لیاری میں تبدیلی کیوں آئی
پی پی پی پی سے تعلق رکھنے والے لیاری کے مقامی رہنما لیاری کی بدلتے ہوئے سیاسی سوچ کا ادراک کر نہ سکے۔
حالیہ عام انتخابات 2018ء میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹری اپنے سیاسی گڑھ لیاری سے کیوں کر شکست کھا گئی ؟ خاص طور پر پی پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لیاری کے حلقہ این اے 246سے کیوں ہار گئے ؟آئیے اس امر کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں ۔ لیاری کا شمار کراچی کے پرانے نام کلاچی کی اناج منڈی کے طور پر بھی ہوتا ہے ۔
غیر سرکاری طور پر لیاری کی آبادی 10لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے جب کہ 2017ء کی قومی مردم شماری کے مطابق لیاری سب ڈویژن (جنوبی )کی آبادی 662.816ہے ، اس سے قبل 1998 ء کی قومی مردم شماری کے مطابق لیاری ٹاؤن کی آبادی 607992تھی ۔1889ء میں لیاری کی آبادی 24609تھی ، 1941ء کی مردم شماری کے مطابق لیاری میں 19ہزار ،187افراد آباد تھے ۔ 1947ء کے بعد لیاری کی آبادی میں اور بستیوں میں زبردست اضافہ ہوا ۔
1956ء کے آخر تک یہاں کی آبادی ساڑھے تین لاکھ سے زائد ہوگئی ۔ تکونی شکل کا یہ علاقہ تقریبا 18سو ایکڑ پر مشتمل ہے ، لیاری کراچی شہر کی مغربی سمت کے انتہائی آخر میں واقع ہے ۔ کراچی کو بندر گاہ اور تجارت سے وابستگی کی بناء پر لیاری کی نئی آبادی گزشتہ سے پیوستہ صدی کی پانچویں دہائی میں شروع ہوئی ۔ 1875ء تک نوآباد ، کھڈہ ، بغدادی ، گل محمد لین ، چاکیواڑہ ، کمہار واڑہ ، کلاکوٹ اور غریب آباد وجود میں آئے ۔
اس علاقے میں مذید آبادیاں 1910ء اور 1925ء تک نمودار ہوئیں ۔ لیاری میں بلوچ ، کچھی ، مہاجر ، پنجابی ، سندھی ، پٹھان ، ہزارے وال ، میانوالی ، سرائیکی ، میمن ،گجراتی ، مہشوری ، ہندو ، عیسائی ، کرسٹن سمیت دیگر قومتیں آباد ہیں ، لیاری کے عوام کی اکثریت غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے ، لیاری پاکستان بھر میں کھیلوں کے حوالے سے مشہور رہا ہے ، لیاری نے باکسنگ ، سائیکلنگ اور فٹبال کے نام ور کھلاڑی پیدا کیے ، یہاں سے نامور سیاستدانوں نے عام انتخابات میں حصہ لیا، گبول اور ہارون خاندانوں کا لیاری کی سیاست میں نام رہا ہے ۔کراچی کے پہلے عوامی منتخب میئر عبدالستار افغانی لیاری کے فرزند تھے ۔
لیاری بلوچ قوم پرستوں میر غوث بخش بزنجو ، سردار عطا اللہ مینگل ، نواب اکبرخان بگٹی ، سردار خیر بخش مری اور یوسف تالپور کی مہمان نوازی کرچکا ہے ۔ یہاں باچا خان،جی ایم سید اور غیر ملکی محققین آچکے ہیں۔
لیاری پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے ، محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی جلاوطنی ختم کرنے کے بعد پہلا عوامی دورہ لیاری کا کیا تھا ، محترمہ بے نظیر بھٹو عام انتخابات میں لیاری سے بھی کامیاب ہوئیں تھیں اور عالم اسلام کی پہلی خاتون اول وزیر اعظم بنیں ، واضح رہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے لیاری کی نشست چھوڑ دی تھی جس پر ضمنی انتخاب میں عبدالرحیم بلوچ بلا مقابلہ ایم این اے منتخب ہوئے تھے ۔
بعد ازاں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری بھی لیاری سے ہی منتخب ہوکر ایم این اے بنے تھے اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی کا جشن لیاری کے ککری گراؤنڈ میں منایا گیا تھا ۔ ہر چند کہ ہر انتخابات میں پیپلز پارٹی کے نمایندے منتخب ہوتے آرہے تھے ۔ جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 7فروری 1937ء کے سندھ اسمبلی کے پہلے انتخابات میں خان بہادر اللہ بخش خان گبول نے 3311ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوگئے تھے جب کہ ان کے مدمقابل امید وار سر عبداللہ ہارون نے 2599ووٹ حاصل کیے تھے اور ہار گئے تھے ۔
مصنف رمضان بلوچ اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ 1937ء کے انتخابات کے بعد بھی ہارون فیملی اور گبول فیملی کے درمیان سیاسی چپقلش برقرار رہی ، ان دونوں بزرگ سیاست دانوں نے لیاری میں اپنے اپنے سیاسی حلقے مضبوط کرنے میں اپنی بھر پور توانائی خرچ کی ۔ 1942ء میں سر عبداللہ ہارون کے انتقال کے بعد خان صاحب کے لیے سیاسی میدان خالی رہا اور کوئی قابل ذکر امید وار سامنے نہیں آیا ۔ بعد ازاں لیاری میں سیاست کا محور دوبارہ ہارون فیملی کی جانب مرکوز رہا ۔
