ایک ظلم کرتا ہے ایک ظلم سہتا ہے

عوام کا اس لڑائی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں، عوام بہت کچھ دیکھ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں۔

LONDON:
ہم عوام تو برسوں ہوئے اپنے ہی خرچ پر قید چلے آرہے ہیں، ہماری قید ختم ہی نہیں ہوئی جرمانہ بھی ہم ادا کیے جارہے ہیں، مشقت بھی جاری ہے، حکمران کبھی کبھی قید ہوتے ہیں۔ اور باہر ان کے ساتھی ہاہا کار مچائے رکھتے ہیں ''ظلم ہورہا ہے، اندر گرمی ہے، گندگی ہے، صفائی نہیں ہے، ڈاکٹر نہیں ہیں'' وغیرہ وغیرہ یہ ''اوپر'' والوں کی لڑائی ہے، اس میں عوام کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

14 اگست پھر دوڑے چلی آرہی ہے۔ غریب اور متوسط عوام کی عید کا دن 14 اگست، بازاروں میں ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آرہا ہے۔ سبز ہلالی جھنڈے ہری جھنڈیاں، ہرے بیجز، ہری چوڑیاں، ہرے ملبوسات، عوام اپنے بچوں کو ساتھ لیے اپنا پیٹ کاٹ کے، آزادی کا جشن منانے کے لیے اپنے کچے پکے گھروں پر ہرا جھنڈا لہرانے کے لیے خریداری کررہے ہیں۔ بچے بیجز کی طرف لپک رہے ہیں۔ بچیاں ہری چوڑیاں اٹھارہی ہیں، کچھ اور ہمت کر کے ذرا سا اور پیٹ کاٹ کے بچوں اور بچیوں کو ہری قمیض خرید لارہے ہیں۔

یہ غریب، مسائل میں گھرے 14 اگست کے دن اپنے گھروں سے نکل کر کسی کھلے میدان، یا پارک میں دن گزاریںگے، گھر سے لائے آلو بھرے پراٹھے کھائیںگے، بچے کھیلیں، کودیںگے، قلفیاں کھائیںگے اور پھر شام مغرب سے پہلے گھروں کو لوٹ جائیںگے۔ بچے بچیاں 14 اگست کے بیجز سبز قمیض اتار کر صندوق میں رکھ دیںگے اور یوں ہی اگست کا مہینہ سبز قمیضوں اور سبز بیجز کے ساتھ گزرے گا ''اونچے لوگ'' غریبوں سے 14 اگست بھی چھین لینا چاہتے ہیں، ایک خوشی کا دن، ایک خوشی کا مہینہ، ان اونچوں کا کیا ہے، انھیں کیا فرق پڑتا ہے، ان کے دو دو، تین تین آزادی کے دن ہیں۔ امریکا کا یوم آزادی، کینیڈا کا یوم آزادی، برطانیہ کا یوم آزادی۔ اونچے لوگوں کے پاس تو کئی کئی ملکوں کی شہریت ہے پاکستان کو بھی یہ اپنا ملک کہتے ہیں۔ مگر پاکستان کو شکار گاہ سمجھتے ہیں۔ شکار کرتے ہیں اور سارا شکار اپنے دوسرے وطنوں میں لے جاتے ہیں۔

پاکستان ان اونچوں کے لیے کھیلوں کا میدان ہے یہ اس میدان میں سب سے بڑا کھیل الیکشن الیکشن کھیلتے ہیں یہ کھیل پانچ سال میں ایک بار کھیلا جاتا ہے۔ باقی اور بہت سے کھیل ہیں جو یہ اونچے کھیلتے رہتے ہیں، انسانوں کا شکار ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ بڑے شہروں کی سڑکیں ہوں، یا گائوں دیہات کے کچے پکے راستے کھیت کھلیان، بندے مارنا ہر جگہ ہوتا ہے۔ شہروں میں دیو ہیکل کالی سیاہ گاڑیوں میں لدے پھندے، جدید اسلحے سے لیس ہیبت ناک گارڈ اور''اونچوں'' کا انسانی شکار کا شوقین بیٹا، اپنا شوق پورا کرتا ہے اور گائوں دیہاتوں میں اونچوں کے شکاری کتے انسانوں کو چیر پھاڑ دیتے ہیں۔

انسانوں کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے ہیں۔ پانچ سال بعد الیکشن کا جشن سجنا ہوتا ہے پانچ سال کا انتظار کون کرے، سو یہ ''اونچے'' دوسرے کھیلوں میں خود کو مصروف رکھتے ہیں۔ ان اونچوں کے ''نامعلوم'' بندے اٹھاتے ہیں اور پھر ان کی لاشیں ملتی ہیں۔ مذہب جیسی مقدس ترین شہ کو بھی یہ اونچے نہیں بخشتے، مذہب کے نام پر بھی یہ انسانوں کو مارتے ہیں۔ جلتے بھٹوں میں پھینک دیتے ہیں۔ مذہبی عقیدوں پر انسانوں کا قتل کرتے ہیں۔ زبان اور نسل کی بنیاد پر قتل ہوتے ہیں اور اونچوں کے ان مشاغل کا شکار عوام بنتے ہیں۔

شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا سالانہ یوم تو منایا جاتا ہے مگر ان کی فکر، ان کے پیغام کی فکر نہیں کی گئی۔ اقبال کا کلام پڑھتے جائیں اسے بھی نوع انسان کی فکر ہے۔ اقبال بڑا شاعر بھی ہے اور بڑا انسان بھی ہے۔ عالم کو متاثر کرنے کے لیے فکر اور کردار دونوں ضروری ہیں۔ اسی لیے اقبال شاعرِ مشرق ہے جو فارسی جانتے ہیں وہی در اصل اقبال کو جانتے ہیں اور غالب کے لیے بھی فارسی ضروری ہے۔ اقبال کا مشہور شعر ہے جس کا پرچار بہت زیادہ ہونا چاہیے:

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں پہ ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

یہ شعر عوام کے سمجھنے کے لیے ہے۔ صدیوں سے غریبوں کو فرقوں ور ذاتوں کی بھینٹ چڑھایا جارہاہے اب غریبوں کو ہوش میں آجانا چاہیے، جاگ جانا چاہیے، میں کالم لکھ رہا تھا کہ موبائل بجنے لگا، میں اٹھ کے دوسرے کمرے میں گیا موبائل فون اٹھایا، دوسری طرف سے جو آواز آئی تو دل کھل سا گیا۔ یہ دوست کی آواز کہاں سے آئی۔ یہ آواز میرے رہبر و رہنما ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی تھی وہ کوئٹہ سے بول رہے تھے۔ انھوں نے یونہی میری خیریت جاننے کے لیے فون کیا تھا۔ میں نے انھیں بتایاکہ آپ کی فکر کو ساتھ لیے چل رہا ہوں۔ آپ کے درویشانہ کردار کی روشنی میرے ساتھ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے عزت بخشتے ہوئے کہا ''آپ ہمارے تحریکی ساتھی ہیں'' ایسے موقع پر کہ جب میں لکھ رہا ہوں، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب کا فون آنا کامرانی کا واضح اشارہ ہے اور ہم پاکستان کے غریب عوام اس منزل کو آخر پالیںگے کہ جہاں سکھ ہی سکھ ہوگا۔ چین ہی چین ہوگا۔ بڑی دیر سے فیصل آباد کے شاعر نصرت صدیقی صاحب کا شعر کالم میں آنے کے لیے مچل رہا ہے۔ کیا غضب کا شعر ہے:

ایک ظلم کرتا ہے، ایک ظلم سہتا ہے


آپ کا تعلق ہے کون سے گھرانے سے

تو بس یہ دو ہی گھرانے، ظالم گھرانہ اور مظلوم گھرانہ۔ یہاں اور کوئی تفریق نہیں مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، سید، پٹھان، شیخ، راجے، چیمے چٹھے، ڈاہے، کھوسے، ٹوانے، چانڈیو، زرداری، سومرو، کھوڑو، کھر، گورمانی، قریشی، ترین ودیگر۔

اب وقت آنے کو ہے کہ ظالم اور مظلوم ہی آمنے سامنے ہوںگے، یہ معرکہ ہوگا او جس کے نصیب میں ''حُر'' بننا لکھا ہوگا وہ اپنے گھوڑے کو ایڑ لگاکر مظلوموں کے لشکر میں شامل ہوجائے گا۔

باقی عوام دیکھ رہے ہیں۔ یہ ''اونچوں'' کی لڑائی ہے۔ عوام کا اس لڑائی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں، عوام بہت کچھ دیکھ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں۔ ان باتوں کا دیوان عام میں ذکر نہیں ہوسکتا، ہماری منزل ابھی آگے ہیں، رستہ بڑی تیزی سے کٹ رہا ہے اور یقین کامل ہے کہ ہم منزل کو لازمی پالیںگے۔ یہ مظلوموں کی منزل ہے یہ کھو نہیں سکتی، مل کر رہے گی۔ ہم ثابت قدم ہیں۔ ہماری نظریں اپنی منزل پر جمی ہیں، شاعر غلام محمد قاصر مرحوم کے چار مصرعے اور اجازت

کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا

ہم ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا

ہے شوقِ سفر ایسا، اِک عمر سے یاروں نے

منزل بھی نہیں پائی، رستہ بھی نہیں بدلا

اندھیرے چھٹنے کو ہیں

سحر قریب تر ہے
Load Next Story