’’باپ‘‘ رے باپ

بے روزگار عوام کے منہ سے حیرت کے مارے اسی دن ’’ باپ رے باپ ‘‘ کے الفاظ نکلنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔


توقیر چغتائی August 07, 2018

ملک میں الیکشن سے چند ماہ قبل نون لیگ کی نیا ڈگمگانے لگی تو بلوچستان میں نون اور قاف لیگ کے منحرف اراکین نے مل کر'' بلوچستان عوامی پارٹی'' کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا اور الزامات کے سمندر میں ڈگمگاتے نون لیگی جہاز سے چھلانگ لگا کر ''باپ'' کشتی میں سوار ہو گئے ۔

بلوچستان عوامی پارٹی کو ''باپ '' کا نام دینے والے یوں حق بجانب تھے کہ بعد میں یہ پارٹی صوبائی سطح پر دوسری پارٹیوں کے سامنے یوں ابھرکر سامنے آئی جیسے گھر کے صحن میں لڑنے والے بہن بھائیوں کے سامنے ڈنڈا اٹھائے مرکزی دروازے سے اچانک ان کا باپ سامنے آئے اور سب دم سادھے چپ چاپ بیٹھ جائیں، لیکن بلوچستان کی بہت ساری پارٹیاں نہ دم سادھے چپ چاپ بیٹھی ہیں اور نہ ہی ان کے لیڈروں نے خاموشی اختیارکی بلکہ ان کے احتجاج کا سلسلہ الیکشن کے دوسرے دن کراچی میں ہونے والی اس پریس کانفرنس سے ہی شروع ہوگیا تھا جس میں نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو نے الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا الزام لگایا تھا اور دو دن قبل یہ سلسلہ اس وقت عروج پر پہنچا جب بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے یہ کہا کہ ملک کو ایک تجربہ گاہ بنایا جا رہا ہے جس کے بھیانک نتائج نکلے ہیں ، مگر یہ تجربات پھر بھی جاری ہیں۔ بلوچستان کی مختلف سیاسی پارٹیاں پچھلے طویل عرصے سے کسی مجبوری یا ذاتی انا کی خاطر اپنے ہی گھر میں اختلافات کا شکارتھیں مگر اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ان کے سامنے دہشت گردی کے بعد گمشدہ افراد کے اہل خانہ کو مطمئن کرنا سب سے بڑا سوال تھا جس کا انھیں کہیں سے جواب نہیں مل رہا تھا ۔

دہشت گردی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات اور سیاسی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں بلوچستان کی روایتی سیاست کو بھی نقصان پہنچا اور اہم سیاسی پارٹیوں کو بھی نئے منظر نامے سے پیچھے ہٹنا پڑا جس کی وجہ سے اس صوبے میں پی ٹی آئی اور'' باپ '' جیسی پارٹیوں کے لیے ایک سیاسی ماحول خود بخود پروان چڑھتا گیا ۔ ''باپ ''کی تشکیل سے جہاں بلوچستان میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاست دان حیران ہوئے وہاں قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کے رہنما بھی ''باپ رے باپ'' کہتے ہوئے سنے گئے لیکن اس وقت شاید کوئی بھی یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ چند دن گزرنے کے بعد یہ پارٹی نہ صرف مرکز میں چار سیٹیں حاصل کر لے گی بالکل بہت جلد یہ اعلان بھی کرنے والی ہے کہ صوبے میں حکومت بنانے کے لیے ہمارے پاس سب سے زیادہ ارکان موجود ہیں جس کے وزیر اعلیٰ لسبیلہ کے تیرہویں جام یعنی جام کمال اور اسپیکر ماضی میں قاف لیگ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو ہوں گے۔

ویسے توملک کے بھوکے ننگے اور بے روزگار عوام کے منہ سے حیرت کے مارے اسی دن '' باپ رے باپ '' کے الفاظ نکلنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جب انھیں کروڑوں نوکریوں کی خوش خبری سنائی گئی تھی ، مگر بچے کھچے تماشائیوں کا منہ اُس وقت کھلے کاکھلا رہ گیا جب تحریک انصاف کے ایک اہم ترین رہنما نے اپنے قائد کی پہلی تقریر ختم ہوتے ہی سونے کی تاروں سے بنا ہوا جال اٹھایا اور آزاد امیدواروں کوپھانسنے کے لیے نکل پڑے ۔ تجربے کار اور گھاگ شکاری نے اس مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچا نے کے لیے اتنی وسیع القلبی سے کام لیا کہ گرفتار شدہ پرندوں سے ان کے پرانے کھونسلے تک کا پتا پوچھا اور نہ ہی نظریاتی سوچ کا سوال کھڑا ہونے دیا۔ وہ ایک ایسا پرندہ بھی شکار کر کے لے آیا جو اس کی اپنی ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ کو شکست فاش دے چکا تھا ۔

