکستان کے ساتھ اشتراک کے لیے ہمہ وقت تیار اور تجارت بڑھانے کا خواہاں ہے، ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے سے پاکستان کا مستقبل بدل سکتا ہے، ایران اس منصوبے کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ تعمیری بات چیت کے لیے تیار ہے۔ ایرانی سفیر کا مزید کہنا تھا کہ خطے کی صورتحال نہایت حساس ہے تاہم ایران خطے میں امن کے لیے پاکستان کی تجاویز کا خیرمقدم کرے گا۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد 26جولائی کو پہلی وکٹری اسپیچ میں اپنی آنے والی حکومت کی پالیسیوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جہاں وہ اندرون ملک تبدیلیاں لائیں گے وہاں وہ بیرونی دنیا بالخصوص اپنے ہمسایہ ممالک بھارت' ایران اور افغانستان سے بہتر تعلقات کو فروغ دیں گے' انھوں نے مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی اور تنازعات کا ذکر کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ پاکستان کو اس سلسلے میں ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے' لڑائی میں شرکت کے بجائے اسے ختم کرانے کا کردار ادا کرنا ہو گا' ایران اور سعودی عرب سے برادرانہ تعلقات کو اور بھی بہتر بنائیں گے، بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں' دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنا ان کی ترجیح ہو گی کیونکہ یہ دونوں ممالک اور خطے کے لیے فائدہ مند ہے' تمام مسائل ڈائیلاگ سے حل ہوں گے' افغانستان کے حوالے سے انھوں نے واضح کیا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر ممکن مدد کرے گا۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان رنجش کوئی نئی نہیں لیکن گزشتہ دہائی سے یہ رنجش بڑھتے بڑھتے شدید کشیدگی کی صورت اختیار کر چکی ہے' بالخصوص یمن کے معاملے پر دونوں اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات بڑھتے بڑھتے ایک وسیع خلیج کی صورت اختیار کر گئے' بات یہاں تک بڑھی کہ سعودی عرب نے یمن کے معاملے میں پاکستان سے فوجی مدد مانگ لی' ماضی میں افغانستان کے معاملات سے پیدا ہونے والی کشیدگی' الجھاؤ' پیچیدگی' انتہا پسندی' فرقہ واریت اور دیگر جنم لینے والے مسائل کے تجربات کا بروقت ادراک کرتے ہوئے پاکستان نے سعودی عرب اور یمن کے مسائل میں مزید الجھنے سے احتراز کیا' اس کی اس اغماضانہ روش کو سعودی عرب نے پسند نہیں کیا مگر بعدازاں حالات نے ثابت کیا کہ کسی نئے مسئلے میں نہ الجھنے کا پاکستانی حکومت کا فیصلہ صائب تھا۔ اب پی ٹی آئی کی نئی آنے والی حکومت کو داخلی اور خارجی سطح پر بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ داخلی سطح پر مہنگائی' ملکی اور غیرملکی قرضے' پانی کا بحران اور انتہا پسندی کے چیلنجز نئی حکومت کی صلاحیتوں کا بڑا امتحان ثابت ہوں گے۔ حال ہی میں دیامر میں انتہا پسندی کے ہونے والے واقعات اس امر کے مظہر ہیں کہ یہ مسئلہ کوئی اتنا آسان نہیں' اس کی جڑیں بہت وسیع اور مضبوط ہو چکی ہیں اسے جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ابھی مزید صبر آزما اور طویل جنگ لڑنا پڑے گی۔ جہاں تک ایران اور بھارت کے ساتھ معاملات کا تعلق ہے اس میں بھی بہت سے مسائل اور رکاوٹیں آزمائش بن کر سامنے آئیں گی۔
ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ہونے کے باوجود ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں وہ گرم جوشی دکھائی نہیں دیتی جو ہونی چاہیے' سرحدوں پر انتہا پسندوں کے حملے' گیس پائپ لائن کا منصوبہ تعمیری بات چیت کے ذریعے حل کیے جانے کا منتظر ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں سرحدوں پر ہونے والی فائرنگ اور مسئلہ کشمیر بڑی رکاوٹ ہیں۔ عالمی سطح پر گرے لسٹ میں نام آنے کے بعد پاکستان کے سر پر بہت سے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ابھی تک تو امریکا' بھارت' ایران' افغانستان سمیت دیگر ممالک نے نئی آنے والی پاکستانی حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات کا اظہار کیا ہے اور روایتی تہنیتی پیغامات کا دور چل رہا ہے لیکن صورت حال تو اس وقت واضح ہو گی جب ان کے ساتھ معاہدے اور معاملات طے پائیں گے۔سامنے اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ امید ہے کہ جواں ہمت، پرجوش اور پرعزم نئی پاکستانی قیادت ملک کو درپیش داخلی اور خارجی مسائل کی چومکھی لڑائی میں سرخرو ہو جائے گی۔