بدلتی دنیا
روزگار فراہم کرنے سے ہی مسائل حل ہوں گے۔ اور بنیادی طور پر مل، کارخانوں کا جال بچھانے سے ہی نوجوانوں کو روزگار ملے گا
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بدلتی جارہی ہے، جیسا میں کل تھا آج نہیں ہوں۔ ہر شے، ہر لمحہ بدلتا رہتا ہے۔ اسی کو کہتے ہیں جدلیات۔ آہستہ آہستہ تبدیل ہونے کو کہتے ہیں مقداری تبدیلی اور مکمل تبدیلی کو کیفیتی تبدیلی۔ جب پانی نوے ڈگری سے سو ڈگری گرم ہوتا ہے تو یہ مقداری تبدیلی ہے اور جب پانی بھاپ بن جاتا ہے یا برف پگھل جاتا ہے تو اسے کہتے ہیں کیفیتی تبدیلی۔ ان ہی تاریخی جدلیاتی مادیت کی سائنس کے تحت غلامی سے جاگیرداری اور جاگیرداری سے سرمایہ داری اور پھر زمانہ قدیم کی طرح امداد باہمی کا آزاد سماج میں تبدیل ہونے کو کیفیتی تبدیلی کہتے ہیں۔ ہم سماج کی تبدیلیوں کو عوام کی فلاح اور بھلائی کی تبدیلی سے سماجی تبدیلی کی عبارت سمجھتے ہیں۔
اگر عوام کے حالات زندگی تبدیل نہیں ہوتے تو یہ تبدیلی نہیں ہے بلکہ تنزلی ہے۔ حال ہی میں کینیڈا کے پندرہ صوبوں میں سے سب سے بڑے صوبے میں انتخابات ہوئے، جہاں دائیں بازو کی جماعت کو کامیابی ہوئی۔ اس نے جیتتے ہی مزدوروں کی مراعات اور سہولتوں کی کٹوتی کا اعلان کیا ہے، جب کہ یہاں بائیں بازو کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست ہوئی ہے۔ اسی طرح ترکی کے انتخابات میں دائیں بازو کی پارٹی کامیابی حاصل کرنے کے بعد صدر اردگان صدر بن گئے ہیں، جب کہ یہاں بھی بائیں بازو کی جماعت کو شکست ہوئی ہے۔ وینیزویلا کے صدارتی انتخابات میں سوشلسٹ پارٹی کے کامریڈ مادورو کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں دائیں بازو کی جماعت تحریک انصاف کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔بورژوا (سرمایہ دارانہ) سیاست میں ہر چیز گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے۔ کل نواز شریف پر الزام لگتے تھے کہ وہ 'را' کا ایجنٹ ہے جب کہ انتخابات کے فوراً بعد عمران خان نے بھارت سے بہتر تعلقات کی بات کی ہے، پھر نریندر مودی کا فون بھی آگیا اور عمران خان اور مودی کی فون پر بات ہوئی اور مودی نے جیتنے پر عمران خان کو مبارک باد دی ہے۔ انتخابات سے قبل عمران خان امریکا کے خلاف بولتے تھے، جب کہ جیتنے کے فوراً بعد بہتر تعلقات کی بات کی اور انھوں نے بھی مبارک باد دی ہے۔ متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے یہ بیان بھی دے ڈالا کہ آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا۔ عمران خان نے جیتنے کے فوراً بعد عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کچھ وعدے وعید بھی کر ڈالے۔ جن میں نوجوانوں، کسانوں، خواتین اور اقلیتوں کے مسائل اور نچلے طبقے کو اوپر لانے کی بات کی ہے۔ اب وہ انھیں کیسے حل کریں گے، اس کا کوئی طریقہ نہیں بتایا۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری اور مہنگائی کا ہے، اس پر وہ خاموش رہے۔
انھوں نے نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کی بات کی ہے، تو یہ کیسے حل ہوں گے۔ روزگار فراہم کرنے سے ہی مسائل حل ہوں گے۔ اور بنیادی طور پر مل، کارخانوں کا جال بچھانے سے ہی نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ مل، کارخانے اور فیکٹریوں کے قیام کی بھرمار کی کوئی بات نہیں کی۔ انھوں نے کسانوں کے مسائل حل کرنے کی بات کی ہے۔کسانوں کی پیداوار (اجناس) کی قیمتوں میں اضافہ کرنے سے ہی کسانوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بے زمین کسانوں میں زمین تقسیم کرنے سے ان کے مسائل حل ہوں گے۔ سو، دو سو یا پچاس ایکڑ زمین رکھنے والے جو کسان ہیں وہ غربت زدہ کسان نہیں ہیں، بلکہ خوشحال کسان اور چھوٹے زمیندار کہلاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ 50\100 ایکڑ سے زیادہ رکھنے والے جاگیرداروں کی زمین، بے زمین کسانوں میں تقسیم کردی جائے، اس سے کسانوں کی بے روزگاری دور ہوگی اور پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا اور کسانوں کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہوگا۔ زرعی پیداوار کو مڈل مین سے چھٹکارا دلا کر زرعی پیداوار کو حکومت خود خرید کر بازار میں ترسیل کرے۔ اس سے کسانوں اور صارفین دونوں کو فائدہ ہوگا۔
