عالم دوبارہ نیست
انصاف کی صورت میں بھی آپ بگڑے معاملات کو درست کرکے ہر چیزکو اس کے مقام پر لے جاتے ہیں یوں یہ عدل بھی ہے۔
اللہ اکبرکی خوبصورت صدا کے ساتھ کائنات بیدار ہوجاتی ہے۔ روشن اور نیم روشن راستے انسانی قدموں کو محسوس کرتے ہیں جو مسجدوں کی جانب اٹھ رہے ہوتے ہیں یا کاروبار زندگی کے آغاز کا سامان کرنے کو بیدار ہوجاتے ہیں۔
نماز فرض ہے اور جو فرض کی اہمیت جانتا ہے ادا کرتا ہے اور یوں گلیاں آباد ہونے لگتی ہیں۔ وہ دہشت گرد جو انسانی زندگیوں سے کھیلتے ہیں وہ بھی بیدار ہوجاتے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ بھی نماز پڑھتے ہیں۔انسان کی ضرورتیں قدرت نے بہت نہیں رکھیں۔ انسان نے انھیں بڑھالیا، دین نے تو شرم و حیا، رواداری، انسانیت، خلوص ، محبت کو سب سے اول اور ان کے تحت رزق کا حصول اور زندگی کے آرام کے سامان کی اجازت دی ہے۔
ارتکاز دولت کو غلط قرار دیا ہے، حقوق و فرائض کا تعین کیا ہے۔ ایک حسین پیرائے میں زندگی کو رکھا ہے۔ کم سے کم وہ قرار دیا ہے کہ جس سے انسان مطمئن ہوکر فرائض انجام دے اور فرائض میں عدل کا خاص خیال رکھے اپنے ساتھ بھی اور دوسروں کے ساتھ بھی۔ عدل انصاف نہیں ہے مگر انصاف عدل بھی ہے۔ دراصل عدل کے معنی ہیں ہر چیزکا اس کے مقام پر ہونا یہ اس کے ساتھ عدل ہے۔
انصاف کی صورت میں بھی آپ بگڑے معاملات کو درست کرکے ہر چیزکو اس کے مقام پر لے جاتے ہیں یوں یہ عدل بھی ہے۔اس وجہ سے ہی شاید عدل و انصاف کہا جاتا ہے۔ عدالت کرنا ایک لفظ ہے اور اس کا یہی مطلب ہے۔ عدالت ایک تو وہ ہے جو شہروں میں عمارتوں اور ان میں تشریف لانے والے منصفوں سے تعبیر ہے اوراس کے مختلف مدارج اور عرف عام میں سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ ہے اور وہاں سب سے اعلیٰ منصف کو چیف جسٹس کہا جاتا ہے۔
مگر عدالت کرنا زبان کا ایک محاورہ بھی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں جس بزرگ کو یہ اختیار حاصل ہو وہ فیصلہ کریں عدالت کی مانند۔شاید یہ جرگہ اور اس قسم کے دوسرے رواج اسی خیال کے تحت ہوں گے اور شاید لوگ اچھے فیصلے بھی کرتے ہوں گے مگر فی زمانہ اچھے فیصلے نظر نہیں آتے وہاں سے بلکہ نہایت غلط فیصلے نظر آتے ہیں جن کا نشانہ بے گناہ لڑکیاں بنتی ہیں۔ کتنے چیک ہوتے ہیں اور کتنوں پر خاموشی سے عملدرآمد ہوجاتا ہے کون جانے اس پر کبھی باقاعدہ لکھیں گے زندگی نے مہلت دی تو اس وقت تو یہ فقط ضمناً تحریر میں آگیا ہے۔
انسان کی ضرورتیں بہت نہیں ہیں جنھیں ہم غریب کہتے ہیں ان کی بھی ضرورتیں ہیں پوری بھی ہوتی ہیں ان کے بچوں کی شادیاں گلی کے Tent میں ہوجاتی ہیں، لاکھوں روپے میں شادی ہال بک نہیں ہوتا وہ اس پر بھی خوش ہوتے ہیں۔ یہ ہیں کم سے کم ضرورتیں اور ان کا پورا ہونا مگر ہم انھیں حقیر جانتے ہیں کیونکہ کوئی شان و شوکت نظر نہیں آتی ہمیں اس میں اور ہم ان پر ترس کھاتے ہیں حالانکہ وہی درست ہیں۔ بے جا خرچہ نہیں کیا انھوں نے۔