1964ء میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں سر عبداللہ ہارون کے صاحبزادے محمود ہارون نے صدر ایوب خان کے نافذ کردہ بی ڈی نظام کے تحت لیاری کے واجہ وڈیروں کی مدد کے ساتھ بڑے شان سے حاصل کی ۔یہ اور بات تھی کہ ان کی جیت میں سرکاری سرپرستی کا عنصر بھی نمایا ں تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب خان کی کابینہ چھوڑ دی اور ان کے خلاف ایک زبردست تحریک چلائی ۔ 1970ء میں ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات میں لیاری کی سیاسی صورت حال بالکل بدل گئی ، لیاری میں بھٹو صاحب کو ایک زبردست ہیرو کی حیثیت حاصل ہوگئی ، لیاری میں ہارون فیملی کے لیے یہ آخری انتخابات ثابت ہوئے ۔
بھٹو صاحب کی قائم کی ہوئی پیپلز پارٹی کے لیے لیاری میں قومی اسمبلی کی نشست کے لیے بھٹو صاحب کی نظریں ہارون فیملی کے پرانے حریف خان بہادر اللہ بخش خان گبول کے بیٹے بیرسٹر عبدالستار گبول پر پڑی۔ اس وقت سے لے کر 2013ء کے انتخابات تک لیاری سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تمام نشستوں پر پی پی پی ہی کے نمایندے کامیاب ہوتے رہے ہیں ۔امداد حسین شاہ اور احمد علی سومرو کا تعلق پی پی سے تھا۔
حالیہ عام انتخابات 2018ء کے نتائج آپ کے سامنے ہیں لیاری کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار لیاری کے تینوں نشستوں ایک قومی اور دو صوبائی نشستوں سے پیپلز پارٹی کے امیدوار شکست سے دوچار ہوگئے قومی اسمبلی کے امید وار پی پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار سابق ایم پی اے جاوید ناگوری اور یوسی شاہ بیگ لین کے چیئر مین عبدالمجید بلوچ تھے جس کی تفصیل گزشتہ کالم میں بیان کیا گیا تھا۔
اب یہ سوال زدعام ہے کہ پی پی پی پی اپنے سیاسی گڑھ لیاری سے کیوں کر شکست کھاگئی ؟ پہلی بات یہ کہ پی پی پی پی سے تعلق رکھنے والے لیاری کے مقامی رہنما لیاری کی بدلتے ہوئے سیاسی سوچ کا ادراک کر نہ سکے ، وہ یہ جان نہ سکے کہ لیاری کی تباہی کے بعد لیاری کے لوگوں کی نفسیات کس حد تک بدل چکی ہے ، اب وہ کسی ایسے مسیحا کے منتظر تھے جو ان کی محرومیوں کا مداوا کرسکے ، حالیہ انتخابات کے نتائج اس بات کی غماضی کرتے ہیں کہ لیاری کے ووٹرز نے بیک وقت تین سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف ، تحریک لبیک پاکستان اور متحدہ مجلس عمل خاص طور پر جماعت اسلامی کے امیدواروں پر اعتماد کیا کہ وہ حقیقی معنوں میں ان کی اشک زوئی کریں گے ۔ ان کے اعتماد کا ثمر انھیں ملتا بھی ہے کہ نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ووٹرز کو ان سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔
دوسری بات یہ کہ لیاری سے تعلق رکھنے والے مقامی رہنماؤ ں کی آپس کی رسہ کشی اور گروپ بندی بھی پی پی پی پی کی کمزوری کا باعث بنی ، تیسری بات یہ کہ پی پی پی پی کی طرف سے انتخابی ٹکٹیں بھی ان کو جاری کی گئیں جن کی مقبولیت عوامی سطح تک کمزور تھے اس بنا پر پی پی پی پی کے کچھ کارکن ناراض بھی ہوگئے تھے اس ناراضی کا اظہار انھوں نے حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی سے ہٹ کر آزاد امید وار کے طور الیکشن لڑا ، اگرچہ وہ جیت نہ سکیں لیکن ووٹر زکوتقسیم کرنے کا باعث ضرور بنے ، چوتھی بات یہ کہ لیاری کے تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان بھی پی پی پی پی کی گزشتہ دس سالوں کی اقتدار سے شاکی بھی ہیں کہ انھیں نوکری نہیں دی گئی اس لیے لیاری کے نوجوانوں نے بھی اپنی امیدیں دوسری پارٹیوں سے باندھی ۔
پانچویں بات یہ کہ پی پی پی پی حکومت لیاری پیکیج کے تحت لیاری کے لوگوں کے توقعات پر پورا نہ اتر سکے تھے جس جانب غور کی ضرورت ہے ۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی نادر شاہ عادل نے کافی عرصہ پہلے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ لیاری شروع میں ایسا نہیں تھا ، ساحل سمندر پر افریقی انداز میں لیاری کے منچلے شام ڈھلتے ہی اکٹھے ہوکر خوشی کے گیت گایا کرتے تھے لیکن پھر جیسے لیاری کو کسی کی نظر لگ گئی ، لیاری کی کہانی ایک طلسم ہوشربا کی طرح سے ہے ، لیاری کی تاریخ مختلف کھیلوں سے بھری پڑی ہے ، فٹبال ، باکسنگ اور نشانے بازی میں ان کا کوئی ثانی نہیں اس کے علاوہ لیاری والوں کی ٹکر بھی بہت مشہور ہے ان کی ٹکر لڑائی کا آخری ہتھیار ہوتا ہے جو فیصلہ کن ہوتا ہے ، لیاری کی داستان کچھ ایسی ہی ہے لیاری کے بازاروں کی زخمی دیواریں ہزاروں داستانیں سموئے اچھے وقت کی منتظر ہیں ،،۔