پارلیمنٹ میں رہنے کا کیف و سرور
زیادہ تر منتخب ہونے والوں کو پارلیمنٹ کا نشہ اتنا چڑھ چکا تھا کہ جیسے مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی۔
1985 میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے تھے، جس میں صدر جنرل محمد ضیا الحق کی کابینہ کے متعدد ارکان اور حکومت کے حامی بہت سے سیاستدان ہار گئے تھے اور غیر جماعتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے محمد خان جونیجو جیسے اچھی شہرت کے حامل شخص کو وزیر اعظم بنوایا گیا تھا مگر حکومت اپنا اسپیکر قومی اسمبلی منتخب نہ کراسکی تھی اور اپوزیشن کے سید فخر امام اسپیکر منتخب تو ہوگئے تھے مگر انھیں ہٹا دیا گیا تھا۔
1988 میں جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد جنرل ضیاالحق نے جماعتی بنیاد پر انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا مگر 17 اگست کے فضائی حادثے میں ضیا الحق کی شہادت سے سیاسی صورتحال تبدیل ہونے کے بعد جو انتخابی نتائج برآمد ہوئے تھے، ان میں پیپلز پارٹی کے غیر معروف سیاستدانوں کے ہاتھوں پیر صاحب پگاڑا سمیت متعدد ایسے رہنما بری طرح ہار گئے تھے جو ہمیشہ پارلیمنٹ میں منتخب ہوجاتے تھے۔ ایسے رہنماؤں میں غلام مصطفی جتوئی، محمد خان جونیجو اور بڑے بڑے نام شامل تھے جنھیں بہت کم ووٹ ملنے کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس سے قبل 1970 کے جماعتی انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی 3 سال قبل بنائی گئی پاکستان پیپلز پارٹی میں زیادہ تر ٹکٹ ایسے لوگوں کو دیے تھے جنھوں نے اس سے قبل کبھی اسمبلیوں کا انتخاب نہیں لڑا تھا اور وہی پرانے سیاستدانوں اور ارکان اسمبلی کو ہرا کر پہلی بار قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہوگئے تھے اور کہا جاتا تھا کہ بھٹو صاحب اگر کھمبے کو بھی کھڑا کرتے تو وہ بھی منتخب ہوجاتا۔ یہ کرشمہ صرف 1970 ہی کے الیکشن میں ہی نظر آیا تھا کیونکہ 1977 میں بھٹو نئے لوگوں کو بھول گئے تھے اور زیادہ ٹکٹ ان لوگوں ہی کو ملے تھے جو ماضی میں اسمبلیوں میں رہے تھے اور انھوں نے 1970 سے سبق سیکھ لیا تھا اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ ایسا ہی سلسلہ ایم کیو ایم کے قیام کے بعد بھی ہوا تھا جب شہری علاقوں سے بالکل نئے چہرے اور نووارد نوجوان سیاستدان اسمبلیوں کے لیے منتخب ہوئے تھے۔
ملک میں شیخ رشید، چوہدری نثار جیسے بے شمار لوگ ایسے ہیں جو فخریہ کہتے ہیں کہ وہ 1985 سے 2018 تک ہونے والے تمام انتخابات میں کامیاب ہوتے آئے ہیں اور ایسے لوگ نئے چہروں کو آگے آنے دینے کے حامی نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمیشہ وہی اسمبلیوں میں منتخب ہوں ایسے لوگ ہی الیکٹیبل قرار پاتے ہیں یہ بھی ہوتا آیا ہے کہ کسی وجہ سے اگر کوئی پرانا رکن اسمبلی الیکشن نہ لڑ سکے تو وہ اسمبلی میں جانا اپنی یا اپنے خاندان کی میراث سمجھ کر اپنے بیٹے، بھائی، بیوی یا پھر قریبی عزیزکو ٹکٹ دلائے اور کوئی دوسرا اس کی جگہ نہ لے سکے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو سالہا سال سے اپنی دولت، برادری اور سیاسی اثر و رسوخ سے اسمبلیوں میں منتخب ہوتے آرہے ہیں اور اب تو سیاسی پارٹیوں کی مجبوری بن چکے ہیں جس کا ثبوت پی ٹی آئی میں ان الیکٹیبل کو مجبوری میں قبول کرنا ہے جو اس سے قبل بھی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹوں پر منتخب ہوتے رہے اور اب یہ پی ٹی آئی سے ٹکٹ حاصل کرکے پھر منتخب ہوگئے ہیں۔ ان لوگوں میں چوہدری نثار علی خان، شیخ رشید، چوہدری پرویز الٰہی سمیت بے شمار لوگ شامل ہیں جن کے اپنے حلقے ہیں اور بعض دفعہ ان لوگوں کو شکست بھی ہوتی رہی مگر بعد میں وہ پھر منتخب بھی ہوتے رہے اور حکومتوں میں بھی شامل رہے۔