اس بات سے قطع نظر کہ یہ مثالیں دوران گفتگو خود بخود آجاتی ہیں جن سے شاید کچھ لوگوں کے منہ کا ذائقہ خراب ہوجاتا ہوگا، ہم سرمائے کے بے جا حصول اور اس کے بے جا خرچ اور اس کی بنیاد پر نمائش کے ذریعے بڑا دکھانے کی بات کر رہے ہیں جو ہماری سماجی بیماری بن چکی ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دولت نے انسان کوکتنا ذلیل کیا ہے اگر وہ حق حلال کی نہیں ہے اور یہ جاننا قطعی مشکل نہیں کہ دولت حلال کی ہے یا حرام کی، سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔
بہت سے پیشے ایسے ہیں جہاں دولت کے حصول کے لیے قدرت کی دی ہوئی عزت کا سودا روز وصول شدہ فیس کی صورت ہوتا ہے۔ ایک ڈاکٹر اور دوسرا وکیل، ان کی فیسیں آسمان سے بات کرتی ہیں۔ نہ آپ صحت پاسکتے ہیں نہ انصاف، کیونکہ آپ کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ آپ ان کی فیسیں ادا کرسکیں۔ ڈاکٹر علاج کے دوران مسلسل فیس لیتے ہیں، حساب تو خدا کے پاس ہے اور ہوتا رہتا ہے۔ڈاکٹر تو دہرا ظلم کرتے ہیں، سرکاری اسپتالوں میں نوکری اور پرائیویٹ پریکٹس، نوکری سے زیادہ پریکٹس پر زور، اسپتال آنے والوں کو بھی کلینک کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔
سرکاری اسپتال سے تو دراصل کلینک کے لیے مریض حاصل کیے جاتے ہیں، اسپتالوں کا نظام ان کے کلینک سے اچھا نہیں ہوتا۔ خدا کی دی ہوئی عزت سے یہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سب نہیں تو اکثر۔ وکیلوں کے بارے میں کبھی علیحدہ لکھیں گے فی الحال ڈاکٹر پیش نظر ہیں اور ثبوت یہ خبر۔ چیف جسٹس کی آمد نے افسران کی نیندیں اڑا دیں۔ افسران رات بھر اسپتالوں میں رہے دفاتر میں موجود رہے۔ اسپتالوں میں بہترین صفائی، نئے بیڈز اور ان پر نئی چادریں بچھانے پر مریض خوش۔تمام غیر فعال ٹیسٹ مشینری بھی اچانک فعال ہوگئی۔
ضلع انتظامیہ دو روز قبل متحرک ہوگئی تھی۔ اہم مقامات پر صفائی اور دیگر خصوصی انتظامات کیے گئے، شہری حیران۔ رات کو چیف جسٹس کے اچانک ممکنہ دورے کے ڈر سے افسران نے رات جاگ کر گزاری۔ سول اسپتال میں راتوں رات رنگ کروایا گیا، صفائی کروائی گئی، فرش ایسا صاف کیا گیا کہ لوگ چلتے ہوئے ڈر رہے تھے کہ پھسل نہ جائیں۔مختلف اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف موجود رہا اور تمام اسپتالوں کو اس قدر صاف کیا گیا کہ مریض حیران رہ گئے جہاں سے کچرا نہیں اٹھتا تھا راتوں رات صفائی ہوگئی۔