عمران خان نے خواتین کے مسائل حل کرنے کی بات کی۔ وہ کیسے حل کریں گے؟ اس پر بھی خاموش ہیں۔ پہلے تو خیبرپختونخوا کی تمام لڑکیوں کو اسکول میں پانچویں جماعت تک کی تعلیم کے لیے پابند کیا جائے۔ پھر پورے ملک میں پانچویں تک کی جبری تعلیم کا قانون پاس کیا جائے، خواتین محنت کشوں کی اجرتیں، مرد مزدوروں کے مساوی کی جائیں۔ کاروکاری، غیرت پر قتل، سسرال میں تشدد، گھریلو تشدد، مرضی سے شادی کرنے پر قتل کرنے، اغوا اور ریپ کرنے پر عمر قید کی سزا مقرر کی جائے۔ پکی پکائی روٹی اور دھوبی گھاٹ کا اجرا کیا جائے۔ ہر علاقے میں لڑکیوں کے لیے کھیل کا گراؤنڈ تعمیر کیا جائے، وغرہ وغیرہ۔ انھوں نے اقلیتوں کے حقوق کی بات بھی کی ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً ایک کروڑ افراد اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ خاص کر تھرپارکر میں ہندو (دلت) لڑکیوں کو مسلمان بنانے کی آڑ لے کر شادی کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اور ایسا کرنے پر وڈیروں اور جاگیرداروں کو سخت سزائیں دی جائیں۔ ملک کو جمہوریہ اور سیکولر ریاست کا درجہ دیا جائے۔ اس لیے کہ دنیا کے 54 مسلم ممالک میں سے صرف 8 ممالک ایسے ہیں جو اپنے ساتھ اسلامی جمہوریہ لکھتے ہیں۔
آخر میں عمران خان نے کہا کہ ہم نچلے طبقے کو اوپر لائیں گے، یعنی مزدوروں اور کسانوں کو بھی سرمایہ دار اور جاگیردار بنانا چاہتے ہیں یا سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ طبقاتی نظام کا خاتمہ بالخیر کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا چاہتے ہیں تو جاگیرداری کا خاتمہ کرنا ہوگا اور ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کمپنیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ان کے بشمول آئی ایم ایف کے قرضہ جات کو بحق سرکار ضبط کرنا ہوگا اور دفاعی بجٹ میں پچاس فیصد کی کمی کرکے تعلیم، صحت، بیروزگاری، بھوک، افلاس اور غربت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی کمیونسٹ سماج میں ہی ممکن ہے۔ جہاں دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے، کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ دنیا کی سرحدیں ختم ہوکر دنیا ایک ہوجائے گی۔ ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہوگا۔ چہار طرف محبتوں اور خوشحالی کے پھول کھلیں گے اور ان کی خوشبو سے دنیا معطر رہے گی۔ جس کا آج ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔
اگر عوام کے حالات زندگی تبدیل نہیں ہوتے تو یہ تبدیلی نہیں ہے بلکہ تنزلی ہے۔ حال ہی میں کینیڈا کے پندرہ صوبوں میں سے سب سے بڑے صوبے میں انتخابات ہوئے، جہاں دائیں بازو کی جماعت کو کامیابی ہوئی۔ اس نے جیتتے ہی مزدوروں کی مراعات اور سہولتوں کی کٹوتی کا اعلان کیا ہے، جب کہ یہاں بائیں بازو کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست ہوئی ہے۔ اسی طرح ترکی کے انتخابات میں دائیں بازو کی پارٹی کامیابی حاصل کرنے کے بعد صدر اردگان صدر بن گئے ہیں، جب کہ یہاں بھی بائیں بازو کی جماعت کو شکست ہوئی ہے۔ وینیزویلا کے صدارتی انتخابات میں سوشلسٹ پارٹی کے کامریڈ مادورو کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں دائیں بازو کی جماعت تحریک انصاف کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔بورژوا (سرمایہ دارانہ) سیاست میں ہر چیز گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے۔ کل نواز شریف پر الزام لگتے تھے کہ وہ 'را' کا ایجنٹ ہے جب کہ انتخابات کے فوراً بعد عمران خان نے بھارت سے بہتر تعلقات کی بات کی ہے، پھر نریندر مودی کا فون بھی آگیا اور عمران خان اور مودی کی فون پر بات ہوئی اور مودی نے جیتنے پر عمران خان کو مبارک باد دی ہے۔ انتخابات سے قبل عمران خان امریکا کے خلاف بولتے تھے، جب کہ جیتنے کے فوراً بعد بہتر تعلقات کی بات کی اور انھوں نے بھی مبارک باد دی ہے۔ متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے یہ بیان بھی دے ڈالا کہ آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا۔ عمران خان نے جیتنے کے فوراً بعد عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کچھ وعدے وعید بھی کر ڈالے۔ جن میں نوجوانوں، کسانوں، خواتین اور اقلیتوں کے مسائل اور نچلے طبقے کو اوپر لانے کی بات کی ہے۔ اب وہ انھیں کیسے حل کریں گے، اس کا کوئی طریقہ نہیں بتایا۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری اور مہنگائی کا ہے، اس پر وہ خاموش رہے۔
