6اگست قیامتِ صغریٰ کی یاد
آج 6 اگست 2018ء کو قیامتِ صغریٰ کی 73 ویں یاد منائی جا رہی ہے
ISLAMABAD:
آج 6 اگست 2018ء کو قیامتِ صغریٰ کی 73 ویں یاد منائی جا رہی ہے۔ دُنیا کے تقریباً سات درجن ممالک کے نمایندگان اُس خونی قیامت کی مذمت کرنے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔
یہ قیامت ہم پر تو نہیں گزری تھی لیکن جن پر یہ گزری تھی، وہ بھی ہم ایسے ہی انسان تھے۔ ابھی صبح کے آٹھ ہی بجے تھے۔ زندگی پوری ہماہمی اورآدرشوں کے ساتھ بیدار ہو رہی تھی کہ آسمان سے ایک بم گرا۔ آنکھیں چندھیا دینے والا ایک جھماکا ہُوا۔کہنے کو تویہ صرف ایک بم ہی تھا لیکن یہ بم اپنے جلَو میں کئی قیامتیں لیے تھا۔ نسلِ انسانی اور انسانی تاریخ نے اس سے پہلے کبھی اتنا مہلک اسلحہ نہیں دیکھا تھا۔ یہ بم بنانے اور گرانے والا امریکا تھا۔ اُس روز امریکی فوجیں، امریکی انتظامیہ اور امریکی صدر وحشت و درندگی کی انتہا پر تھے۔ خونریزی اور خونخواری کی آخری حد پر کھڑے۔ بے حسی اور بے رحمی کا عملی نمونہ۔ یہ سانحہ سات عشرے سے بھی تین سال قبل وقوع پذیر ہُوا۔ امریکی جنگی بمبار طیارے (اینولا گے)نے 6 اگست1945ء کو جاپان کے خوبصورت شہر، ہیروشیما، پر ایٹم بم گرا دیا تھا۔ جدید تاریخ کے پہلے جوہری اسلحے کو انسانوں پر آزماڈالا گیا تھا۔ ہیروشیما پر آتش وآہن کے ناقابلِ تصور بگولوں کے طوفان کی یلغار ہو گئی تھی۔تین لاکھ آبادی کا حامل شہر دیکھتے ہی دیکھتے صفحہ ہستی سے نابود ہو گیا۔ چند ثانیوں میں ایک لاکھ بیگناہ جاپانی شہری موت کی نیند سلا دیے گئے۔ جو بچ گئے تھے، اُن کی زندگیاں جوہری زہرکے اثرات سے اجیرن بن کر رہ گئی تھیں۔
بچ جانے والے زخمیوں کو آنے والے کئی برسوں تک سسک سسک کر جان دینا تھی۔ ہیروشیما شہر کی سب عمارتیں زمیں بوس ہو گئی تھیں۔ امریکیوں کی وحشت و درندگی ہیرشیما تک محدود نہ رہ سکی۔ تین دن بعد، 9 اگست کو امریکا نے دوسرا نیوکلیئر بم جاپان کے دوسرے بڑے شہر، ناگاساکی، پر گرا دیا۔ جاپان پر دوسری قیامت ڈھا دی گئی تھی۔ یہاں بھی لاکھوں افراد لُقمہ اجل بنا دیے گئے۔ امریکی بربریت نے ایک بار پھر ننگا ناچ ناچا تھا۔انسانیت شرما کر رہ گئی تھی لیکن امریکیوں کو شرم آئی نہ حیا۔ وہ اب تک اپنے اِس غیر انسانی جرم پر نادم نہیں ہیں۔ کہتے ہیں: ہم نے ''مجبوراً'' اپنے دفاع میں یہ اقدام کیا تھا۔ تُف ہے اپنے دفاع میں اُٹھائے گئے ایسے اقدام پر!!جب سے انسان نے اللہ کی اِس زمین پر قدم رکھا ہے، انسانوں نے انسانوں پر بہت ظلم ڈھائے ہوں گے، بڑے ستم توڑے ہوں گے لیکن اتنا بڑا ظلم کبھی نہیں کیا ہو گا جتنا بڑا ظلم امریکیوں نے جاپانیوں پر کر ڈالا۔