چھ ماہ پرانا کچرا بھی اٹھا لیا گیا۔ یہ شہر حیدرآباد کی ایک کہانی ہے جب چیف جسٹس یہاں آئے تھے اور چند دن کے لیے اس شہر کی قسمت بدلی تھی کچھ نے تو یہ بھی کہا کہ اگر چیف جسٹس اکثر چکر لگالیا کریں تو شہر کی حالت مکمل طور پر سدھر جائے گی۔یہ کیا ہے؟ یہ بددیانتی، کام چوری اور نمک حرامی ہے۔ جس ملک کا کھاتے ہو اس کے عوام کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو جب کہ تمہیں تنخواہ بھی ان کے ٹیکس کے پیسے سے دی جاتی ہے جو ہر شخص بالواسطہ ادا کر رہا ہے، اگر چیف جسٹس کے آنے کی وجہ سے یہ سب کام ہوسکتے ہیں تو ثابت ہوا کہ عام طور پر بھی یہ کام ہوسکتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔
آپ کو ان کاموں کا معاوضہ ماہانہ دیا جاتا ہے چاہے چپراسی ہو، وارڈ بوائے، ڈاکٹر یا سرکاری افسر۔سب نے عالی شان مکانات بنائے ہوئے ہیں۔ بہترین گاڑیاں ہیں ان کے پاس، بینک بیلنس ہے۔ سب کچھ ہے مگر وہ دولت کھو چکے ہیں جوکہ اصل سرمایہ ہے۔ وہ کرنسی جاتی رہی جو اس بازار میں چلے گی۔ دنیا میں تو عیش کرلو کہ خدا نے کسی کو روکا نہیں۔ ایمان کہاں گیا؟ اس کا تو سودا ہوگیا۔
بڑے ڈاکٹر یا بڑے افسر یوں بنے تھے کہ بڑی خدمت کرنی تھی خلق خدا کی کہ وہ ان کا حق ہے۔مگر بات یہ ہے کہ دنیا سامنے ہے عیش و عشرت سامنے ہے۔ خدا کون سا سامنے ہے کہ فکر کریں۔ دے دیں گے کچھ اس کی راہ میں اور ہمیں سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔ نہیں ملے گا خدائی سرٹیفکیٹ، اس کی وجہ ہے اور بہت واضح وجہ ہے جو تمہاری گرفت کو کافی ہے کہ تم ''خدا سے نہیں ڈرتے چیف جسٹس سے ڈرتے ہو۔''
نماز فرض ہے اور جو فرض کی اہمیت جانتا ہے ادا کرتا ہے اور یوں گلیاں آباد ہونے لگتی ہیں۔ وہ دہشت گرد جو انسانی زندگیوں سے کھیلتے ہیں وہ بھی بیدار ہوجاتے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ بھی نماز پڑھتے ہیں۔انسان کی ضرورتیں قدرت نے بہت نہیں رکھیں۔ انسان نے انھیں بڑھالیا، دین نے تو شرم و حیا، رواداری، انسانیت، خلوص ، محبت کو سب سے اول اور ان کے تحت رزق کا حصول اور زندگی کے آرام کے سامان کی اجازت دی ہے۔
ارتکاز دولت کو غلط قرار دیا ہے، حقوق و فرائض کا تعین کیا ہے۔ ایک حسین پیرائے میں زندگی کو رکھا ہے۔ کم سے کم وہ قرار دیا ہے کہ جس سے انسان مطمئن ہوکر فرائض انجام دے اور فرائض میں عدل کا خاص خیال رکھے اپنے ساتھ بھی اور دوسروں کے ساتھ بھی۔ عدل انصاف نہیں ہے مگر انصاف عدل بھی ہے۔ دراصل عدل کے معنی ہیں ہر چیزکا اس کے مقام پر ہونا یہ اس کے ساتھ عدل ہے۔