انھوں نے نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کی بات کی ہے، تو یہ کیسے حل ہوں گے۔ روزگار فراہم کرنے سے ہی مسائل حل ہوں گے۔ اور بنیادی طور پر مل، کارخانوں کا جال بچھانے سے ہی نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ مل، کارخانے اور فیکٹریوں کے قیام کی بھرمار کی کوئی بات نہیں کی۔ انھوں نے کسانوں کے مسائل حل کرنے کی بات کی ہے۔کسانوں کی پیداوار (اجناس) کی قیمتوں میں اضافہ کرنے سے ہی کسانوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بے زمین کسانوں میں زمین تقسیم کرنے سے ان کے مسائل حل ہوں گے۔ سو، دو سو یا پچاس ایکڑ زمین رکھنے والے جو کسان ہیں وہ غربت زدہ کسان نہیں ہیں، بلکہ خوشحال کسان اور چھوٹے زمیندار کہلاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ 50\100 ایکڑ سے زیادہ رکھنے والے جاگیرداروں کی زمین، بے زمین کسانوں میں تقسیم کردی جائے، اس سے کسانوں کی بے روزگاری دور ہوگی اور پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا اور کسانوں کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہوگا۔ زرعی پیداوار کو مڈل مین سے چھٹکارا دلا کر زرعی پیداوار کو حکومت خود خرید کر بازار میں ترسیل کرے۔ اس سے کسانوں اور صارفین دونوں کو فائدہ ہوگا۔
عمران خان نے خواتین کے مسائل حل کرنے کی بات کی۔ وہ کیسے حل کریں گے؟ اس پر بھی خاموش ہیں۔ پہلے تو خیبرپختونخوا کی تمام لڑکیوں کو اسکول میں پانچویں جماعت تک کی تعلیم کے لیے پابند کیا جائے۔ پھر پورے ملک میں پانچویں تک کی جبری تعلیم کا قانون پاس کیا جائے، خواتین محنت کشوں کی اجرتیں، مرد مزدوروں کے مساوی کی جائیں۔ کاروکاری، غیرت پر قتل، سسرال میں تشدد، گھریلو تشدد، مرضی سے شادی کرنے پر قتل کرنے، اغوا اور ریپ کرنے پر عمر قید کی سزا مقرر کی جائے۔ پکی پکائی روٹی اور دھوبی گھاٹ کا اجرا کیا جائے۔ ہر علاقے میں لڑکیوں کے لیے کھیل کا گراؤنڈ تعمیر کیا جائے، وغرہ وغیرہ۔ انھوں نے اقلیتوں کے حقوق کی بات بھی کی ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً ایک کروڑ افراد اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ خاص کر تھرپارکر میں ہندو (دلت) لڑکیوں کو مسلمان بنانے کی آڑ لے کر شادی کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اور ایسا کرنے پر وڈیروں اور جاگیرداروں کو سخت سزائیں دی جائیں۔ ملک کو جمہوریہ اور سیکولر ریاست کا درجہ دیا جائے۔ اس لیے کہ دنیا کے 54 مسلم ممالک میں سے صرف 8 ممالک ایسے ہیں جو اپنے ساتھ اسلامی جمہوریہ لکھتے ہیں۔
آخر میں عمران خان نے کہا کہ ہم نچلے طبقے کو اوپر لائیں گے، یعنی مزدوروں اور کسانوں کو بھی سرمایہ دار اور جاگیردار بنانا چاہتے ہیں یا سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ طبقاتی نظام کا خاتمہ بالخیر کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا چاہتے ہیں تو جاگیرداری کا خاتمہ کرنا ہوگا اور ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کمپنیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ان کے بشمول آئی ایم ایف کے قرضہ جات کو بحق سرکار ضبط کرنا ہوگا اور دفاعی بجٹ میں پچاس فیصد کی کمی کرکے تعلیم، صحت، بیروزگاری، بھوک، افلاس اور غربت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی کمیونسٹ سماج میں ہی ممکن ہے۔ جہاں دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے، کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ دنیا کی سرحدیں ختم ہوکر دنیا ایک ہوجائے گی۔ ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہوگا۔ چہار طرف محبتوں اور خوشحالی کے پھول کھلیں گے اور ان کی خوشبو سے دنیا معطر رہے گی۔ جس کا آج ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