تم سے الفت کے تقاضے نہ نبھائے جاتے

تبدیلی کا نعرہ ترقی کی ہوا ان بند تنگ گلیوں کے مکینوں کو بھی پہنچ چکی ہے۔


عینی نیازی August 07, 2018

ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا تھا کہ ''جس دن لیاری سے پیپلزپارٹی ہارے گی سمجھ لو، اس دن پیپلزپارٹی ختم ہوجائے گی'' بھٹوکوادراک تھا،وہاں کے مکینوں کے مزاج کا۔ جب جس سے عشق کیا ٹوٹ کرکیا خواہ وہ فٹ بال ہو، باکسنگ ہو یا پھرکوئی سیاسی پارٹی ہو، عشق کی اس باڑ میں کتنی ہی اقتصادی سماجی یاجسمانی آزمائشوں سے گزرنا پڑے وہ رکاوٹیں عبورکرنا جانتے ہیں دشواریاں صعوبتیں اٹھانا آتا ہے لیکن آخر برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کوئی آپ سے عقیدت رکھے سر آنکھوں پر جگہ دے مگر بدلے میں کچھ توجہ محبت کا حقدار تو وہ بھی ہوتا ہے۔

خالی جھوٹے وعدے دلاسے تسلیاں کب تک بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرسکتی ہیں سوآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا لیاری سے اس بار پیپلزپارٹی نے اپنا الیکشن مینڈیٹ کھودیا ۔ الیکشن کے چند حیرت انگیز نتائج میں لیاری کا نتیجہ بھی شامل ہے جہاں سے بلاول بھٹو نے اپنی سیاست میںقدم رکھنا چاہا تھا ہمیشہ کی طرح توقع تھی کہ لیاری سے آنکھ بندکرکے پیپلزپارٹی کی سیٹ کنفرم ہے مگر اس یک طرفہ محبت کا یہ انجام تو ہونا ہی تھا کہ الفت کے تقاضے نبھانے کے کچھ آداب ہوتے ہیں جو پیپلزپارٹی پورے کرنے میں ناکام رہی ۔

مجھے ذاتی طور پر پارٹی کی ناکامی سے زیادہ بلاول کی شکست کا رنج ہے ہزاروں جیالوں کی اس پارٹی کے ساتھ ایسا کیونکر ہوا برسوں کی نا اہلی نے اس کی پرورش کی قانون قدرت نے اس حادثے کو جنم دیا سو توایک دن ہونا ہی تھا ورنہ لیاری کے مکینوں کی برسوں سے قائم آپسی سیاسی یکجہتی کی مثالیں ہمیں کراچی کے دیگر علا قوں میں خال خال نظر آتی ہیں ۔

کراچی کا سب سے اولڈ سٹی ایریا لیاری ہے جہاں سے بیگم نصرت بھٹو نے اپنی سیاست کا آغازکیا کیا۔بے نظیر کی آصف علی زرداری سے شادی ہوئی ۔ لیاری کے لیڈی ڈفرن اسپتال میں بے نظیر نے تینوں بچوں کو جنم دیا اس خاندان اور پارٹی کے لیے لیاری نے ہمیشہ گھر اور دل کے دروازے کھلے رکھے اگرکسی کھمبے کو بھی پیپلزپارٹی ٹکٹ پرکھڑاکردیا جاتا تو اس کی فتح یقینی ہوتی تھی۔ اس کی ایک مثال نبیل گبول ہیں جب ایم کیوایم کی سیٹ سے لڑے توصرف چھ ہزار ووٹ لیے اور پیپلزپارٹی کی جانب سے انتخابا ت میں حصہ لیا تو چوراسی ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیاری ہمیشہ سے پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جس نے کبھی پی پی پی کو مایوس نہیں کیا، اس وقت بھی نہیں جب لاڑکانہ سے شکست ہوئی تھی ۔

مگر جب بے نظیر بھٹو کا بیٹا الیکشن سے چند روز قبل لیاری اپنی جنم بھومی پہنچا تواس کا استقبال پھولوں کے بجائے پتھروں سے کیاگیا۔ مصاحب اسے خوش فہمیوں کی جنت میں رکھتے رہے تھے یہ بالکل ایسے ہی ہے جب کراچی میں بی بی شہید کے قافلے پر پہلی بارحملہ کیا گیا تووہ بچ گئیں مگر درس عبرت لینے کے بجائے لاپروائی برتی گئی اورآخر دوسرے حملے نے ان کی زندگی چھین لی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لیاری والوں کے تحفظات دورکیے جاتے کم وقت میں جو اقدام ہوسکتا تھا کیے جانے کی کوشش کی جاتی، روٹھوں کو منانے کی سعی ہوتی مگر افسوس! بلاول کے انکلز حقائق چھپاتے رہے آخر وقت تک شاہ ایران کو جس طرح ان کا درباری ٹولہ تصویرکا حسین رخ دکھا تا رہا۔ اسی طرح بلاول بھی بہت خوش نظر آئے۔