انصاف کی صورت میں بھی آپ بگڑے معاملات کو درست کرکے ہر چیزکو اس کے مقام پر لے جاتے ہیں یوں یہ عدل بھی ہے۔اس وجہ سے ہی شاید عدل و انصاف کہا جاتا ہے۔ عدالت کرنا ایک لفظ ہے اور اس کا یہی مطلب ہے۔ عدالت ایک تو وہ ہے جو شہروں میں عمارتوں اور ان میں تشریف لانے والے منصفوں سے تعبیر ہے اوراس کے مختلف مدارج اور عرف عام میں سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ ہے اور وہاں سب سے اعلیٰ منصف کو چیف جسٹس کہا جاتا ہے۔
مگر عدالت کرنا زبان کا ایک محاورہ بھی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں جس بزرگ کو یہ اختیار حاصل ہو وہ فیصلہ کریں عدالت کی مانند۔شاید یہ جرگہ اور اس قسم کے دوسرے رواج اسی خیال کے تحت ہوں گے اور شاید لوگ اچھے فیصلے بھی کرتے ہوں گے مگر فی زمانہ اچھے فیصلے نظر نہیں آتے وہاں سے بلکہ نہایت غلط فیصلے نظر آتے ہیں جن کا نشانہ بے گناہ لڑکیاں بنتی ہیں۔ کتنے چیک ہوتے ہیں اور کتنوں پر خاموشی سے عملدرآمد ہوجاتا ہے کون جانے اس پر کبھی باقاعدہ لکھیں گے زندگی نے مہلت دی تو اس وقت تو یہ فقط ضمناً تحریر میں آگیا ہے۔
انسان کی ضرورتیں بہت نہیں ہیں جنھیں ہم غریب کہتے ہیں ان کی بھی ضرورتیں ہیں پوری بھی ہوتی ہیں ان کے بچوں کی شادیاں گلی کے Tent میں ہوجاتی ہیں، لاکھوں روپے میں شادی ہال بک نہیں ہوتا وہ اس پر بھی خوش ہوتے ہیں۔ یہ ہیں کم سے کم ضرورتیں اور ان کا پورا ہونا مگر ہم انھیں حقیر جانتے ہیں کیونکہ کوئی شان و شوکت نظر نہیں آتی ہمیں اس میں اور ہم ان پر ترس کھاتے ہیں حالانکہ وہی درست ہیں۔ بے جا خرچہ نہیں کیا انھوں نے۔
اس بات سے قطع نظر کہ یہ مثالیں دوران گفتگو خود بخود آجاتی ہیں جن سے شاید کچھ لوگوں کے منہ کا ذائقہ خراب ہوجاتا ہوگا، ہم سرمائے کے بے جا حصول اور اس کے بے جا خرچ اور اس کی بنیاد پر نمائش کے ذریعے بڑا دکھانے کی بات کر رہے ہیں جو ہماری سماجی بیماری بن چکی ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دولت نے انسان کوکتنا ذلیل کیا ہے اگر وہ حق حلال کی نہیں ہے اور یہ جاننا قطعی مشکل نہیں کہ دولت حلال کی ہے یا حرام کی، سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔
بہت سے پیشے ایسے ہیں جہاں دولت کے حصول کے لیے قدرت کی دی ہوئی عزت کا سودا روز وصول شدہ فیس کی صورت ہوتا ہے۔ ایک ڈاکٹر اور دوسرا وکیل، ان کی فیسیں آسمان سے بات کرتی ہیں۔ نہ آپ صحت پاسکتے ہیں نہ انصاف، کیونکہ آپ کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ آپ ان کی فیسیں ادا کرسکیں۔ ڈاکٹر علاج کے دوران مسلسل فیس لیتے ہیں، حساب تو خدا کے پاس ہے اور ہوتا رہتا ہے۔ڈاکٹر تو دہرا ظلم کرتے ہیں، سرکاری اسپتالوں میں نوکری اور پرائیویٹ پریکٹس، نوکری سے زیادہ پریکٹس پر زور، اسپتال آنے والوں کو بھی کلینک کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔
سرکاری اسپتال سے تو دراصل کلینک کے لیے مریض حاصل کیے جاتے ہیں، اسپتالوں کا نظام ان کے کلینک سے اچھا نہیں ہوتا۔ خدا کی دی ہوئی عزت سے یہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سب نہیں تو اکثر۔ وکیلوں کے بارے میں کبھی علیحدہ لکھیں گے فی الحال ڈاکٹر پیش نظر ہیں اور ثبوت یہ خبر۔ چیف جسٹس کی آمد نے افسران کی نیندیں اڑا دیں۔ افسران رات بھر اسپتالوں میں رہے دفاتر میں موجود رہے۔ اسپتالوں میں بہترین صفائی، نئے بیڈز اور ان پر نئی چادریں بچھانے پر مریض خوش۔تمام غیر فعال ٹیسٹ مشینری بھی اچانک فعال ہوگئی۔
ضلع انتظامیہ دو روز قبل متحرک ہوگئی تھی۔ اہم مقامات پر صفائی اور دیگر خصوصی انتظامات کیے گئے، شہری حیران۔ رات کو چیف جسٹس کے اچانک ممکنہ دورے کے ڈر سے افسران نے رات جاگ کر گزاری۔ سول اسپتال میں راتوں رات رنگ کروایا گیا، صفائی کروائی گئی، فرش ایسا صاف کیا گیا کہ لوگ چلتے ہوئے ڈر رہے تھے کہ پھسل نہ جائیں۔مختلف اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف موجود رہا اور تمام اسپتالوں کو اس قدر صاف کیا گیا کہ مریض حیران رہ گئے جہاں سے کچرا نہیں اٹھتا تھا راتوں رات صفائی ہوگئی۔
چھ ماہ پرانا کچرا بھی اٹھا لیا گیا۔ یہ شہر حیدرآباد کی ایک کہانی ہے جب چیف جسٹس یہاں آئے تھے اور چند دن کے لیے اس شہر کی قسمت بدلی تھی کچھ نے تو یہ بھی کہا کہ اگر چیف جسٹس اکثر چکر لگالیا کریں تو شہر کی حالت مکمل طور پر سدھر جائے گی۔یہ کیا ہے؟ یہ بددیانتی، کام چوری اور نمک حرامی ہے۔ جس ملک کا کھاتے ہو اس کے عوام کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو جب کہ تمہیں تنخواہ بھی ان کے ٹیکس کے پیسے سے دی جاتی ہے جو ہر شخص بالواسطہ ادا کر رہا ہے، اگر چیف جسٹس کے آنے کی وجہ سے یہ سب کام ہوسکتے ہیں تو ثابت ہوا کہ عام طور پر بھی یہ کام ہوسکتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔
آپ کو ان کاموں کا معاوضہ ماہانہ دیا جاتا ہے چاہے چپراسی ہو، وارڈ بوائے، ڈاکٹر یا سرکاری افسر۔سب نے عالی شان مکانات بنائے ہوئے ہیں۔ بہترین گاڑیاں ہیں ان کے پاس، بینک بیلنس ہے۔ سب کچھ ہے مگر وہ دولت کھو چکے ہیں جوکہ اصل سرمایہ ہے۔ وہ کرنسی جاتی رہی جو اس بازار میں چلے گی۔ دنیا میں تو عیش کرلو کہ خدا نے کسی کو روکا نہیں۔ ایمان کہاں گیا؟ اس کا تو سودا ہوگیا۔
بڑے ڈاکٹر یا بڑے افسر یوں بنے تھے کہ بڑی خدمت کرنی تھی خلق خدا کی کہ وہ ان کا حق ہے۔مگر بات یہ ہے کہ دنیا سامنے ہے عیش و عشرت سامنے ہے۔ خدا کون سا سامنے ہے کہ فکر کریں۔ دے دیں گے کچھ اس کی راہ میں اور ہمیں سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔ نہیں ملے گا خدائی سرٹیفکیٹ، اس کی وجہ ہے اور بہت واضح وجہ ہے جو تمہاری گرفت کو کافی ہے کہ تم ''خدا سے نہیں ڈرتے چیف جسٹس سے ڈرتے ہو۔''