حالیہ انتخابات میں متعدد پارٹیوں کے رہنما مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، آفتاب شیرپاؤ، محمود خان اچکزئی، حاصل بزنجو، ڈاکٹر فاروق ستار جیسے اہم نام شامل ہیں۔ چوہدری نثار کا دعویٰ ہے کہ وہ گزشتہ 34 سال سے مسلم لیگ (ن) سے وابستہ تھے اور سات بار وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوکر حکومتوں میں رہے اور گزشتہ (ن) لیگی حکومت میں انھوں نے اپنے حلقوں میں سرکاری فنڈ سے ترقیاتی کام بھی بہت کرائے تھے اور ان میں اتنا تکبر آگیا تھا کہ انھوں نے اپنی پارٹی سے ٹکٹ مانگنا بھی گوارا نہ کیا اور تینوں حلقوں سے ہار گئے۔
مولانا فضل الرحمن سالوں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے اور بھی بہت سے سیاستدان ایسے ہیں جو سالوں تک منتخب ہوتے رہے اور وہ ہارنے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے اور اپنی جیت کے بڑے دعوے کرتے تھے مگر اس بار ہار گئے جن میں فیصل صالح حیات، جمشید دستی، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی، سابق گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر ودیگر جن کے اپنے آبائی حلقے تھے شکست کھا چکے ہیں۔ یہ لوگ اسمبلیوں میں آنا اپنا حق سمجھتے تھے اور اس بار بھی منتخب ہونا چاہتے تھے۔
زیادہ تر منتخب ہونے والوں کو پارلیمنٹ کا نشہ اتنا چڑھ چکا تھا کہ جیسے مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی ایسے ہی یہ اسمبلیوں اور حکومت کے بغیر نہیں رہ سکتے مگر ان کا بس نہیں چلتا اور مجبوراً انھیں انتخابات میں عوام کے پاس جانا پڑتا ہے اور اس بار یہ بھی ہوا کہ عوام نے ان سے ان کی کارکردگی پوچھی لی اور انھیں پریشان بھی کردیا۔ اسمبلیوں میں رہنے کے شوقین افراد منتخب ہوکر عوام سے دور چلے جاتے ہیں اور عوام انھیں پانچ سال بعد یاد آتے ہیں اور پہلی بار بڑے بڑوں سے الیکشن مہم میں سوالات ہوئے اور بعض جگہ انھیں کھری کھری بھی سننا پڑی ہے۔ میڈیا نے اب عوام میں شعور پیدا کردیا ہے جس کے بعد اب توقع ہے کہ اسمبلیوں کے یہ شوقین اپنے رویے تبدیل کریں گے اور ان ووٹروں کو بھی وقت دیں گے جن سے وہ دور رہنے کے عادی تھے۔
1988 میں جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد جنرل ضیاالحق نے جماعتی بنیاد پر انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا مگر 17 اگست کے فضائی حادثے میں ضیا الحق کی شہادت سے سیاسی صورتحال تبدیل ہونے کے بعد جو انتخابی نتائج برآمد ہوئے تھے، ان میں پیپلز پارٹی کے غیر معروف سیاستدانوں کے ہاتھوں پیر صاحب پگاڑا سمیت متعدد ایسے رہنما بری طرح ہار گئے تھے جو ہمیشہ پارلیمنٹ میں منتخب ہوجاتے تھے۔ ایسے رہنماؤں میں غلام مصطفی جتوئی، محمد خان جونیجو اور بڑے بڑے نام شامل تھے جنھیں بہت کم ووٹ ملنے کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس سے قبل 1970 کے جماعتی انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی 3 سال قبل بنائی گئی پاکستان پیپلز پارٹی میں زیادہ تر ٹکٹ ایسے لوگوں کو دیے تھے جنھوں نے اس سے قبل کبھی اسمبلیوں کا انتخاب نہیں لڑا تھا اور وہی پرانے سیاستدانوں اور ارکان اسمبلی کو ہرا کر پہلی بار قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہوگئے تھے اور کہا جاتا تھا کہ بھٹو صاحب اگر کھمبے کو بھی کھڑا کرتے تو وہ بھی منتخب ہوجاتا۔ یہ کرشمہ صرف 1970 ہی کے الیکشن میں ہی نظر آیا تھا کیونکہ 1977 میں بھٹو نئے لوگوں کو بھول گئے تھے اور زیادہ ٹکٹ ان لوگوں ہی کو ملے تھے جو ماضی میں اسمبلیوں میں رہے تھے اور انھوں نے 1970 سے سبق سیکھ لیا تھا اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ ایسا ہی سلسلہ ایم کیو ایم کے قیام کے بعد بھی ہوا تھا جب شہری علاقوں سے بالکل نئے چہرے اور نووارد نوجوان سیاستدان اسمبلیوں کے لیے منتخب ہوئے تھے۔
ملک میں شیخ رشید، چوہدری نثار جیسے بے شمار لوگ ایسے ہیں جو فخریہ کہتے ہیں کہ وہ 1985 سے 2018 تک ہونے والے تمام انتخابات میں کامیاب ہوتے آئے ہیں اور ایسے لوگ نئے چہروں کو آگے آنے دینے کے حامی نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمیشہ وہی اسمبلیوں میں منتخب ہوں ایسے لوگ ہی الیکٹیبل قرار پاتے ہیں یہ بھی ہوتا آیا ہے کہ کسی وجہ سے اگر کوئی پرانا رکن اسمبلی الیکشن نہ لڑ سکے تو وہ اسمبلی میں جانا اپنی یا اپنے خاندان کی میراث سمجھ کر اپنے بیٹے، بھائی، بیوی یا پھر قریبی عزیزکو ٹکٹ دلائے اور کوئی دوسرا اس کی جگہ نہ لے سکے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو سالہا سال سے اپنی دولت، برادری اور سیاسی اثر و رسوخ سے اسمبلیوں میں منتخب ہوتے آرہے ہیں اور اب تو سیاسی پارٹیوں کی مجبوری بن چکے ہیں جس کا ثبوت پی ٹی آئی میں ان الیکٹیبل کو مجبوری میں قبول کرنا ہے جو اس سے قبل بھی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹوں پر منتخب ہوتے رہے اور اب یہ پی ٹی آئی سے ٹکٹ حاصل کرکے پھر منتخب ہوگئے ہیں۔ ان لوگوں میں چوہدری نثار علی خان، شیخ رشید، چوہدری پرویز الٰہی سمیت بے شمار لوگ شامل ہیں جن کے اپنے حلقے ہیں اور بعض دفعہ ان لوگوں کو شکست بھی ہوتی رہی مگر بعد میں وہ پھر منتخب بھی ہوتے رہے اور حکومتوں میں بھی شامل رہے۔
حالیہ انتخابات میں متعدد پارٹیوں کے رہنما مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، آفتاب شیرپاؤ، محمود خان اچکزئی، حاصل بزنجو، ڈاکٹر فاروق ستار جیسے اہم نام شامل ہیں۔ چوہدری نثار کا دعویٰ ہے کہ وہ گزشتہ 34 سال سے مسلم لیگ (ن) سے وابستہ تھے اور سات بار وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوکر حکومتوں میں رہے اور گزشتہ (ن) لیگی حکومت میں انھوں نے اپنے حلقوں میں سرکاری فنڈ سے ترقیاتی کام بھی بہت کرائے تھے اور ان میں اتنا تکبر آگیا تھا کہ انھوں نے اپنی پارٹی سے ٹکٹ مانگنا بھی گوارا نہ کیا اور تینوں حلقوں سے ہار گئے۔
مولانا فضل الرحمن سالوں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے اور بھی بہت سے سیاستدان ایسے ہیں جو سالوں تک منتخب ہوتے رہے اور وہ ہارنے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے اور اپنی جیت کے بڑے دعوے کرتے تھے مگر اس بار ہار گئے جن میں فیصل صالح حیات، جمشید دستی، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی، سابق گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر ودیگر جن کے اپنے آبائی حلقے تھے شکست کھا چکے ہیں۔ یہ لوگ اسمبلیوں میں آنا اپنا حق سمجھتے تھے اور اس بار بھی منتخب ہونا چاہتے تھے۔
زیادہ تر منتخب ہونے والوں کو پارلیمنٹ کا نشہ اتنا چڑھ چکا تھا کہ جیسے مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی ایسے ہی یہ اسمبلیوں اور حکومت کے بغیر نہیں رہ سکتے مگر ان کا بس نہیں چلتا اور مجبوراً انھیں انتخابات میں عوام کے پاس جانا پڑتا ہے اور اس بار یہ بھی ہوا کہ عوام نے ان سے ان کی کارکردگی پوچھی لی اور انھیں پریشان بھی کردیا۔ اسمبلیوں میں رہنے کے شوقین افراد منتخب ہوکر عوام سے دور چلے جاتے ہیں اور عوام انھیں پانچ سال بعد یاد آتے ہیں اور پہلی بار بڑے بڑوں سے الیکشن مہم میں سوالات ہوئے اور بعض جگہ انھیں کھری کھری بھی سننا پڑی ہے۔ میڈیا نے اب عوام میں شعور پیدا کردیا ہے جس کے بعد اب توقع ہے کہ اسمبلیوں کے یہ شوقین اپنے رویے تبدیل کریں گے اور ان ووٹروں کو بھی وقت دیں گے جن سے وہ دور رہنے کے عادی تھے۔