پی پی کی کرپشن داستانیں تو زبانیں زدعام ہیں مگر بلاول سے وہ آئینہ چھپایا گیا اسے کہا گیا لیاری پیپلزپارٹی کا وہ قلعہ ہے جسے وہ با آسانی مسخرکرسکتا ہے اس کے ارد گرد رہنے والوں نے اسے اک دم پہاڑکی چوٹی پر چڑھا دیا مگر پہاڑ سرکرنے کا تجربہ پہاڑکی چوٹی پر نہیں اس کی چڑھانوں پر ہوتا ہے ۔ بلاول ابھی ناتجربہ کار ہے اسے تجربے کی بھٹی میں کندن ہونا ہے اسے ابھی عوام کے درمیان ان کے مسائل کا ادارک کرنا ہے سیاسی جوڑ توڑکی حد جہاں ختم ہوتی ہے وہیں سے عوامی خدمت کی شاہراہ کا آغاز ہوتا ہے۔

ہمارے بیشتر سیاستدان اس غلطی کو دہراتے ہیں جب تک عوام کو آپ کے سچے سیا سی جذبے کا احساس نہ ہوکامیابی ممکن نہیں لیاری کو ذوالفقارعلی بھٹوکے جملوں میں سچائی کی خوشبو آتی تھی کہ ان کا لیڈر مرتو سکتا ہے مگر اپنے عوام سے غداری نہیں کرسکتا۔ بھٹو نے لیاری کو پیرس بنانے کا وعدہ کیا اسے زندگی نے اتنی مہلت نہیں دی لیکن ان کے جذبوں کی صداقت پر ایمان ہی تھا جس نے گزشتہ چار دہائیوں سے پیپلز پارٹی کو لیاری پر حکومت کا اختیاردیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے پس زنداں میں لکھا تھا کہ ''مفاد پرستوں کا ٹولہ مجھے اس لیے ناپسندکرتا ہے کہ میں پہلا اور واحد رہنما ہوں جس نے ان کی اجارہ داری کا آہنی حصار توڑا ہے اور میرا عوام سے براہ راست رابطہ ہے، وہ چاہتے تھے کہ میں ان کی تقلیدکروں میں نے انکارکردیا '' ذوالفقارعلی بھٹو ہم سب کو اس لیے بھی زیادہ یاد آتے ہیں کہ ان کے ہاتھو ں جس پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی وہ سندھ میں برسر اقتدار ہی بھٹو سے رہی ۔

مگر زندگی نے وفا نہ کی مگر ان کے لگائے ہو ئے پودے کی آبیاری کرنے والی سندھ حکو مت نے ان کے نعر ے روٹی کپڑا اور مکان کو الیکشن میں خوب استعمال کیا برسراقتدار ہونے کے بعد نعرہ ہی رہا غریب عوام، غریب ہی رہے جوکھلے آسمان تلے رہتے تھے۔ اس کا سر اسی طر ح بے سایہ ہی رہا جس کو تن پرکپڑا میسر نہ تھا وہ بدستور ننگا ہی رہا جو بھوکے پیٹ سونے پر مجبور تھا وہ اسی طرح سونے پر مجبور رہا ہاں ! البتہ بھٹو صاحب کے جانے کے بعد ان کے نعرے نے ان کی پارٹی کے سیاست دانو ں پرکامیابی کے دروازے کھول دیے انھیں عوام کی د کھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کا فن آگیا۔

سو بھٹو صا حب کے بعد جو بھی سیاستدان آیا ، اس نے عوام کو' ووٹ دوخواب لو' کے مصداق خوب استعمال کیا مگرروٹی،کپڑا اور مکان ہر دورکی طرح عوام کی پہنچ سے دور ہے۔آج بھی عوام ز ندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ لیاری کئی برسوں سے گینگ وار دہشت گردی کی علامت کے طور پر جانا جا تا ہے تنگ وتاریک گلیاں ،گندگی کچرا ،گٹرکا بدبودار پانی اوربے روزگاری کا عفریت لیاری کو اپنی لپیٹ میں لیے ہو ئے ہے پھر بھی لیاری نے پیپلزپارٹی کوکبھی مایوس نہیں کیا لیکن اب اس کے نوجوان ''کمّی'' بن کر نہیں جینا چاہتے وہ محنت سے باعزت روزگار صاف ستھرا ماحول چاہتے ہیں۔ تعلیم ، صحت ، بجلی اور سب سے بڑھ کر پانی کی سہولت چاہتے ہیں یہ وہ بنیادی ضرورتیں ہیں جن کے بغیرکوئی سماج ترقی نہیں کرسکتا۔

تبدیلی کا نعرہ ترقی کی ہوا ان بند تنگ گلیوں کے مکینوں کو بھی پہنچ چکی ہے محرومیوں ومشقتوں کی صلیب اٹھائے تمام عمر سفرکرتے اب وہ بھی کوئی منزل کے متمنی ہیں آنے والی نسلوں کے لیے ایک اچھی صبح کا آغازہو ۔ پیپلز پارٹی نے لیاری کی محبت کا جواب ہمیشہ بے اعتنائی سے دیا مگر عشق کے بھی کچھ آداب ہیں الفت کے تقا ضوں میں چاہے جا نے کی تمنا بھی ضرور شامل ہوتی ہے سو جتنی غلطیاں کرنی ہے کرلیجیے مگر قدرت موقع دے تودوبارہ اس غلطی کو مت دھرایے گا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں