پتنگ کی قاتل ڈور پابندی اور احتیاط کی ضرورت
پتنگ بازی کے مشغلے کو قاتل کھیل میں بدلنے سے روکنے کی ذمے داری حکومت اور عوام دونوں کی ہے۔
کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں پتنگ کی ڈور گلے پر پھرنے سے ایک اور معصوم جاں بحق ہوگئی۔ آٹھ سالہ بچی اپنے والد کے ہمراہ بائیک پر جارہی تھی جب یہ حادثہ پیش آیا۔ پتنگ کی قاتل ڈور نے یہ پہلی جان نہیں لی بلکہ ملک بھر میں اس طرح کے واقعات ہوتے آرہے ہیں، پنجاب میں ان واقعات کے مستقل پیش آنے کے باعث پنجاب میں پتنگ بازی کی تیز دھار ڈور پر پابندی عائد کی جاچکی ہے لیکن سندھ میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔
مذکورہ واقعے کے بعد شہری حلقوں اور سول سوسائٹی نے ایک بار پھر پرزور مطالبہ کیا ہے کہ پتنگ بازی میں استعمال کی جانے والی خطرناک ڈور پر پابندی عائد کی جائے اور اس پابندی پر سختی سے عملدرآمد بھی کرایا جائے۔ پتنگ کی ڈور تیار کرنے میں انتہائی مہلک کیمیکل، شیشہ اور دیگر اجزا استعمال کیے جاتے ہیں جس سے وہ انتہائی تیز ہوجاتی ہے اور یہی تیز دھار انسانی زندگی کو نگل لیتی ہے۔
اس قسم کی تیز دھار ڈور نے اس سے قبل بھی کئی زندگیاں لی ہیں لیکن انتظامیہ کبھی نہیں جاگتی، شہر کے مختلف علاقوں میں کئی معصوم بچوں سمیت نوجوان بھی اس قاتل ڈور کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں لیکن اب تک اس پر پابندی عائد نہیں کی گئی۔ لازم ہوگا کہ نہ صرف پتنگ بازی میں استعمال ہونے والی اس ڈور پر پابندی لگائی جائے بلکہ شہریوں کی جانب سے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔
عموماً یہ حادثات موٹر بائیک پر بیٹھنے والوں کے ساتھ پیش آتے ہیں، دو دہائیاں پہلے تک موٹر سائیکل کے آگے لچک دار تار لگے ہوتے تھے جو اچانک سامنے آنے والی ڈور سے بائیک چلانے والے کی حفاظت کرتے تھے لیکن اب ان کا استعمال متروک ہوچکا ہے، نیز پتنگ بازی کے شوقین حضرات کو بھی اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ان کا مشغلہ کسی کی جان لینے کا باعث نہ بنے۔
پتنگ بازی کے سامان پر نظر رکھنا انتظامیہ کی ذمے داری ہے، جب مارکیٹ میں قاتل ڈور ہی نہیں ہوگی تو پتنگ باز عام مانجھے کا استعمال کریں گے۔ پتنگ بازی کے مشغلے کو قاتل کھیل میں بدلنے سے روکنے کی ذمے داری حکومت اور عوام دونوں کی ہے۔
مذکورہ واقعے کے بعد شہری حلقوں اور سول سوسائٹی نے ایک بار پھر پرزور مطالبہ کیا ہے کہ پتنگ بازی میں استعمال کی جانے والی خطرناک ڈور پر پابندی عائد کی جائے اور اس پابندی پر سختی سے عملدرآمد بھی کرایا جائے۔ پتنگ کی ڈور تیار کرنے میں انتہائی مہلک کیمیکل، شیشہ اور دیگر اجزا استعمال کیے جاتے ہیں جس سے وہ انتہائی تیز ہوجاتی ہے اور یہی تیز دھار انسانی زندگی کو نگل لیتی ہے۔
اس قسم کی تیز دھار ڈور نے اس سے قبل بھی کئی زندگیاں لی ہیں لیکن انتظامیہ کبھی نہیں جاگتی، شہر کے مختلف علاقوں میں کئی معصوم بچوں سمیت نوجوان بھی اس قاتل ڈور کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں لیکن اب تک اس پر پابندی عائد نہیں کی گئی۔ لازم ہوگا کہ نہ صرف پتنگ بازی میں استعمال ہونے والی اس ڈور پر پابندی لگائی جائے بلکہ شہریوں کی جانب سے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔
عموماً یہ حادثات موٹر بائیک پر بیٹھنے والوں کے ساتھ پیش آتے ہیں، دو دہائیاں پہلے تک موٹر سائیکل کے آگے لچک دار تار لگے ہوتے تھے جو اچانک سامنے آنے والی ڈور سے بائیک چلانے والے کی حفاظت کرتے تھے لیکن اب ان کا استعمال متروک ہوچکا ہے، نیز پتنگ بازی کے شوقین حضرات کو بھی اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ان کا مشغلہ کسی کی جان لینے کا باعث نہ بنے۔
پتنگ بازی کے سامان پر نظر رکھنا انتظامیہ کی ذمے داری ہے، جب مارکیٹ میں قاتل ڈور ہی نہیں ہوگی تو پتنگ باز عام مانجھے کا استعمال کریں گے۔ پتنگ بازی کے مشغلے کو قاتل کھیل میں بدلنے سے روکنے کی ذمے داری حکومت اور عوام دونوں کی ہے۔