آج ہیروشیما ایک بار پھر ہنستا بستا شہر ہے۔ 906 مربع کلومیٹر رقبے کو محیط اور تقریباً تیرہ لاکھ انسانوں کا شہر۔ واقعہ یہ ہے کہ اِس شہر نے راکھ سے جنم لے کر ایک پھر بلندیوں اور عظمتوں کو چھُوا ہے۔ یہ انسانی عزم اور ہمت کی ایک ولولہ انگیز کہانی ہے جسے جاپانیوں نے جذبہ غیرت سے لکھ کر جارح اور حملہ آور، امریکا، کو شرما دیا ہے۔ آج 6 اگست 2018ء کو جاپان کے اِسی شہر میں دُنیا کے کئی ممالک کے معزز نمایندگان امریکی وحشت کی مذمت کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ جاپان کے معروف انگریزی اخبار''جاپان ٹوڈے'' نے خبر دی ہے کہ حکومتِ جاپان نے 6 اگست کے المناک سانحہ کی 73 ویں یاد میں ہیروشیما میں منعقد ہونے والی تقریب کے لیے دُنیا کے 157 ممالک کو دعوت نامے جاری کیے تھے، لیکن 85 ممالک کے صدوریا وزرائے اعظم یا حکومتی نمایندگان نے شرکت کی حامی بھری ہے۔ چین اور شمالی کوریا نے مگر معذرت کر لی ہے۔ البتہ پاکستان اور بھارت ضرور شریک ہوں گے۔امریکی وحشت و بربریت کی یاد میں منعقد ہونے والی یہ تقریب آج صبح آٹھ بجے ہیروشیما شہر کے Peace Memorial Park میں منعقد ہو گی۔ ہر سال ہی ہیروشیما اور ناگاساکی میں امریکی جوہری ظلم کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ امریکی بھی ڈھیٹ اور بے شرم بن کر ان میں شریک ہوتے ہیں۔
کئی بار امریکی صدور خودبھی شریک ہو چکے ہیں۔مجھے حیرت ہے کہ وہ کس منہ سے مظلوم اور مقہور جاپانیوں کا سامنا کرتے ہوں گے! شاباش ہے جاپانیوں کے صبر اور عزیمت پر۔ کبھی امریکا سے بدلہ لینے کی بات کی نہ انتقام میں آپے سے باہر ہُوئے۔ خود کو انکسار میں جھکائے رکھا اور اپنے بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں صرف تعلیم اور ٹیکنالوجی کے حصول میں لگے رہے۔ بڑی ہمت سے اپنی ایجاد کردہ اور ساختہ اشیاء پرMade in Occupied Japan لکھتے رہے۔ یہ معمولی بات نہیں تھی۔ایک غیر معمولی جذبے سے وہ یہ بھی کر گزرے۔ دل پر صبر کی سِل رکھ کر اس مشکل مرحلے سے بھی گزر گئے۔
ایٹم بنانا، رکھنا اور چلانا سہل نہیں ہے۔ ترقی پذیر اقوام کی معیشت کو تو یہ چَٹ کر جاتا ہے۔ لیکن جب زندگی، نظرئیے اور زمین کا دشمن نگل لینے کو بہت آگے بڑھ آئے تو اپنی بقا کے لیے زہر کا یہ گھونٹ پینا ہی پڑتا ہے۔ گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔ یہ مگر آسان مراحل نہیں ہیں۔ جانگسل محنت، کمٹمنٹ اور جنون کی حد تک لگن کی ضرورت پڑتی ہے۔ بھیس بدل بدل کر اپنے ہدف پر مستقل نظریں جمانا پڑتیں ہیں۔ دشمنوں کو پلٹ پلٹ کر غچہ دینا پڑتا ہے۔ اپنے ٹارگٹ سے غفلت برتنے کا رِسک تو لیا ہی نہیں جا سکتا: ''کہ غفلت دُور ہے شانِ صف آریانِ لشکر سے۔''پاکستان کو نہایت ہی نازک اور دگرگوں حالات میں رہ کر جوہری طاقت حاصل کرنا پڑی۔ یہ دراصل غیر معمولی راز داری اور کمٹمنٹ کی ایک لازوال اور انمٹ داستان ہے۔ اِس کے جتنے بھی کردار تھے، ہم سب کی محبتوں اور مستقل سیلوٹ کے مستحق ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے۔ خصوصاً جنوبی ایشیا کو امن اور سکون کا گہوارہ اور مرکز بنانے کا اظہار کیا ہے۔
ہمارا مگر ایک ہمسایہ ایسا ہے جس نے پاکستان کی امن کوششوں اور امن عمل کو ہمیشہ بلڈوز کیا ہے۔ کوئی بھی غیرتمند پاکستانی یہ حقیقت فراموش نہیں کر سکتا کہ ہمارے اِس ہمسائے نے امن دشمنی اور دہشتگردی کا عملی ثبوت دیتے ہُوئے پاکستان کو دولخت کر دیا تھا۔ اُس نے آگے بڑھ کر پہلا جوہری دھماکا کیا تو پاکستان کو بھی ساتھ ہی دھمکانا شروع کر دیا۔ بھارت کا ڈسا پاکستان یہ کیسے برداشت کر سکتا تھا؟ اپنی بقا کی خاطر ہمارے ایک منتخب وزیر اعظم نے بجا طور پر اور بروقت اعلان کیا:ہم گھاس کھا لیں گے لیکن (دشمن کے مقابلے میں) ایٹم بم ضرور بنا کر رہیں گے۔ سُننے والوں نے ہمارا مذاق اُڑایا تھا۔ اللہ کے فضل سے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان سُرخرو ٹھہرا۔ عالمِ اسلام کی پہلی جوہری طاقت بن کر۔ دُنیا کی ساتویں ایٹمی قوت۔ یہ ناقابلِ تسخیر قوت اور قابلِ فخر طاقت ہی کا مظہر تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کے خلاف جارحیت پر کمر بستہ راجیو گاندھی کے کان میں ایسی پُر اسرار سرگوشی کی کہ اُس کا ''براس ٹیکس'' منصوبہ خاک میں مل گیا۔ اُسے فوری طور پر اپنی لاکھوں افواج کو پاکستانی سرحدوں سے دُور لے جانی پڑیں۔ یہ سب کمال ہماری جوہری طاقت کے تھے۔اِس طاقت نے جنوبی ایشیا کو امن کا تحفہ دے رکھا ہے۔ اِسی طاقت کے بَل پر ہم ایک کمینے اور کینہ پرور دشمن کی جارحیتوں سے محفوظ اور مامون ہیں۔
آج چھ اگست کو پاکستان بھی ہیرو شیما میں منعقد ہونے والی شاندار تقریب کا ایک معزز مہمان ہے۔ اِس میں پاکستان دنیا کے 85 ممالک کے ساتھ کھڑا ہو کر عہد کرے گا کہ ہم امن کے پرچارک اور مطلق امن کے خواہاں ہیں۔ ہم کسی کے خلاف خونی اور جوہری جارحیت نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ہم متمنی اور دعا گو ہیں کہ دُنیا میں پھر کبھی 6 اگست کا المناک سانحہ رُونما نہ ہو۔ ہم دُنیا کو ہر قسم کے ایٹمی حادثات اور سانحات سے محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اِس موقع پر پاکستان فخر کے ساتھ عالمی برادری کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہے کہ ہمارا جوہری پروگرام امن کی علامت بھی ہے اور ہمارے تمام ایٹمی ری ایکٹرز دُنیا کے محفوظ ترین ایٹمی ری ایکٹروں میں سرِ فہرست ہیں۔الحمد للہ۔