کسی انہونی بات پر منہ سے اچانک نکلنے والے الفاظ ''باپ رے باپ'' اتنی اہمیت کے حامل ہیں کہ طویل عرصہ قبل اردو زبان میں بول چال کے ساتھ نظم و نثرکا بھی حصہ بن گئے۔ اپنے دورکے معروف فلم ساز اے آر کاردار نے کشور کمار جیسے معروف اداکار اور گلو کارکے ساتھ کچھ دوسرے اہم فنکاروں کو لے کر '' باپ رے باپ '' کے نام سے ایک فلم بھی بنائی تھی مگر اس عنوان کے تحت معروف ادیب ، شاعر اور نقاد مظفر حنفی نے جو نظم تخلیق کی اس کا انداز ہی نرالا ہے۔ یہ نظم علم و ادب سے جڑے حضرات کو تو اچھی طرح یاد ہو گی مگر سیاست سے دلچسپی رکھنے والے دوستوں کو بھی اسے ضرور پڑھنا چاہیے جس کا ابتدائی حصہ کچھ یوں ہے ۔

نقلی لنگڑا بن کر جُمّن مانگ رہا ہے بھیک

کتے نے پنڈلی پر کاٹا ٹانگ ہو گئی ٹھیک

مظفر حنفی کی طرح پاکستان کے سیاسی طالب علم بھی آج کل ملک کا بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے پر ایسے کئی نقلی لنگڑوں کو سیاسی بھیک مانگتے دیکھ رہے ہیں جن کی ٹانگوں پر جلد یا بدیروقت کا کتا کاٹنے والا ہے اور ان کے منہ سے بھی '' باپ رے باپ '' کے الفاظ نکلنے والے ہیں مگر ان سے بھی زیادہ حیرت زدہ سیاسی پارٹیوں کے وہ رہنما ہیں جن کے دل پر الیکشن کے نہ بھرنے والے زخم صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ ان زخموں اورحیرت کی ابتدا تو اسی دن ہو گئی تھی جب انتخابات سے قبل ملک کے سیاسی پنڈتوں نے ایک مخصوص پارٹی کی جیت اور دوسری کی ٹوٹ پھوٹ کا زائچہ ترتیب دیا تھا مگراس کی انتہا کیا ہوگی یہ بتانے سے سب قاصر تھے اور سچ تو یہ ہے کہ ملک میں اپنی نوعیت کے پہلے الیکشن منعقد ہونے کے بعد بہت سارے سیاسی پنڈت اب تک یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ مرکز اور صوبوں میں سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے موجودہ انتخابات میںجس طرح پارٹیوں کا زائچہ ترتیب دیا تھا وہ تمام تر دانائی کے باوجود مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ویسے تو پچھلے پانچ سال سے تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور جمہوریت پسندوںکے منہ سے کئی دفعہ ''باپ رے باپ '' کے الفاظ سنے جا چکے ہیں مگر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے قریب آنے کے بعد ان الفاظ کے ذریعے حیرت کا اظہار کرنے والوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

حیرت کے بہت سارے مناظر میں سے کراچی کی سڑکوں پر آگ اور خون کے وہ مناظر بھی جھانک رہے ہیں جن کا الزام پی ٹی آئی ہمیشہ ایم کیو ایم پر عائدکرتی رہی مگراب ان دونوں جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈال کرزندگی بھر ساتھ رہنے کی دستاویزات پر دستخط بھی کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود اگر پورے ملک کے ساتھ کراچی کے عوام کی زندگی میں کسی تبدیلی کے امکانات نظر آتے ہیں تو آنے والے وزیر اعظم کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنا چاہیے تاکہ وہ روز بروز قریب آتے معاشی بحران کے ساتھ ان مشکلات کو بھی حل کرسکے جن کے بارے میں کی گئی تقریریں عوام کو زبانی یاد ہوچکی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں